قذافی کی موت کے پانچ سال بعد۔۔ سامراجی مداخلت کی حاصلات

|تحریر: رابرٹو سارتی، ترجمہ: ولید خان|

پانچ سال پہلے 20اکتوبر2011ء کے دن معمر قذافی کو لیبیا نیشنل ٹرانزیشنل کونسل کی ملیشیا نے فرانسیسی انٹیلی جنس کی سرگرم حمایت کے ساتھ پکڑ کر گولی مار کے قتل کر دیا۔ لیکن سامراجیوں نے اس ساری صورتحال میں کیا حاصل کیا؟

latuff_libya
تیونس اور مصر میں انقلابی واقعات،’’عرب بہار‘‘ کے لیبیا پر بھی گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ فروری 2011ء میں بن غازی میں عوامی سرکشی ابھری جسے فوج نے سفاکی سے کچل دیا۔ قذافی حکومت کی احتجاجیوں کے خلاف ریاستی طاقت کے ننگے استعمال کے بعد ملک میں خانہ جنگی شروع ہو گئی جس کا مغربی سامراجیوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور تیزی سے پیدا ہوتے سماجی خلا میں مداخلت کر دی۔ حالانکہ مغربی طاقتوں کے قذافی کے ساتھ اچھے تعلقات تھے لیکن انہوں نے کبھی بھی اس کے دہائیوں پر مشتمل سابقہ رویئے کی وجہ سے اس پر مکمل اعتماد نہیں کیا۔ اسی وجہ سے انہوں نے خانہ جنگی کو بہترین موقع جانا جس کے ذریعے قذافی کو طاقت سے باہر کرنے کے ساتھ ساتھ تیونس اور مصر میں بھڑکے ہوئے عرب انقلابات میں فوجی مداخلت بھی کی جا سکتی تھی۔ساتھ ہی فرانس اور برطانیہ کو یہ موقع بھی ملا کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرتے ہوئے عالمی سیاست میں دوبارہ اپنے قدم جما سکیں۔

To read this article in English, click here

جہاں تک مغربی سامراجیوں کا تعلق تھا، قذافی کی موت کے بعد ’’ہدف مکمل‘‘ ہو چکا تھا۔ لیکن آج حقیقت بالکل مختلف ہے۔ لیبیا کا شیرازہ بکھر چکا ہے ، کوئی قومی حکومت موجود نہیں اور مقامی ملیشیا (بشمول داعش) اپنے زیر تسلط علاقوں میں موجود عوام کی زندگی اور موت پر قادر ہیں۔
معیشت تباہ و برباد ہے۔ 2014ء میں جی ڈی پی24 فیصد تک گر گیا جبکہ 2015ء میں اس میں مزید 10.2فیصد گراوٹ آئی۔ 2015ء میں خام تیل کی پیداوار 1970ء کی دہائی کے بعد سب سے کم تر سطح 4,00,000 بیرل یومیہ پر آ گئی جو کہ موجودہ پیداواری قوت کا 1/4 حصہ بنتا ہے۔
اس سب کے باوجود الجزیرہ نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے NATO کے سابق سیکرٹری جنرل ایندرس فوگ راسموسن نے لیبیا پر فضائی حملوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ حکمت عملی ایک کامیاب فوجی مداخلت تھی۔‘‘ اس کے مطابق، ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ ’’اقوام متحدہ سیاسی طور پر بھرپور مداخلت کرنے میں ناکام رہی۔‘‘ ٹیسی ٹس(رومن تاریخ دان) کے الفاظ کو تھوڑا تبدیل کر کے اگر یہ کہا جائے کہ ’’ انہوں نے ایک صحرا بنایا اور اسے امن کہا۔۔اور وہ اس پر فخر کرتے ہیں!‘‘غلط نہیں ہو گا۔
