|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، بلوچستان|
حالیہ مون سون کی بارشیں اس وقت بلوچستان کے اکثر علاقوں میں تباہی مچا رہی ہیں۔ سیلابی ریلوں سے اس وقت تک بڑی تعداد میں ہلاکتیں ہو چکی ہیں اور اگر بارشوں کا سلسلہ ایسے ہی جاری رہا تو مزید ہلاکتوں کا خدشہ ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک بلوچستان میں مجموعی طور پر 400 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جن میں بڑی تعداد بچوں اور خواتین کی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 6100 گھر مکمل طور پر اور 10 ہزار گھروں کو جزوی نقصان پہنچا۔ سیلابوں نے 650 کلومیٹر کی سڑکوں اور 197,930 ایکڑ کی زرعی اراضی کو متاثر کیا ہے جبکہ 2000 کے قریب جانور بھی ہلاک ہوئے۔ اس وقت بلوچستان کے 16 ڈیمز کو نقصان پہنچا ہے جن میں کئی مکمل طور پر ٹوٹ چکے ہیں۔ اس وقت تک بلوچستان مون سون بارشوں سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے۔
حکمران اور انتظامیہ سمیت کارپوریٹ میڈیا کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے جنہیں تاحال کچھ نظر نہیں آرہا جبکہ انسانوں کے درد اور مجبوریوں پر پلنے والی این جی اوز اس وقت سیلاب کے نام پر مال بٹورنے میں مصروف ہیں۔
مون سون کی بارشوں کو تپتی گرمی اور خشک سالی سے تنگ آئے عوام کے لئے خوشیوں کا پیغام سمجھا جاتا تھا مگر پاکستان جیسے پسماندہ سرمایہ دارانہ ریاست میں مون سون کا موسم اپنے ساتھ آفت لے کر آتا ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے گردونواح کے علاقوں میں سنگین صورتحال ہے۔ شہر کے نواحی علاقے غبرگ اور نوحصار میں بارش اور سیلابی ریلوں سے انگور، پیاز، ٹماٹر سمیت مختلف سبزیوں کی فصلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ پشتون آباد، سریاب، ہزارگنجی، کرانی، نواکلی، سرہ غڑگئی سمیت کئی دیگر علاقے اس وقت سیلاب سے متاثر ہو چکے ہیں اور شہر کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
حالیہ بارش سے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ جام کمال کا آبائی علاقہ لسبیلہ مکمل طور پر سیلابی ریلے میں ڈوب گیا اور تاحال اکثر دیہات پانی میں گھرے ہوئے ہیں۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک خاندان جس میں خواتین اور بچے شامل ہیں اپنی جھونپڑی کے چھت پر بیٹھ کر قران ہاتھ میں لئے بے حس حکمرانوں سے مدد کی اپیلیں کر رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ہیلی کاپٹر کے ذریعے متاثرین کی مدد کا اعلان کیا گیا مگر یہ بیان بھی حکمرانوں کے دیگر بیانات کی طرح جعلی نکلا۔ لسبیلہ ہی میں ندی نالوں پر قائم پل متاثر ہونے سے مسافر پھنس گئے ہیں جبکہ کئی دیہی علاقوں سے لوگوں کو ابھی تک ریسکیو نہیں کیا جا سکا ہے۔ پلوں اور سڑکوں کے ٹوٹنے سے کوئٹہ اور کراچی کا زمینی رابطہ منقطع ہو چکا ہے اور کراچی جانے کے لیے عوام اندرون سندھ کا راستہ استعمال کر رہے ہیں۔
بلوچستان کے ایک اور سابق وزیراعلی نواب ثناء اللہ زہری کا علاقہ خضدار بھی بارشوں اور سیلابوں سے متاثر ہے جہاں کئی دیہات زیر آب آگئے ہیں اور سیلابی ریلوں میں بچے اور خواتین ڈوب گئے ہیں۔ سندھ کو بلوچستان سے ملانے والی خضدار – شہدادکوٹ ایم ایٹ قومی شاہرہ اس وقت بند ہوچکی ہے اور کئی مسافر پھنس کر رہ گئے ہیں۔
