چی گویرا کی 45ویں برسی پر اس عظیم انقلابی کی زندگی، جدوجہد اور نظریات کے بارے میں شائع کئے جارہے ایلن ووڈز کے مضمون کا چوتھا اور آخری حصہ پیش کیا جارہا ہے۔ بقیہ حصوں کے لنک صفحے کے آخر پر ملاحظہ فرمائیں۔
بیرنتوس نے اپنی فوج کو گویراکو ہلاک کرنے کا حکم دیا۔یہ احکامات اس کے نہیں بلکہ درحقیقت اس کے امریکی آقاؤں کے تھے۔جنہوں نے بہت عرصہ پہلے اپنے اس سب سے بڑے دشمن کے سر کی قیمت بھی مقرر کر دی تھی۔جونہی چی کی ’’لوکیشن‘‘کی ان کو خبرہوئی،سی آئی اے اور دیگر سپیشل فورسز بولیویا پہنچ گئیں اور انہوں نے آپریشن کی نگرانی کی۔امریکی مشیر 29اپریل کو بولیویاپہنچے اور بولیویائی فوج کے سیکنڈ رینجر بٹالین کیلئے 19روزہ ’’گوریلا کش‘‘تربیتی کیمپ لگایا۔یہ ایک ہنگامی شدید نوعیت کا تربیتی پروگرام تھا،جس میں فوجیوں کو اسلحہ استعمال کرنے،انفرادی مقابلہ کرنے،سکواڈاور پلاٹون ٹریننگ، پٹرولنگ اور دشمن کو مارمکانے کی خصوصی تربیت دی گئی۔ان میں اعلی ٰ قسم کی رینجرز بٹالین تشکیل دی گئی جس کو جنگلوں میں اپنے جوہر دکھانے کی خصوصی تربیت دی گئی۔
ستمبر کے آخر سے ہی گوریلوں کے قدموں کے نشانات کا سراغ لگانے کا سلسلہ شروع کردیاگیا۔بولیویا کی سپیشل فورسز کو ایک مخبر کی اطلاع پر چی کی جائے موجودگی کی خبر ملی۔انہوں نے8اکتوبر کو اس علاقے کا محاصرہ کرلیااور پھر ایک معمولی جھڑپ کے بعد چی گویرا کو گرفتار کر لیا گیا۔جونہی فوج اس کو اپنے گھیرے میں لیتی ہے،کہا جاتا ہے کہ چی نے ان سے کہا کہ ’’مجھے مت مارنا،میں تمہارے لئے مردہ سے زیادہ زندہ وارے کھاتاہوں‘‘۔ان الفاظ سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ وہ ایک کم ہمت اور بزدل انسان تھا۔یہ درحقیقت انقلاب کے دشمنوں کی اسی بدنیت مہم کا ہی ایک حصہ ہے جس کے ذریعے چی جیسے عظیم آدرش وادی کے تاثر پربدنامی کی کالک ملنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ اس کے اثرات کو زائل اور اس کے تشخص کو گھائل کردیاجائے۔ وہ ایک ایسا انسان تھا جس نے ہمیشہ جی داری اور جراتمندی سے زندگی بسرکی اور جو کبھی بھی اپنی جان کی پرواہ نہیں کیا کرتاتھا۔
چی کے پکڑے جانے کی خبر ملتے ہی صدر برنتوس نے اس کو قتل کردینے کا حکم جاری کرنے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔اس نے عدل وانصاف کے تقاضوں کو بروئے کار لانے کی تہذیب کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔اس نے اپنا حکم واشنگٹن کے مکمل علم اور آشیرباد سے ہی جاری کیاتھا۔یہ سب لوگ کسی طور بھی چی گویرا پر مقدمہ چلا کر اس کا بیان سننے کا رسک لینے کو تیار نہیں تھے۔کہ جس میں وہ اپنا دفاع کرتا،اپنی سرکشی کو برحق اور جائز قراردیتا،اور اس ناانصافی اور نابرابری کو ننگاکرتا جس نے اسے سرکش بننے پر مائل کردیاتھا۔اس قسم کی آواز کو سننے کی بجائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قتل کر دینے کافیصلہ کیاگیا۔
جنوری1919میں برلن،جرمنی میں روزالگزمبرگ اور کارل لیبخنت کو گرفتار کرنے والے جنکرز نے بھی ان کو عدالت میں پیش کرنے کی مہلت نہیں دی تھی۔ان ظالموں نے بھی ان کی جان لینے سے قبل قانون کی کسی کتاب کی ورق گردانی اور عدل وانصاف کے عظیم تقاضوں کو ملحوظ خاطر لانے کا کشٹ کرنا گوارا نہیں کیا۔چی گویرا کو گرفتاری کے بعدقریبی گاؤںLa Higuera کے ایک سنسان سکول کی عمارت میں لے جایا گیا۔جہاں اسے رات بھر رکھا گیا۔اس کے ذہن میں اس کی آخری رات کیا کیا اور کیسے کیسے تصورات ابھرے ہوں گے؟ بھیڑیوں کے غول میں پھنساہوابھیڑ کا ایک بچہ!تنہا،دنیا سے بالکل الگ اور جدا،اپنے خاندان اپنے دوستوں اپنے کامریڈزسے کٹاہوا،ایک نئے دن اوراس نئے دن اپنی ناگزیر موت کا انتظار!