فوگ راسموسن کے الفاظ حکمران طبقے کی سفاکی کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کی عام لوگوں کے مصائب ، لاکھوں عورتوں اور بچوں کی تکالیف، جنہیں اپنے گھر بار چھوڑنے پڑے اور انگ گنت خاندان تباہ ہو گئے، میں کوئی دلچسپی نہیں۔ ان کیلئے سب سے اہم حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے نام نہاد تیسری دنیا کے ممالک کی ’’بربریت زدہ آمریت‘‘ پر اپنی برتری اور طاقت ثابت کر دی ہے۔
ہم سامراجی مداخلت کی شدید ترین مذمت کرتے ہیں اور حالیہ واقعات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ہم درست تھے۔ لیکن لیبیا میں سامراجی مداخلت کی مذمت کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ ہم ان رنگین نام نہاد سٹالنسٹوں کی صفوں میں شامل ہو گئے ہیں جن کا یہ بھونڈا دین ایمان ہے کہ لیبیا قذافی کے زیر حکومت ’’بہتے دودھ اور شہد کی سرزمین‘‘ تھی۔

معمر قذافی

معمر قذافی

قذافی نے 1969ء میں اقتدار پر قبضہ کیا۔ وہ فری آفیسرز مومنٹ کی فوجی بغاوت کا لیڈر تھا اور پین عرب ازم (عرب وحدت) اور جمال عبدل ناصر کے مصر سے بہت زیادہ متاثر تھا۔ اس تحریک کا موقف واضح طور پر سامراج مخالف تھا اور جب قذافی کا مغربی سامراج سے تصادم ہوا تو اس نے ملک میں موجود اطالویوں کی تمام ملکیتوں اور برٹش پیٹرولیم کے تمام اثاثہ جات کو قومی تحویل میں لے لیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ قذافی نے سامراجی غلبے کامتبادل تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کبھی بھی شام میں پرانی حافظ الاسد کی حکومت کی حد تک نہیں گیا(جہاں نو آبادیاتی انقلابات، بشمول لیبیا اور مصر کے پین عرب تحریک کے تحت ہوئے) اور حقیقت میں لیبیا سے سرمایہ داری کا کبھی بھی خاتمہ نہیں ہوا۔ قذافی نے یہ کوشش کی کہ ریاستی مداخلت کر کے ملک کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں تیل اور خام مال کے وسیع ذخائر کو بروئے کار لاتے ہوئے، جس کی وجہ سے معیار زندگی بہت زیادہ بہتر ہوا، اس نے عوام میں اپنی حمایت کی بہت بڑی بنیادیں پیدا کر لیں۔ لیکن نجی ملکیتی رشتے ویسے کے ویسے رہے جبکہ سماج میں سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ ڈھانچے بھی بڑی حد تک برقرار رہے۔
اسی اثنا میں کمیونسٹ نظریات کو بے رحمی سے کچلا گیا اور ہڑتالوں اور یونینوں پر پابندی لگا دی گئی۔ نیچے عوام میں سے کسی کے پاس کوئی کنٹرول نہیں تھا بلکہ صرف ا وپر سے ایک ہی آدمی کے ہاتھوں میں نظام حکومت رہا۔
قذافی اپنے اقتدار کو ملک میں موجود مختلف قبائل اور جاگیردارانہ مفادات کے درمیان توازن برقرار رکھتے ہوئے دوام دیتا رہا۔ ریاستی آہنی گرفت کے ساتھ جب تک معیشت بڑھتی رہی، نظام چلتا رہا۔ یہ درست ہے کہ قذافی ایک عرصے تک ملک کو ایک اکائی کے طور پر کو یکجا رکھنے میں کامیاب رہا لیکن یہ کام اس نے سخت بونا پارٹسٹ بنیادوں پر کیا۔ ایک مرتبہ جب معیشت تنزلی کا شکار ہونا شروع ہو گئی، حکومت نے لیبیا میں نظام چلانے کیلئے خوفناک جبر کا ننگا استعمال شروع کر دیا۔ جیسا کہ نپولین نے کہا تھا:’’صرف تلوار سے ہی اقتدار برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔‘‘ جلد یا بدیر، جبری حکومت پر سوالات کا اٹھنا ناگزیر تھا۔
