|تحریر: جیروم میٹیلس، مترجم: جویریہ ملک|
6 اپریل 2023ء کو، میکرون حکومت کی پنشن اصلاحات کے خلاف گیارہویں ملک گیر ڈے آف ایکشن سے ایک دن قبل، فرانسیسی وزیر اعظم ایلزبتھ بورن فرانسیسی ٹریڈ یونینوں کے اتحاد، ’انٹرسنڈیکل‘ کے رہنماؤں سے ملاقات کرے گی۔ اس نے کہا کہ ”ہر کوئی ان موضوعات پر بات کر سکے گا جو وہ چاہتے ہیں۔“ بڑی مہربانی اس کی۔ یونین رہنما اصلاحات کے خلاف اپنی مخالفت کا اظہار کر سکیں گے، اور وزیر اعظم اس بات کا اظہار کر سکے گا کہ انسے کوئی پرواہ نہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی ملاقات کا کیا فائدہ؟ اور میڈیا میں اس کا اتنا ہنگامہ کیوں ہے؟ اس پر اتنے مضامین کیوں لکھے گئے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے طبقاتی دشمنوں کے نقطہ نظر سے اس ملاقات کی اہمیت اس کے مواد میں نہیں ہے بلکہ اس کے منعقد ہونے میں ہے۔
اس کا مقصد متحرک نوجوانوں اور ورکرز کو دکھانا ہے کہ ’سماجی مکالمہ‘ ختم نہیں ہوا۔ حکومت کے نقطہ نظر سے یہ بنیادی بات ہے – ٹریڈ یونین رہنماؤں کے ساتھ رد اصلاحات کے ’مذاکرات‘ ان کے نفاذ کا ایک مرکزی عنصر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، یہ ہمارے طبقے میں لڑاکا پسندی کو کچلنے کا سوال ہے – کیونکہ اگر رہنماؤں کے ساتھ ’مذاکرات‘ چل رہے ہیں، تو متحرک ہونے کا کیا فائدہ؟
یونینوں کے اصلاح پسند رہنماؤں کو عوامی تحریک کے کنٹرول سے نکل جانے کے علاوہ کسی چیز کا خوف نہیں ہے۔ لیکن قومی اسمبلی میں بغیر ووٹ کے پنشن اصلاحات کو منظور کرنے کے لیے 16 مارچ کو فرانسیسی آئین کے آرٹیکل 49.3 کے استعمال نے تحریک کو بڑھا دیا۔ اس سے تحریک میں ورکرز اور نوجوانوں کی نئی پرتیں شامل ہوئیں، جو نہ صرف پنشن اصلاحات کے خلاف بلکہ مجموعی طور پر حکومت کے خلاف متحرک ہوئے۔
ٹریڈ یونینوں کے اتحاد، ’انٹرسنڈیکیل‘ کے رہنما اس سے پریشان ہوگئے۔ 28 مارچ کو اپنے بیان میں، عظیم الشان ڈے آف ایکشن کی شام کو ان کا کہنا تھا کہ ”ملک میں کشیدگی کی صورت حال ہے جو ہمیں بہت پریشان کررہی ہے“ اور”سماجی دھماکے کے خطرے“ کے خوف کا اظہار کیا۔ ایک ایسے وقت میں جب حکومت مظاہروں اور دھرنوں پر پولیس کے وحشیانہ جبر میں مصروف ہے، انہوں نے اس سے مطالبہ کیا ہے کہ ”ہڑتال اور مظاہرے کے حق کے تحفظ اور احترام کی ضمانت دی جائے!“
انٹر سنڈیکیل کا کردار
انٹرسنڈیکیل کے رہنماؤں کی حکمت عملی تحریک کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ شروع سے ہی، اس نے تحریک کی بے پناہ صلاحیت پر رکاوٹیں ڈالی ہیں۔
’انٹرسنڈیکیل‘ کے رہنماؤں کی حکمت عملی تحریک کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔ شروع سے ہی اس نے تحریک کی بے پناہ صلاحیت کو روکنے اور دبانے کی کوشش کی ہے۔
ایک طرف یہ رہنما ہر ہفتے اوسطاً ایک ’ڈے آف ایکشن‘ کو منظم کرنے پر مطمئن ہیں لیکن غیر معینہ مدت ہڑتالوں کی طرف بڑھنے سے کترا رہے ہیں۔ صرف ان ہڑتالوں کو دیگر شعبوں تک بڑھانا ہی حکومت کو پسپا کر سکتا ہے۔ 28 مارچ اور 6 اپریل کو ڈے آف ایکشن کی منصوبہ بندی کر کے – یعنی نو دن کے وقفے پر – انہوں نے جان بوجھ کر پہلے سے جاری غیر معینہ مدت ہڑتالوں سے منہ موڑا ہے۔
