|تحریر: ریولوشن، عالمی مارکسی رحجان فرانس، ترجمہ: انعم خان|
فرانس کے صدارتی انتخابات کے پہلے مرحلے کا نتیجہ میکرون کی خواہش کے مطابق آیا ہے، جس کی تیاری وہ لمبے عرصے سے کر رہا تھا۔ 2017ء میں انتخابات کے دوسرے مرحلے میں میکرون نے میری لی پین کے مقابلے میں 66 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ وہ لاکھوں لوگ جنہوں نے اُس وقت پہلے مرحلے میں میلنشون یا ہامن کو ووٹ دیے تھے، دوسرے مرحلے میں ”انتہائی دائیں بازو“ کا راستہ روکنے کے لیے متحرک ہوگئے۔ گزشتہ پانچ سالوں سے ریاست کا سربراہ یہ صورتحال دہرائے جانے کا خواہاں رہاہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اب وہ خود سے کہہ سکتا ہے کہ ”اب تک تو سب ٹھیک چل رہا ہے“۔ اب دو ہفتوں کے لیے رجعتی، نسل پرست اور قوم پرست جذباتیت والی میری لی پین کے مقابلے میں وہ خود کو بطور ایک معتدل، قوتِ برداشت کا حامل اور انسانیت پرست امیدوار کے طور پر ظاہر کرنے کی کوشش کرے گا۔ اس کام میں میکرون کو ”بائیں بازو“ کے قائدین کا جم غفیر مدد فراہم کرے گا۔
اس کام میں میکرون کو ”بائیں بازو“ کا جم غفیر مدد فراہم کرے گا جنہوں نے پہلے میلنشون کو شکست دلانے میں کردار ادا کیا اور اب ”جمہوریہ کی خاطر“ اڑان بھرکرمتانت سے ”لی پین کو شکست دو“ کے نعرے بلند کر رہے ہیں۔
ممکن ہے یہ حربہ کام کر جائے لیکن مکمل یقین کسی طور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ درحقیقت نتائج 2017 ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ تلخ ہیں۔ اور اوپر سے ”انتہائی دائیں بازو کے خلاف حفاظت فراہم کرنے والے“ کے طور پر مشہور میکرون 2017ء کے بعدسے انتہائی رجعتی، سماج مخالف، سرمایہ داروں کے حامی، اور انتہائی دائیں بازو پر مبنی پروگرام جس میں نسل پرست نعرے بازی بھی شامل تھی جیسے اقدامات پر عمل پیرا رہا ہے۔ اس کے ”انتہائی دائیں بازو کے خلاف حفاظت فراہم کرنے والے“ تاثر کو شدید دھچکا لگاہے۔لہٰذا، بائیں بازو کے ووٹرز 2017ء کی نسبت دوسرے مرحلے میں زیادہ بڑی تعدادمیں ووٹ نہیں ڈالیں گے۔ اس کے علاوہ لی پین بڑی تعدا دمیں ان لوگوں کے بھی ووٹ حاصل کرے گی جنہوں نے پیکرس اور زیمور کو ووٹ دئیے تھے۔ آخر میں، پہلے مرحلے میں ووٹ نہ ڈالنے والوں کو (اور بائیں بازو کے ووٹرز کو بھی) متحرک کرتے ہوئے، آر این (نیشنل ریلی) کی قائد، میکرون کے برسراقتدار رہتے ہوئے پیدا ہونے والے سماجی طوفان کے تھپیڑوں کو واپس اسی کے منہ پر دے مارے گی۔ معاشرے کی سب سے زیادہ جبر اور استحصال کا شکار پرتوں کے سامنے میکرون کا حقیقی چہرہ عیاں ہونے کے بعد یہ ممکن ہے کہ لی پین اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے۔
’جمہوری محاذ‘ کے خلاف
ریوولوشن (عالمی مارکسی رحجان، فرانس) کے کامریڈوں نے 2002ء میں (لی پین کے والد کے خلاف) شیراک کو ووٹ ڈالنے کا نہیں کہا تھا، نہ ہی 2017ء میں (خود لی پین کے خلاف) میکرون کو ووٹ ڈالنے کا کہا تھااور ہم یقینی طور پر دو ہفتوں میں میکرون کو ووٹ ڈالنے کا بھی نہیں کہنے والے۔ یہ نام نہاد ’جمہوری محاذ‘، جس کی شنوائی ہمیں بائیں بازو کے قائدین دے رہے ہیں، ایک افسوس ناک طبقاتی مفاہمت کی پالیسی ہے۔ تمام رجعتی قوتوں (بشمول میکرون) کے خلاف نوجوانوں اور محنت کشوں کو ایک سنجیدہ جدوجہد میں متحرک کرنے کی بجائے، انہیں میکرون کو ووٹ ڈالنے کا کہنا ہمارے حامیوں کے گروہ کو کنفیوز اور طبقاتی حد بندیوں کو مدہم کررہا ہے، مختصراً ہمارے مخالفین کو مضبوط کررہا ہے۔