سٹالنزم کے انہدام کے بعد قذافی نے معیشت کو تھوڑا بہت نجی سرمایہ کاری کیلئے کھولنا شروع کر دیا۔ اس کی وجہ سے مختلف جاگیردارانہ مفادات اور سائرینائکا(Cyrenaica) اور طرابلس (Tripoli) کے درمیان تاریخی تضادات پھر سے سر اٹھانا شروع ہو گئے۔
خام مال بیچنے کیلئے نئی منڈیوں کی تلاش اور بیرونی سرمایہ کاری کروانے کیلئے قذافی نے مغرب کے ساتھ چپلقش کو کم کیا جس میں دیگر اقدامات کے علاوہ صدام حسین کے خلاف ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘‘ میں شامل ہونا بھی تھا۔ لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود قذافی امریکہ اور مغربی حکمران طبقے کیلئے ناقابل اعتماد ہی رہا۔ اسی لئے 2011ء میں جب حکومت میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں تو سامراجیوں نے فوراً قذافی کو منظر عام سے ہٹانے کے موقعے سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔
سامراجیوں نے قومی عبوری کونسل کو اپنے اوزار کے طور پر استعمال کیا لیکن جب قذافی کی حکومت کا دھڑن تختہ ہو گیا تو مقامی ملیشیا اور مختلف سامراجی قوتوں میں تضادات بننے شروع ہو گئے۔
شام کی طرح لیبیا بھی مختلف سامراجی قوتوں اورعلاقائی قوتوں کیلئے جنگ کا میدان بن گیا۔ شام کی طرح یہاں بھی طاقتوں کے توازن میں تبدیلی اور امریکی سامراج کی تاریخی کمزوری عیاں ہو گئی۔ افغانستان اور عراق کی جنگوں سے پہلے، واشنگٹن بڑے آرام سے اپنے اتحادیوں پر حکم چلا سکتا تھا(جن کی اوقات وائٹ ہاؤس کے نزدیک غلاموں کی تھی)۔ امریکی استعمار ی قوت ہمیشہ عوام کے معیار زندگی کی بربادی کی قیمت پر مسلط ہو جاتی تھی۔
آج کل مسئلہ یہ ہے کہ غلام اب آقا کے حکم کی تعمیل نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ 2011ء کی لیبیا میں مغربی مداخلت کو اوبامہ اپنی حکومت کی ’’بدترین‘‘ غلطی کہتا ہے۔ کیونکہ امریکی عوام اب بیرون ملک مزید امریکی فوجوں کی تعیناتی کے شدید خلاف ہو چکی ہے، خاص کر افغانستان اور عراق میں ناکامیوں کے بعد، امریکہ کو اپنی حلیف یورپی حکومتوں پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا پڑ رہا ہے، خاص طور پر فرانس اور برطانیہ پر۔ مغرب نے لیبیا میں پرانا حکومتی ڈھانچہ تباہ کر دیا جس کے نتیجے میں ملک کا شیرازہ بکھر گیا۔ القاعدہ اور اس سے ٹوٹی ہوئی داعش کی اس خطے میں پہلے موجودگی نہیں تھی۔ مغربی، سامراجی جنگ تو جیت گئے لیکن امن ہار گئے۔
اوبامہ یہ نہیں سمجھ پایا کہ مختلف یورپی(اور عرب) حکومتوں کے اپنے اپنے عزائم ہیں۔ ہر قومی بورژوازی منڈیوں اور اثر و رسوخ کیلئے جدوجہد کر رہی ہے اور لیبیا میں وہ قبائلی عصبیتوں کے ساتھ کھلواڑکر رہے ہیں جو قذافی کی موجودگی میں وقتی طور پر دب گئی تھیں۔
