فرانس: صدر میکرون کی کامیابی اس کی اگلی شکست کی راہ ہموار کرے گی!

|ترجمہ: جیروم میٹیلس، ترجمہ: ولید خان|

6 جون کو میکرون کی غلیظ پنشن اصلاحات کے خلاف منظم ہونے والے چودھویں ”ڈے آف ایکشن“ کا حکومت پر اتنا ہی اثر پڑے گا جتنا تیرھویں کا ہوا تھا۔ اگر میکرون مطلوب ”تسکین“ حاصل نہیں بھی کر سکا تو وہ خوش ضرور ہو گا کہ وقتی طور پر ہی صحیح لیکن وہ پنشن اصلاحات پر جنگ جیت چکا ہے۔ لیکن فرانسیسی بورژوازی کی نظر میں یہ ایک زخموں سے چور فتح ہے جس میں فاتح مفتوح کے مقابلے میں پہلے سے زیادہ کمزور ہو چکا ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

چند مہینوں میں میکرون عوام میں اپنی مخالفت اور اکثر اوقات شدید نفرت میں واضح طور پر بے پناہ اضافہ کر چکا ہے۔ وزیر اعظم الزبتھ بورن اور اس کی حکومت کے قدآور سیاست دانوں۔۔۔لی میئر، دارمانن، دوسوپت، ویران، گویرینی وغیرہ۔۔۔کی عزت و تکریم بھی صدر جتنی ہی ہے۔ جو تماشے سیکرٹری آف سٹیٹ (فرانسیسی وزیر خارجہ۔ مترجم) مارلین شیاپا نے لگائے ہیں وہ اس حکومت کی عین ترجمانی کرتے ہیں۔ متوسط طبقہ ”انتہاء پسندی“ سے خوفزدہ ابھی بھی میکرون کی حمایت کر رہا ہے لیکن اس کی وسیع پرتوں میں بھی 2017ء والی گرمجوشی نہیں رہی اور مسلسل بڑھتی ناگواری کبھی کبھی غصے میں اپنا اظہار بھی کرتی ہے۔ اگلا قدم کسی ”انتہاء پسند“ کی حمایت کرنا ہو گا۔

پنشن اصلاحات پر قومی اسمبلی میں واضح اکثریت سے محروم حکومت نے آئین کی دو شقوں 47.1 (سوشل سیکورٹی فنانسنگ بل سے متعلق کوئی بھی قانون پارلیمنٹ میں پیش ہونے کے 20 دنوں میں اگر کوئی فیصلہ نہیں ہوتا تو معاملہ سینٹ میں بھیج دیا جائے گاجہاں 15 دنوں میں فیصلہ ہو گا۔ اگر پارلیمنٹ 50 دنوں میں فیصلہ نہیں کر پاتی تو قانون کو ایک آرڈیننس کے ذریعے لاگو کر دیا جائے گا۔ مترجم) اور پھر 49.3 (حکومت ممبران پارلیمنٹ کی ووٹنگ کے بغیر کوئی بھی قانون زبردستی منظور کر سکتی ہے۔ اس کو روکنے کا ایک ہی طریقہ کار ہے۔۔۔عدم اعتماد تحریک۔ لیکن تحریک شاذونادر ہی استعمال ہوتی ہے کیونکہ پارلیمنٹ بھی ساتھ ہی تحلیل ہو جائے گی اور نئے انتخابات منعقد کرانے پڑیں گے۔ مترجم) کو استعمال کیا تاکہ بحث مباحثے اور ممبران کے ووٹوں سے بچا جائے۔ شق نمبر 40 (کوئی بھی ممبر پارلیمنٹ ایسا قانون یا ترمیم متعارف نہیں کرا سکتا جس کے ذریعے عوامی اخراجات میں کٹوتی یا نئی بڑھوتری ہو۔ مترجم) کو بھی اس مقصد کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ دو مرتبہ آئینی کونسل نے ایک ”مشترکہ پیش قدمی پر ریفرنڈم“ (ایک عوامی رائے شماری) کی درخواست مسترد کر دی حالانکہ تمام رائے شماریوں کے مطابق عوام میں اصلاحات کی شدید مخالفت موجود تھی۔ یہ سارا تماشہ کروڑوں نوجوانوں اور محنت کشوں کی نظروں کے سامنے ہوا جو درست طور پر سمجھتے ہیں کہ فرانسیسی ”جمہوریت“ ایک ڈرامہ ہے۔

