|تحریر: ریوولوشن ایڈیٹوریل بورڈ، ترجمہ: ولید خان|
11جون 2017ء کو ہونے والے فرانسیسی پارلیمانی الیکشن میں ریکارڈ تعداد میں ووٹ نہ ڈالنے کا رجحان نظر آیا،2012ء میں 42.8 فیصد کے مقابلے میں 51.3 فیصد۔ اس لئے مارش/ موڈم اتحاد کے نام نہاد ’’ابھار‘‘ کو اسی انداز میں دیکھنا چاہیے جیسا کہ وہ حقیقت میں ہے: ووٹ نہ ڈالنے والوں کی تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے جنہوں نے’’صدارتی اکثریت‘‘ کے لئے ووٹ ڈالا۔
مارش/موڈم اتحاد کو پورے ملک میں 73 لاکھ ووٹ ملے جبکہ ماکروں کو صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 86 لاکھ ووٹ ملے تھے، اس کا مطلب یہ ہے کہ نام نہاد ’’اضافے‘‘ کے بجائے حقیقت میں ووٹوں میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مارش/موڈم اتحاد کے ووٹوں میں کمی سے زیادہ کمی مجموعی طور پر ریپبلیکن پارٹی، فرنٹ نیشنل اور باغی فرانس کے ووٹوں میں کمی ہوئی ہے۔
to read this article in English, click here
قومی اسمبلی میں ماکروں کی بھاری اکثریت کی یقین دہانی ہے۔ لیکن یہ فتح ایک سراب ہے۔ ووٹ نہ ڈالنے کے عمل سے پتہ چلتا ہے کہ پانچویں ریپبلک کے گلتے سڑتے اداروں پر کتنا بھاری اور بڑھتا ہوا عدم اعتماد موجود ہے۔ نیشنل اسمبلی میں موجود پارٹیاں اور ان کی سیٹیں ملک کی تاریخ میں عوامی موڈ کی سب سے کمزور عکاسی کرتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے صدر کی طلسماتی شخصیت کے گھٹیا پروپیگنڈے کے باوجود ماکروں اپنی صدارت کے آغاز سے ہی سرکوزی اور اولاندے سے زیادہ غیر مقبول ہو چکا ہے۔ اور جس قسم کی ظالمانہ رد اصلاحات ماکروں حکومت تیار کر رہی ہے اس کی وجہ سے آنے والے دنوں میں اس کی مقبولیت میں اور زیادہ کمی واقع ہو گی۔
فرانسیسی بورژوازی کے نکتہ نظر سے ریپبلیکنز کی شکست اور سوشلسٹ پارٹی کا انتشار کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔دہائیوں سے فرانسیسی سرمایہ داری نے دو پارٹی سسٹم پر تکیہ کیا ہے جس میں دائیں اور بائیں بازو کی پارٹیاں باری باری حکومتیں بناتی رہی ہیں۔ کوئی بھی پارٹی حکومت میں موجود ہوتی اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ حکمران طبقے کے مفادات کو ہمیشہ تحفظ حاصل ہوتا اور ریاست قدرے مستحکم رہتی تھی۔ ’’ماکرونزم‘‘ کی فتح نے ۔۔ جس کو بہت سارے ’’سوشلسٹ‘‘ اور ریپبلیکن لیڈروں کی حمایت حاصل تھی۔۔ باری باری حکومت بنانے والی پارٹیوں کے دھوکے کو تباہ کر دیا ہے۔ اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ سوشلسٹ پارٹی، ماکرونسٹ اور ریپبلیکن پارٹی کے تمام لیڈر، سب بنیادی طور پر محنت کش طبقے پر زبردستی مسلط کیے جانے والے پروگرام سے متفق ہیں جو مزدور دشمن اور رجعتی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ، ’’سنٹر‘‘ کی سیاست کی فتح فرانسیسی سیاسی زندگی کی بڑھتی ہوئی پولرائزیشن کو اور تیز کرے گی جو کہ پہلے ہی گہرے اور مستقل بحران کا شکار ہو چکی ہے۔
باغی فرانس اور فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی
باغی فرانس(France Insoumise) اور فرانسیسی کمیونسٹ پارٹی کو ان ووٹوں سے اجتناب کا سب سے زیادہ نقصان ہوا۔ میلنشاں کو صدارتی الیکشن میں جو 70لاکھ ووٹ پڑے، اس مرتبہ ان میں سے آدھے سے زیادہ نے ووٹ ڈالنے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس مہم میں محنت کشوں میں یہ تاثر عام پایا جا رہا تھا کہ اس سارے تماشے کا انجام ’’پہلے سے ہی پتہ ہے۔‘‘ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان پارلیمانی انتخابات کا ماکروں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے لیکن اس نکتہ نظر کی کوئی خاص اہمیت نہیں۔ عوام کی سب سے زیادہ پسی ہوئی پرتوں کی سیاسی زندگی کیلئے یہ ضروری نہیں کہ ان کے اتار چڑھاؤ کا بورژوا اداروں کے انتخابی ایجنڈے کے ساتھ تال میل ہو۔ پھر بھی ’’ریڈیکل لیفٹ‘‘ کیلئے بہت قوی امکانات موجود ہیں۔ ماکرونزم کے دیوالیہ پن کے نتیجے میں سماج میں لیفٹ اور رائٹ سیاست کی ریڈیکلائزیشن اور زیادہ بڑھے گی۔
باغی فرانس اور کمیونسٹ پارٹی کے امیدواروں کی ایک دوسرے کے خلاف انتخابی مہم نے بھی میلنشاں کی حمایت میں کمی میں کرار ادا کیا۔ لیفٹ پر اس طرح کی تقسیم کی عدم موجودگی میں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کو زیادہ کامیابیاں مل سکتی تھیں۔ کمیونسٹ پارٹی کے نیشنل سیکریٹری پیئر لارینٹ نے باغی فرانس کی قیادت کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ لیکن یہ بحث اپنا ہی وزن برداشت نہیں کر سکتی۔ واقعات اور حالات کا رخ باغی فرانس کی جانب تھا، کمیونسٹ پارٹی کے نہیں۔ پارلیمانی انتخابات کے پہلے مرحلے کے نتائج سے اس کا واضح اظہارہوتا ہے۔ پیئر لارنٹ جتنے مرضی پینترے بدل لے اور دعوے کرتا رہے کہ ’’یہ باغی فرانس کا قصور ہے‘‘، لیکن ووٹر نتائج دیکھیں گے اور یہ نتیجہ اخذ کریں گے کہ لیفٹ کو تقسیم کرنے کی وجہ کمیونسٹ پارٹی ہے۔ اس کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی کمزور ہو گی اور سیاسی حوالے سے اور زیادہ غیر اہم ہوتی جائے گی۔
80 سے زیادہ حلقوں میں باغی فرانس یا کمیونسٹ پارٹی کے امیدوار دوسرے مرحلے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ اب ان دونوں قوتوں کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ آنے والے اتوار کو ہونے والے انتخابات میں زیادہ سے زیادہ لیفٹ کے امیدوار کامیاب ہوں۔ ورنہ قومی اسمبلی میں ماکروں کی پالیسیوں کے خلاف کوئی اور حقیقی ’’حزب اختلاف‘‘ نہیں بن پائے گی۔
آخر میں، یہ ضروری ہے کہ نام نہاد ’’ریپبلیکن فرنٹ‘‘کے نام پر فرنٹ نیشنل کے خلاف دائیں بازو کے اتحاد کو سختی سے رد کیا جائے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ان کی حمایت میں ووٹ ڈالا جائے جو کہ فرنٹ نیشنل کے ابھار کی وجہ بنے ہیں۔ فرنٹ نیشنل اور ماکرونسٹ کے بشمول دائیں بازو کے خلاف مجموعی طور پر جدوجہد کو اب تین سطحوں پر استوار کرنا ہو گا: 1) اتوار کے دن باغی فرانس اور کمیونسٹ پارٹی کے زیادہ سے زیادہ امیدواروں کو جتوانے کی مہم چلائی جائے؛ 2) ماکرونسٹس کے رجعتی پروگرام کے خلاف ملک بھر میں عوام کو متحرک کیا جائے؛ 3) باغی فرانس کی تحریک کو بہتر بنیادوں پر منظم کرتے ہوئے ایک ایسا پروگرام پیش کیا جائے جو کہ بحران میں گھرے سرمایہ داری سے ناطہ توڑتے ہوئے سرگرم کارکنوں کی وسیع پرتوں کو اپنی طرف قائل کرے۔