|تحریر: یاسر ارشاد|
5 اگست کو مودی حکومت کی جانب سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی ضمانت اور باشندہ ریاست کے قانون کو تحفظ فراہم کرنے والی آئین کی دفعات 370 اور35A کا خاتمہ صورتحال میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی ہے۔ لمبے عرصے سے قائم ایک مخصوص توازن کو حتمی سمجھنے والوں اور اسی قسم کے حقائق سے اخذ کردہ فارمولوں کے ذریعے اس خطے کی سیاست، سماجی حالات اور سفارتی تعلقات کا تجزیہ کرنے والوں کے شعور کو اس اچانک اور غیر متوقع فیصلے نے اس قدر شدت سے جھنجوڑا ہے کہ ان کو اپنا دماغی توازن بحال کرنے اور نئی صورتحال کی تفہیم میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں اس خطے کے حکمران طبقات کے کے کچھ دھڑوں کے ساتھ وہ سبھی لبرلز اور نام نہاد بائیں بازو کے خود ساختہ دانشور سر فہرست ہیں جو یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ کچھ بھی بدل نہیں سکتا ہر طرف جمود ہی جمود ہے، موجود توازن کو قائم رکھنا حکمران طبقات کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس لئے اس کو بدل دینے والے اقدامات کے بارے میں تو حکمران طبقات کا کوئی بھی حصہ تصور تک نہیں کر سکتا، سامراجی طاقتوں کے بھی مفادات اسی صورتحال کو قائم رکھنے میں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ مودی حکومت کا یہ فیصلہ اس قسم کی سوچ رکھنے والوں کی سماعتوں پر ایک اچانک دھماکے کی زوردار آواز کی مانند ہے جس نے ان کی سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے، اگرچہ یہ لوگ بے حس و حرکت نہیں ہوئے نہ ہی ان کی قوت گویائی معطل ہوئی ہے اسی لئے یہ چلتے پھرتے ہیں اور بولتے بھی ہیں لیکن تخیل کی حواس باختگی ہے کہ ختم ہی نہیں ہو رہی۔
پاکستان کا حکمران طبقہ انتہائی بے بسی کے عالم میں ہے اور اس فیصلے کو رکوانے کے لئے جنگ کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے جنگ کرنے کی سوچ کو جہالت قرار دے رہا ہے جبکہ عالمی سفارت کاری کے ساتھ کسی امید کو وابستہ کرنے کو احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف قرار دیتے ہوئے محض مودی کو کوسنے اور بددعائیں دینے پر اکتفا کر چکا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے وہ سبھی سیاسی و سماجی حلقے، جو ہندوستان کے سیکولر آئین اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کو مقدس گائے کی طرح پوجتے، اس پر اتراتے اور اسی کے اندر رہتے ہوئے ہر مسئلے کے حل پر پختہ ایمان رکھتے تھے، ایک صدمے سے دوچار ہیں، تبدیل شدہ صورتحال کو قبول نہیں کر پارہے اور 5 اگست سے پہلے والی حالت کو بحال کرنے کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ زیادہ تر قوم پرست حلقوں میں بھی کشمیر کی تسلیم شدہ متنازعہ حیثیت سے جو شعوری یا لاشعوری خوش فہمیاں وابستہ تھیں وہ ہندوستان کی جانب سے اس متنازعہ حیثیت کے خاتمے سے ریزہ ریزہ ہو چکی ہیں، سبھی حلقوں میں اپنی ماضی کی سیاست کی ناکامی کا شدید احساس پایا جاتا ہے اور ایک بے چین کر دینے والا سوال ہر ایک کے شعورمیں سلگ رہا ہے کہ کیا ہم کشمیر کی آزادی کی جدوجہد میں مکمل ناکامی سے دوچار ہو چکے ہیں۔ اسی بنیاد پر پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی تمام قوم پرست اور ترقی پسند تنظیموں پر مشتمل ایک اتحاد کا قیام عمل میں لایا گیا ہے جس سے آزادی پسند کارکنان میں ایک نئی موہوم سی امید جنم لے رہی ہے کہ ممکن ہے اب سبھی آزاد پسند وں کے حقیقی اتحاد سے شاید تحریکِ آزادی میں کوئی مؤثر کردار ادا کیا جاسکے۔ اس اتحاد کے قیام کو جدوجہد کے وسیع تناظر میں ایک حقیقی پیش رفت بنانے کا انحصار سبھی قوم پرستوں کی سائنسی بنیادوں پر اپنے اپنے ماضی کی بے رحمانہ تنقید سے درست نتائج اخذ کرنے اور مستقبل کی جدوجہد کو آج کے عہد کے تقاضوں سے ہم آہنگ نظریات کی بنیاد پر استوار کرنے کی اہلیت پر ہے۔
