|تحریر: جوش ہولرائیڈ، ترجمہ: ولید خان|
فرانسیسی انتخابات کے پہلے مرحلے کے انعقاد میں ایک مہینے سے کم عرصہ رہ گیا ہے اور تقریباً آدھے فرانسیسی ووٹروں کی عدم شمولیت کے باعث ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس انتخابی مہم کی سب سے زیادہ نمایاں خصوصیت روایتی پارٹیوں کا تقریباً مکمل انہدام ہے۔ فرانسیسی عوام صدر فرانسوا اولاندے سے اتنی نفرت کرتے ہیں کہ اس نے ان انتخابات میں دوبارہ صدارت کیلئے کھڑے ہونے کی زحمت ہی نہیں کی۔ اس کی سوشلسٹ پارٹی کی آخری امید ’’ریڈیکل‘‘ بینوا ہامون حالیہ رائے شماری میں بیچارگی کے عالم میں پانچویں پوزیشن پر لڑکھڑا رہا ہے۔
To read this article in English, click here
اس حقیقت کی کسی کو حیرانگی نہیں ہونی چاہیئے کہ سوشلسٹ پارٹی بدنام ہو کر اپنی تمام تر ساکھ کھو چکی ہے کیونکہ پارٹی کی حالت زار اسی دن نوشتہ دیوار بن گئی تھی جس دن اولاندے کے جھوٹے وعدے اور ہولناک کٹوتیوں کی پالیسی عوام پر عیاں ہو گئی تھیں۔ حکمران طبقے کیلئے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ اس بات کے بھاری امکانات ہیں کہ دائیں بازو کی پارٹی لے ریپبلیکنز ’’Les Republicans‘‘ (سابقہ UMP)، شاید انتخابات کے دوسرے مرحلے تک ہی نہ پہنچ پائے۔
ریپبلیکن امیدوار فرانسوا فیلون نے اپنے آپ کو ’’گندگی سے پاک‘‘ کیتھولک قدامت پسند کے طور پر متعارف کرایا تاکہ لی پین کی پارٹی فرنٹ نیشنل (Front National) سے ووٹروں کو توڑ کر اپنی طرف راغب کیا جائے۔ بدقسمتی سے اس نے سرکاری خزانے سے اپنی بیوی کو ایک ایسی نوکری کے عوض 5لاکھ یورو سالانہ ادا کئے جس کا وجود ہی نہیں تھا؛ میڈیا میں بھانڈا پھوٹنے کے بعد اس کی ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے۔
چکنا چور ہوتا سٹیٹس کو
روایتی پارٹیوں کے غیر فعال ہونے کے بعد فرانسیسی اسٹیبلشمنٹ کی مجبوری بن چکی ہے کہ وہ ایمانوئل ماکرون پر اکتفا کرے جو اولاندے کی حکومت کا سابقہ وزیر خزانہ ہے اور سیاسی طور پر لبرل اور یورپ نواز سابقہ بینکار ہے۔ فی الحال رائے شماریوں میں وہ سرفہرست ہے۔ اپنے الفاظ میں ماکرون ’’ٹھوس جمہوری انقلاب‘‘ کا خواہشمند ہے تاکہ سیاست پر عوام کا اعتماد بحال ہو لیکن اس کا پروگرام اس کی لفاظی کے بالکل الٹ ہے: عوامی اخراجات میں کٹوتیاں، ٹیکسوں میں کمی، بے روزگاروں پر پابندیاں۔ ۔ یعنی صرف کٹوتیاں ہی کٹوتیاں۔
یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے بااثر افراد ماکرون کی حمایت کر رہے ہیں جن میں ایک کلیدی فرد مینوئل والز ہے جو کہ سابق وزیر اعظم اور سوشلسٹ پارٹی کا ممکنہ صدارتی امیدوار ہے۔ اس نے کھلم کھلا ’’سوشلسٹ‘‘ ہامون کے خلاف لبرل ماکرون کی فتح کیلئے ووٹوں کی اپیل کی ہے۔
اس بات کے امکانات ہیں کہ لی پین فرانسیسی محنت کشوں کے تحفظ کی لفاظی سے ’’عالمی اشرافیہ‘‘ کے اس اعلیٰ درجے کے پروگرام کو تہہ و بالا کر دے۔ چند ہفتے، ایک طویل وقت ہوتا ہے اور کسی کو اعتماد نہیں ہے کہ نو وارد ماکرون سیاسی دباؤ برداشت کر سکے گا یا نہیں۔ انتخابات کے حتمی نتائج پر ابھی کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا۔
