مورخہ 3-4 دسمبر بروز ہفتہ و اتوار لاہور میں ’لال سلام‘ کی پہلی کانگریس کا انعقاد کیا گیا جس میں کشمیر سے لے کر کراچی تک اور پشاور سے لے کر کوئٹہ تک ملک کے طول و عرض سے آئے ہوئے مارکس وادیوں نے انقلابی جو ش و خروش کے ساتھ شرکت کی۔ اسی سال کے آغاز میں عالمی مارکسی رجحان (IMT) کے پاکستانی سیکشن میں تناظر، طریقہ کار اور تنظیمی سوالات پر شدید اختلافات ابھر آئے تھے جو گزشتہ کئی برسوں سے سطح کے نیچے پنپ رہے تھے۔ ان اختلافات کو متعلقہ اداروں میں جمہوری بحث کے ذریعے حل کرنے کی بجائے اس وقت کے سیکشن کی قیادت نے اختلافات کرنے اور سوالات اٹھانے والے انقلابی کارکنوں کو افسر شاہانہ رویے بروئے کار لاتے ہوئے تنظیم سے جبری بے دخلیوں کا عمل شروع کر دیا تھا۔ IMT کے بالا اداروں کی بروقت اور مبنی بر انصاف مداخلت کے باعث سابقہ تنظیم کی اس افسر شاہانہ زوال پذیری کے خلاف مزاحمت کی گئی تو سیکشن دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ سابقہ قیادت نے اپنی غیر مارکسی اور خود پرستانہ روش کو چھپانے کے لیے تنظیمی و سیاسی طور پر غیر پختہ اور شخصیت پرست ’اکثریت‘ کی آڑ میں انٹرنیشنل کی قیادت کو بلیک میل کرنے اور اپنی مرضی اور رائے کو عمومی تنظیمی طریقہ کار پر مسلط کرنے کی ہزار بار کوشش کی مگر IMT کی قیادت نے مستقل مزاجی اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس حقارت آمیز رعونت کو شکستِ فاش دیتے ہوئے اصولوں پر سمجھوتے کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی کشمکش میں IMT کے نئے پاکستانی سیکشن کا جنم ہوا جس نے مارچ 2016 ء میں ’یونٹی کانفرنس‘ کے انعقاد کے کچھ عرصہ بعد ہی ’لال سلام ‘ کے نام سے نئے انقلابی سفر کی شروعات کی۔ لال سلام کی اس پہلی سالانہ کانگریس کی کامیابی نہ صرف مارکسی نظریات کی برتری اور بڑھوتری کا منہ بولتا ثبوت ہے وہیں محنت کش طبقے اور مارکسی قوتوں کے روشن مستقبل کی علامت بھی ہے۔
کانگریس بحیثیتِ مجموعی 4 سیشن پر مشتمل تھی۔ 3 دسمبر کی صبح سب سے پہلے کامریڈ یاسر ارشاد نے کانگریس کے لیے افتتاحی کلمات ادا کیے اور اس کانگریس کی اہمیت اور ماضی میں کانگریسوں کے نام پر ہونے والی ریلیوں اور جلسوں کے مابین فرق کی وضاحت کی۔ ساتھ ہی یاسر نے کہا کہ ہمیں اس کانگریس سے بھی کوئی یوٹوپیائی خواہشات وابستہ نہیں کرنی چاہئیں بلکہ اسے ایک نئے سیاسی عمل کے آغاز کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ اس کے بعد کامریڈ آفتاب اشرف نے انٹرنیشنل سے آئے ہوئے مندوبین کو متعارف کرواتے ہوئے انہیں سٹیج پر مدعو کیا۔ انٹرنیشنل سیکرٹریٹ (IS) کی طرف سے کامریڈ فریڈ ویسٹن اور اطالوی سیکشن کے مرکزی رہنما کامریڈ کلاڈیو بلوٹی نے اس کانگریس میں شرکت کی۔ آفتاب اشرف نے معزز مہمانوں کے تعارف سے قبل مارکسی بین الاقوامیت کی فوقیت اور آج کے عہد میں اس کی مسلسل بڑھتی ہوئی اہمیت پر بھی بات رکھی۔ اس کے بعد آفتاب نے مختلف سیکشنوں کی طرف سے کانگریس کے لیے بھیجے گئے یکجہتی کے پیغامات کانگریس کے شرکا کو پڑھ کر سنائے۔ کانگریس کا پہلا سیشن حسبِ روایت ’عالمی تناظر‘ تھا جس پر کامریڈ فریڈ ویسٹن نے لیڈ آف دی اور کامریڈ انعم پتافی نے اس سیشن کو چیئر کیا۔