اگلے دن دوپہر کے بعد چی کو سکول کی عمارت سے باہر لایا گیا۔یہ9اکتوبر1967کا دن تھا جب چی کو1.10پربولیویافوج کے ایک سارجنٹ ماریوٹیران نے گولی کا نشانہ بنایا۔اس کی موت کو یقینی بنانے اور اس کے مرجانے کا یقین کرنے کیلئے اس کی ٹانگوں میں بے شمار گولیاں ماری گئیں تاکہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر مر جائے۔اس نے مرنے سے قبل اپنے قاتلوں سے کہا ’’میں جانتا ہوں تم مجھے مارنے کیلئے آئے ہوئے ہو۔مارو مجھے بزدلو! تم ایک انسان ہی کو تو مار رہے ہو‘‘یہی الفاظ ہیں جو ایک سچے چی گویرا کے الفاظ ہو سکتے ہیں۔نہ کہ وہ جو پہلے بیان کئے گئے اور جو اس کی طرف منسوب کیے جارہے ہیں۔وہ الفاظ ایک پست ہمت اور اپنی زندگی کی بھیک مانگتے شخص کے تو ہو سکتے ہیں لیکن چی گویرا کے نہیں۔
اس کی لاش کو ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے قریبی علاقے Vallegrandeلے جا کر ایک ہسپتال کے ایک لانڈری ٹب میں سجا دیا گیا تاکہ پریس فوٹوگرافر اس کی تصاویر اتار سکیں۔شیکسپئیر کے مکابرے کے ایک ایکٹ میں ایک آرمی ڈاکٹر جراحی کے عمل کے دوران اپنا ہی ہاتھ کاٹ دیتا ہے،اسی طرح سے ہی بولیویا کے فوجی افسروں نے بھی چی گویرا کی لاش کوکسی نامعلوم مقام پر پہنچادیا۔چی گویرا کے سر کو اڑانے کے مشن کی سربراہی جس شخص کو سونپی گئی تھی وہ فیلکس ریڈرے گوئز Felix Rodriguez تھا جو کہ سی آئی اے کا ایجنٹ تھا۔وہ کیوبا میں کاسترو کی سرکشی کو کچلنے کیلئے Bay of Pigs پر ہونے والی سامراجی حملے کی سازش میں بھرپور شریک رہاتھا۔اسی نے ہی ورجینیا اور واشنگٹن میں بیٹھے اپنے آقاؤں کو چی گویرا کے مارے جانے کی خوشخبری سنانے کا فریضہ سرانجام دیاتھا۔جیسا کہ کئی گھٹیا قسم کے چور اکثر کرتے ہیں،فیلکس نے چی گویرا کی پہنی ہوئی رولیکس گھڑی اتار لی تھی اور اس کی دوسری ذاتی اشیا بھی اپنے قبضے میں لے لی تھیں اور بعد میں وہ یہ سب اشیا فوٹو گرافروں کو دکھاتا رہا۔فوٹو کھنچواکر تاریخ میں کسی طرح اپنا نام درج کرانے کی بیہودہ نفسیات کے مارے ہر شخص کی طرح فیلکس نے بھی یہ موقع اپنی ناموری کیلئے غنیمت جانا۔لیکن جس انسان کو ان لوگوں نے قتل کرکے ختم کرنے کی کوشش کی،اس سے اس کی موت تو کیا ہونا تھی،وہ آج بھی اور رہتی دنیا تک غریبوں مظلوموں کے حقوق کیلئے جان دینے والے ایک امر کردار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔وہ جنگجو تھا،ایک انقلابی ہیرو تھا،اور عالمی سوشلزم کی جدوجہدکیلئے جان کی بازی لگادینے والا شہید تھا۔
گوریلا وار کا سوال
دنیا کے ہر ایک انسان کی طرح سے چی گویرا کی ذات کے بھی جہاں کئی مثبت پہلو تھے وہیں کئی کمزور پہلو بھی تھے۔اس نے بلاشبہ کیوبن ماڈل کی گوریلا جنگی حکمت عملی کو اپنا عمومی وطیرہ بنانے کی کو شش کی۔ مارکسسٹوں نے ہمیشہ کسانوں کی مسلح جدوجہد کو محنت کشوں کے راج کے عمل کیلئے ممد ومعاون سمجھا ہے۔سب سے پہلے اس پوزیشن کو کارل مارکس نے1848ء میں جرمنی کے انقلاب کے دوران وضع کیاتھا۔جب اس نے یہ قرار دیاتھا کہ جرمن انقلاب صرف اسی صورت ہی فتح مند ہو سکتا ہے اگر یہ کسان جنگ کا دوسرا تسلسل بنتاہے۔اس سے مراد یہ تھی کہ شہروں کے مزدوروں کو اپنے ساتھ دیہاتوں کے کسانوں کو جوڑنا ہوگا۔یہ کہنا کسی طور بھی درست نہیں ہے کہ یہ پوزیشن صرف جدید سماجوں کیلئے ہی مناسب ہے۔روسی انقلاب سے پہلے بھی محنت کش طبقہ روس کی کل آبادی کا محض 10%ہی تھا۔اس کے باوجود بھی لینن اور بالشویکوں کا اصرار تھا کہ محنت کش طبقہ ہی قوم کی قیادت کر ے گا اور اپنے ساتھ کسانوں اور دیگر پرتوں کو شامل کرے گا۔روس کے انقلاب میں پرولتاریہ نے ہی قائدانہ رول ادا کیاتھا اور اپنے ساتھ کروڑوں مفلوک الحال کسانوں کو اپنی اس جدوجہد میں اپنا ساتھی بنایاتھا جو کہ پرولتاریہ کے حقیقی اتحادی ہواکرتے ہیں۔