ضلع جھل مگسی اور جعفر آباد بھی شدید متاثر ہوئے ہیں جہاں اکثر دیہات اس وقت پانی کی زد میں ہیں اور انتظامیہ کی جانب سے کوئی مدد نہ آنے کی صورت میں لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ جھل مگسی اور کوٹ مگسی رابطہ پل پر سیلابی پانی کا شدید دباؤ ہے جبکہ سیلابی ریلے سے سیف آباد کینال کے دروازے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ یاد رہے ضلع جھل مگسی اور جعفر آباد بلوچستان کے بڑے جاگیر داروں کے اضلاع ہیں جہاں جاگیردار خاندانوں کے افراد وزارتِ اعلیٰ سمیت کئی اہم وزارتوں کے مزے لوٹتے آرہے ہیں مگر آج تک ان جاگیر داروں نے جھل مگسی کے عوام کے لئے کچھ نہیں کیا۔
مستونگ کے علاقے کردگاپ میں سیلابی ریلے میں بہہ جانے والے دو افراد میں سے ایک کی لاش نکال لی گئی جبکہ دوسرے کی تلاش جاری ہے۔ مستونگ کے ہی علاقے کانک میں سیلابی پانی گھروں میں داخل ہو گیا جس سے ہزاروں خاندان متاثر ہوئے۔ مستونگ میں انگور کی سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصل اس وقت تباہ ہوچکی ہے اور مزید فصلوں کے تباہ ہونے کا خدشہ ہے۔
دالبندین کے قریب سیلابی ریلے ریلوے ٹریک کو بہا لے گئے جس کے باعث پاک ایران ریلوے سروس معطل ہو گئی ہے اور پاک ایران ٹرانزٹ ٹریڈ بھی اس وقت معطل ہے۔ ضلع نوشکی میں 100 کے قریب گھر سیلابی ریلے میں بہہ گئے جن کی مدد کے لئے سرکار کی جانب سے تاحال کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔ پنج پائی میں ایک گاؤں کلی میخانزئی مکمل طور پر سیلابی ریلے میں بہہ گیا ہے۔
قلعہ عبداللہ میں بھی بارشوں نے تباہی مچائی جس سے ہزاروں خاندان براہِ راست متاثر ہوئے ہیں۔ چمن پاک افغان سرحد کو سیلاب کی وجہ سے مکمل طور پر بند کر دیا گیا ہے اور سرحد کے دونوں جانب لوگوں کی بڑی تعداد پھنس کر رہ گئی ہے۔ توبہ کاکڑی میں نگاندہ ڈیم لیک ہونے سے پانی آبادیوں کی جانب بڑھ رہا ہے اور خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ ڈیم جلد ہی ٹوٹ جائے گا۔ توبہ اچکزئی کا چنار سنزلئی ڈیم بھی ٹوٹنے کے قریب ہے۔
ان بارشوں سے ضلع پشین بھی متاثر ہوا ہے جہاں کئی باغات سیلابوں سے مکمل طور پر برباد ہو چکے ہیں جبکہ آس پاس کے جتنے بھی ڈیم ہیں وہ تمام ٹوٹنے کے قریب ہیں۔ جبکہ پورے کے پورے گاؤں اجڑ کر رہ گئے ہیں جہاں پر لوگ کھلے آسمان تلے حکومتی امداد کے نتیجے میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
لورالائی اور کلا سیف اللہ شمالی بلوچستان کے سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں جہاں ایک بار پھر سیلابی ریلوں نے مجموعی طور پر لاکھوں افراد کو متاثر کیا ہے اور ہلاکتوں کی تعداد میں اصافہ ہو رہا ہے۔ سیلابی ریلوں نے لورالائی اور کلا سیف اللہ کے کئی علاقوں کو قومی شاہراہ سے کاٹ دیا ہے اور متاثرین کو خوراک اور صاف پانی کی قلت کا سامنا ہے۔