اس تبدیلی کے کیا محرکات و معنی ہیں؟
کشمیر کے سبھی آزادی پسندسیاسی کارکنان کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اس تبدیلی نے ماضی کی جس مخصوص کیفیت کو بدل دیا ہے اس کی تفصیلات کے ساتھ اس کے حقیقی معنی کو بھی سمجھا جائے۔ مودی حکومت کا موجودہ جابرانہ فیصلہ جہاں سات دہائیوں سے چلی آنے والی ایک مخصوص صورتحال کے مکمل خاتمے کا اعلان ہے وہیں کشمیر سمیت اس پورے خطے کے ایک نئے اور بہت حد تک انجانے عہد میں داخل ہونے کی عکاسی ہے۔ اس تمام صورتحال کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اپنی قومی حدود میں مقید سوچ سے باہر نکلتے ہوئے اس پورے خطے اور عالمی سطح پر جاری تبدیلی کے عمل کا مکمل احاطہ کیا جائے جس عمل میں موجودہ فیصلے کی جڑیں پیوست ہیں۔ وہ سبھی لوگ جو عالمی سطح پر اور اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات پر بحث و مباحثے کو حقارت سے اس لئے رد کر دیتے تھے کہ ہمارا تعلق تو صرف کشمیر سے ہے آج ان واقعات نے ان کی سوچ کو زیادہ افسوسناک حقارت سے رد کردیا ہے۔ ہمارے عہد کی سب سے بنیادی سچائی اور ناقابل تردید حقیقت اس کا معاشی، سیاسی، سماجی اور انقلابی و ردِانقلابی یعنی ہر حوالے سے عالمگیر ہونا ہے۔ اس عالمگیر عہد کا خاصہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک و قوم کے داخلی معاملات اس کی قومی حدود کے اندر ہی رونما ہونے والے واقعات سے متعین نہیں ہوتے بلکہ ان معاملات کا زیادہ غالب حصہ عالمی معیشت، سیاست و سفارتکاری کے تقاضوں اور ضروریات کے باعث تبدیل ہوتا ہے۔ کشمیر کو برصغیر و دنیا سے مکمل کٹا ہوا تصور کرنے والی سوچ مسئلہ کشمیر کی حقیقی وجوہات کی وضاحت کرنے اور اس کی آزادی کا درست راستہ فراہم کرنے میں پہلے سے ہی نااہل تھی لیکن ان واقعات کے باعث مکمل طور پر مسترد ہو چکی ہے اور اب بھی کوئی فرد اگر اسی قومی تنگ نظری کے ساتھ چمٹا رہنا چاہتا ہے تو اس پر افسوس کرنا بھی وقت کا ضیاع ہے۔ اسی لئے اس تبدیلی کے محرکات اور اس کے معنی کو سمجھنے کے لئے سب سے پہلے عالمی سطح پر رونما ہونے والی ان بنیادی تبدیلیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے جس کے تسلسل کے طور پر ہم موجودہ واقعات کی وضاحت کر سکتے ہیں اور اس تمام تجزیے کی بنیاد اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کرنا ضروری ہے کہ یہ دنیا ایک نا قابل تقسیم اکائی ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا دو عالمی نظاموں کے درمیان منقسم رہی جس میں ایک جانب قومیائی گئی معیشت پر بیوروکریٹک حاکمیت پر مبنی سٹالنسٹ بلاک اور اس کے اتحادی ممالک تھے جبکہ دوسری جانب امریکی سامراج کی قیادت میں سرمایہ دارانہ ممالک پر مشتمل بلاک تھا۔ نوے کی دہائی کے آغاز پر سوویت یونین کے انہدام اور چین میں سرمایہ داری کی استواری نے سٹالنسٹ بلاک کے خاتمے کے ساتھ ہی ساری دنیا کو امریکی سامراج کے قائم کردہ ورلڈ آرڈر کے تابع کرنا شروع کر دیا۔ 2008ء کے عالمی معاشی زوال نے امریکی سامراج کے دنیا کے تھانیدار کا کردار ادا کرتے رہنے کی معاشی و مالیاتی بنیادوں کو کمزور کرنا شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ہی اس کا قائم کردہ ورلڈ آرڈر بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ عالمی سطح پر سرمایہ داری نظام کے نامیاتی زوال کا عمل دنیا کے مختلف خطوں میں انقلابی تحریکوں، خانہ جنگیوں اور تمام عالمی اداروں کی ٹوٹ پھوٹ جیسے بڑے واقعات کے ذریعے اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اب ایک دہائی بعد اس سے بھی کئی گنابڑے اور خوفناک مالیاتی بحران کا آغاز ہونے کے قریب ہے۔ اس صورتحال میں ہر خطے میں ریاستوں اور ممالک کے مابین قائم سابقہ توازن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا ہے اور امریکی سامراج کی کمزوری کے باعث پیدا ہونے والا خلا دنیا کے ہر خطے میں نئی مقامی دوسرے یا تیسرے درجے کی سامراجی طاقتوں کو ابھرنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ پرانے اتحادی دشمن بن رہے ہیں اور پرانے دشمنوں کے مابین دوستی کی پینگیں بڑھ رہی ہیں لیکن سرمایہ داری نظام کے مسلسل بڑھتے بحران کے باعث یہ سارا عمل شدید عدم استحکام اور انتشار کا شکار ہے اورکہیں بھی کوئی پائیدار اتحاد تشکیل نہیں پا رہا۔