یقیناً، لی پین ہمارے طبقے کی دشمن ہے۔ اس کی پارٹی اور سماجی بنیادیں انتہائی رجعتی عناصر پر مبنی ہیں جو کہ مہاجرین اور بائیں بازو کے کارکنوں سے شدید نفرت کرتے ہیں اور ان کے ساتھ”حساب برابر“ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ مسکراتے مکھوٹے کے پیچھے موجود ”مطمئن“ سیاستدان، میرین لی پین کا ذہن نسل پرستی، صنفی تعصبات اور دیگر نیم جاگیردارانہ بکواسیات سے بھرا ہوا ہے۔ لیکن اس کے اپنے اور اس کے انتہائی دیانتدار حامیوں کے اذہان سے نکلتا ہوا کچرا۔۔ایک چیز ہے اور طبقات کے مابین طاقت کا حقیقی توازن ایک بالکل مختلف چیز ہے۔
طاقتوں کایہ توازن مستقبل قریب میں فاشسٹ حکومت تو درکنار بلکہ بوناپارٹسٹ آمریت کے آنے کے امکان تک کو مسترد کر رہا ہے۔ وہ لوگ جو فاشزم کے ابھرنے کے دعوے کررہے ہیں ہم انہیں یاد کرانا چاہتے ہیں کہ ایسی کسی حکومت کا خالص اور سادہ سا مطلب مزدور تحریک کی تمام تنظیموں کی تباہی ہوتا ہے۔ کسی دور دراز سیارے پر بیٹھ کر سیاسی اور سماجی حالات کا تجزیہ کرنے والے کو ہی فرانس میں فاشزم کے ابھرنے کا خطرہ محسوس ہوسکتا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں میں ”پیلی واسکٹ“ والی تحریک اور دیگر عوامی ابھار ہمارے طبقے کی حرکت میں آنے کی مجموعی طاقت کا اظہار ہیں۔ مزید برآں، اگر مزدور تحریک کے سرکاری قائدین اور خاص کر یونین لیڈران سست روی اورغداریاں نہ کرتے تواس مجموعی طاقت کا اظہار کہیں زیاد ہ منظم انداز میں ہوسکتا تھا۔ 2018ء میں ”پیلی واسکٹ“ تحریک کے آتش فشاں کے پھٹنے کے وقت ٹریڈ یونین تحریک میں موجود مالکان کے شعوری نمائندے لاؤرنٹ برجر (سی ایف ڈی ٹی) جیسے لوگوں کا شرمناک کردار نہیں بھولنا چاہیے۔ اور ہمیں اُس وقت سی جی ٹی کے فلپ مارٹیز کے رویے کو بھی نہیں بھولنا چاہیے جو کہ کچھ زیادہ بہتر نہیں تھا۔ پیلی واسکٹ تحریک ہمارے طبقے کی گہرائی میں موجود پرتوں کا دھماکہ خیز اورخود رو تحرک تھا۔ اس تحریک نے میکرون حکومت کے خاتمے کے امکان کو واضح کردیا تھا، اس شرط پرکہ اگر بائیں بازو اور ٹریڈ یونین تحریک کے لیڈران اس لمحے پہیہ جام کروا دیتے۔ کم سے کم یہ کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے پہیہ جام نہیں کیا۔ درحقیقت، انہوں نے پورا زور لگا کر اس سے پرے دھکیلا۔
اگر میرین لی پین الیکشن جیت جاتی ہے کہ تووہ قومی اسمبلی میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے دائیں بازو کی قوتوں سے اتحاد کرنے کی کوشش کرے گی۔ بفرض یہ جیت جاتی ہے تو یہ فرانسیسی بورژوازی کی ضروریات کے تحت رجعتی سیاست کو ایجنڈے پر لے آئے گی۔ اس ایجنڈے میں سماج اور مزدورمخالف، سرمایہ داروں کے حق میں اور خوفناک ردِ اصلاحات کا پروگرام، دوسرے لفظوں میں میکرون والی پالیسی ہی شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے نسل پرست نعرے بازی کو مد نظر رکھا جائے تو اس حساب سے تو وزیر داخلہ گرلڈ ڈرمانین کو بھی بدلنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ وہ یہی کام بہت اچھے طریقے سے کررہا ہے۔