سماج میں اگر کوئی بھی طبقہ ایک حقیقی سوشلسٹ انقلاب کو ممکن بنا سکتاہے تو وہ صرف اور صرف محنت کش طبقہ ہی ہوتا ہے۔اس کی کوئی جذباتی توضیح نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ سماج میں اس کی کیفیت اور پوزیشن ہوتی ہے۔سب سے بڑھ کر یہ کہ پیداواری عمل میں اس کا اجتماعی کرداراسے اہم ترین بناتا ہے۔مارکس اینگلز لینن اور ٹراٹسکی کی کسی ایک تحریر میں اس بات کا نہ اشارہ ملتا ہے نہ حوالہ کہ کسان سوشلسٹ انقلاب برپا کر نے کافریضہ سرانجام دے سکتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ کسان اپنی طبقاتی ہئیت میں اجتماعی نہیں ہو اکرتے۔یہ کئی پرتوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں۔بے زمین کھیت مزدور(جو حقیقی دیہی پرولتاریہ ہواکرتے ہیں) سے لے کرامیر کبیر کسانوں تک جو اجرت پر مزدوروں سے کام لیا کرتے ہیں،سب کسانوں میں شامل ہوتے ہیں۔چنانچہ ان کا ایک مشترکہ مقصد اور مفاد نہیں ہوتا اس لئے وہ سماج میں کوئی آزادانہ کردار بھی ادا نہیں کر سکتے ہوتے۔تاریخی طور پر بھی یہ شہروں کے کئی مختلف گروپوں کو سپورٹ کرتے چلے آرہے ہیں۔
لیکن اپنی فطرت میں گوریلا جنگ کسانوں کی جدوجہد کاہی کلاسیکل طریق کار چلی آرہی ہے یہ کبھی محنت کشوں کا نہ طریقہ رہی نہ وطیرہ۔جنگلوں پہاڑوں اور ایسی جگہوں پر جہاں تک رسائی انتہائی دشوار ہو،یہی طریقہ استعمال ہوتا چلا آرہاہے۔اس دشوار گذاری کے باعث ہی باقاعدہ فوج کو ایسے علاقوں میں نقل وحرکت کیلئے کافی مشکلات درپیش ہوتی ہیں جبکہ گوریلوں کو مقامی دیہاتی آبادی کی مدد اور تعاون دستیا ب ہواکرتا ہے۔جس کی وجہ سے ان کو اپنی کاروائیوں میں آسانی رہتی ہے۔ایک پسماندہ اور کسان اکثریتی آبادی کے حامل ملک میں گو ریلا جنگ کا طریق کارشہروں میں محنت کشوں کی انقلابی جدوجہد کے عمل میں معاون اور کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا کہ لینن نے گوریلا جنگ کو محنت کشوں کی شعوری جدوجہد کا متبادل قرار دیا ہو۔ایک مارکسی نکتہ نظر سے گوریلا طریق کارکو سوشلسٹ انقلاب کے معاون اور ماتحت کے طورپر ہی اختیار کیا جاسکتاہے ورنہ نہیں۔
یہی پوزیشن 1905میں لینن نے لی تھی، Narodnaya Volya نارودانیا اورسوشل ریولوشنری پارٹی کے اس کے ہمنواؤں نے اس حوالے سے انفرادی دہشت گردی کے طریق کار پر جو پوزیشن لی اس کا لینن کے موقف سے کوئی تعلق واسطہ نہیں۔جن کو آج کے جدیددہشت گرد اور شہروں میں قائم’’گوریلا‘‘تنظیمیں اپنائے ہوئے ہیں۔یہ سب لینن کی حقیقی پوزیشن کے بالکل برعکس اور متضاد ہیں۔لینن نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ مسلح جدوجہد کو ہر حال میں عوامی انقلابی تحریک کے ماتحت ہوناچاہئے۔اور وہ بھی ایسے حالات میں اس کی اجازت دیتا ہے جب؛
1۔عوام کے مشتعل جذبات کو سنبھالنے کا معاملہ درپیش ہو۔
2۔مخصوص علاقے میں مزدورتحریک کو اس قسم کی کوئی ضرورت درپیش ہو۔
3۔اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس سے مزدوروں میں اشتعال نہ پیدا ہو۔اور ان کی طاقت کمزور نہ ہوپائے۔
