|تحریر: ریوولوشن، کے آندریامامونجی|
|ترجمہ: اختر منیر|
فرانس میں نومبر کے وسط سے شروع ہونے والی پیلی واسکٹ والوں کی تحریک (Yellow Vest Movement) میں اب تک لاکھوں لوگوں حصہ لے چکے ہیں، جو بالخصوص گاڑیوں کے ایندھن پر لگائے جانے والے ٹیکسوں اور عمومی طور پر بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف چل رہی ہے۔ یہ تحریک واضح نظر آنے والے معاشی بحران اور موجودہ حکومت کی طرف سے لاگو کردہ جبری کفایت شعاری کی پالیسیوں کا ایک لازمی نتیجہ ہے۔
سماجی بہبود کے اخراجات پر لگنے والی کٹوتیوں، ٹیکسوں میں اضافے اور جبری کفایت شعاری کے نتیجے میں پیدا ہونے والی یہ تحریک اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ ایک جگہ رکی ہوئی اجرتوں اور بڑھتے ہوئے روزمرہ کے اخراجات سے فرانسیسی عوام کا دم گھٹ رہا ہے۔
ری یونین: ایک تحریک جو انقلاب جیسی لگتی ہے
ری یونین جزیرے پر پیلی واسکٹ تحریک خاص طور پر بڑی اور لڑاکا ہے، اتنی کہ حکومت کو وہاں کرفیو لگانا پڑ گیا۔ تحریک کے آغاز سے ہی جزیرہ مکمل طور پر جام ہے۔ سڑکوں اور بندرگاہ پر آمد و رفت روک دی گئی ہے، سکول اور انتظامی ادارے بند کر دیے گئے ہیں اور ہسپتالوں میں کام سست کر دیا گیا ہے۔ صبح کے وقت کچھ کاروبار کھلے ملے ہیں۔ بہت سے تو مکمل طور پر بند ہیں۔
مظاہرین کے درمیان یکجہتی کا مضبوط رشتہ بن گیا ہے۔ رکاوٹوں کو قائم رکھا جاتا ہے اور ان کی باقاعدگی سے حفاظت کی جاتی ہے۔ تحریک کو آبادی کے ایک بہت بڑے حصے کی حمایت حاصل ہے۔ سماجی رابطے کی ویب سائٹس کی وجہ سے مظاہرین فورا اکٹھے ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کی سڑکیں بند کرنے کی صلاحیت کافی زیادہ ہے۔
1990ء کی دہائی کے بعد یہ سب سے بڑا بحران ہے جس کا اس جزیرے کو سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ فی الحال تحریک کے بہت سے مطالبات ہیں اور کسی واضح رستے کا تعین نہیں کیا گیا۔ جزیرے کے باسی اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت ان کے دکھوں کا مداوا کرے، مگر ابھی تک حکومت نے محض پولیس ہی بھیجی ہے۔
یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ اس تحریک کو ری یونین کے محنت کشوں میں زیادہ پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے ری یونین کے باشندے، جو درحقیقت فرانسیسی ہی ہیں، باقی ملک کے شہریوں کی نسبت زیادہ برے حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ری یونین میں ہر چیز 30 سے 50 فیصد تک مہنگی ہے، جس کی وجہ یہ بھی ہے کہ ہر چیز درآمد کی جاتی ہے۔ 40 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے اور ایک تہائی محنت کش بے روزگار ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کا تناسب 56 فیصد ہے۔ ری یونین کے باسیوں کا یہ خیال بے جا نہیں کہ وہ دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ ان کے جزیرے کے انتظامی معاملات فرانس کے بڑے شہروں سے چلائے جاتے ہیں جبکہ مقامی باشندے بے روزگاری کا شکار ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ خود کو حکومت کی طرف سے دھتکارا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ایندھن کی قیمتوں پر لگنے والے ٹیکسوں نے بہت لمبے عرصے سے تیار ہوتے بحران کے لیے محض ایک چنگاری کا کام کیا۔
