|تحریر: جیروم میٹیلس،ترجمہ: اختر منیر|
پیلی واسکٹ والوں کی تحریک ایک غیر معمولی نوعیت کا سماجی زلزلہ ہے۔ یہ فرانس کی طبقاتی جدوجہد کی تاریخ کا ایک اہم موڑ ہے اور اس کے علاوہ پوری دنیا کے محنت کشوں کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔ اس سے ملکی سیاست پر اہم اور دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔
لاکھوں مظلوم اور مجبور لوگ جو 17 نومبر کو سڑکوں پر نکل آئے تھے، ان میں سے بہت سے لوگوں نے زندگی میں پہلی مرتبہ ایسا کیا تھا۔ یہ محنت کشوں کی سب سے منظم پرتوں کی تحریک نہیں تھی۔ یہ صرف محنت کشوں کی تحریک بھی نہیں تھی۔ ان میں دستکار، چھوٹے کسان، ریٹائر ہونے والے بزرگ شہری، وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس کے نتیجے میں یہ تحریک سیاسی طور پر کثیر جہتی تھی۔ پیلی واسکٹ والوں کے کچھ ناقدین ایک ’’خالص سماجی انقلاب‘‘ دیکھنے کے خواہاں ہیں لیکن لینن کے الفاظ میں ایسے افراد’’انقلاب کو سمجھے بغیر محض اس کی باتیں کرتے ہیں‘‘۔ اپنی تعریف میں ہی ایک انقلاب سماج کی گہری ترین پرتوں کو تحرک دیتا ہے۔ چوراہوں اور مظاہروں میں بہت سی خواتین کی موجودگی اس بات کا واضح اظہار ہے۔
آر۔آئی۔سی اور ’’اقتدار عوام کا‘‘
عوام کی مرضی سے ہونے والا ریفرنڈم (آر آئی سی) پیلی واسکٹ والوں کا بنیادی سیاسی مطالبہ بن کر ابھرا ہے۔ اس کا ایک واضح اصول ہے کہ اگر کافی تعداد میں شہری مطالبہ کریں تو عوامی دلچسپی کے کسی بھی معاملے پر ریفرنڈم کرایا جاتا ہے (قانون، آئین، منتخب شدہ نمائندوں کی برطرفی، وغیرہ)۔
اس مطالبے کی مقبولیت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ لوگ سرمایہ دارانہ جمہوریت کے اداروں پر بھروسہ نہیں کرتے۔ دہائیوں سے ’’دایاں بازو! اوربایاں بازو‘‘ حکومت میں اپنی باریاں لے رہے ہیں اور مسلسل ایک ہی رجعتی پالیسی پر چلتے آ رہے ہیں۔ پارلیمان میں عوام کے نمائندوں کی اکثریت چند سو سرمایہ دار خاندانوں کے فائدے میں اپنی لوٹ مار قائم رکھے ہوئے ہے۔
سرمایہ داری کے بحران کی وجہ سے بورژوا جمہوریت کی مادی بنیادیں کمزور پڑ چکی ہیں۔ پانچویں جمہوریہ کے ادارے محض ایسی مشینیں دکھائی دیتے ہیں جن کا کام لوگوں کو خوش فہمی میں رکھنا ہے کہ ’’اکثریت فیصلے کرتی ہے‘‘، جبکہ حقیقت میں ایک چھوٹی سی اقلیت ہر چیز پر قابض ہے اور فیصلے بھی وہی کرتی ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو آر آئی سی کو ملک کے معاملات میں عوام کی براہِ راست مداخلت کے طور پر لیا جا رہا ہے۔ ایک ایسا راستہ جس کے ذریعے عوام ’’جمہوری‘‘اداروں کو پھلانگتے ہوئے اپنی مرضی نافذ کروا سکتے ہیں۔ اس لحاظ سے آر آئی سی کا مطالبہ ممکنہ طور پر ایک انقلابی محرک رکھتا ہے۔ پیلی واسکٹ والوں نے اس مطالبے کے ساتھ براہِ راست ایک اور نعرہ جوڑا ہے: ’’اقتدار عوام کا‘‘اور یہ اس سے آگے تمام سماجی مطالبات کے ساتھ جڑا ہے (اجرتیں، پینشن، وغیرہ)۔