اور سب سے بڑھ کر لینن نے اس بات پر زور دیا کہ گوریلا جنگ کے طریق کار کو محض اس وقت بروئے کار لانے کی اجازت دی جائے جبکہ مزدور تحریک اس کیفیت میں پہنچ چکی ہو کہ وہ سرکشی کردے۔ہر وہ گوریلا جنگ جو عوام سے کٹی ہوئی ہو یا مزدورتحریک سے جڑی ہوئی نہ ہو،اس کی تنزلی اور گراوٹ کے امکانات شدومد سے موجود رہتے ہیں۔1906ء کے بعد کے عرصے میں جب عوامی تحریک کمزور پڑچکی تھی اور انقلابیوں کو ایک کے بعد دوسری شکست اور بھاری نقصان سے دوچارہوناپڑ رہاتھا،گوریلا تنظیموں کی کارکردگی واضح کر رہی تھی کہ وہ انقلابی پارٹی کے مددگار اوزار کے طورپر کام کرنے کے اہل نہیں رہی تھیں۔اس کی بجائے یہ مہم جوئی کو زیادہ فروغ دے رہی تھیں اورالٹا نقصان کا باعث بن رہی تھیں۔یہاں تک کہ ایک مرحلے پر جب گوریلا جنگ کے حق میں بات چل رہی تھی کہ اس طریق کار کو ردانقلاب کے حملوں کے خلاف کام میں لایا جائے،اور انقلابی تحریک کو بچایاجاسکے،لینن نے قدیم دہشت گردی،انارکی،بلانکوازم،اورا نفرادی غم وغصے کے خطرات سے ہر قیمت پر بچنے کا کہا۔جن سے ورکروں میں مایوسی پھیل جاتی،عوام میں بیزاری پیداہوجاتی،تحریک منتشرہوجاتی،اور انقلاب مجروح ہو جاتا۔اورلینن نے یہ بھی کہا کہ میرے اس موقف کی تصدیق اخبارات کی خبروں سے ہورہی ہے۔
1905/6ء کے عرصے کے دوران گوریلا طریق کار انقلابی تحریک کاحصہ بنا رہا۔اسلحہ چھیننا،بے دخل کرنا وغیرہ یہ سب مسلح جدوجہد کا حصہ تھا۔لیکن یہ سبھی جنگجو سکواڈمزدور تنظیموں سے جڑے ہوئے اور ان کے ماتحت کام کرتے تھے۔ماسکو کی ملٹری کمیٹی صرف RSDLP کے ارکان پر ہی مبنی نہیں تھی بلکہ اس میںSRs،ٹریڈیونینسٹ(پرنٹرز)اور طلبہ بھی شامل تھے۔جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ مخصوص سکواڈ قائم کئے گئے جو سیاہ صد اور دوسرے بدمعاش گروپوں کے مقابلے کیلئے تشکیل دیے گئے تھے۔یہ مزدوروں اور انقلابیوں کی میٹنگوں کو پولیس کے چھاپوں سے محفوظ رکھتے تھے۔مسلح ورکروں کی یہ موجودگی تشدد کے اہم عنصرکو روکنے کیلئے اہم کردار کی حامل تھی۔ان کے دیگر اہداف میں اسلحے کا حصول،جاسوسوں اورپولیس کے ٹاؤٹوں کا قلع قمع کرنا،اور فنڈز کے لئے بینکوں پر حملے کرنا شامل ہوتا تھا۔ورکرز خود ہی اس قسم کے گوریلا گروپوں کو تشکیل دیاکرتے تھے۔بالشویکوں نے ان گروپوں کی قیادت سنبھالنے کی کوشش کی تاکہ ان کو ایک منظم اور باقاعدہ طاقت میں تبدیل کیا جاسکے اور ان کو واضح منصوبوں سے مسلح اور لیس کیا جاسکے۔بلاشبہ ایسا کرتے ہوئے کئی سنجیدہ مضمرات بھی درپیش تھے۔ہر قسم کے مہم جو،پست شعور رکھنے والے،اور تنگ نظرعوامل ان گروپوں میں شامل ہو سکتے تھے۔جو تحریک کی کمزوری کے مرحلے میں مجرمانہ سرگرمیوں کو اپنا سکتے تھے اور بدمعاشوں کے گروپ میں ڈھل سکتے تھے۔
اس پر مستزاد یہ کہ سازشی افراد بھی ان میں شریک ہو رہے تھے۔یہ ایک مسلمہ اصول ہے کہ دہشت گرد یا مسلح تنظیموں کے اندر ریاستی اداروں کے کارندوں یا جاسوسوں کی مداخلت زیادہ آسان رہتی ہے۔ بہ نسبت ایک سچی انقلابی پارٹی کے جس کے کیڈرز پڑھے لکھے نظریات سے ہر وقت مسلح ایک دوسرے سے باہم جڑے ہو ئے ہوں،اگرچہ ایسی تنظیم بھی ریاستی گھس بیٹھیوں سے مبرا نہیں ہوتی۔جس کا ذکر ہم آگے چل کر کریں گے۔