لیبیا جغرافیائی حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے،شمالی افریقہ کے بالکل درمیان، اور یورپ کے انتہائی قریب بحیرہ روم پر طویل ساحلی پٹی۔ اس کے تیل کے ذخائر دیو ہیکل ہیں: افریقی بر اعظم کے کل تیل کا 38فیصد اور یورپی استعمال کا 11فیصد۔
قذافی کی موت کے بعد ملک میں تین فریقین ابھر کر سامنے آئے۔ لیبیا کے مغرب میں طرابلس کی حکومت جس کی پشت پناہی قطر اور ترکی کررہے ہیں، طبرق کی حکومت جسے نام نہاد ’’عالمی برادری‘‘تسلیم کرتی ہے اور اس کی حمایت مصر اور عرب امارات کر رہے ہیں اور داعش کے دستے جو درنہ، سرت اور ارد گرد کے علاقوں پر قابض ہیں۔ پرانی ریاست اور اس کی افواج ختم ہونے کے بعد بہت ساری مقامی ملیشیا بن گئی ہیں جو کہ طرابلس یا طبرق کے ساتھ اتحاد میں ہیں۔
داعش کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے گھبرا کر سامراجیوں نے ایک مخلوط قومی حکومت کی ’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف حمایت شروع کر دی۔بالآ خر ایک ’’حل‘‘ نکالا گیا۔۔کم از کم اس کا ذرائع ابلاغ میں پروپیگنڈا ضرور کیا گیا۔ ایک قومی اتفاق رائے حکومت (GNA) تشکیل دی گئی۔۔جس کے ماتھے پر ہمیشہ کی طرح اقوام متحدہ نے جائز اور قانونی ہونے کا تلک لگا دیا۔۔اور اس کے وزیر اعظم، فائز السراج اور دیگر وزراء کشتی پر سوار 30 مارچ 2016ء کو طرابلس پہنچ گئے۔
جلد ہی یہ بات عیاں ہو گئی کہ لیبیا میں موجود ملیشیاؤں کی ایک بڑی تعداد کو اس ’’قومی‘‘ اتفاق رائے سے متعلق بتایا ہی نہیں گیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ السراج کئی گھنٹوں کے انتظار کے بعد طرابلس کی بندرگاہ میں داخل ہو سکا اور یہ اجازت (اور حفاظت) اقوام متحدہ کی فوج نے نہیں بلکہ مقامی ملیشیا نے دی تھی۔۔ جن کے پاس لیبیا میں حقیقی طاقت ہے۔
شروع میں طرابلس حکومت کے قائد خلیفہ الغویل نے السراج کو آفس آنے دیا اور خود مسراتا کی طرف پسپائی اختیار کر لی جبکہ طبرق پارلیمنٹ، جس کو پہلے عالمی برادری تسلیم کرتی تھی، نے کبھی GNA کی حمایت میں ووٹ ہی نہیں دیا۔ ملک کے مشرقی علاقوں سے چار وزراء نے نئی حکومت کا بائیکاٹ کر دیا اور کسی ایک میٹنگ میں بھی نہیں آئے۔
السراج پہلے دن سے ہی کمزور وزیر اعظم تھا۔ جب سے السراج نے آفس سنبھالا ہے، عوام کے حالات زندگی بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ ’’طرابلس میں پہلے بیس گھنٹے بجلی آتی تھی، اب بارہ گھنٹے آتی ہے۔۔ اپریل میں لوگ 3.5دینار ایک ڈالر کے بدلے دے رہے تھے۔ آج یہ 5 دینار ہو چکا ہے۔‘‘(طرابلس پوسٹ، 13ستمبر2016ء)۔ افرط زر بڑھتا جا رہا ہے اور انفرسٹرکچر برباد ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ السراج حکومت بالکل تنہا ہے؛ اگر مغرب کی سپورٹ نہ ہوتی تو یہ کب کی فارغ ہو چکی ہوتی۔