اس تحریک کے جواب میں سمندر پار فرانس کی وزیر انک گراردن نے 28 نومبر کو جزیرے کا دورہ کیا۔ اس نے وعدہ کیا کہ ایندھن کی قیمتوں میں فوری کمی کی جائی گی اور معیار زندگی سے متعلق ’’کچھ اور اعلانات‘‘ بھی کیے جائیں گے۔ پیلی واسکٹ والوں نے وزیر کے’’شاندار استقبال‘‘کا وعدہ کیا انہوں نے 300 روکاوٹیں کھڑی کرنے کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ ’’کوئی گاڑی نہیں گزرے گی‘‘۔ وزیر تک یہ بات پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر ایک مہم کا بھی آغاز کیا گیا۔
ری یونین کی تحریک کی طاقت دیکھتے ہوئے میکرون حکومت کو کچھ مراعات دینی پڑ سکتی ہیں، مگر جلد ہی وہ غریبوں اور محنت کشوں پر دوبارہ حملوں کا آغاز کر دیں گے۔ ری یونین کے رہائشی جو پہلے ہی سرمایہ داری کے بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، ان کا پہلا شکار ہوں گے۔
ری یونین میں پیلی واسکٹ والوں کے اقدامات باقی فرانس میں موجود ان کے ساتھیوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ پوری تحریک کو اپنا ایک مقصد بنانے کی ضرورت ہے اور وہ مقصد میکرون کی حکومت کا خاتمہ ہے۔ یہ صرف تب ہی ممکن ہے اگر باقی فرانس میں بھی تحریک ری یونین کی طرح مضبوط ہو۔
میکرون کے کھوکھلے وعدے
میکرون نے منگل کی صبح الائسی کہ مقام پر ایک طویل اشتعال انگیز تقریر کی۔ پیلی واسکٹ والے مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ کم ازکم روزمرہ کے بڑھتے ہوئے اخراجات کے خلاف فوری اقدامات کیے جائیں۔ لیکن صدر نے زیادہ تر 2050ء تک دنیا کو پیش آنے والی صورت حال کے متعلق بات کی۔ یہ کہنے کے باوجود کے حکومت کو اپنا’’طریقہ کار تبدیل کرنا ہوگا‘‘، کسی بھی ٹھوس اقدام کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس نے ہر 3 ماہ بعد تیل کی قیمتوں پر نظرثانی کی مبہم سی تجویز تو دی مگر اس کی کوئی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی کوئی وقت دیا۔
فوری اقدامات کی مد میں اس نے وعدہ کیا کے آنے والے کچھ ماہ میں’’مشورے‘‘ کیے جائیں گے۔ ظاہر ہے کہ اس سے کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلنے والا مگر اس کا یہ مقصد ہے ہی نہیں۔ امید کی جا رہی تھی کہ صرف مشورے کا اعلان کر کے حکومت پیلی واسکٹ والوں کو شانت کر سکتی ہے۔ میکرون کہہ رہا تھا:’’یہ تحریک چلانے کا کیا فائدہ جب ہم پہلے ہی بات کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں؟‘‘
لیکن فرانسیسی سماج میں اتنا زیادہ غصہ اور اشتعال پایا جاتا ہے کہ یہ تحریک متکبر انداز میں کیے گئے مبہم وعدوں سے پیچھے نہیں جانے والی۔ ہفتے کے بھی جدوجہد جاری رہے گی، سڑکوں پر پیلی واسکٹ والے اور CGT (دوسروں سمیت) ایک ساتھ متحرک ہوں گے۔ کئی شہروں میں مشترکہ احتجاج اور ریلیوں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایسا ہر جگہ ہونا چاہیے، مشترکہ نعروں کے ساتھ: غریبوں سے ٹیکس لینے کے خلاف، جبری کفایت شعاری کی پالیسیوں کے خلاف، وغیرہ وغیرہ۔