اس لئے بورژوازی کی نظر میں ان واقعات نے حکومت کا بحران نئی اور خوفناک بلندیوں پر پہنچا دیا ہے۔ جب ایک یا دو حکومتی نمائندوں کے برعکس تمام ”جمہوری“ ادارے عوام کی نظروں میں اپنی ساکھ کھو بیٹھیں تو حکمران طبقے کا کڑا وقت شروع ہو جاتا ہے۔ 2018ء اور 2019ء میں جیلیٹ جانز (پیلی واسکٹ) تحریک نے ایسی صورتحال کے دیوہیکل نتائج کی جھلک دکھائی تھی۔

یہ پہلی جھلک تھی کیونکہ فرانسیسی عوام کی گہرائیوں میں شدید غم و غصہ اُبل رہا ہے، جو جیلیٹ جانز کو محض ایک معمولی جھڑپ بنا دے گا۔ ان کی انقلابی روایات سے پوری دنیا واقف ہے۔

آگے کھائی پیچھے گڑھا

اگر تمام صورتحال کو مدنظر رکھا جائے تو یہ بورژوازی کے مفاد میں ہوتا کہ پنشن اصلاحات پر اس انتشار کو استعمال کرتے ہوئے میکرون کو اس امید پر قومی اسمبلی تحلیل کرنے پر مجبور کیا جاتا کہ نئے انتخابات کے ذریعے جمہوریت کا فریب جاری رکھا جا سکے۔

Macron Le Pen Image Foto AG Gymnasium Melle Wikimedia Commons

ایک امکان لی پین کی نیشنل ریلی کے ساتھ اتحادی حکومت ہے، لیکن کوئی ضمانت نہیں کہ اس طرح کا کوئی اتحاد انتخابات میں فتح یاب ہو سکتا ہے۔

لیکن بورژوازی نے ایسا کوئی دباؤ نہیں ڈالا۔ کیوں؟ اس کی وجہ شدید سیاسی بحران ہے جس پر وقت سے انتخابات امن قائم کرنے کے برعکس جلتی پر تیل کا کام دے سکتے ہیں۔ واقعی، آنے والے مہینوں میں نئے انتخابات کے نتیجے میں کس قسم کی پارلیمانی اکثریت ہو گی؟

میکرون کی LREM (لا ری پبلیک این مارش) کو درپیش شدید مسائل اور روایتی اعتدال پسند دائیں بازو پارٹی ری پبلیکنز کی ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں ان دو پارٹیوں کا اتحاد ناممکن نظر آ رہا ہے۔ LREM اور NUPES (مرکزی بائیں بازو کا اتحاد) کے درمیان اتحاد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک بائیں بازو کے اتحاد میں FI (فرانس انسومی) حاوی ہے۔ اور کیونکہ FI حاوی ہے اس لئے حکمران طبقہ NUPES کی کامل اکثریت کے بالکل حق میں نہیں ہے کیونکہ اسے فوری طور پر شدید رد اصلاحات درکار ہیں اور ان اقدامات کے لئے NUPES پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

ایک امکان لی پین کی نیشنل ریلی کے ساتھ اتحادی حکومت ہے۔۔۔موجودہ اطالوی حکومت کی طرز پر ایک اتحادی حکومت۔ لیکن کوئی ضمانت نہیں کہ اس طرح کا کوئی اتحاد انتخابات میں فتح یاب ہو سکتا ہے جبکہ یہ اتحاد نوجوانوں اور محنت کشوں میں آگ لگا سکتا ہے۔

مختصر یہ کہ ”سیاسی ردوبدل“، جب دایاں بازو اور ”بایاں بازو“ باریاں لگا کر حکومت کیا کرتے تھے، کا زمانہ ختم ہو چکا ہے اور اب یہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔ سرمایہ داری کے عمیق بحران نے اس نظم کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ حتمی تجزیے میں فرانسیسی سرمایہ داری کی حکومت کا بحران معاشی اور سماجی نظام کے گہرے بحران کا اظہار ہے۔ اور یہ بحران ابھی مزید بڑھے گا۔

انقلابی متبادل

ہمارے طبقاتی نکتہ نظر سے حتمی نتیجہ واضح ہے۔۔۔معاشی اور سماجی بحران کا خاتمہ کرنے کے لئے لازم ہے کہ محنت کش اقتدار پر قبضہ کریں، بڑی بورژوازی کی نجی ملکیت کو ریاستی تحویل میں لیں اور سوشلسٹ بنیادوں پر سماج کو ازسرنو منظم کریں، یعنی پیداواری قوتوں کو جمہوری منصوبہ بندی کے تحت منظم کریں۔

 

کوئی بھی اور متبادل ایک دھوکہ ایک فریب ہے۔ نوجوانوں اور محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اسی نتیجے پر پہنچ رہی ہے اگرچہ وہ ابھی واضح نہیں ہیں کہ اس کا راستہ اور طریقہ کار کیا ہو گا۔

