تحریر: |جیروم میٹلس ۔ پیرس|
ترجمہ: |اسدپتافی|
انگریزی میں پڑھنے کے لئے یہاں کلک کریں
لیبر قانون کے خلاف جدوجہد ایک نئے اور فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ لا متناہی ہڑتالیں، معیشت کے کئی اہم حصوں میں تعطل نے تحریک کی جہتوں کو بدل دیا ہے۔ ہر چیز کی رفتار بڑھتی جا رہی ہے۔ گذشتہ دو ماہ میں ’’احتجاج کے دنوں‘‘ (Days of Action)کے سلسلوں کے بعد (جس کا جواب حکومت نے پولیس تشدد اور 49-3 کے ذریعے دیا جو قانون کی ایک خاص شق ہے ،جو حکومت کو پارلیمنٹ اور حکم نامہ جاری کرنے والے قوانین کو نظر انداز کرنے کی اجازت دیتا ہے) تحریک نے اس کا منطقی نتیجہ معیشت کوہی مفلوج کر دینے کی صورت میں لیا ہے۔ فتح کے لیے یہی واحد راستہ ہے۔
2010ء کے خزاں میں چلنے والی ہڑتالی تحریک کی طرح، ٹرانسپورٹ اور آئل سیکٹر کے مزدور اگلی صفوں میں موجود ہیں۔ حکومت نے فوری طور پر فسادات سے نبٹنے والی پولیس کو متحرک کیا تاکہ وہ آئل ڈپو سے تیل کی بندش کو ختم کریں۔ لیکن ریفائنریز کے مزدوروں کی اکثریت نے پیداوار کو منجمد کرنے کے لئے ووٹ کر دیا۔ حکومت کے حساب سے مزدوروں کے عزم اور اجتماعی عمل کے آگے پولیس تشدد الٹے نتائج پیداکر رہا ہے ۔ در حقیقت، اس سے جدوجہد مزید تیز ہوئی ہے۔ لیون کے قریب واقع فیزن میں ٹوٹل کی آئل ریفائنری کی بندش کے موقعے پر(CGT) ٹوٹل کے مزدور ایرک سیلینی نے AFPکو بتایا کہ ’’ مزدور پہلے سے کہیں زیادہ متحرک ہیں، یہاں تک کہ وہ مزدور بھی جو ابتداء میں ہچکچا رہے تھے، ہم تحریک میں ایک اہم موڑ مڑ چکے ہیں‘‘۔
2010ء خزاں کے اسباق
انٹر سینڈیکیٹ یونینز (CGT, Solidaires, FO, FSU, UNEF, UNL, LDIFs) نے 26مئی اور 14 جون کوملکی سطح پر ایک نئے ’’احتجاج کے دن ‘‘ کی کال دی ہوئی ہے ۔ لیکن یہ احتجاج کے دن صرف اسی صورت میں قابل غور ہو سکتے ہیں کہ جب ان کا براہ راست تعلق پہلے جاری ہڑتالی تحریک سے بن سکے، یعنی اگر ان کا مقصد اس تحریک کا ساتھ دینا اور اسے آگے بڑھانا ہو ۔ تحریک ایک روزہ ہڑتالوں کی سطح سے آگے نکل چکی ہے، یہ ان کے اپنے اندر بھی واضح ہو چکا ہے، وہ حکومت کو واپس نیچے نہیں آنے دیں گے۔ غیر معینہ مدت کی ہڑتالیں اب لڑائی کا محوربن چکی ہیں۔ اب صرف دو راستے ہیں: یا تو ہڑتال بڑھے اور نئے شعبوں تک پھیل جائے، یا پھر تحریک کو شکست ہو جائے گی۔
2010 ء کے خزاں میں پینشنز پر ہونے والے حکومتی حملے کے خلاف پہلے سے جاری ہڑتال کئی اہم ترین شعبوں میں پھیل گئی جس میں ریفائنریز، بندرگاہیں،عوامی اور روڈ ٹرانسپورٹ اور کچرا اکٹھا کرنے والے مزدوروں سمیت کئی دیگر ادارے بھی شامل ہو گئے تھے۔ اپنے عروج پر ان ہڑتالوں نے معیشت پر کافی اثر ات مرتب کئے لیکن بالآخر یہ جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکیں۔ مثال کے طور پر پبلک ٹرانسپورٹ محض جزوی طورپرہی بند ہو پائی تھی۔ یونین فیڈریشن کی قیادتیں جن میں CGT کا برنارڈ تھیباؤلٹ بھی شامل تھا، انہوں نے تحریک کو لا محدود ہڑتالی تحریک تک پھیلانے کی کال نہیں دی تھی۔ انہوں نے محض چند دنوں پر مشتمل ’’ احتجاج کے دنوں‘‘ کی کال تھی (جو کہ کل چودہ تھے)۔ تین مواقعوں 12,16 اور 19 اکتوبر کو تیس سے پینتس لاکھ لوگ سڑکوں پر آئے تھے۔ لیکن حکومت نے ہار نہیں مانی تھی۔ تنہا ہونے کی وجہ سے ہڑتالی مزدور واپس کام پر چلے گئے تھے۔پینشن کے خلاف ہونے والی ردِ اصلاح کو اپنا لیا گیا۔