یونینز کا کردار
حکومت ہار کیوں نہیں مان رہی؟ کیونکہ میکرون کو درست طور پر یہ خوف لاحق ہے کہ کوئی بھی سہولت دینے سے عوام میں جدوجہد کرنے کا مزید حوصلہ پیدا ہو گا اور محنت کش خود سے کہیں گے: ’’کچھ حاصل کرنا ہے تو پیلی واسکٹ والوں کے نقش قدم پر چلنا ہوگا!‘‘ لیکن دوسری طرف کچھ بھی دینے سے انکار کرنے کی وجہ سے حکومت تحریک کے مزید برہم اور لڑاکا ہونے کا خطرہ مول لے رہی ہے۔
ماضی کے تجربات سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت ایسے حالات میں شش و پنج کا شکار ہے جب عوام کا غصہ اور لڑنے کا جذبہ اس نہج تک پہنچ چکا ہے کہ کسی بھی وقت ایک بڑا سماجی دھماکہ ہو سکتا ہے۔ یقیناً کوئی یہ نہیں بتا سکتا کہ یہ دھماکا، یا یہ کہنا بہتر ہو گا کہ دوسرا دھماکا (پیلی واسکٹ والوں کی تحریک پہلے ہی ایک دھماکہ ہے)، ہوگا یا نہیں، لیکن ایسے حالات تیار ہو چکے۔ ہیں اب تمام تر انحصار مزدور تحریک پر ہے، سب سے پہلے یونینز اور پھر بائیں بازو کی جماعتوں پر۔ انہیں اس تحریک میں مداخلت اور اس کی حمایت کرنا ہوگی، لیکن سب سے بڑھ کر انہیں اس تحریک کے زور کو استعمال کرتے ہوئے میکرون حکومت کے خلاف ایک عمومی لڑائی کا آغاز کرنا ہو گا۔
اگر پیلی واسکٹ والوں کو اکیلا چھوڑ دیا گیا تو ممکن ہے کہ آنے والے وقت میں یہ تھک کر بکھرنے لگیں۔ حکومت شاید سڑکیں کاروبار اور ادارے بند کرنے کی حکمت عملی کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے گی۔ حکومت انہیں ایک ایک کر کے کھول لے گی اور تحریک کے تھکنے کا انتظار کرے گی۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک کو فیصلہ کن حد تک اپنی طاقت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ بندش کی حکمت عملی کو ہڑتالوں کی ایک وسیع تحریک میں بدلنے کی ضرورت ہے۔ یہی جیت کا راستہ ہے۔ لیکن مستقبل قریب میں پیلی واسکٹ والے بذات خود یہ ہڑتالیں نہیں کر سکتے۔ یہ کردار محنت کشوں کی تنظیموں کا بنتا ہے۔ اس لڑائی میں انہیں اپنی پوری قوت استعمال کرنا پڑے گی، تین ماہ بعد نہیں، ابھی!
اس کی بجائے یونین لیڈران نے خود کو پیلی واسکٹ والوں سے دور رکھا ہے اور یہاں تک کے ان پر حملے بھی کیے ہیں ( CFDT کا لارنٹ برجر سب سے زہریلا ثابت ہوا)۔ خوش قسمتی سے یونینز کے کارکنان کا رویہ مختلف تھا۔ خاص طور پر CGT میں جہاں قیادت کے مؤقف کی نیچے سے شدید مخالفت کی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا مؤقف بیہودہ ہے۔ فلپ مارٹینیز (جو CGT کا جنرل سیکرٹری ہے) نے شروع میں پیلی واسکٹ والوں کے 17 نومبر والے احتجاج کی حمایت کرنے سے یہ بہانہ کرتے ہوئے انکار کردیا تھا کہ وہ’’(دائیں بازو کے)نیشنل فرنٹ کے ساتھ نہیں چلے گا‘‘ (جن کی منظم موجودگی نہ ہونے کے برابر تھی)۔ پھر اس نے یونین ممبران کو 24 نومبر والے مظاہرے میں بھی شرکت نہ کرنے کا کہا۔ اس کی بجائے CGT نے یکم دسمبر کو مظاہروں کا اعلان کیا۔ بالآخر وہ اب بھی ایندھن پر لگائے گئے ٹیکسوں کی معطلی کے حق میں نہیں ہے۔ اس کی بجائے وہ اجرتوں میں اضافے کے مطالبے کو ترجیح دیتا ہے، جیسے یہ دونوں مانگیں ایک دوسرے سے متضاد ہوں!