لینن پوری طرح مسلح گروپوں کی موجودگی اور ان کی وجہ سے پیداہونے والی زوال پذیری کے خطرات سے باخبر تھا۔سخت ڈسپلن اور پارٹی کی تنظیموں کے مضبوط کنٹرول اور تجربہ کار کیڈروں کی بدولت اس قسم کے رحجانات کو بڑی حد تک اپنے قابو میں رکھاگیا۔لیکن سب سے بڑا اور سچا کنٹرول بہرحال عوامی تحریک کا ہی تھا۔جب تک گوریلا یونٹ عوامی تحریک کے معاون کے طورپر کام کرتے رہے،یعنی انقلابی ابھار کی کیفیت میں،انہوں نے بلاشبہ مفید اور نتائج افزا کام کئے۔لیکن جب بھی جہاں بھی یہ گوریلا یونٹ عوامی تحریک سے الگ ہوئے ان سے کٹے،ان میں بدترین زوال پذیری در آئی۔یہی وجہ تھی کہ لینن نے اس کو ایک مستقل یا مسلسل مظہر کے طورپر اپنانے سے انکار کردیا۔جب یہ یقین ہو گیا کہ تحریک اب ناگزیر طورپرناقابل واپسی زوال پذیری کی طرف لڑھک چکی ہے،لینن نے فوری طور پر اس قسم کے سبھی گوریلا گروپوں کی فوری تحلیل کا حکم دے دیا۔
گوریلاطریقہ جنگ
چی گویرا نے گوریلا جنگ کے فکری اور عملی پہلوؤں بارے کئی مضامین اور کتابیں لکھی ہیں۔کیوبا میں اربینز کی حکومت کو گرانے کے تجربے نے اس پر انمٹ نقوش مرتب کئے۔وہ اس موقف پرپختہ کار ہوگیا کہ حکمران طبقات کومسلح جدوجہد کے ذریعے اکھاڑ پھینکا جائے۔اور اس کا یہ مفروضہ بالکل درست تھا۔ساری انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ حکمران طبقات نے کبھی بھی لڑائی کئے بغیر اقتدارنہیں چھوڑا۔کوئی بھی شیطان کبھی بھی اپنی ہتھیلیاں خود کاٹ کر آپ کو نہیں دیا کرتا۔مارکسسٹ کبھی بھی محض عاجز و منکسر نہیں ہو اکرتے۔عوام کو ہر حال میں لڑائی کیلئے میدان میں اترنا اور ہر وہ رستہ ہر وہ طریقہ اختیارکرناہوگا جس سے حکمران طبقہ کمزور،غیرمسلح اور ناکام ہو سکتاہو۔مارکس کے الفاظ میں طاقت ہی تاریخ کی دائی ہے۔
اپنی مشہور کتاب Guerrilla Warfare میں چی گویرا کیوبا انقلاب کے ماڈل کو دنیا کے باقی ملکوں کیلئے مشعل راہ قراردیتاہے کہ اس طریقے کو ہر جگہ استعمال کیا جاسکتا ہے۔یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس میں باغیوں کا ایک چھوٹا گروپ(foco) عوام کو انقلابی تنظیموں کا شریک اور حصہ بنانے کی ضرورت کو سمجھے اور اپنائے بغیرمسلح جدوجہدکے ذریعے تختہ الٹنے کو مکتفی سمجھتا ہے۔یہ ایک انتہائی سنجیدہ اور خطرناک غلطی و غلط فہمی ہے،جیسا کہ بعد میں پیش آنے والے واقعات اس کی تائید وتصدیق کرتے دکھائی دیتے ہیں۔کیوبا کا واقعہ سامراجیوں کیلئے قطعی طورپر اچانک لہٰذا حیران کن تھا۔یہ ان کے وہم وگمان میں ہی نہیں تھا کہ یہ گوریلے اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کامیاب ہو جائیں گے۔ یہاں تک کہ جب یہ گوریلے کامیاب ہو چکے تھے واشنگٹن والوں کو یہ سمجھ ہی نہیں آرہی تھی کہ وہ اس پر کیا کریں اور کیا نہ کریں؟ ایک دھڑا فوری اور سخت رد عمل کا تو دوسرا احتیاط اور صبر سے کام لینے پر زور دے رہاتھا۔سامراج سے ایک فاش کوتاہی اور غلطی سرزدہوچکی تھی لیکن بعد ازاں انہوں نے اس سے سبق سیکھا۔کیوبا کے اس ہولناک تجربے کے بعد وہ اس قسم کے کسی اور تجربے کسی اور قسم کی کوتاہی اور غلطی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔انہوں نے گوریلا طریق کار کا بطور خاص مطالعہ کیا جس میں خود چی گویرا کی تحریریں بھی شامل تھیں۔اب وہ ہوشیار بھی ہو چکے تھے اورخبردار بھی بلکہ اب وہ انتظار کر رہے تھے کہ ایسا کچھ ہو۔کیوبا کے بعد جو پہلا گوریلا گروپ(foco) تشکیل دیاگیا اسے فوری طورپر کچل کے رکھ دیا گیا۔سامراج نے گوریلوں کو یہ کھلا موقع ہی نہیں لینے دیا کہ وہ دوردراز کی دیہی آبادی میں اپنے لئے حمایت اورامداد کی بنیادیں قائم کر سکیں۔ یہی کچھ ہم بولیویا میں ہوتا دیکھتے ہیں۔اسی سامراجی مستعدی نے صرف چی گویرا اور اس کے ساتھیوں کا ہی نہیں بلکہ بعد کے انقلابی گوریلوں کی قسمت کا بھی تعین کردیا۔
