|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، سندھ|
اس وقت پاکستان مکمل طور پر سیلاب کی زد میں ہے۔ بلوچستان، خیبر پختونخواہ، جنوبی پنجاب اور سندھ میں لاکھوں گھر تباہ ہوچکے ہیں جبکہ سینکڑوں لوگ اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ لاکھوں بے زبان جانور بھی مر چکے ہیں۔ زراعت تباہ و برباد ہو چکی ہے۔ بجلی، گیس اور آمد و رفت کے ذرائع شدید متاثر ہو چکے ہیں۔ لوگوں کے پاس راشن، سبزی اور خوراک ختم ہو چکی ہے۔ پینے کا صاف پانی ناپید ہونے کے سبب بہت سی بیماریوں نے محنت کش عوام کو گھیر لیا ہے۔ جبکہ ریاست کی جانب سے اس تباہی سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی انتظام نہیں کیا جارہا۔
سندھ بھی گزشتہ دو مہینے سے طوفانی بارشوں کی زد میں ہے۔ سرکاری ادارے پی ڈی ایم اے سندھ کے مطابق حالیہ برسات کے سبب اب تک ہلاک ہونے والوں کی مجموعی تعداد 347 اور زخمی ہونے والوں کی تعداد 1009 ہے۔ جبکہ یہ اعداد و شمار حقیقت سے کہیں دور ہیں۔
نہری نظام مکمل طور پر ناقص ثابت ہوا ہے۔ کشمور سے لے کر کراچی تک کوئی بھی علاقہ اس بربادی سے بچ نہیں پایا۔ دوسری جانب ریاست کسی بھی جگہ عملی طور نظر نہیں آرہی اس کے برعکس علاقائی جاگیردار، وزرا، مشیر اور وڈیرے اپنی زرعی زمینوں کا پانی نکال کر نہروں یا برساتی نالوں میں چھوڑ رہے ہیں جس کے سبب سیلاب سے متاثرہ لوگوں کو مزید دشواریاں جھیلنا پڑرہی ہیں۔
بے گھر لوگوں کیلئے کوئی امداد یا معاوضے کا بندوست نہیں کیا گیا بلکہ پیپلز پارٹی کے رہنما منور تالپور اور مسلم لیگ ن کی رہنما راحیلہ مگسی کی وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں دونوں شخصیات نے سیلاب متاثرین کو پچاس روپے یا پانچ سو روپے دے کر ان کی تذلیل کی۔ اس سے حکمرانوں کی عمومی انسان دشمن سوچ اور سرمایہ دارانہ نظام کی انسان دشمن اخلاقیات ایک بار پھر واضح ہوئیں۔ یہ عمل حکمران طبقے کی محنت کش دشمن ذہنیت کی مکمل عکاسی کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک محنت کشوں کی زندگیوں کی قیمت چند ٹکوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔
اس تمام تر ریاستی بے حسی کے دوران لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت امدادی سرگرمیاں کیں اور ریاستی نا اہلی کے خلاف احتجاج بھی کیے۔ اسی تسلسل میں سندھ کے شہر نوشہرو فیروز میں سیلاب متاثرین نے سٹی کورٹ کے سامنے ڈپٹی کمشنر کا راستہ روک کر احتجاج کیا۔
ضلع کشمور میں بھی علاقائی وزیر سردار شبیر بجارانی کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھا کر احتجاج کیا گیا۔
وزیراعلی سندھ کر دورے کے دوران بدین شہر میں علاقہ مکینوں نے راستہ روک کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔
ٹنڈوالہیار میں روڈ بلاک کر کے ضلعی انتظامیہ، علاقائی جاگیردار، وزیر اور صوبائی انتظامیہ کے خلاف سخت نعرے بازی کرکے احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔
خیر پور ناتھن شاہ اور جوہی میں علاقہ مکینوں نے کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے بچاؤ بند کی حفاظت کی اور جاگیرداروں کی عوام دشمن اقدامات کو ناکام بنایا۔
جھڈو جیسے پسماندہ ترین شہر میں بھی محنت کش عوام نے انتظامیہ کے تذلیل آمیز رویے کے خلاف احتجاج کیا جس کو سپوتاز کرنے کیلئے فوج کو طلب کر لیا گیا۔ مگر محنت کش عوام نے مزاحمت کرکے مسلح جتھوں کو واپس جانے پر مجبور کردیا۔
اسی طرح وزیراعظم شہباز شریف کے سکھر دورے میں متاثرین نے بھرپور احتجاج کیا جس کے ردعمل میں متاثرین پر مقدمات بھی درج کیے گئے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ ان تمام احتجاجی مظاہروں کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے ریاستی جبر کی مذمت کرتا ہے اور یہ واضح کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس کرۂ ارض پر ناسور بن چُکا ہے۔ ایک طرف منافعوں کی ہوس نے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے تو دوسری طرف محنت کش عوام کی دشمن ریاست اور نا اہل و سفاک حکمران محنت کش عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے تک سے قاصر ہیں۔ یہ نظام اس حد تک متروک ہو چکا ہے کہ محنت کشوں کو طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بچانے کیلئے محض کالر ٹیون بدلنے کے سوا کوئی بھی سنجیدہ اقدام کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری کی پسماندگی اور حکمران طبقے کی نا اہلی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 75 سالوں میں بنیادی انفراسٹرکچر تک تعمیر نہیں کیا۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اس تمام تر بربادی کے ذمہ دار ریاست اور اس پر مسلط حکمران طبقہ اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو محنت کش عوام کو بنیادی سہولیات دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ درحقیقت منافعوں کی ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہی ماحولیات کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا آج انسانیت کو بچانے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہوچکا ہے۔ محنت کشوں کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب ہی نسل انسانی کو وحشی سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