مارٹینیز پیلی واسکٹ والوں سے دور رہنے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے۔ جبکہ CGT کے کارکنان نے تحریک میں مداخلت کی ہے، یا کم ازکم اپنی حمایت کا اظہار کیا ہے۔ اس طرح کی یکجہتی کی مثالیں بڑھنی چاہئیں۔ جہاں بھی ممکن ہو CGT کے کارکنان کو انہیں مشورہ دینا چاہیے کہ وہ عام پنچایتیں قائم کریں، جن میں ہڑتالوں کا سوال اٹھایا جا سکے۔ پیلی واسکٹ والوں کی تحریک ہڑتالوں کی ایک بڑی تحریک چلانے میں اہم کردار ادا کر سکتی۔ ہے ان دونوں تحریکوں کو آپس میں جوڑنا کوئی مشکل کام نہیں ہو گا کیونکہ پیلی واسکٹ والے زیادہ تر محنت کش ہیں۔ اگر انہیں اس لائحہ عمل پر قائل کر لیا جائے تو وہ اپنی اپنی کام کی جگہوں پر اس کی بھرپور وکالت کر سکتے ہیں۔ اس تحریک کے پیدا کیے گئے غیر معمولی لڑاکا پن پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔
پنچایتوں کے قیام سے تحریک مزید جمہوری اور کارآمد ہو جائے گی۔ 8 نمائندوں کی تقرری (کس طریقہ کار اور کس کی جانب سے، نہیں معلوم) سے یہ مسئلہ بحثوں کا مرکز بن گیا ہے۔ عوامی تحریک کی جمہوری قیادت ضروری ہے جو مقامی اور قومی سطح پر منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل ہو جنہیں واپس بلا کر دوبارہ منتخب بھی کیا جا سکے۔ اس طرح دائیں بازو کے شدت پسندوں کو بھی باہر نکالا جا سکے گا جو موجودہ ابہام سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ پیلی واسکٹ والوں کے لیے ایک واضح سرمایہ داری کے خلاف مؤقف دائیں بازو کے قوم پرستانہ فریب سے کہیں زیادہ پرکشش ہو گا۔
’’غیر سیاسی‘‘؟
کچھ لوگ یہ کہیں گے،’’نہیں! پیلی واسکٹ والوں کی تحریک غیر سیاسی ہے اور اسے یوں ہی رہنا چاہیے‘‘۔ یہی لوگ اکثر یونینز کی مداخلت کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ ہمیں اس مؤقف کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے چاہئیں جو ہمیشہ انتہا پسند دائیں بازو کے حق میں جاتا ہے۔ پیلی واسکٹ والے موجودہ سیاسی نظام کو رد کرتے ہیں (اور وہ یہ درست کرتے ہیں) اور وہ سیاستدانوں اور یونین لیڈران دونوں سے ہی نالاں ہیں (اس میں بھی وہ درست ہیں)۔ لیکن ان کی تحریک قطعاً’’غیر سیاسی‘‘ نہیں ہے۔ ان کی کچھ ابھرتی ہوئی مانگیں، مثال کے طور پر قومی اسمبلی کی تحلیل، نہ صرف سیاسی ہیں بلکہ بہت انقلابی بھی ہیں۔ انہیں بائیں بازو اور ٹریڈ یونین تحریک میں ایک واضح اظہار کی ضرورت ہے۔
خاص طور پر CGT اور فرانس انسومائی (France Insoumise) کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ ہم ہڑتالوں کی ایک مضبوط تحریک کے بغیر حکومت کا تختہ الٹنے کے قابل نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ محض بندشیں اور مظاہرے کافی نہیں ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں سرمایہ درانہ نظام کے خاتمے کا پروگرام بھی دینا چاہیے جس کے بحران کی وجہ سے ہی زندگی گزارنے کے اخراجات بڑھتے جا رہے ہیں اور عوام پس رہے ہیں۔ سیاسی طور پر اس تحریک میں مداخلت نہ کرنے کا مطلب دائیں بازو اور انتہائی دائیں بازو کی رجعتی قوتوں کے لئے راستہ خالی کرنا ہوگا۔ ہمیں ہر گز اس کی اجازت نہیں دینی چاہیے!
(30نومبر 2018ء )