انقلابات کی تاریخ کا یہ سب سے المناک پہلو ہے کہ کیوبا کے اس ماڈل کو اپناتے،اس کی نقالی کرتے ہوئے لاطینی امریکہ اور دنیا کے کئی دوسرے ملکوں کے کئی پرجوش اورسچے انقلابی جن میں بڑی تعداد نوجوانوں کی تھی،اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔یہ طریق کار کیوبا میں اس ملک کے مخصوص حالات وکیفیات کی بدولت کامیاب ہو اتھا۔ایک خاص ملک میں کامیاب ہونے والاطریقہ لازمی نہیں ہوتا کسی اور ملک میں بھی وہی نتائج پیداکرے،جہاں حالات وکیفیات پہلے ملک سے مختلف ہوں۔ایک دورافتادہ پسماندہ زرعی ملک میں جیساکہ1949میں چین تھا،گوریلا جنگ کا طریقہ اختیار کرنا کسی حوالے سے معقول لگتا ہے یا ہو سکتا ہے۔لیکن چلی یا ارجنٹائن جیسے ملکوں میں جہاں اکثریتی آبادی شہروں میں رہتی ہو اورکسان اقلیت میں ہوں وہاں یہ فاش اور بھیانک غلطی کے سوا کچھ نہیں ہے۔یہاں تک کہ ہم دیکھتے ہیں کہ زارروس کے دور میں بھی لینن نے اس بات پر زوردیا کہ پرولتاریہ کوہی انقلابی تحریک کی قیادت سونپنی ہو گی۔اور گوریلا طریق کار کو ہر حال ہر حالت میں عوام خصوصاًمحنت کشوں کے ماتحت بروئے کار لایا جانا چاہئے۔
ارجنٹائن یوراگوئے وینزویلااور میکسیکو سمیت کئی دوسرے ملکوں کے اندر کیوبا کے ماڈل کی بھونڈی اور بنا سوچے سمجھے نقالی نے انقلابات اور انقلابی دونوں کو خون میں نہلانے کے علاوہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کیا۔خاص طورپر ’’شہری گوریلا ازم‘‘ کا آئیڈیا انتہائی فضول اور مہلک تھا۔جو کہ قدیم انفرادی دہشتگردی کا ہی ایک نیا بہروپ ہے۔اس تباہ کن طریقے کی وکالت کرنے اور اس کو کام میں لانے والے یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے تئیں کچھ منفرد اور کچھ نیا تخلیق کر دیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ وہ روس کے پرانے مشہور دہشت گردوں Narodnaya Volya کی نقالی کے علاوہ کچھ بھی نہیں کر رہے،جن کے خلاف لینن نے ایک ناقابل مصالحت لڑائی لڑی تھی۔
اس طریقے کواستعمال کرتے ہو ئے جہاں بھی جو بھی کوشش کی گئی اس کا نتیجہ سوائے بدترین خونریز شکست اور بدترین وحشیانہ ردعمل کے کچھ بھی نہیں نکلا ہے۔ہزاروں پرعزم اور جراتمند نوجوانوں کو ان کے آدرشوں سمیت اس بھیانک غلط طریقے کی بھینٹ چڑھا دیاگیا جن کے عزم وحوصلے کو اگر عوام کی، محنت کشوں کی انقلابی تنظیموں اور تحریک سے جوڑا جاتا تو یہ انتہائی اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہو سکتے تھے۔یہ ایک انتہائی مہلک اور فاش غلط حکمت عملی ہے جس کا قلع قمع کیا جانا لازمی ہے اگر ہم نے سوشلسٹ انقلاب کو ممکن اور کامیاب کرنا ہے۔یہ چی گویرا کے تشخص کی منفی اور غلط برخود تشریح و توضیح ہے۔ جسے الٹرا لیفٹوں کی ایک پرت نے خودپر مقدس فرض سمجھ کر لاگو اور مسلط کیا ہوا ہے۔اور جو اس عظیم سچے انقلابی کو مکمل طورپرسمجھنے کی اہلیت سے سراسر محروم ہیں اور محض اس کی غلطیوں کو ہی اپنا وطیرہ بنائے ہوئے ہیں۔چی کی عظمت اور اس کے تشخص کے ساتھ اس سے بڑی کوئی زیادتی اور ہو ہی نہیں سکتی جو یہ الٹرا لیفٹ اس کے ساتھ مسلسل کرتے چلے آرہے ہیں۔
چی گویرا کا سچا اور خالص پیغام یہ ہے کہ ہم اس کی بین الاقوامیت کے وسیع خزانے سے قیمتی اسباق کشید کریں۔یہ درست نظریہ کہ سوشلسٹ انقلاب کسی ایک تنہا ملک کا عمل اور مقدر ہوہی نہیں سکتا بلکہ یہ محض عالمی انقلاب کی زنجیر کی ایک کڑی ہی ہوتی ہے جس کا دوسری تمام کڑیوں کے ساتھ جڑنا اور ملنا ناگزیرہوتا ہے۔آج جو کچھ لاطینی امریکہ میں ہو رہاہے وہ چی کے اس درست نظریے کی مکمل تائید و تصدیق کرتا ہے۔