اگست سے خانہ جنگی کے ایک نئے باب کا آغاز ہو چکا ہے۔ سرت پر بمباری کے ساتھ امریکہ زیادہ جارحیت کے ساتھ لیبیا میں مداخلت کر رہاہے۔ لیکن حملوں کے نتیجے میں حالات معمول پر آنے کی بجائے اور زیادہ تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔
’’آپریشن آڈیسی لائٹننگ(Operation Odyssey Lightning)‘‘ کے تحت امریکی فضائیہ نے 350 فضائی حملے کئے ہیں جن میں سے 150اکتوبر کے پہلے تین ہفتوں میں کئے گئے۔ آئے دن مغربی ذرائع ابلاغ سرت کے سر نگوں ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن البغدادی کی ملیشیا خوفناک مزاحمت کر رہی ہے۔ 18 اکتوبر کو ایجنس فرانس پریس نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ ’’ GNAکے550 جنگجو مارے جا چکے یں اور حملے میں 3000 زخمی ہو چکے ہیں۔‘‘
جیسا کہ ہم نے کئی بار لکھا ہے، صرف فضائی حملوں سے جنگ نہیں جیتی جا سکتی، یہاں تک کہ ایک شہر پر قبضہ بھی نہیں کیا جا سکتا۔ سرت قذافی کا آبائی شہر تھا اور ڈکٹیٹر نے اسے محفوظ بنانے کیلئے دیواروں اور میناروں کی تعمیر کے ساتھ نیا طرابلس بنایا تھا۔ اس کو فتح کرنے کیلئے زمین پر فوج چاہیے۔ لیبیا میں کوئی قومی فوج موجود نہیں ہے اور کوئی مغربی قوت مناسب حجم کی فوج لیبیا بھیجنے کو تیار نہیں۔ اسی وجہ سے سرت پر امریکی قیادت میں حملہ السراج کو مضبوط کرنے کے بجائے کمزور کر رہا ہے اور اسی دوران دیگر فریقین اس کمزوری کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
طبرق کے طاقتور جنرل خلیفہ ہفتار نے GNA حکومت کے وفادار جنگجو ابراہیم جادھران کی قیادت میں پٹرولیم فیسیلیٹیز گارڈز(PFG) سے سدرہ اور راس لانف کے تیل ٹرمینلوں کا کنٹرول چھین لیا ہے۔ ہفتار کی پشت پناہی ابھی بھی مصر کر رہا ہے اور فرانس کا رویہ بھی اس کی طرف ہمدردانہ ہے۔ فرانسیسی اسپیشل فورسز سیرینائکا میں موجود ہیں جس کا زیادہ تر کنٹرول طبرق کے پاس ہے۔
موجودہ حالات کے اندر اس بات کے زیادہ امکانات تو موجود نہیں کہ ہفتار تیل کی ترسیل کو دوبارہ چالو کر سکے گا۔۔اس سے بھی زیادہ، تیل بیچ سکے گا۔۔لیکن دونوں ریفائنریوں کی آمدن GNA کیلئے بہت اہم تھی۔ لیبیا میں مستقبل میں اقتدار کے بٹوارے کے مذاکرات کے حوالے سے ہفتار کے ہاتھوں میں اب ایک طاقتور ہتھیار آ گیا ہے۔
طرابلس میں خلیفہ الغویل اور اس کی ملیشیا نے ایک کْو کرتے ہوئے رکسوس ہوٹل جو کہ حکومت کی سٹیٹ کونسل اسمبلی کا علاقہ ہے، پر قبضہ کر لیا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس کْو کی مذمت کی ہے اور GNA نے ملوث افراد کی گرفتاری کا حکم دے دیا ہے لیکن ہوٹل ابھی بھی ملیشیا کے قبضے میں ہے۔
کئی دن تو یہی نہیں پتہ چل سکا کہ السراج کہاں چھپا ہوا ہے۔ آخر کار یہ دریافت ہوا کہ وہ تیونس میں ’’خفیہ‘‘ جگہ سے حکم صادر کر رہا ہے!
