|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
27 سے 29 فروری کے درمیان گوادر میں ہونے والی طوفانی بارشوں نے گوادر شہر کے گلی کوچوں اور میدانوں کو دریا بنا دیا ہے، جو اس وقت تک پانی کے اندر گھرے ہوئے ہیں۔ بارش ہونے سے چار دن پہلے پیشگوئی کی گئی تھی کہ بارشوں کا ایک خطرناک سسٹم بلوچستان بالخصوص گوادر میں داخل ہونے والا ہے، لیکن اسے ریاست کی جانب سے مکمل طور پر نظر انداز کر دیا گیا جس کے نتیجے میں پورا گوادر شہر ڈوب گیا۔
بارش کے بعد شہر کا سب سے زیادہ متاثرہ علاقہ ’تھانہ وارڈ‘ ہے جو تادمِ تحریر پانی کے اندر ڈوبا ہوا ہے۔ کچھ رپورٹس کے مطابق اس وارڈ میں تقریباً 50 کے قریب گھر گرنے کی اطلاعات بھی ہیں۔
اس کے علاوہ ملا بند وارڈ جو بالکل پورٹ کے برابر میں واقع ہے، بھی بہت متاثر ہوا ہے جہاں ابھی تک کئی گھروں کے اندر پانی بھرا ہوا ہے اور مکینوں کو سونے کے لیے بستر تک میسر نہیں ہیں۔ اور وہ اپنے رشتہ داروں اور پڑوسیوں کے ہاں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
ملا فاضل چوک اور برابر والے علاقے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں لیکن لوگوں کے اپنی مدد آپ کے تحت کام کرنے کی وجہ سے ملا فاضل چوک اور ارد گرد کے علاقوں سے پانی کی بہت زیادہ مقدار نکال لیا گیا ہے۔
دونوں اطراف میں سی پیک روڈ جسے ریاست بلوچستان کی ترقی کی کنجی قرار دیتی ہے، کے ساتھ ڈرینیج سسٹم کی بد انتظامی کی وجہ سے شہر میں بہت سی کالونیاں تالاب کی مثال پیش کر رہی ہیں، جن میں سے ایک ٹی ٹی سی کالونی ہے جہاں کئی ایک گھر تو بالکل پانی کے اندر ناپید ہوچکے ہیں اور چار دن سے ٹربائین کے ساتھ پانی نکالا جا رہا ہے لیکن پانی تا حال گھروں کے اندر موجود ہے۔
بالکل اسی طرح نیا آباد اور شمبے اسماعیل وارڈ میں گھر بالکل پانی کے اندر ڈوب گئے ہیں اور لوگوں کے احتجاج کرنے کے بعددو دن سے انہیں ایک ٹربائین دیا گیا ہے، تاکہ وہاں سے پانی نکالا جاسکے۔
اس کے علاوہ فقیر کالونی بھی سیلاب کی زد میں ہے۔ تعمیراتی کام میں بد انتظامی کی وجہ سے فقیر کالونی 2007ء اور 2010ء کے سیلاب میں بھی بہت متاثر ہوا تھا اور اس دفعہ پانی کے رستے پر تعمیر شدہ ساری عمارتیں ڈوب گئیں اور عورتیں اور بچے یا تو قریبی مکانات میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے یا وہ گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ یہاں کے عوام نے بھی اپنی مدد آپ کے تحت کینال کو دوسری طرف سے (جو کینال کے لیول سے اوپر ہے) تین جگہ سے کٹ لگا کر اس سائیڈ والے سارے پانی کو نکالنے کے لیے راستہ ہموار کردیا۔
اس کے علاوہ گوادر کے نشیبی علاقوں میں سے پانوان، پیشکان، پلیری اور سنٹسر بھی بہت متاثر ہوئے ہیں۔ گوادر سے 250 بارڈر کا راستہ بھی پلیری کے مقام پر بہہ گیا ہے جوکہ 5 مارچ کو بحال ہوا ہے۔ اس کے علاوہ پیشکان کا راستہ بھی بہہ گیا ہے اور پیشکان شہر بھی بارش کی وجہ سے شدید متاثر ہے۔
گوادر میں طوفانی بارشوں نے تقریباً پورے گوادر کو متاثر کیا ہے جو تادمِ تحریر باران زحمت کو بھگت رہے ہیں۔
حالیہ طوفانی بارشوں کے وجہ سے بارڈر اور کنٹانی کی بندش کی وجہ سے تیل اور اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں ہو شربا اضافہ ہوا ہے۔ پہلے سے شدید مہنگائی کی صوت حال میں اس نئے اضافے نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔
علاوہ ازیں بارش کے پانی کی وجہ شہر میں مچھر بڑھ رہے ہیں اور پانی زہریلا بنتا جارہا ہے، جوکہ کسی بھی وائرل بیماری کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتا ہے۔ لیکن حکومت کی طرف سے کوئی تعاون اور مدد نہیں کیا جارہا ہے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ایک نوجوان نے کہا کہ یہ بارش ہمارے لیے زحمت بن گئی ہے جبکہ ریاستی اداروں کے افسر اس بارش کو انجوائے کر رہے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ گوادر سمیت بلوچستان اور پاکستان بھر کے دیگر علاقوں میں موجودہ بارشوں سے متاثر ہونے والے تمام عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتا ہے اور تکلیف کی اس گھڑی میں ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا رہے گا۔ جبکہ ہم بلوچستان کی نااہل صوبائی حکومت اور کرپٹ بیوروکریسی کے مجرمانہ رویے کی بھرپور الفاظ میں مذمت کرتے ہیں، جنہوں نے بروقت گوادر کے عوام کی تکلیف کو محسوس کرنے اور انہیں اس تکلیف سے نکالنے کے لیے رتی برابر کوشش نہیں کی۔ محض تصاویر کھینچوانے کے لیے نااہل صوبائی حکومت، کرپٹ بیوروکریسی اور این جی اوز کے دلال نمائندگان آتے رہتے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ تمام محنت کش عوام سے ہمدردانہ اپیل کرتا ہے کہ گوادر سمیت بلوچستان اور پاکستان بھر کے دیگر علاقوں میں موجودہ بارشوں سے متاثر ہونے والے تمام عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کریں۔ اور نااہل صوبائی حکومت اور کرپٹ بیوروکریسی سے اپنا حق چھیننے کے لیے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ یہ واضح کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام اس کرہ ارض پر ناسور بن چکا ہے۔ ایک طرف منافعوں کی ہوس نے ماحولیاتی نظام کو درہم برہم کر دیا ہے تو دوسری طرف محنت کش عوام کی دشمن ریاست اور نا اہل و سفاک حکمران محنت کش عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے تک سے قاصر ہیں۔ یہ نظام اور اس کے رکھوالے حکمران اس حد تک متروک ہو چکے ہیں کہ محنت کشوں کو طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بچانے کیلئے محض کالر ٹیون بدلنے کے سوا کوئی بھی سنجیدہ اقدام کرنے سے قاصر ہے۔ پاکستانی سرمایہ داری کی پسماندگی اور حکمران طبقے کی نا اہلی و کرپشن کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے 75 سالوں میں بنیادی انفراسٹرکچر تک تعمیر نہیں کیا۔
لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ اس تمام تر بربادی کی ذمہ دار ریاست اور اس پر مسلط حکمران طبقہ اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو محنت کش عوام کو بنیادی سہولیات دینے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ درحقیقت منافعوں کی ہوس پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہی ماحولیات کی تباہی کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا آج انسانیت کو بچانے کیلئے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہوچکا ہے۔ محنت کشوں کی قیادت میں ایک سوشلسٹ انقلاب ہی نسل انسانی کو وحشی سرمایہ دارانہ نظام سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