چی گویراکی بین الاقوامیت
کیوبا کا انقلاب اپنی ابتدا سے ہی بین الاقوامیت کا حامل تھا۔چی گویرا اسی جذبے کا تشخص ہی تھا جو اس انقلاب کے اہم ترین قائد ین میں سے تھا۔وہ ارجنٹائن میں پیداہواتھا اور انقلاب اس نے کیوبا میں کیا۔لیکن درحقیقت وہ ایک سچا بین الاقوامی اور سیدھا سادہ ’’دنیا‘‘ کا باشندہ تھا۔سائمن بولیوار کی طرح سے وہ بھی لاطینی امریکہ کے انقلاب کے تناظر سے لیس تھا۔چی کی شہادت کے بعد سے لگاتار کوششیں کی جارہی ہیں کہ اسے ایک بے ضرر قسم کا حقیر فقیر قسم کا انسان بنا کے پیش کیا جائے،اس کو ایک چہرہ بنایا جارہاہے جوٹی شرٹوں پر بہت جچتا ہے۔بورژوازی اسے ایک رومانٹک ہیرو،ایک یوٹوپیائی آئیڈیلسٹ اور پتہ نہیں کیا کیا بنا کر پیش کرنے کی کو ششیں کر رہی ہے۔یہ ایک بڑے اور سچے انقلابی کے تشخص اور اس کے آدرش کے ساتھ بلادکار کے سوا کچھ نہیں۔وہ کوئی ناامید یاسیت زدہ اور اچھے دنوں کا محض خواب دیکھنے والا انسان نہیں تھا،بلکہ وہ ایک حقیقت پسندعملی انقلابی تھا۔ یہ کسی طور کوئی حادثہ یا اتفاق نہیں تھا کہ چی گویرانے انقلاب کو دوسرے ملکوں میں پھیلانا چاہا،وہ اسے افریقہ اور لاطینی امریکہ میں وسعت دینا چاہتاتھا۔وہ اچھی طرح سمجھتا اور جانتا تھا کہ کیوبا کا انقلاب صرف اس انقلاب کو پھیلانے سے ہی بچ سکتا ہے اور قائم رہ سکتا ہے۔
کیوبا کے انقلاب کا مقدر شروع دن سے ہی عالمی واقعات و حادثات سے جڑا چلا آرہاہے۔اور شاید اسی وجہ سے یہ ابھی تک بچاہوا ہے ورنہ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ سامراج اسے ایسے ہی چھوڑدیتا؟روس کے انقلاب کی طرح کیوبا کے انقلاب کی بھی اپنی ایک عالمگیر اہمیت ہے۔ اس کے عالمی سطح پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ خاص طورپر کیریبین اور لاطینی ممالک میں اس کی بازگشت موثر طورپر سنائی دی گئی۔یہ معاملہ اب بھی اسی طرح قائم ودائم ہے۔ چی نے ایک ایسی چنگاری جلائی جو اس کے خیال میں سارے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی تھی۔یہ تو ہو سکتا ہے کہ اس بارے میں وہ کوئی غلطی کر بیٹھا ہو کہ اس کام کو کیسے سرانجام دیا جائے؟لیکن اس کی نیت اس کے ارادے اور اس کے مقصدکی سچائی اور عظمت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا۔اس کے بنیادی نظریے کی حقانیت آج بھی مسلم ہے۔چی نے کیوبا سے باہر انقلابی کام کو منظم کرنے والوں کوبھرپور مدد فراہم کی لیکن وہ سب کے سب ناکام رہے۔ان میں سے پہلی کاوش پانامہ میں ہوئی،جبکہ دوسری ڈومینین ریپبلک میں 1959ء کے اوائل میں ہوئی۔بدقسمتی سے کیوبا کے تجربے سے کچھ غلط اسباق اخذکر لئے گئے جن کے بھیانک اثرات مرتب ہوئے۔گوریلا جنگ اور کیوبا کے focos ماڈل کی محض نقالی کو ہی سب کچھ سمجھ لیاگیا جس کا تباہ کن نتیجہ ایک کے بعد دوسری بھیانک شکست کی صورت میں سامنے آتا گیا۔اس کی کئی وجوہات تھیں۔جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ سامراج کیلئے کیوبا کا معاملہ’’ اچانک ‘‘ سامنے آیا کہ وہ اس کی توقع ہی نہیں کر رہا تھا۔بعد میں سامراج الرٹ ہو گیا اور اس نے ہر نئے focos کو اس کے سرابھارتے ہی کچل کر رکھ دیا۔دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ لاطینی امریکہ کے ملکوں میںآبادی کا بڑاحصہ شہروں اور قصبوں میں رہتاتھا۔جبکہ گوریلا جنگ خالصتاً دیہی آبادی کیلئے ہی موزوں طریق کار تھا۔ہر طریق کار کیلئے لازم ہوتاہے کہ اسے اس کی شرائط اور تقاضوں کے مطابق اپنایا جائے۔