کشمیر پر قابض پاک و ہند کی ریاستیں بھی اسی شدید اتھل پتھل کے عمل کا شکار ہیں اور تقسیم ہند کے بعد تقریباً چھ دہائیوں سے زیادہ عرصے تک امریکہ کے مخالف کیمپ میں رہنے کے بعد ہندوستان اور امریکہ کے درمیان اتحادیوں کا رشتہ پروان چڑھ چکا ہے۔ امریکہ کے ہندوستان کی جانب جھکاؤ کے عمل نے پاکستانی حکمران طبقات میں ایک ردِعمل پیدا کیا اور انہوں نے امریکہ سے ناراضگی کا اظہار چین کی جانب ضرورت سے کچھ زیادہ جھکاؤ کے ذریعے کیا لیکن چند سالوں کے دوران ہی ان کو احساس ہو گیا کہ امریکی آقا کی غلامی سے نکل کر چین کی غلامی اختیار کر لینے میں پاکستانی ریاست کی بقا ممکن نہیں چونکہ امریکی سامراج دنیا کے تمام مالیاتی نظام کو کنٹرول کرتا ہے جس کی امداد پاکستانی ریاست کی نیم جان معیشت کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ اسی لئے پاکستان کے موجودہ حکمران ناراضگی اور دوریوں کے مختصر عرصے کے بعد حالیہ امریکی دورے کے دوران دوبارہ امریکی سامراج کی چوکھٹ پر سر نگوں نظر آئے اور شاید پہلے سے زیادہ ذلت ناک غلامی کو قبول کر آئے ہیں۔ دوسری جانب چین کے ایک نئی سامراجی طاقت کے طور ابھار نے اس خطے اور دنیا بھر میں چین اور امریکہ کے مابین نئے تضادات اور تصادموں کو ابھارا ہے۔ اس خطے میں چینی سامراج کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف امریکی سامراج اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے ہندوستانی ریاست کو ایک متبادل سامراجی ریاست کے طور پر تیار کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گزشتہ عرصے میں ہندوستان کی معیشت کی تیز ترین ترقی نے بھی اس کے حکمران طبقات کو ایک بڑی طاقت ہونے کے زعم میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جن کے باعث ہندوستان اور پاکستان کے درمیان قائم توازن کی معاشی و سفارتی بنیادی ہیں بدل چکی ہیں جس کا ناگزیر اظہار سیاسی میدان میں ہندوستانی حکمران طبقات کے موجودہ فیصلے میں ہو رہا ہے۔ ایک طویل عرصے تک امریکی سامراج کی پشت پناہی کے باعث پاکستان کے حکمران طبقات خود کو ہندوستان کا مدمقابل سمجھتے رہے لیکن یہ صورتحال اب مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے۔ ہندوستان کی معاشی طاقت اور امریکی سامراج کی پشت پناہی اپنا اظہار ہندوستان کے حکمران طبقات کے غرور اور رعونت کے ذریعے کر رہی ہے اور یہی وہ بدلا ہوا طاقتوں کا توازن ہے جس نے مودی کے اس فیصلے کے ذریعے اپنا اظہار بھی کیا ہے اور اس خطے کے حوالے سے ایک نئے عدم استحکام پر مبنی عہد کا آغاز کر دیا ہے۔ کشمیر کا خطہ جو گزشتہ سات دہائیوں سے ہند وپاک اور چین کے مابین منقسم ہے، مودی کے اس فیصلے نے اس تقسیم کے غیر مستقل ہونے کی نام نہاد قانونی و آئینی حیثیت(جس کی پہلے بھی کوئی عملی افادیت نہیں تھی) کا بھی خاتمہ کر دیا ہے۔ اس فیصلے نے کشمیر کے تنازعے کی سابقہ حیثیت کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے اور سرمایہ دارانہ نظام کا کوئی قانون اور کوئی نام نہاد عالمی ثالث پرانی حیثیت کو بحال کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا۔ کشمیر کے مسئلے کو قومی بنیادوں پر حل کرنے کے نظریات اگرچہ نوے کی دہائی میں اپنی ناکامی اور نااہلی کا اظہار کر چکے تھے لیکن اس فیصلے نے بڑے پیمانے پر ہر قسم کی قوم پرستی کی فرسودگی کو روز روشن کی طرح آشکار کر دیا ہے۔ پاکستانی قوم پرستی جس کو مذہب کی بنیاد پر قوم کی تشکیل جیسے خیالی اور غلط نظریات پر استوار کیا گیا تھا، اگرچہ اس کا خاتمہ تو بنگلہ دیش کی تشکیل کے ساتھ ہی ہو گیا تھالیکن اس کو حکمران طبقات نے ہندوستان سے کشمیر کو حاصل کرنے جیسی نئی بنیادیں دے کر کسی حد تک قائم رکھنے کی کوشش کی۔ نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران طبقات سمیت دیگر بے شمار کشمیری بھی اس پاکستانی قوم پرستی کو ہی مسئلہ کشمیر کا حل قرار دے رہے تھے اس فیصلے کے بعد سرِ بازار رسوا ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے آقا پاکستان نے اس فیصلہ کن وقت میں اپنی مبینہ شہ رگ پر ہندوستانی قبضے کی گرفت کو پہلے سے زیادہ سخت اور مکمل ہونے سے روکنے کے لئے کوئی بھی اقدام نہیں کیا۔ ہندوستانی ریاست کی سیکولر اور جمہوری قوم پرستی کے چہرے پر مودی حکومت نے کالک ملتے ہوئے ایک انتہائی شرمناک اور جابرانہ فیصلہ کشمیر کے مقبوضہ عوام پر ہندوستانی فوجی سنگینوں کے ذریعے مسلط کر دیا ہے۔ اسی طرح کشمیر کے قوم پرست جو ہندوستان اور پاکستان کے خلاف قومی بنیادوں پر جدوجہد کے ذریعے آزادی کے حصول کا خواب دیکھ رہے تھے ان کا یہ خواب ایک بھیانک اور ڈراؤنے خواب میں تبدیل ہو چکا ہے۔ قومی بنیادوں پر آزادی جو پہلے بھی کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی اب ناممکن لگنا شروع ہو گئی ہے۔ درحقیقت کشمیر کی قومی آزادی کی تحریک کبھی بھی درست نظریاتی بنیادوں پر استوار ہی نہیں کی جا سکی۔ اس کی سب سے بڑی کمزوری پاکستانی سامراج کو کشمیر کی آزادی کا حمایتی سمجھتے ہوئے اس کے خلاف جدوجہد کرنے کی بجائے اس کے ایما پر ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے گرد اپنی جدوجہد منظم کرنا تھا۔ دوسری بڑی کمزوری خاص کر نوے کی دہائی کے تجربے کے بعد بھی قومی بنیادوں پر ہی مسئلہ کشمیر کی وضاحت کرنا اور اس کو آزاد کرانے کی جدوجہد کرنا تھا۔ ایک اور بنیادی خامی یہ رہی کہ کبھی بھی مسئلہ کشمیر کو اس کے خطے کی معیشت، سیاست اور سفارتکاری اور عالمی سرمایہ داری نظام کی مجموعی ضروریات اور تقاضوں کے ساتھ تعلق میں دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی اور نہ ہی یہ سمجھا گیا کہ عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات اور بدلتے ہوئے عہد کے کردار کی وضاحت کرنا کس قدر ضروری ہے۔ مارکسیوں کے اس مؤقف کو کہ سرمایہ داری کے اس عالمگیر زوال کے عہد میں کشمیر سمیت کسی بھی محکوم قوم کی آزادی اور حق خود ارادیت کا حصول قومی بنیادوں پر سرمایہ داری نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ممکن نہیں، کو ہمیشہ یہ کہہ کر رد کیا جاتا رہا کہ یہ قومی آزادی کے خلاف کوئی سازش ہے۔ مارکسیوں کے اس موقف، کہ قومی کی بجائے محنت کشوں کی طبقاتی اور بین الاقوامی بنیادوں پر جدوجہد کو استوار کرنے کی ضرورت ہے، کو رد کرنے کے لئے زمین وآسمان ایک کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ کشمیر میں کوئی محنت کش طبقہ وجود ہی نہیں رکھتا، یہاں کوئی صنعتی ڈھانچہ ہی نہیں ہے اس لئے یہاں پرولتاریہ کا تو وجود ہی نہیں وغیرہ وغیرہ۔ مارکسزم کا یہ موقف ہے کہ نام نہاد آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی آزادی براہ راست پاکستان کے محنت کش طبقے کی سرمایہ داری نظام کے خاتمے کی جدوجہدکے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ پاکستان کا حکمران طبقہ ہی کشمیریوں سمیت پاکستان کی دیگر محکوم قومیتوں پر غاصبانہ قبضہ کئے ہوئے ہے اور یہی حکمران طبقہ پاکستان کے محنت کشوں پر بھی طبقاتی حاکمیت قائم کئے ہوئے ہے اور ان کا بد ترین استحصال کر رہا ہے۔ کشمیر سمیت تمام مظلوم قومیتوں کا اپنا قومی حکمران ٹولہ اپنی قوم کے ساتھ ان کی مظلومی اور محکومی کا شراکت دار ہونے کی بجائے پاکستانی حکمران طبقات کا آلہ کار بنا ہوا ہے اور کشمیر کے محنت کشوں اور عام عوام پر پاکستانی سامراج کے حکمران طبقے کے ہر ظلم کو مسلط کرنے کا ایک اوزار ہیں۔ اس غلامی کی بنیادیں قومی نہیں بلکہ طبقاتی ہیں اور اس کے خلاف جدوجہد بھی طبقاتی بنیادوں پر ہی منظم کی جاسکتی ہے جس کو کسی قومی دائرے کے اندر محدود رکھنا پھر اس کو کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے زیر قبضہ کشمیریوں کی آزادی بھی ہندوستان کے محنت کش طبقے کی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد سے منسلک ہے۔ یہ موقف پہلے بھی درست تھا لیکن مودی کے اس فیصلے سے جنم لینے والے نئے حالات نے اس کی درستگی کو زیادہ واضح کر دیا ہے۔ لیکن جب تک کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں یہ جدوجہد اپنے اپنے حکمران طبقات کے خلاف ایک انقلابی نظریے اور پروگرام کی بنیاد پر استوار نہیں کی جائے گی تب تک اس کو خطے کے دیگر علاقوں کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سامراجی قبضے اور جبر کے خلاف مزاحمت اسی بنیاد پر منظم کی جاسکتی ہے اور نئے نعروں کے ذریعے اس جدوجہد کی حمایت کو پاکستان اور ہندوستان کے محنت کش طبقات کی وسیع پرتوں تک پھیلایا جا سکتا ہے۔
مودی کے اس فیصلے کے خلاف اس وقت بھی سب سے زیادہ احتجاج ہندوستان کے مختلف شہروں میں بائیں بازو کی تنظیموں کی جانب سے منظم کئے جا رہے ہیں۔ مودی کے اس فیصلے نے کشمیر کی جدوجہد کی حمایت میں ہندوستان کے بائیں بازو کے تمام کارکنان کو متحرک کر دیا ہے اگرچہ ان کی یہ جدوجہد ہندوستان کے آئین کے تحفظ کے نقطہ نظر سے کی جارہی ہے۔ لیکن کشمیریوں کے خلاف اس فیصلے کی مخالفت میں ہونے والے یہ احتجاج حکمران طبقات کے خلاف تمام قوموں کے محنت کشوں کی مشترکہ جدوجہد کے کردار کی عکاسی کر رہے ہیں۔ محنت کشوں کی جدوجہد کے اسی مشترکہ کردار کو مزید واضح کرتے ہوئے اس کو ایک مارکسی انقلابی پروگرام پر استوار کرنے کی ضرورت ہے۔
مودی کے اس فیصلے نے حکمرانوں کے پھیلائے ہوئے ایک اور غلط پروپیگنڈے کو بھی بنیادوں سے مسمار کر دیا ہے کہ کشمیر کا تنازعہ کوئی مذہبی مسئلہ ہے اور تمام مسلم اُمہ مظلوم کشمیری مسلمانوں کی حمایت کرتی ہے۔ مودی کے اس فیصلے کے خلاف مسلم اُمہ کے ٹھیکیداروں نے انگلی تک نہیں اٹھائی بلکہ بعض ممالک کے حکمرانوں نے کھلے عام اس کو ہندوستان کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے۔ پاکستان کے حکمران طبقات دہشت گردوں کی پشت پناہی میں جس حد تک بدنام ہو چکے ہیں عالمی سطح پر ان کے سروں پر لٹکتی ہوئی فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی جانب سے بلیک لسٹ قرار دیے جانے کی تلوار کے باعث دہشت گردوں کے ذریعے کسی قسم مداخلت کے امکانات بھی بہت محدود ہو چکے ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقات کی جانب سے کسی ٹھوس اقدام اٹھانے کی نااہلی نے بھی بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام میں پاکستانی حمایت سے آزادی حاصل کرنے کی بچی کھچی آس بھی مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے جو اس تحریک کے مستقبل کے حوالے سے انتہائی اہم پیش رفت ثابت ہوگی۔ کشمیر کے مسئلے کو مذہبی جنگ بنا کر دہشت گردی کا کاروبار کرنے والی تنظیموں اور پارٹیوں کی اس فیصلہ کن وقت میں مکمل بے عملی ان کی رہی سہی سماجی بنیادوں کو بھی ختم کر دے گی۔ پاکستان کے حکمران طبقات بھی اس نئی صورتحال میں اپنے مقبوضہ علاقوں سے کشمیر کی آزادی کے حق میں اٹھنے والی آوازوں کو زیادہ ریاستی جبر کے ذریعے دبانے کی کوشش کریں گے۔ پاکستانی مقبوضہ علاقوں میں آزادی کی اس جدوجہد کو اس لئے بھی ایک حد تک برداشت کرتے آئے ہیں کہ اس کو ہندوستان کے خلاف سفارتی محاذ پر ایک دلیل کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں کہ یہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ہے لیکن اب اس قسم کی سیاسی سرگرمیوں کی مخالفت کا رخ بھی ماضی کی نسبت پاکستان کی جانب زیادہ جارحانہ تنقید پر مبنی ہو گا جس کو برداشت کرنا ان حکمرانوں کے لئے اب پہلے کی طرح فائدہ مند نہیں رہا۔ پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر پاک فوج کی زیر نگرانی پہلی بار پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے مختلف شہروں میں پاکستانی پرچم لہرائے گئے اور پہلے جو تقریبات منعقد کرنے کی ذمہ داری ضلعی پولیس افسران کی تھی ان کو اب براہ راست پاک فوج کی نگرانی میں کروایا گیا ہے۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے کشمیر کی اسمبلی میں 14 اگست کو اپنے خطاب میں مودی کے موجودہ فیصلے کو اقوام متحدہ کا امتحان قرار دینے اور کشمیر میں جاری مظالم کو یورپی سامراجی ممالک کے سامنے لانے جیسے بے معنی لفظوں کی جگالی کرتے ہوئے کشمیر پر اپنے قبضے کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی۔
ہندوستانی مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے موجود لاکھوں کی تعداد میں فوجی و نیم فوجی دستوں کی تعداد میں مزید بھاری نفری کا اضافہ کرتے ہوئے اس فیصلے کے خلاف ابھرنے والی مزاحمت کو ابھی تک روکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انٹرنیٹ، کیبل ٹیلی ویژن، موبائل اور لینڈ لائن ٹیلی فون سمیت تمام اخبارات کی اشاعت پر پابندی عائد کرتے ہوئے کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں کرفیو نافذ کر کے ابھی تک کشمیر کی اصل صورتحال کو دنیا کے سامنے آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ان تمام پابندیوں کے باوجود جو تھوڑی بہت خبریں سامنے آ رہی ہیں ان سے واضح ہو رہا ہے کہ کشمیر کے زیادہ تر علاقوں میں اس فیصلے کو کشمیری ایک انتہائی جابرانہ اور مکارانہ دھوکہ قرار دے رہے ہیں جس کو کسی بھی صورت میں قبولیت ملنے کے امکانات مکمل طور پر مخدوش ہیں۔ وادی کے علاقوں میں جمعہ کی نماز یا اس کے تین دن بعد عید کی نماز کے لئے جب تھوڑی دیر کے لئے کرفیو میں نرمی کی گئی اس دوران بھی بڑے مظاہرے ہوئے ہیں جن کے دوران پولیس اور فوج کے ساتھ تصادم بھی ہوئے۔ محدودے چند صحافی ہیں جنہوں نے اس ریاستی جبر کے دوران کشمیر کا سفر کیا ہے، ان کی رپورٹوں کے مطابق کشمیر میں ابلاغ اور رابطوں کے تمام ذرائع پر پابندی اور پوری وادی کو جیل میں تبدیل کرنے سے جو اس وقت خاموشی ہے وہ امن کی نہیں بلکہ ایک بڑے طوفان سے پہلے کی خاموشی ہے۔ کشمیر میں ان صحافیوں نے جن اکا دکا کشمیریوں سے ملاقات کے دوران اس فیصلے کے بارے سوال کیا تو انہوں نے صرف یہی جواب دیا کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں یہ آپ کو اس وقت پتہ چل جائے گا جب یہ کر فیو اٹھایا جائے گا۔ کشمیر میں ہندوستانی قبضے کے خلاف جاری تحریک کے بنیادی محرکات میں مودی حکومت کے حالیہ جابرانہ اقدامات نے مزید نفرت انگیز مواد کا اضافہ کر دیا ہے جو اس تحریک کو زیادہ شدت کے ساتھ ابھارنے کا موجب بنے گا۔ جموں اور لداخ کے علاقے میں کبھی بھی ہندوستان کے خلاف کوئی بڑی تحریک نہیں رہی اسی لئے ہندوستان کے حکمران طبقات یہ سمجھ رہے تھے کہ ان علاقوں کے عوام اس فیصلے کو خوش آمدید کہیں گے لیکن اس فیصلے کے خلاف لداخ کے نوجوانوں نے بھی کافی بڑی تعداد میں احتجاج کر کے اس تاثر مکمل طور پر زائل کر دیا ہے۔ جموں اور لداخ میں اس فیصلے کے خلاف نفرت کسی بڑی تحریک کی صورت میں شاید اظہار نہ بھی کرے لیکن وادی کی بغاوت کے ساتھ اب ان خطوں کی ایک جڑت کی تشکیل کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔
مودی کے خلاف مزاحمت کیسے کی جائے؟
مودی حکومت کے اس فیصلے نے جس نئی صورتحال کو جنم دیا ہے اس کے خلاف لڑنے کے لئے پورے برصغیر میں عمومی طور پر اور بالخصوص کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں جدوجہد کو کن بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے؛ اس سوال کو سبھی سیاسی و سماجی حلقوں میں بنیادی اہمیت دی جانی چاہیے۔ کیا کرنا چاہیے کا سوال جہاں بظاہر فوری عمل کا سوال ہے وہیں اس کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اس عمل کی بنیاد کون سے سیاسی نظریات پر ہو نی چاہیے؟ کیا کشمیر کی جدوجہد کو اب بھی اس کی سابقہ قومی