میرین لی پین کی جیت کا مطلب بونا پارٹسٹ آمریت کا آغاز ہرگز نہیں ہوگا۔ دوسری جانب اُس کا ’نارمل ہونے کا عمل‘ مکمل ہونے کی طرف جائے گا، یعنی اُس کی جیت اس کو باقائدہ ایک معمول کے مطابق اور بورژوا سیاست دان میں تبدیل کردے گی جو کہ بڑے کاروباریوں کے مفادت کا دفاع اور طبقات کے توازن کو مدنظر رکھے گی۔ وہ یونین قائدین کو جیل میں نہیں ڈالے گی بلکہ انہیں ایلیزے (فرانسیسی صدارتی محل) میں ”سماجی کانفرنس“ کے لیے مدعو کرے گی، جیسے میکرون کرتا ہے، بلکہ روایت کے مطابق سماجی پالیسیوں پر حملے کے ”مذاکرات“کے دوران کیک اور میٹھے لوازمات سے یونین قائدین کی خاطر توازع بھی کرے گی۔
میلنشون کی شکست
ہم میلنشون کی شکست اور اس کے اثرات پر علیحدہ سے تفصیلی آرٹیکل لکھیں گے۔ اس وقت ہمیں بس یہ مدنظر رکھنا ہے کہ اس کی شکست کی وجوہات محض لا فرانس انسومیز کی قیادت کے کرداراور اس کی پانچ سالہ پالیسیوں کے اندر ہی پنہاں نہیں ہیں۔ ہمیں بائیں بازو کی دوسری جماعتوں کے کردار کو بھی دیکھنا ہوگا۔ بشمول پی ایس، گرینز، پی سی ایف، این پی اے اور لٹ ایوریری کے امیدواروں سمیت سب نے مل کر اپنے اپنے انداز میں اس شکست میں کردار ادا کیاہے۔ آخر میں یونین قائدین کی ذمہ داری کوبھی نہیں بھولنا چاہیے۔”یونینز کی آزادی“ (جو کہ ایک بیہودہ منافقت ہے) کے نام پر انہوں نے محنت کشوں کو اُس ایک امیدوار کے حق میں متحرک کرنے لیے ذرا سی بھی حرکت نہیں کی جو کہ میکرون اور میرین لی پین دونوں کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا تھا، یعنی میلنشون۔
آج اگرسیاسی اشاریوں میں دایاں اور انتہائی دایاں بازو اکثریت لیتے ہوئے نظر آرہا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محنت کش طبقہ درِ اصلاحات اوررجعتیت کے لیے بیتاب ہے۔ یہ بلکہ اس لیے ہے کہ ہمارے طبقے کے سبھی آفیشل قائدین عوام میں بڑھتے ہوئے غصے اور بے چینی کے دھارے کو بائیں بازو کی الیکشن میں فتح کی جانب نہیں موڑ سکے۔ اصل مسئلہ یہیں ہے اور کہیں نہیں ہے۔ اسی مسئلے کو پہلے یہاں حل کیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ مسئلہ نہ صرف آنے والے سالوں کے الیکشنز میں دوبارہ سر اٹھائے گا بلکہ یہ سب سے اہم سماجی جدوجہد کے اندر بھی دوبارہ نمودا ر ہوگا۔
لی پین یا میکرون میں سے جو بھی نئی حکومت برسر اقتدار آئے، مستقبل میں بہت بڑی جدوجہدیں اس کا انتظار کر رہی ہیں۔ نوجوان اور محنت کش خاموشی سے لوٹے جانے کیلئے تیار نہیں ہوں گے۔ اس دوران پیشہ ور مشکوک اور پاگل پن کا شکار لوگ محنت کش طبقے کے ”کم تر شعور“ کا رونا روتے رہیں گے، لیکن محنت کش طبقہ جلد یابدیرطاقتور تحریکوں کے ذریعے ضرور جواب دے گا۔ ہمیں اس حقیقت پررتی بھربھی شک و شبہ نہیں ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ محنت کش طبقہ خود سے طاقت میں آکر اپنی تمام اذیتوں کی وجہ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ایک ایسی انقلابی پارٹی جو سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کا آغاز کرنے پر کاربند ہو، کے بغیر نہیں کرسکتا۔ عالمی مارکسی رحجان، فرانس اور دیگر جگہوں پر ایسی ہی پارٹی کی تعمیر کررہا ہے۔ اس اہم اورفوری مقصد کی تکمیل کے لیے۔۔ہمار ا حصہ بنیں!