ژوب، موسیٰ خیل، کوہلو، تربت، پنجگور، آواران اور دیگر علاقوں میں بھی بارشوں کی تباہ کاریوں میں بھرپور اضافہ ہوا ہے جہاں معمول کی زندگی ٹھپ ہوکر رہ گئی ہے۔ بالخصوص آواران کا ضلع اس وقت پورے بلوچستان سے ان بارشوں کی وجہ سے زمینی راستوں کے حوالے سے کٹ چکا ہے۔ ان تمام تر علاقوں میں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت سیلابوں کا مقابلہ کر رہے ہیں جبکہ حکومتی نام نہاد مشینری اس وقت صرف تصاویر لے کر سوشل میڈیا پر اپنی تشہیری مہم چلا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایسی بہت ساری ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں جہاں پر ایک ہی خاندان سے چار جوان بچوں کی لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔ جب کہ لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر بیٹھے ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
ہرنائی میں حالیہ بارشوں کیوجہ سے پچھلے سال زلزلے سے متاثر ہونے والے گھر مزید تباہی کے شکار ہیں، جبکہ ہرنائی کے اندرونی سڑکیں مکمل تباہ ہوچکی ہیں۔ جبکہ ہرنائی کو صوبے کے دیگر علاقوں سے ملانے والی مین شاہراہ چپر رفٹ کے تباہ ہونے سے رابطہ منقطع ہوچکا ہے۔
پاکستان میں اس وقت اگر بارشوں کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں تو دنیا کے کچھ حصوں، یورپ، مشرق وسطیٰ، وسطی ایشیا میں گرمی کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ یہ بلا شبہ موسمیاتی تبدیلیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ پوری دنیا میں ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلیوں کا سلسلہ اگر ایسے ہی جاری رہا تو مستقبل میں بھی متواتر ایسے سانحات پیش آسکتے ہیں۔
محکمہ موسمیات کے مطابق رواں ماہ 26 تاریخ تک پاکستان میں مجموعی طور پر 192 فیصد زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ پاکستان میں جولائی میں اوسط بارش 51.5 ملی میٹر ہوتی ہیں تاہم اس سال یہ 150 ملی میٹر رہی ہیں۔
سب سے زیادہ بارش بلوچستان میں ہوئی جہاں پر جولائی میں اوسط بارشیں 24.4 ملی میٹر ہوتی ہیں جبکہ اس سال جولائی میں اب تک 132.4 ملی میٹر بارش ہو چکی ہے جو کہ 443 فیصد زیادہ ہے۔
اس وقت جہاں ایک طرف یہ تباہی و بربادی پھیل رہی ہے تو وہیں دوسری جانب پاکستان کے حکمران اپنی عیاشیوں اور مال کی بندر بانٹ پر لڑائیوں میں مصروف ہیں۔ اس وقت حکمرانوں کا سب سے بڑا مسئلہ صوبہ پنجاب اور وفاق میں حکومت کی تشکیل ہے۔ اس سے بالکل واضح ہوتا ہے کہ تمام تر حکمران طبقہ انتہائی بے حس اور انسان دشمن ہے۔ انہیں انسانی جانوں کی رتی برابر بھی پرواہ نہیں۔
لہٰذا ان حکمرانوں کو ان کے سرمایہ دارانہ نظام سمیت نیست و نابود کرنا ہوگا تا کہ آنے والی نسلوں کو ایسی زندگی فراہم کی جا سکے جس میں چوبیس گھنٹے موت کا خوف سروں پر نہ منڈلاتا ہو۔ یہ صرف اور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔
یہ ماحولیاتی تبدیلیاں بھی درحقیقت قدرتی آفت نہیں بلکہ سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس کا نتیجہ ہے۔ ان موسمی تبدیلیوں کا مقابلہ قومی یا علاقائی سطح پر نہیں کیا جا سکتا بلکہ کہ دنیا بھر کے محنت کشوں کی جڑت سے سرمایہ داری کے خلاف حتمی جنگ میں فتح سے ہی ہم اس کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