بورژوا سیاستدان یہ سمجھ چکے ہیں، اس لیے انہوں نے آر آئی سی کو لے کر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ مثال کے طور پر یہ بات واضح ہے کہ ریفرنڈم کا اختیار میکرون کی صدارت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتا ہے، اس بات سے باخبر مخالفین ’’اداروں کے استحکام‘‘ کی بھونڈی دلیل پیش کرتے ہیں۔ عوام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ مئی 2022ء تک میکرون کے ہاتھوں لٹتے رہیں جب تک اس کا دور حکومت ختم نہیں ہو جاتا۔
بہرحال یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ تمام بورژوا سیاستدان آر آئی سی کو مکمل طور پر مسترد نہیں کر رہے، کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ اس نظام کو بآسانی حکمران طبقے کی طاقت اور مفادات کے لیے بے ضرر بنا سکتے ہیں۔ آخر کئی سرمایہ دارانہ جمہوریتوں میں ایسا نظام رائج ہے، جیسا کہ اٹلی اور سوئٹزرلینڈ، جہاں ریفرنڈم کروائے جانے کے امکان سے سرمایہ دار طبقے کی معاشی اور سیاسی گرفت پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ چنانچہ اس امکان کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ پیلی واسکٹ والوں کو کمزور کرنے کے لیے حکومت ریفرنڈم کے اختیار کا مطالبہ تسلیم کر لے جو ایک خاص حد میں رہ کر ہو جس سے نظام کے ’’استحکام‘‘پر کوئی اثر نہ پڑے۔
محنت کشوں کی جمہوریت
مزدور تحریک کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ یہ خطرہ موجود ہے کہ ہمارے طبقاتی دشمن آر آئی سی کو تسلیم کرتے ہوئے اسے پانچویں جمہوریہ کے ’’جمہوری نظام‘‘ میں محض ایک چھوٹی سی تبدیلی کے طور پر’’بے ضرر‘‘ بنا سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دارانہ حکومت کے سارے نظام کو توڑ کر اسے محنت کشوں کے جمہوری اداروں سے تبدیل کیا جائے، جو مقامی اور قومی سطح پر منتخب شدہ نمائندوں پر مشتمل ہوں جنہیں جب چاہے واپس بلایا جا سکے۔ سرمایہ داروں کے ساتھ اقتدار بانٹا نہیں جاسکتا (’’ان کے لیے بورژوا ادارے، ہمارے لیے آر آئی سی‘‘)، اسے مکمل طور پر ان سے چھیننا ہو گا۔ بے شک آر آئی سی کا مطالبہ ترقی پسند ہے، جیسا کہ پیلی واسکٹ والے دلیل دیتے ہیں، مگر’’اقتدار عوام کا‘‘ محض محنت کشوں کی حکومت کی صورت میں ہی ممکن ہے، جس کی بنیادیں فیکٹریوں، گلی محلوں، سرکاری اداروں، وغیرہ میں ہوں۔ یہ ادارے آسمان سے نہیں ٹپکیں گے بلکہ جدوجہد سے جنم لیں گے۔ ایسے اداروں کی عدم موجودگی پیلی واسکٹ والوں کی ایک سب سے بڑی کمزوری بھی ہے۔