2010 ء کے بعد، سرمایہ دارانہ نظام کے بحران کے اثرات اور کٹوتیوں کی پالیسیوں نے دھماکہ خیز صورتحال پیدا کر دی ہے۔ پچھلے چھ سالو ں میں پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ اس کا واضح اظہار نوجوانوں کے متحرک ہونے اور Nuit Debout کی تحریک میں ملتا ہے۔ اسی وجہ سے موجودہ تحریک کی صلاحیت 2010 ء کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ لیکن 2010 ء کی طرح ہی اس کی کمزوری ٹریڈیونین قیادت کا رویہ اور لائحہ عمل ہے۔
ٹریڈ یونین کے کارکنوں کا دباؤ
مزدور تحریک میں سی جی ٹیCGTکی پوزیشن کے باعث، اس کا رویہ فیصلہ کن اہمیت کا حامل ہے۔ پچھلے اپریل کے وسط میں ہونے والی اس کی کانگریس کے مندوبین نے اپنی قیادت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانس میں چل رہی تحریکوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرے۔’’ڈے آف ایکشن‘‘ کے موجودہ طریق کار کوبار بار تنقید کا نشانہ بنایا گیاہے۔ نیچے سے روزبروزکے اس بڑھتے ہوئے دباؤ کو محسوس کرتے ہوئے قیادت نے فیصلہ کیا کہ کام کی جگہوں پر جا کر ورکروں کے ساتھ میٹنگز کی جائیں اور ان سے فیصلہ لیا جائے کہ وہ اپنے مطالبات کی روشنی میں کیا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی تحریک میں اکائی اور سانجھ کے حوالے سے بھی بات کی جائے اور یہ بھی کہ تحریک کو کیسے آگے لے جا یا جائے!تا وقتیکہ مسلط کردہ لیبر قوانین کو واپس لے لیا جائے، اس کے ساتھ ساتھ عمومی سماجی ترقی پر گفت و شنید کی راہ بھی ہموار کی جائے۔’’لا پروونس ‘‘ نامی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے،فلپ مارٹینیز نے کہا’’ ہمارے سامنے ہر قسم کی جدوجہد کے راستے کھُلے ہیں۔ان میں غیر معینہ مدت کی ہڑتال بھی شامل ہے۔ لیکن اس کا دارومدار ورکروں کی عمومی میٹنگ پر ہے اور اس کیلئے عوامی اسمبلیوں کی تشکیل پہلا قدم ہے‘‘۔
بلاشبہ کسی بھی ادارے کے ورکروں کی عمومی اور اجتماعی رضامندی اور تیاری کے بغیرایک سنجیدہ غیر معینہ مدت کی ہڑتال ممکن نہیں ہوسکتی۔ عوامی اسمبلیوں کا قیام بھی بالکل درست ہے۔ ٹریڈیونینوں کے سرگرم کارکن اس کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں۔ جس بات کی ان کارکنوں کو شدید ضرورت ہے وہ مرکزی قیادت کااس حوالے سے ٹھوس اور جارحانہ طرزِعمل ہے۔ جب کسی ادارے میں ورکروں کی عوامی اسمبلی بلائی جاتی ہے تو ورکروں کو سی جی ٹی سے اور خاص طور پر اس کی مرکزی قیادت سے بجاطور پر یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مرحلے پر ورکروں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ یہی نہیں بلکہ سی جی ٹی زیادہ سے زیادہ اداروں کے ورکروں کو متحرک کرنے، ان کو حوصلہ اور رہنمائی دینے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑے گی۔
جس لیبر قانون کا اس وقت ورکروں سے مقابلہ ہے، اس کیلیے غیر معینہ ہڑتال، مارٹینیز کے الفاظ میں، جدوجہد کے کئی طریقوں میں سے ایک طریقہ نہیں، بلکہ یہ موجودہ کیفیت میں اپنے ہدف کے حصول کیلئے واحد طریقہ ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جسے توانائی کے ساتھ سی جی ٹی کی قیادت کو نیچے ورکروں تک پہنچاناہے۔اس توانا پیغام کی غیر موجودگی میں ہر ادارے کے ورکرز ایک دوسرے کی طرف دیکھیں گے۔ اور اگر انہوں نے یہ دیکھا اور محسوس کرلیا کہ اس پر مرکزی قیادت متذبذب اور گریزپا ہے تووہ یہی کہیں گے اور کریں گے کہ ہم تنہا کیونکر ہڑتال کا رسک لیں؟