دوسری طرف جدوجہد کو پنشن اصلاحات کی منسوخی تک محدود کر کے وہ تحریک کے غیر معینہ مدت ہڑتال کے امکانات کو محدود کر رہے ہیں۔ آرٹیکل 49.3 کے استعمال کے نتیجے میں نوجوانوں کے ایک حصے کی دھماکہ خیز تحریک نے یہ ظاہر کیا کہ اگر ٹریڈ یونین رہنما جدوجہدکے دائرے کو وسیع کریں گے تو اس سے لاکھوں ورکرز اور نوجوان احتجاج اور ہڑتال کی جانب بڑھ سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہیں عوام کو حکومت کے خلاف مجموعی طور پر متحرک ہونے اورکٹوتیوں کی پالیسیوں کے خاتمے کا پروگرام پیش کرنا ہوگا۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتے ہیں، تو یہ اس لیے ہے کہ انہیں تحریک پر کنٹرول کھونے کا خوف ہے۔
تحریک کو منظم کرنے کا سوال
2 اپریل سے کچھ شعبوں کے علاوہ باقی ہڑتالوں کی گرم جوشی کم ہوتی جا رہی ہے۔ تاہم صورت حال اب بھی دھماکہ خیز ہے۔ غصے اور لڑاکا پسندی کے بے پناہ ذخائر جو 19 جنوری کو ظاہرہوئے، ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ایک بڑا واقعہ، جیسے کہ پولیس کے ہاتھوں کسی ایک ہڑتالی ورکر کی موت، آسانی سے تحریک کو ایک نیا اُبھار فراہم کر سکتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ دو ماہ سے زیادہ کی جدوجہد کے بعد بہت سے نوجوان اور متحرک ورکرز یہ سوال پوچھ رہے ہیں کہ ہم کیسے جیت سکتے ہیں؟ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمیں پہلے اس سوال کو مکمل کرنا ہوگا: انٹر سنڈیکیل رہنماؤں کے نقصان دہ کردار کے ساتھ ہم کیسے جیت سکتے ہیں؟
عوامی تحریک کے درمیان یونین قیادت کو تبدیل کرنا مشکل ہے۔ یہ سچ ہے کہ سی جی ٹی کا بائیں بازو مارچ میں اپنی کانگریس کے دوران اس مقصد کو حاصل کرنے کے قریب پہنچا تھا۔ لیکن محنت کش اور نوجوان حکمران طبقے اور اس کی حکومت کو شکست دینے کے موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے یونینوں کی قیادت میں فیصلہ کن تبدیلیوں کا انتظار نہیں کر سکتے۔ انہیں اپنی جدوجہد کو اپنے اختیار میں لینا چاہیے، اسے نیچے سے اوپر تک اپنے لیے منظم کرنا چاہیے۔ لیکن یہ معجزاتی طور پرنہیں ہوگا۔ پہل تمام سیاسی اور ٹریڈ یونین کارکنوں کو کرنا ہوگی جو انٹر سنڈیکیل تحریک کی اندھی حکمت عملی کو توڑنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔
مزدور تحریک کی تاریخ میں یہ سوال کوئی نیا نہیں ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے 1938ء میں اپنے عبوری پروگرام میں لکھا تھا:
”شدید طبقاتی جدوجہد کے ادوار میں، ٹریڈ یونینوں کی سرکردہ باڈیز کا مقصد عوامی تحریک کے مالک بننا ہوتا ہے تاکہ اسے بے ضرر بنایا جا سکے۔ اس لیے چوتھی انٹرنیشنل کے سیکشنز کو نہ صرف ہمیشہ ٹریڈ یونینز کی اعلیٰ قیادت کی تبدیلی کی کوشش کرنی چاہیئے۔۔۔بلکہ تمام ممکنہ صورتوں میں ایسی آزاد لڑاکا تنظیمیں بھی بنانی چاہئیں جو سرمایہ دارانہ سماج کے خلاف عوامی جدوجہد سے زیادہ قریب ہوں۔ اور، ضرورت پڑنے پر، ٹریڈ یونینوں کی قدامت پسند قیادت سے براہ راست علیحدگی کی ہمت رکھتی ہوں۔ اگر فرقہ وارانہ دھڑوں کو پروان چڑھانے کی خاطر عوامی تنظیموں سے پیٹھ پھیرنا مجرمانہ ہے، تو انقلابی عوامی تحریک کو کھلے عام رجعتی یا ان نام نہاد ترقی پسند بیوروکریٹ گروہوں، جو درحقیقت قدامت پسند ہوتے ہیں، کے زیر کنٹرول برداشت کرنا بھی کم نہیں ہے۔“
ہم یہ تجویز نہیں کر رہے کہ اس اقتباس کو لفظ بہ لفظ اپنایا جائے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ کارکنوں کا ایک چھوٹا سا گروپ ’آزاد لڑاکا پسند تنظیموں‘ کے قیام کا اعلان کرے اور یہ تشکیل پا جائیں – انٹرنیٹ کے علاوہ – اور عوام کی جدوجہد میں اہم کردار ادا کریں۔ دوسری طرف، بہت سے ٹریڈ یونین ڈھانچے، یعنی سی جی ٹی کے بائیں بازو والی یونین، اس کام میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں اور انہیں کرنا چاہیے۔
فروری کے آخر میں، ہم نے اس طرح کے نقطہ نظر کا آغاز دیکھا۔ 7 مارچ کے بڑے احتجاج کی روشنی میں، اور انٹرسنڈیکیل کی حکمت عملی کے مکمل الٹ میں، پانچ سی جی ٹی فیڈریشنوں نے تمام ورکرز سے غیر معینہ مدت کی ہڑتال کو ایجنڈے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔
پھر، حالیہ سی جی ٹی کانگریس میں یونین فیڈریشن کے بائیں بازو ’یونائٹ سی جی ٹی‘ نے سبکدوش ہونے والی قیادت کے انتہائی معتدل موقف کی سختی سے مخالفت کی۔ اس کانگریس کے اختتام پر یونائٹ سی جی ٹی نے معیشت کے کئی شعبوں میں 2 لاکھ 5 ہزار سی جی ٹی ممبران کی حمایت کا دعویٰ کیا۔ یہ ایک بڑی ممکنہ قوت ہے۔ کم از کم محنت کشوں اور نوجوانوں پر مشتمل تحریک کی قیادت تیار کرنے کے لیے یہ ایک اچھا نقطہ آغاز ہے۔
سی جی ٹی کی 53 ویں کانگریس میں اس کا بایاں بازو ایک بڑھتی ہوئی لڑاکا قوت کے طور پر ابھرا – ایک ایسی قوت جو فرانس میں طبقاتی جدوجہد کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے اور اسے لازمی کرنا بھی چاہیے۔ کامیابی کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ یونائٹ سی جی ٹی کے مندوبین کو سی جی ٹی کانگریس میں پیش کیے جانے والے نقطہ نظر کو محلوں، کام کی جگہوں اور یونیورسٹیوں میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد تک پہنچانے اور ان کی وضاحت کرنے کا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔ اور یہ انٹر سنڈیکیل کی حکمت عملی کا انتظار کیے بغیر تحریک کو خود کو منظم کرنے کے لیے تیار کرنے کے مقصد سے ہونا چاہیے۔
سب سے بڑھ کر یونائٹ سی جی ٹی کے کامریڈوں کو پورے ملک میں فتح کا راستہ روشن کرنا چاہیے، جسے وہ مندرجہ ذیل ترتیب دیتے ہیں:
”مقصد صرف 64 سال ]ریٹائرمنٹ کی عمر[ کو مسترد کرنا نہیں ہے۔ مقصد ریٹائرمنٹ کی عمر کو 60 سال پرواپس لانا ہے۔ کم از کم اجرت 2 ہزار یورو مقرر کرنا ہے۔ موٹر ویز، صنعتوں اور عوام کے لوٹے ہوئے اثاثوں کو ضبط اور قومی تحویل میں لینا ہے۔ بے روزگاری مخالف قوانین کو منسوخ کرنا، کمپنیوں کی ریاستی امداد روکنا اور ہماری تمام سماجی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔ مقصد حکومت کی تبدیلی ہے۔ یہ سماجی نظام بہت طویل عرصے سے چل رہا ہے۔“
ہاں، یہ سماجی نظام – سرمایہ داری – بہت طویل عرصے سے قائم ہے، اور اب وقت آگیا ہے کہ اس کے خاتمے کے لیے فیصلہ کن جدوجہد میں حصہ لیا جائے۔