بنیادوں پر ہی استوار رکھتے ہوئے کسی درست عملی جدوجہد کی جانب پیش قدمی کی جاسکتی ہے؟ ہمارے خیال میں عمل کی نوعیت دو قسم کی ہے ایک اس فیصلے کی مذمت کرنے کے لئے کی جانے والی عملی سرگرمی اور دوسری کشمیر کی جدوجہد کو درست سیاسی نظریات پر استوار کرنے کے لئے کی جانے والی عملی سرگرمی۔ مودی حکومت کے موجودہ فیصلے نے واضح طور کشمیر کے مسئلے کو ہندوستان اور پاکستان کی مزدور تحریک کا سوال بنا دیا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے حکمران طبقات کشمیر کے مسئلے کو حل کرنے کی صلاحیت سے مکمل طور پر عاری ہیں اور یہ اس کی خونی تقسیم کو ایک یا دوسرے طریقے سے اپنے اس نظام کو تقویت دینے کے لئے استعمال کرتے رہیں گے۔ کوئی بھی عالمی ادارہ یا سامراجی طاقت بھی اس مسئلے کو حل کرانے کی اہلیت نہیں رکھتی جس کا ثبوت نہ صرف سات دہائیوں کی تاریخ فراہم کرتی ہے بلکہ مودی حکومت کے موجودہ فیصلے نے اس کا ایک تازہ ثبوت فراہم کر دیا ہے کہ سرمایہ داری کے اندر سامراجی طاقتوں کے مفادات کی نوعیت بھی اس خطے میں ایسی نہیں ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحت ہی کشمیر کو ہندوپاک کے سامراجی جبر سے نجات دلا سکیں اگرچہ اس قسم کی ہر سوچ اپنی بنیاد میں محض ایک سامراجی طاقت کی غلامی سے نکل کر دوسری سامراجی طاقت کی غلامی اختیار کرنے جیسی شرمناک حد تک مجرمانہ ہے۔ آزادی پسند کارکنان کی ایک بڑی تعداد بے چین و مضطرب ہے کہ فوری طور پر ایسا کیا عمل کیا جائے جس سے غلامی سے خاتمے کی جدوجہد درست بنیادوں پر آگے بڑھنا شروع ہوجائے اور اس فیصلے کے خلاف عوام میں پائے جانے والے غم و غصے کو کسی پلیٹ فارم پر متحد و منظم کیا جا سکے، دوسرے لفظوں میں اس وقت کو ایک فیصلہ کن عملی اقدام کا وقت قرار دیا جا رہا ہے۔ کسی حد تک یہ خیال درست ہے کہ یہ عملی اقدام کا وقت ہے لیکن ہر عملی اقدام کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار ان نظریات اور حکمت عملی کی درستگی پر ہوتا ہے جس کی بنیاد پر یہ عملی اقدام اٹھایا جاتا ہے۔ اس لئے یہ وقت صرف عملی اقدام کا نہیں ہے بلکہ کشمیر کی تحریک کو درست نظریاتی بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے عملی جدوجہد کو تیز تر کرنے کا وقت ہے۔ مودی حکومت کے اس فیصلے کے خلاف کشمیر کے تمام منقسم حصوں میں عوام اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے جس میں پاکستانی مقبوضہ حصوں میں پاکستان کے قبضے کے خاتمے کی جدوجہد کو اس احتجاجی تحریک کا محور بنانے کی ضرورت ہے۔ قومی آزادی کے جس خیالی پروگرام اور نعروں کے ذریعے اس جدوجہد کو پاکستانی مقبوضہ خطے کے عوام تک لے جانے کی اب تک جو کوششیں ہوتی آئی ہیں اس کی نہ ہونے کے برابر عوامی قبولیت ان نظریات، نعروں اور طریقہ کار و حکمت عملی کی مکمل ناکامی کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔ اس لئے عوام و محنت کشوں کی اکثریت کو اس جدوجہد میں شامل کرنے کے لئے ایک نئے پروگرام اور نئے نعروں کی ضرورت ہے جو اس خطے کے محنت کشوں اور عوام کی حقیقی نجات کی نمائندگی کرتے ہوں۔ ایسے ہی ایک پروگرام کے گرد عوام اور محنت کشوں کی وسیع تر پرتوں کو منظم کرتے ہوئے احتجاجوں اور دیگر سرگرمیوں کے ایک پورے سلسلے کے ذریعے ایک عام ہڑتال کو منظم کرنے کی جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ نام نہاد آزاد کشمیر کی ایک عام ہڑتال اس خطے کی جدوجہد کی حقیقی صورت کو کشمیر کے تمام حصوں اور پورے برصغیر کے محنت کشوں کے سامنے لے آئے گی جس کے ذریعے کشمیر کی جدوجہد آزادی کو ایک نئی جہت دی جا سکتی ہے۔ نام نہاد آزادکشمیر کی اس عام ہڑتال کو مظفرآباد میں موجود پاکستان کی گماشتہ حکومت کے خاتمے اور عوام و محنت کشوں کے حقیقی منتخب نمائندوں پر مشتمل مزدور حکومت کے قیام کا نقطہ آغاز بنایا جائے۔ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کی جدوجہد میں اس قسم کی پیش رفت کشمیر کے تمام منقسم حصوں کو اپنی پیروی کرنے پر مجبور کرے گی اور اس کے ساتھ پورے بر صغیر کے محنت کش بڑے پیمانے پر اس جدوجہد کی نہ صرف حمایت کریں گے بلکہ اسی طرز پر اپنے حکمرانوں کے خلاف جدوجہدکو آگے بڑھائیں گے۔ دوسری جانب یہ تمام جدوجہد کہیں خلا میں نہیں کی جائے گی بلکہ ہر مرحلے پر خطے کے دیگر حصوں میں ابھرنے والی محنت کشوں کی اس نظام کے خلاف ابھرنے والی تحریکوں کے ساتھ دو طرفہ اثرات کے تحت ہی آگے بڑھ پائے گی۔ ہندوستان کے اندر بھی مودی حکومت کے غیر جمہوری اقدامات کو روکنے کا یہی طریقہ ہے کہ ہندوستان کے تمام بائیں بازو کے دھڑے ان اقدامات کے خلاف محنت کشوں اور کسانوں کی تمام طاقت کو متحد کرتے ہوئے ایک عام ہڑتال کی کال دیں اور مودی حکومت کے محض موجودہ اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کرنے کی بجائے مودی حکومت کے خاتمے اور محنت کشوں اور کسانوں کی جمہوری منتخب کمیٹیوں کے ذریعے ایک حقیقی مزدور ریاست کے قیام کی جدوجہد کو آگے بڑھایا جائے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کی مزدور تحریک بھی اس مزدور دشمن نظام کے خلاف تمام محکوم قومیتوں اور محنت کشوں کو متحد و منظم کرتے ہوئے اس گلے سڑے نظام کی غلاظتوں کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکتی ہے۔ مسئلہ کشمیر، جو بر صغیر کی سیاست کا سب سے زیادہ زیر بحث آنے والا سوال اور قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنائے جانے والے نظریات اور طریقہ کار کی سب سے بڑی تجربہ گاہ بھی ہے، کی صورتحال میں حالیہ تبدیلی دیگر مظلوم اقوام کے آزادی پسندوں کے لئے بھی بے شمار اسباق فراہم کر رہی ہے۔ خطے کی دیگر محکوم اقوام کو بھی اس سے اسباق حاصل کرنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی محکوم قوم کا قومی مسئلہ آج کے عہد میں قومی جدوجہد کے ذریعے حل نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر محکوم قوم کے محنت کشوں اور عام عوام کو طبقاتی بنیادوں پر منظم ہوتے ہوئے اپنی جدوجہد کو خطے کی دیگر اقوام کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی جڑت تشکیل دیتے ہوئے سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے آگے بڑھنا ہو گا۔ ہر محکوم قوم کے محنت کشوں کی سب سے اہم جڑت ظالم و جابر قوم کے محنت کشوں کے ساتھ جڑت ہے جس کے لئے ضروری ہے کہ محکوم قوم کے محنت کش طبقاتی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے اس نقطے کو سمجھیں کہ کسی بھی ظالم قوم کے اندر بھی ایک طبقاتی تقسیم ہوتی ہے اور کبھی بھی ظالم قوم کا محنت کش طبقہ اور عام عوام کسی محکوم قوم پر قابض نہیں ہوتے بلکہ جو حکمران طبقہ مظلوم قوم پر قابض ہوتا ہے وہ اپنی عوام اور محنت کشوں کا استحصال بھی کرتا ہے اور اسی بنیاد پر اپنی حکمرانی قائم رکھے ہوئے ہے۔ اسی طرح محکوم قوم کے عوام غلامی کی جن زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں وہی زنجیریں محکوم قوم کے حکمران طبقات کے لئے نہیں ہوتی۔ محکوم قوم کا حکمران طبقہ اپنے ہی عوام کی آزادی کا سودا کر کے حاکم قوم کے حکمران طبقات کا اتحادی اور سامراجی جبر کو اپنے ہی عوام پر مسلط کرنے والا ایک اوزار بن جاتا ہے اور اپنی قوم کی آزادی کا سب سے بڑا دشمن ہو جاتا ہے کیونکہ سامراجی غلامی کے خاتمے کا مطلب اس کی حاکمیت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ اسی لئے آج کے عہد میں قومی مسئلہ حاکم اور محکوم قوم کے مابین کسی قومی جدوجہد کے ذریعے حل نہیں ہو سکتابلکہ صرف حاکم اور محکوم طبقات کے مابین ایک انقلابی جنگ کے ذریعے محکوم اقوام کے عوام اور محنت کش اپنی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