یہی کچھ وینزویلا میں ہمیں دیکھنے کو ملتا ہے۔جہاں گوریلا تحریک کو صریحاًناکامی کا سامناکرناپڑگیاتھا۔آج وینزویلا کا انقلاب ایک شہری انقلاب کے طورپر ابھر کر سامنے آرہاہے۔اس کی بنیادیں اس کا مرکز و محورشہری علاقے ہی ہیں جن کو دیہاتوں کی مکمل حمایت اور ساتھ میسر آرہاہے۔ہیوگو شاویز کی بولیویرین تحریک نے پارلیمانی جدوجہد کے ذریعے عوام کو موثر طورپر متحرک کیا ہے۔اور یہ عوام کی متحرک قوت ہی تھی جس نے تین بار ردانقلاب کو واضح شکست سے دوچارکیا ہے۔طبعی طورپر اب کیوبا کا انقلاب وینزویلاکے انقلاب سے وابستہ اور پیوستہ ہو چکاہے۔یہ دونوں ایک دوسرے کی زندگی موت کا فیصلہ کریں گے۔وینزویلا میں انقلاب کی ناکامی کیوبا کے مستقبل کو بھی سوالیہ نشان بنا دے گی۔اس خطرے سے ہر حال میں بچنا ہو گا۔لیکن یہاں ہمیں ہر صورت میں تاریخ سے سبق سیکھناہوگا۔بلاشبہ وینزویلا انقلاب نے معجزے کر دکھلائے ہیں لیکن یہ ابھی بھی مکمل نہیں ہواہے۔کیوبا کے انقلاب کی طرح سے وینزویلا کے انقلاب کی ابتدابھی ایک قومی جمہوری انقلاب کے طورپر ہوئی تھی۔شاویز کے ابتدائی پلان اورپروگرام وہی تھے جو ایک ترقی پسند بورژواجمہوریت پسند کے ہو تے ہیں،لیکن تاریخ گواہ ہے کہ سامراج اور اشرافیہ جمہوریت کے ازلی جانی دشمن چلے آرہے ہیں۔انقلاب کے قتل سے کم کسی چیز پر نہ وہ رکیں گے نہ آرام کریں گے۔اگر انقلاب کو بورژوا جمہوری اہداف تک محدود رکھنے کی کوشش کی گئی،دوسرے الفاظ میں انقلاب کو یہیں روکنے کی کوشش کی گئی تواسے بربادی سے بچانے سے کوئی بھی نہیں روک سکے گا۔
امریکی سامراج آخر کیونکر کیوبا اور وینزویلا کے انقلابات کو برباد کرنا چاہتا ہے؟اس کی وجہ یہی ہے کہ یہ انقلابات پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لیتے جارہے ہیں۔سامراجی جانتے ہیں کہ کیوبا اور وینزویلا مرکزومحور بنتے چلے جارہے ہیں اس لئے وہ ان کے خاتمے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
چی گویرا کا پروگرام یہ تھا کہ لاطینی امریکہ میں 20ویتنام پیداکر دئے جائیں۔یہ کسی طور برا آئیڈیا نہیں تھا۔لیکن اس وقت یہ ہونا ممکن بھی نہیں تھا۔وجہ یہ نہیں کہ تب واقعات وحالات کی نوعیت مناسب نہیں تھی بلکہ وجہ یہ تھی کہ گوریلا جنگ کے غلط ماڈل کو اپنایا اور اختیار کیا گیا۔لیکن اب بہت کچھ بدل چکا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام کا نامیاتی بحران سارے لاطینی امریکہ کے اندر بحران در بحران جنم دے رہاہے۔اور جو انقلابی حالات کو جنم دیتے چلے جارہے ہیں۔انقلاب کرنے کیلئے حالات ہر جگہ سازگارہوتے چلے جارہے ہیں۔Tierra del F uego سے لے کرRio Grandeتک کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں ایک بھی مستحکم سرمایہ دار حکومت قائم ہو۔درست قیادت موجود ہو تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ آنے والے دنوں میں لاطینی امریکہ کے کسی ایک یا بیشتر ملکوں میں پرولتاری انقلاب نہ کیا جاسکے۔جس بات کو سمجھنے اور جس سے بچنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو نیشنلزم نہ ہی رجعتی بورژوازی کے ساتھ بلاک بنانے کو اپنا مقصد بنایا جائے۔بلکہ ایک انقلابی سوشلسٹ پروگرام اور ایک انقلابی بین الاقوامیت کو مقصد و ہدف بنا کر جدوجہد کی جائے۔
متعلقہ:
حصہ اول: چے گویراکون تھا اور کس مقصد کے لئے لڑا؟