سی جی ٹی کی کانگریس کے دوران نیچے سے دباؤ مسلسل بڑھتا رہا، خاص طور پر پچھلی ہڑتالوں کے موقعوں پر تو یہ دباؤ اور بھی شدید ہوتا گیا۔20مئی کو ویلنیسینز کے نزدیک ہونے والی ایک ہڑتال میں جب مارٹینیز شریک ہونے آیاتوورکرز عام ہڑتال عام ہڑتال کے نعرے لگا رہے تھے۔مارٹینیز نے اس موقع پر کہا کہ ہڑتال پھیل رہی ہے،چار ریفائنریوں میں ورکرز ہڑتال پر جا چکے ہیں۔ہم کہتے ہیں کہ ہڑتال مزید پھیلے، دھات کی صنعت میں بھی اور ریٹیلز کے شعبے میں بھی۔ایسا ہی مرکزی قیادت کو کہنا اور کرنا چاہیے۔اور یہ سب صرف ہڑتالی ورکروں کے سامنے ہی نہیں بلکہ منظم طریقے سے میڈیا کے سامنے بھی کہا جائے کہ سی جی ٹی ایک مرکزی ہڑتال اور احتجاج کیلئے تیار ہے، یہی نہیں بلکہ اس کیلئے موثراور مربوط حکمت عملی بھی تیار کی جائے۔
کھونے کے لئے کوئی وقت نہیں
اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک غیر معینہ ہڑتال تقاضا کرتی ہوتی ہے کہ اسے تیزی اور وسعت دی جائے۔ اس مقام پر ہر دن اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے، کوئی بھی ریفائنریز اور ٹرانسپورٹ کے ورکروں کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ باقی اداروں کے ورکروں کے شامل ہونے تک ہڑتال میں لگے رہیں۔ ’’انٹرسنڈیکیل‘‘ کی جانب سے26مئی کو ہونے والا ’’ڈے آف ایکشن‘‘ ہڑتالوں کی تحریک کو وسعت اور تقویت دینے میں اہم کردار ادا کر سکتاہے۔ لیکن14جون کو اعلان کئے جانے والے’’ڈے آف ایکشن‘‘ کے بارے کیا خیال ہے؟جو تین ہفتوں بعد ہوناہے۔ تب تک یا تو تحریک دیگر اداروں تک پھیل جائے گی یا پھر یہ بیٹھ جائے گی۔ آخری بات اس لئے زیادہ ممکن ہے کہ ایسا ہی 2010ء میں پہلے ہو چکا ہے۔
14جون کے حوالے اعلان کرتے ہوئے انٹرسنڈیکیل نے 20مئی کو یہ کہا ہے کہ تنظیموں نے اس دن ہڑتال کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ اس دن پیرس میں سینیٹ اس قانون پر بحث کرے گی۔ اس دن ہم مختلف صورتوں میں احتجاج کریں گے۔ مختلف صورتوں میں احتجاج کا نظریہ ایک تشویشناک امر ہے۔ جبکہ ایک کھُلی غیر معینہ عام ہڑتال ہی اس وقت واحد موثر ہتھیار اور طریق کار ہے۔ انٹرسنڈیکیل کو چاہیے کہ وہ اپنی تمام تر قوت اور توانائی کو اس ایک نکتے پر متحرک اور مرتکز کرے۔کوئی بھی وقت ضائع کئے بغیر دھات اور ریٹیلز کے شعبوں کو اس عمل میں شریک کیا جائے، جیسا کہ مارٹینیز نے کہا بھی ہے۔ ہمیں سب سے پرجوش اور سب سے متحرک شعبوں کو احتجاج کی قیادت میں اور باقیوں کو ان کی سانجھ میں لانا چاہیے۔
14جون کا دن اس لئے منتخب کیا گیا کہ اس دن سینیٹ میں قانون پر بحث ہونی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک رواں دواں احتجاجی عمل کو کس طرح سے اور کیونکر پارلیمانی کیلنڈر کے ساتھ نتھی کیا جارہا ہے! اگر ایک زوردار احتجاجی ہڑتال سامنے آتی ہے تو سینیٹ اس پر بحث بھی نہیں کر پائے گی اور حکومت کو بھی گھُٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔
پارلیمنٹیرینز پر دباؤ ڈالنے کاتصور ہی بہت عجیب و غریب ہے، اس لئے بھی کہ حکومت پہلے ہی آئین کا آرٹیکل49-3بروئے کار لا چکی ہے۔ بظاہر یہ دکھایا اور جتا یا جا رہاہے کہ’’نام نہاد‘‘ باغی سوشلسٹ ارکان پارلیمنٹ قانون کے تو خلاف ہیں لیکن وہ حکومت کا دھڑن تختہ کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہوں نے قراردادِمذمت کےْ حق میں ووٹ نہیں دیا۔ حکومت اپنی پارلیمانی کاروائیاں تحریک کی شدت کے مطابق ترتیب وتشکیل دے گی، قانون کے نفاذ کیلئے اگر اسے آئین کی اِ س یا اس شق کو معطل یا لاگو کرناپڑا تو وہ نہیں ہچکچائے گی۔ اب حکومت ٹریڈیونین قیادت کو اپنے اس سازشی طریقہِ واردات میں شریک کرنا چاہتی ہے۔ مارٹینیز نے سنیچر کے دن اعلان کیا ہے کہ ’’ہم قانون کا خاتمہ چاہتے ہیں‘‘۔ صاف اور سیدھی بات۔ اسی بات کو حتمی کامیابی تک مدِنظر رکھا جانا چاہیے اور بس!