بدقسمتی سے بائیں بازو اور ٹریڈ یونین تحریک کے قائدین اس سلسلے میں کوئی رہنمائی نہیں کر رہے جو ہٹ دھرمی سے تاریخی طور پر متروک اصلاح پسندی سے چمٹے ہوئے ہیں اور ہر سنتے کان کو بتانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ”انسانی اقدار“ کے ساتھ سرمایہ داری ممکن ہے۔۔۔ایسے وقت میں جب یہ نظام عمومی طور پر انسانیت کو بربریت میں دھکیلنے کے درپے ہے۔

فرانس اور پوری دنیا کی موجودہ صورتحال میں یہ مرکزی تضاد ہے۔ اس حوالے سے ٹراٹسکی نے 1938ء میں اپنے ”عبوری پروگرام“ کے آغاز میں لکھا تھا کہ:

”سب سے بڑھ کر عالمی سیاسی صورتحال کا مجموعی خاصہ پرولتاریہ کی قیادت کا تاریخی بحران ہے“۔

صوفی بینیت کا نام نہاد ’’نظریہ‘‘

محنت کش تحریک میں قیادت کی جانب سے انتشار کے بیج کیسے بوئے جا رہے ہیں، اس کے لئے CGT کی نومنتخب جنرل سیکرٹری صوفی بینیت کا 10 مئی کو میڈیا پاٹ کو دیا گیا انٹرویو ہی کافی ہے۔ توقعات کے عین مطابق اس نے سرمایہ داری کے خاتمے پر کوئی بات نہیں کی۔ لیکن حالیہ مہینوں میں بڑے تحرک پر اس کی باتیں قابل غور ہیں۔

Sophie Binet Image La CGT Twitter

صوفی بینیت سرمایہ داری کے خاتمے کے امکان کو رد کر رہی ہے۔

صحافی نے سوال کیا کہ CGT نے قومی سطح پر اجرتوں کے سلگتے سوال پر کوئی تحریک منظم کیوں نہیں کی ہے۔ بینیت نے جواب دیا کہ:

”پنشنوں اور اجرتوں میں کوئی مماثلت نہیں ہے۔ اجرتوں پر سب سے پہلے مالک سے واسطہ پڑتا ہے اس لئے کاروباروں، کام کی جگہوں پر تحریکیں براہ راست اجرتوں پر مذاکرات سے منسلک ہیں۔ لیکن اجرتوں پر ایک قومی کثیر سیکٹر تحریک بہت نایاب ہے اور شاذونادر ہی دیکھنے کو ملتی ہے“۔

بینیت اپنی قدامت پرستی کو ایک ”نظریے“ کے لبادے میں لپیٹ رہی ہے۔ لیکن اجرتوں اور پنشنوں میں یہ ”بڑا فرق“ ایک بیہودہ بیوروکریٹک بکواس ہے۔ ہم جنوری سے وضاحت کر رہے ہیں کہ جدوجہد کو پنشن کے تنہا سوال تک محدود کر کے، ایک ایسے وقت میں جب افراط زر۔۔۔دیگر مسائل سمیت۔۔۔تمام محنت کشوں پر تباہ کن اثرات ڈال رہی ہے، محنت کش تحریک کے قائدین جدوجہد کے امکانات کو محدود کر رہے ہیں۔

درحقیقت کئی کام کی جگہوں اور سیکٹروں میں محنت کشوں نے پنشن اصلاحات کے خلاف جدوجہد سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اجرتوں اور کام کے حالات پر بھی ہڑتالیں کی ہیں۔ اس کی مثال خاص طور پر ورٹ باوڈیٹ کپڑا ساز کمپنی کے محنت کشوں کی ہڑتال ہے۔ ہٹ دھرم منیجمنٹ اور پولیس کی جانب سے ہراسانی کے باوجود ان کی دلیری اور ثابت قدمی نے عوام کی وسیع پرتوں میں پذیرائی اور یکجہتی حاصل کی ہے۔ ہماری طرف سے بینیت کے تجریدی استدلال کا یہ بہترین جواب ہے۔

CGT کی جنرل سیکرٹری جو بھی سوچے سمجھے، پنشنوں اور اجرت سمیت استحصال زدہ اور جبر کی شکار عوام کو درپیش ہر سلگتے مسئلے نے دیوہیکل ملک گیر جدوجہد کو یقینی بنا دیا ہے۔ ہمیں اس کی تیاری میں تمام قدامت پرست بحثوں کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دینا ہے جو جدوجہد کے طریقہ کار اور وسعت کو محدود کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

سب سے اہم یہ ہے کہ ہمارا طبقہ اسی وقت فتح یاب ہو سکتا ہے جب اس ملک کو چلانے والی مٹھی بھر جونکوں کی نجی ملکیت کو قومی تحویل میں لے کر سماج کو سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کیا جائے گا۔

Comments are closed.