مغربی قوتیں اور ان کی پراکسیاں، یہ جانتے ہوئے کہ السراج کے دن گنے جا چکے ہیں، دوبارہ سے نئی صف بندیاں کر رہے ہیں۔ فطری طور پر وہ علاقے میں اپنی موجودگی کو بڑھا رہے ہیں، اس توجیح کے ساتھ کہ وہ داعش کی دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے ہیں۔
اس سارے منظر نامے میں فرانس سب سے زیادہ سرگرم فریق ہے۔ پچھلی جولائی GNA نے احتجاج کیا کہ ’’لیبیا کے مشرقی علاقوں میں فرانس کی موجودگی عالمی روایات اور خود مختاری کے اصولوں کے خلاف ہے۔‘‘ (لیبیا ہیرلڈ، 29 جولائی 2016ء)۔ فرانس نے اس احتجاج کو نظر اندار کرتے ہوئے اپنی موجودگی کو اور زیادہ بڑھا دیا، جس کا پچھلے سوموار مالٹا میں ایک جہاز کے کریش ہونے کے بعد پتہ چلا۔ جہاز میں کم از کم تین افراد فرانسیسی انٹیلی جنس سے تعلق رکھتے تھے جو اس فلائٹ پر لیبیا جا رہے تھے۔
سابقہ نو آبادیاتی طاقت اٹلی پوری کوشش کر رہا ہے کہ اس ساری لوٹ مار میں اس کا حصہ نہ مارا جائے۔ ستمبر میں اس نے 300 فوجی لیبیا بھیجے جن کا مقصد ’’فلاحی خدمات‘‘ تھا۔ اطالویوں کا مسراتا میں ایک فوجی ہسپتال بنانے کا منصوبہ ہے اور سرکاری طور پر بھیجی گئی فوج کا کام ’’ہسپتال کی حفاظت‘‘ کرنا ہے۔ حقیقت میں وہ مسراتا میں اور سرت کے محاصرے میں شامل اپنی مقامی ملیشیا کی حفاظت کیلئے آئے ہیں۔سب کے سب فریق اطالوی پیش قدمی سے خوش نہیں۔ زنتانی بریگیڈ (وہ ملیشیا جس کی غداری نے قذافی کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ’’خاموش تماشائی نہیں بنیں گے اور کسی بھی حملہ آور کا اپنی پوری قوت کے ساتھ مقابلہ کریں گے،‘‘ اور ’’ہم تمام لیبیا کی عوام کو متحد رہنے اور اپنی سرزمین پر نئی اطالوی جارحیت کا مقابلہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔‘‘
لیبیا میں صورت حال بھڑوں کے چھتے کی مانند ہے جس کو نہ تو تباہ کیا جا سکتا ہے اور سامراجی،جتنا زیادہ اپنے سر گھسائیں گے، اتنے ہی زیادہ کاٹے جائیں گے۔ لیبیا میں خانہ جنگی طوالت اختیار کر تی جا رہی ہے۔ ملک کا بٹوارہ ہونے کا تناظر بھی بنتا نظر آ رہا ہے۔ یہ سامراج کا جرم ہے کہ جس نے عوام کی قسمت کا سوچے بغیر لوٹ مار کی خاطر گھناؤنی مداخلت کی۔ یہ تناظر صرف ہمسایہ ممالک میں طبقاتی جدوجہد کے ابھرنے سے ہی پلٹ سکتا ہے۔ یہ مصر اور تیونس کے دیو ہیکل محنت کش طبقے کا فرض ہے کہ وہ اپنی گلی سڑی حکومتوں اور سرمایہ داری کو اکھاڑ پھینکیں۔ ان کی فتح لیبیا کی پسی ہوئی عوام کیلئے امید کی کرن ثابت ہو سکتی ہے۔ مغرب اور مشرق میں انقلابات، لیبیا کی عوام کیلئے وہ مشعل راہ ثابت ہو ں گے جن کو وہ مثال بناتے ہوئے اپنی بکھری ہوئی قوتوں کو مجتمع کر کے سامراجیوں کو باہر نکالیں گے اور نیم جاگیرادار جنگجوؤں اور ملیشیا کا خاتمہ کریں گے۔
سوشلزم یا بربریت: یہ نعرہ کبھی بھی اتنا حقیقی نہیں تھا جتنا کہ آج بد قسمتی سے لیبیا میں ہے۔
3نومبر2016ء

Comments are closed.