انٹرسنڈیکیل کے بیان میں کہا گیا ہے ’’کمپنیوں، انتظامی اور تعلیمی اداروں میںآنے والے دنوں میں ایک ریفرنڈم کرایا جائے گا جو کہ پارلیمان میں ہونے والی بحث کے مقابلے میں ہوگا۔اس دوران ورکروں اور طالبعلموں میں اس قانون پر بحث اتاری جائے گی۔اس کا مقصد قانون کی واپسی سمیت نئے حقوق کا حصول اوردیرپا و اعلیٰ روزگار کو یقینی بنانا ہوگا۔
یہا ں ہمیں جاری و ساری جدوجہد کے حوالے سے ابہام اور گومگو نظر آتا ہے۔ اس کیفیت میں کسی طور کسی بڑے ریفرنڈم یا بڑے ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ کہ ورکروں کی اکثریت اس قانون کو مستردکرتی ہے۔ رائے عامہ کے کئی تجزیے پہلے ہی اس کو واضح طورپرمسترد کرچکے ہیں۔ ورکروں کی بھاری اکثریت اس قانون کے خلاف ادراک رکھتی ہے اور اس کے مضراثرات کو بخوبی جانتی اور سمجھتی ہے۔ورکروں کو یہ جتائے جانے کی ضرورت ہے کہ ان کے تحریک میں شامل ہونے سے ہی اس قانون کو واپس کروایا جا سکتا ہے۔ ورکروں کو ایک واضح، حوصلہ مند طریقِ کار اور تناظر کی ضرورت ہے اور بس!
کیا اس مجوزہ’’عظیم ریفرنڈم‘‘ کا مقصد حکومت کو قائل اور راضی کرناہے؟یہ صرف مضحکہ خیزی ہوگی۔ حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ورکروں کی اکثریت اس قانون کے خلاف ہے۔ لیکن حکومت اپنا اقتدار واختیارMEDEFکے احکامات کی روشنی میں ہی بروئے کار لاتی ہوتی ہے۔ جو کہ فرانس کے مالکان کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ حکومت کو ورکروں کے کسی عظیم ریفرنڈم سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ حکومت صرف اس وقت اس قانون کو واپس لے گی جب اس کے خلاف ایک بھرپور جراتمندانہ تحریک سامنے لائی جائے گی۔ اس صورتحال میں آنے والے دنوں میں وقت کا ضیاع بدترین نتائج پر منتج ہوسکتاہے۔ وقت اب فیصلہ کن کردارکا حامل ہو چکاہے۔
اور سب سے آخر میں جس دیرپا اور اعلیٰ روزگار کی بات کی گئی ہے، وہ بغیر شک و شبہ ایک بہت بڑا مقصد اور ہدف ہے لیکن ایک ایسے عہد میں کہ جب سرمایہ دارانہ نظام ایک بحران کی دلدل میں دھنساہواہے، یہ ہدف ناقابل حصول ہے۔ بلکہ اس کے برعکس موجود روزگار بھی بے یقینی کی زد میں ہے۔ ہمیں اس تلخ حقیقت کو ورکروں کے سامنے واضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ورکرز دیرپااور اعلیٰ روزگارکا ہدف واقعتاً ممکن بنانا چاہتے ہیں توٹریڈیونینوں کو سرمایہ داری کے خلاف واضح، کھلم کھلااور فیصلہ کن ایکشن کی کال دینی ہوگی۔ دوسرے الفاظ میں معیشت کے مراکز کو اپنے یعنی ورکروں کے جمہوری کنٹرول میں لینے کی۔
ہمیں مزدور دشمن قوانین کے خلاف دفاعی تحریک کو سرمایہ داروں کے 200 خاندانوں کی طاقت اور مراعات کے خلاف جارحانہ تحریک میں بدلنا ہوگا جو اس ملک میں ہر چیز کو کنٹرول کرتے ہیں اور اس ملک کی قسمت کا فیصلہ کرتے ہیں۔