افق پر منڈلاتے طوفان
اگر دوسرے مرحلے میں مقابلہ ماکرون اور لی پین کو ہوتا ہے تو ایسی صورتحال فرانسیسی حکمران طبقے کیلئے مزید گھمبیر مسائل پیدا کرے گی۔ اگر لی پین انتخابات جیت جاتی ہے تو پھر وہ فرانس کی یورپی یونین میں ممبرشپ کے حوالے سے ریفرنڈم کرائے گی جس کے نتائج فرانسیسی اور یورپی سرمایہ داری کیلئے تباہ کن ثابت ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا کی واضح اکثریت ماکرون کی حمایت کر رہی ہے۔
تاہم ماکرون کے پاس نہ تو کوئی پارٹی ہے اور نہ ہی ممبران پارلیمنٹ، اس لئے صدر ماکرون کو برسلز سے منظور شدہ خوفناک کٹوتیوں کا پروگرام لاگو کرنے کیلئے سوشلسٹ اور ریپبلکن پارٹیوں پر انحصار کرنا پڑے گا جس کا مطلب یہ ہو گا کہ عدم استحکام، عوامی غصہ اور سیاسی طور پر دائیں اور بائیں بازو کے درمیان شدید پولرائزیشن۔ ’’کم تر برائی‘‘ کو چننے کا مطلب ہو گا کہ آسمان سے گرا اور کھجور میں اٹکا!
باغی فرانس(France Insoumise)
ٹی وی پر نشر ہونے والی پہلی صدارتی بحث کے بعد سے میلنشوں اور اس کی France Insoumise (باغی فرانس) تحریک کو بڑی پذیرائی مل رہی ہے۔ بحث ختم ہونے کے چند منٹ بعد 1/5 ناظرین نے ایک رائے شماری میں بتایا کہ میلنشوں کی باتیں سب سے زیادہ موثر تھیں۔ اس حوالے سے میلنشوں، ماکرون کے بعد دوسرے نمبر پر رہا اور لی پین تیسرے نمبر پر، یاد رہے کہ ماکرون کو اس وقت تقریباً پورے فرانسیسی میڈیا کی حمایت حاصل ہے۔ رائے شماریوں میں بہتری کے ساتھ ساتھ میلنشوں کی ریلیوں میں پورے ملک میں لاکھوں افراد شرکت کر رہے ہیں۔ دائیں بازو کی قوم پرستی اور کٹوتیوں کی پالیسیوں کے خلاف میلنشوں کا پروگرام واضح طور پر عوامی حمایت حاصل کر رہا ہے۔ جیسا کہ ایک صحافی نے کہا ’’سیاسی نظام کے خلاف جدوجہد کرنے والے امیدوار کے بطور اسے مثبت نتائج حاصل ہو رہے ہیں۔ ‘‘
جیسے جیسے کمپیئن آگے بڑھتی جائے گی، سوشلسٹ پارٹی کے بائیں بازو کا رجحان رکھنے والے زیادہ تر ووٹر ہامون سے میلنشوں کی حمایت میں آتے جائیں گے جبکہ فیلون کے حامی لبرل ماکرون اور قوم پرست لی پین، دونوں کی حمایت میں جاتے جائیں گے۔ اس صورتحال میں یہ عین ممکن ہے کہ میلاشون انتخابات کے دوسرے مرحلے تک پہنچ جائے۔
نتائج سے قطع نظر، یہ انتخابات ایک تاریخی موقعہ ہیں کہ لی پین اور ماکرون کی رجعتی سیاست کے متبادل کے طور پر حقیقی بائیں بازو کی قوتوں کو منظم اور فعال کیا جائے۔ اگر انتخابات کے بعد میلنشوں اپنی کمپیئن کو ایک وسیع سیاسی تحریک میں تبدیل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے جو سماج کو تبدیل کرنے کے ایک سوشلسٹ پروگرام کے گرد منظم ہو تو پھر اس کا نتیجہ نہ صرف فرانسیسی بلکہ پورے یورپ کے محنت کشوں کیلئے ایک اہم پیش قدم ثابت ہو گا۔