ایک حقیقی محنت کشوں کی جمہوریت میں ذرائع پیداوار کی ملکیت پیدا کرنے والوں کے ہاتھوں میں ہوتی ہے، محنت کش طبقے کے ہاتھوں میں۔ جب تک مٹھی بھر جونکیں بینکوں اور بڑے پیداواری اداروں کے مالک ہیں ایک حقیقی ’’جمہوریت‘‘ کبھی نہیں آ سکتی۔ سرمایہ داری میں جمہوریت کمپنیوں کی دہلیز نہیں پھلانگ سکتی جہاں مالکان اور شیئر ہولڈرز کی آمریت چلتی ہے۔ اس کے برعکس سوشلزم میں پیداوار پر محنت کشوں کا اپنا جمہوری کنٹرول ہوتا ہے، مقامی اور ملکی سطح پر، جس سے معاشی منصوبہ بندی ممکن ہوتی ہے اور اس طرح اکثریت کی ضرورت کے مطابق نظام چلایا جاسکتا ہے۔
پیلی واسکٹ والوں کی جمہوری اور سماجی مانگیں ایک سوشلسٹ انقلاب کے بغیر حاصل کرنا ناممکن ہے۔ اس مرحلے پر بہت سے لوگ اس خیال سے ناواقف ہیں، مگر تجربہ بہترین استاد ہوا کرتا ہے۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ
پچھلے کچھ ہفتوں سے تحریک کا غالب سیاسی رجحان واضح ہوا ہے: غریبوں سے ٹیکس لیے جانے کے خلاف، امیروں سے ٹیکس لینے کی حمایت میں، بہتر اجرتوں کی مانگیں، پینشنوں میں اضافے کی مانگیں، بہتر سماجی سہولیات اور بالآخر ’’امیروں کی حکومت‘‘ کے خلاف اور’’عوام کے اقتدار‘‘ کی حمایت میں۔ آر آئی سی کا مطالبہ عوام کی اپنی تقدیر اپنے ہاتھوں میں لینے کی خواہش کا فوری اظہار ہے۔ مشترکہ جدوجہد کی بھٹی میں ان کا شعور پک کر تیار ہو رہا ہے اور یہ محض شروعات ہے۔
بائیں بازو کی طرف جھکاؤ سے تمام رجعتی قوتوں کا عناد نظر آ رہا ہے، جن میں بائیں بازو اور انتہا پسند بائیں بازو کے سیاستدان بھی شامل ہیں، جنہوں نے شروع میں پیلی واسکٹ والوں کی بادلِ نخواستہ آدھی ادھوری’’حمایت‘‘ کی تھی۔ لارن واقوی (ریپبلکنز کے صدر) نے فوری طور پر اپنی پیلی واسکٹ اتار دی اور اس بات سے انکار ہی کر دیا کہ اس نے یہ کبھی پہنی بھی تھی۔ میرین لی پین چھپتی پھر رہی ہے، جو وہ عوامی جدوجہد کی صورت میں ہمیشہ کرتی ہے۔ اس کے برعکس بائیں بازو اور مزدور تحریک کے بہترین کارکنان نے پیلی واسکٹ والوں کی پہلے سے بڑھ کر پرجوش حمایت کی ہے۔ یہی بات فرانس انسومائس پر صادق آتی ہے جو اپنی تمام تر خامیوں کے باوجود تحریک کے ساتھ جڑی سب سے بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔ مستقبل میں اس کے اہم سیاسی نتائج برآمد ہوں گے۔
بورژوازی کا تناظر
ہم آنے والے ہفتوں میں تحریک کے ارتقاء کی پیش گوئی نہیں کر سکتے۔ ممکن ہے کہ جنوری کے مہینے میں یہ مزید آگے بڑھے۔ کچھ بھی ہو اس طرح کی وسیع تحریک سماجی استحکام کے دو ادوار کے درمیان ایک مختصر سا وقفہ تو نہیں ہو سکتی۔ اس کے برعکس یہ ایک نئے طبقاتی جدوجہد کے دور کا آغاز ہے۔
سرمایہ دار طبقہ اس بات سے آگاہ ہے۔ لی فگارو جریدے نے دو جنوری کو اس پر سوچ بچار کی:’’کیا میکرون 2019ء میں اپنی اصلاحات برقرار رکھ پائے گا؟‘‘ایک بہت اچھا سوال جس کا جواب ایک ماہرِ سیاسیات جیروم سینٹ میری نے اس طرح دیا:
’’کوئی بھی لبرل اصلاح جس کے بدلے ]عوام کی[قربانی درکار ہو، تحریکوں کے دوبارہ آغاز کا باعث بن سکتی ہے۔ آنے والے مہینوں میں میکرون کو مسلسل مزاحمت کی لٹکتی تلوار کے نیچے حکومت کرنی پڑے گی۔‘‘
یہ بالکل درست ہے۔ 2019ء میں حکومت کا (بہت سی اور چیزوں کے ساتھ) پینشنوں، بے روزگاری الاؤنس اور سماجی سہولیات پر حملے کرنے کا ارادہ ہے۔ ان میں سے کوئی بھی حملہ سماجی آگ کو پھر سے ہوا دے سکتا ہے۔ کیونکہ اس سب کا مطلب بڑے سرمایہ داروں کے منافعوں کے لیے عوام کی قربانی دینا ہے۔
کچھ ماہرین کے مطابق میکرون کو فی الحال ردِ اصلاحات کا عمل’’روک‘‘ دینا چاہیے اور یہاں تک کہ ایک’’تبدیلی کا آغاز‘‘ بھی گھڑ لینا چاہیے۔ لیکن فرانسیسی سرمایہ داروں کے لیے اس بات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ وہ محنت کشوں کی طرف سے حاصل کی گئی اصلاحات کو تباہ کرنے میں ایک لمحے کی تاخیر بھی برداشت نہیں کر سکتے، کیونکہ انہیں فرانسیسی سرمایہ داری کی پیداواریت کو بحال کرنا ہے جو کئی دہائیوں سے تمام منڈیوں کے لحاظ سے گرتی چلی جا رہی ہے (عالمی یورپی اور قومی منڈی میں بھی)۔ دوسرے لفظوں میں سرمایہ دار نئے سماجی دھماکوں سے خوفزدہ ہونے کے باوجود خطرہ اٹھانے کے لیے مجبور ہیں اور اس کام کے لیے ان کے پاس فی الحال میکرون حکومت کا کوئی متبادل موجود نہیں ۔ سرمایہ داروں کے پاس اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ وقت سے پہلے انتخابات کروانے سے ایک مضبوط دائیں بازو کی حکومت قائم ہو گی۔ یہی وجہ ہے کہ آنے والے مہینوں میں انہیں میکرون کے تکبر اور عوام کو غصہ دلانے والے نفرت انگیز لہجے کے باوجود، بہتری کی امید میں، اس کو ہی برداشت کرنا پڑے گا۔
ٹریڈ یونین تحریک
سرمایہ دار طبقہ ٹریڈ یونین لیڈران کی بیچ بچاؤ کروانے کی صلاحیت پر بھی انحصار کررہا ہے۔ انہیں اس بات کا دکھ ہے کہ پیلی واسکٹ والوں کی تحریک ’’سمجھدار‘‘ لیڈروں کے زیر سایہ نہیں ہے، جو’’مذاکرات‘‘ اور ’’سمجھوتا‘‘ کرنے کے لیے تیار ہوں اور جو خود کو وقتاً فوقتاً محض بے ضرر’’عمل کے دنوں‘‘ تک ہی محدود رکھیں۔ 12 دسمبر کے دن لیف فگارو میں یہ مہربان الفاظ پڑھنے کو ملے:
’’ایک صدی تک سی جی ٹی نے عوامی غصے کو ایک راستہ فراہم کیا۔’’پیلی واسکٹ والوں‘‘ کے بحران سے واضح ہوا ہے ان کا یہ کام کتنا اہم تھا اور کس طرح ٹریڈ یونین کا عمومی بحران خرابی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘
درحقیقت ٹریڈ یونین قیادت کا پیلی واسکٹ والوں کی تحریک پر کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ لارن برجر (CFDT) نے کھلم کھلا ان کی بے عزتی کی۔ اپنے اندرونی بحران سے پریشان ایف او کی انتظامیہ نے دور رہنا ہی مناسب سمجھا۔ جہاں تک سی جی ٹی کا تعلق ہے وہ اپنا فرض نبھانے میں مکمل طور پر ناکام رہی، اس کا کام یہ تھا کہ پیلی واسکٹ والوں کے تحرک سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محنت کشوں کی عمومی تحریک کے مقاصد سامنے رکھ کر ہڑتالوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جاتا۔ اس کی بجائے مارٹینیز نے خود کو پیلی واسکٹ والوں سے دور ہی رکھا۔ کچھ ’’عمل کے دنوں‘‘کا اعلان کیا جس کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور بالآخر اس نے ’’مذاکرات‘‘ کو ’’پرامن‘‘ انداز میں آگے بڑھانے کے لیے حکومتی ایوانوں کو اپنی خدمات پیش کر دیں۔
مارٹینیز کے اس رویے کو سی جی ٹی کے اندر سے کافی تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جہاں بہت سے کارکنان نہ صرف پیلی واسکٹ والوں کی حمایت کی ضرورت کو سمجھتے ہیں بلکہ اس حقیقت سے بھی آشنا ہیں کہ میکرون حکومت کی تمام پالیسیوں سے لڑنے کے لیے اس تحریک کی طاقت کتنی اہم ہے۔ آنے والے مہینوں میں سی جی ٹی کے اندر سے ہونے والی مخالفت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ خاص طور پر مئی میں ہونے والی سالانہ کانگرنس کے دوران اس کا کافی امکان موجود ہے۔
مگر مستقبل قریب میں بائیں بازو اور ٹریڈ یونین تحریک کو سیاسی صورتحال سے عملی اسباق حاصل کرنا ہوں گے۔ میکرون کی حکومت دیوار سے لگ چکی ہے۔ ہم یہاں سے آگے بڑھ سکتے ہیں اور ہمیں آگے بڑھنا چاہیے۔ اگر پیلی واسکٹ والوں کی تحریک وہی قوت دوبارہ حاصل کر لیتی ہے جو اسے دسمبر میں حاصل تھی، تو ممکن ہے کہ میکرون کو قومی اسمبلی تحلیل کرنا پڑے۔ لیکن مزدور تحریک کو ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اس کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ ہمیں آگے بڑھ کر حملہ کرنا چاہیے۔ اس بار ہم نے یہ نہیں کہنا کہ’’محنت کش لڑنا نہیں چاہتے!‘‘ پیلی واسکٹ والوں نے اس دلیل کو دفنا دیا ہے۔ مسئلہ عوام کی لڑنے کی خواہش کا نہیں ہے بلکہ مسئلہ ٹریڈ یونین قیادت کی قدامت پسندی کا ہے۔ صرف چند ہفتوں میں ہی پیلی واسکٹ والوں نے حکومت سے وہ مراعات حاصل کر لی ہیں جو پچھلے بیس سالوں کے دوران لاتعداد’’عمل کے دنوں‘‘ سے بھی حاصل نہیں ہو پائیں۔
سب سے پہلے نہ صرف یونینز میں بلکہ بائیں بازو کی سیاسی تنظیموں میں بھی ہڑتالوں کی مہم کا سوال اٹھایا جانا چاہیے۔ کارخانوں میں، گلی محلوں میں، یونیورسٹیوں میں، ہائی سکولوں میں اور یقیناً پیلی واسکٹ والوں کے اکٹھوں کی شکل میں ایک وسیع احتجاجی تحریک کی ضرورت ہے۔ مختصر یہ کہ سنجیدگی سے ہڑتالوں کی تیاری کی جانی چاہیے۔ پیلی واسکٹ والوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ میکرون جتنا دکھاوا کرتا ہے اس سے کہیں زیادہ کمزور ہے۔ ہڑتالوں کا ایک سلسلہ اس کی حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوسکتا ہے۔