کامریڈ فریڈ نے پہلے سیشن میں تفصیل سے سرمایہ داری کے موجودہ معاشی بحران اور اس کے سیاسی و سماجی مضمرات پر بات رکھی۔ دو گھنٹے کی جامع لیڈ آف میں دنیا کے تمام برِ اعظموں میں ابھرنے والی تحریکوں کا تجزیہ و تناظر پیش کیا گیا اور ساتھ ہی امریکی سامراج کی کمزوری اور نااہلی کے باعث عالمی سفارتکاری میں روس اور چین سمیت دیگر قوتوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے اثرورسوخ، مسلسل بدلتے ہوئے عالمی تعلقات، جنگوں اور خانہ جنگیوں کو بھی اس عہد کی اہم خصوصیت کے طور پر واضح کیا گیا لیکن سب سے بڑھ کر ڈونلڈ ٹرمپ کی امریکی انتخابات میں فتح کے امریکی و عالمی معیشت پر اثرات اور بریگزٹ کے بعد یورپی یونین کے مستقبل اور محنت کش طبقے کے شعور پر پڑنے والے اثرات کا گہرا تجزیہ اور تناظر پیش کیا گیا۔ لیڈ آف کے بعد کیے جانے والے سوالات سے کامریڈوں کی سیاسی شمولیت اور دلچسپی کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ چین پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور سی پیک کو ایک ’جدید ایسٹ انڈیا کمپنی‘ بھی کہا جا رہا ہے تو زیادہ تر سوالات چین کے سامراجی کردار اور اس کے ریاستی تضادات کے متعلق کیے گئے۔ کیا چین کو سامراج کہنے سے امریکی سامراج کی حمایت تو نہیں ہوتی؟ اور کیا امریکہ کی افغانستان سے پسپائی کے بعد چین اس خطے پر مکمل طور پر کنٹرول حاصل کر پائے گا؟ نیز چین کی ٹیکنالوجی کا آج کی زوال پذیر سرمایہ داری میں کیا کردار ہے؟ امریکہ میں برنی سینڈر کے کردار اور اس کے جیریمی کاربن کے ساتھ موازنے کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے۔ ایک سوال یہ بھی کیا گیا کہ کیا امریکہ TPP سے دستبردار ہو جائے گا اور دیگر قوتوں جیساکہ جاپان وغیرہ پر اس کے کیا اثرات ہوں گے؟ ایک اور اہم سوال یہ تھا کہ کیا امریکہ ٹرمپ کی تحفظاتی پالیسیوں کے نفاذ کے لیے جنگ کا راستہ اپنا سکتا ہے اور تیسری عالمی جنگ کے امکانات ہیں یا نہیں؟ کامریڈوں نے اپنے سوالات کے ذریعے یونان میں ہونے والے واقعات اور خاص طور پر سائیریزا میں ہونے والی بائیں بازو کی پھوٹ کے اسباق میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ اور سب سے بڑھ کر سرمایہ داری کے بحران کی نوعیت، شرحِ منافع میں گراوٹ کے رجحان، سرمایہ داروں کی بحران سے نمٹنے کی نااہلی وغیرہ کے حوالے سے بھی اہم سوالات کیے گئے۔ کچھ کامریڈوں نے بنیاد پرستی کے ابھار اور تحریک کی سست روی کے حوالے سے بھی سوالات کیے۔
اس سیشن میں لیڈ آف کے بعد کامریڈ کلاڈیو نے کنٹریبیوشن کرتے ہوئے یورپی یونین کے بحران اور خاص طور پر اٹلی میں ہونے والے واقعات اور ان کے عوامی شعور پر گہرے اثرات کی نشاندہی کی۔ ساتھ ہی کامریڈ نے قیادت کے بحران اور اصلاح پسندوں کی تاریخی نااہلی کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کامریڈ آفتاب اشرف نے انڈیا کی معیشت، سیاست اور حال ہی میں اٹھنے والی طلبہ تحریک اور تین تاریخی عام ہڑتالوں پر تفصیل سے بات کی۔ کامریڈ رزاق غورزنگ نے افغانستان میں امریکی سامراج کی مہم جوئی کے بعد ہونے والے اثرات سے لے کر موجودہ افغانستان میں دیگر سامراجی قوتوں کی مداخلت اورعوام کی زبوں حالی کا مختصر تجزیہ پیش کیا۔ اس کے بعد کامریڈ فریڈ نے سیشن کو سم اپ کرتے ہوئے تمام سوالوں کے جوابات دیئے۔ چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کامریڈ فریڈ نے کہا کہ چین اب پوری دنیا میں بڑے پیمانے پر سرمایہ بر آمد کر رہا ہے۔ پاکستان جیسے کئی ممالک کی معیشت میں چین کی مداخلت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ یہ بلاشبہ بڑھتی ہوئی سامراجی مداخلت ہے جو امریکی سامراج کے لیے خطرہ ہے۔ سنجیدہ بورژوا ماہرین خود یہ کہہ رہے ہیں کہ چین کو افغانستان میں بحران کو حل کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ امریکہ وہاں ناکام ہوا ہے۔ ہم ایسے عبوری مرحلے سے گزر رہے ہیں جہاں امریکہ تو کمزور ہوا ہے مگر چین ابھی مکمل طور پر اس کی جگہ لینے سے قاصر ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ پیسیفک میں امریکہ اور چین کے شدید تضادات ابھر رہے ہیں مگر سنٹرل ایشیا میں امریکہ کو چین کا تعاون درکار ہے۔
فریڈ ویسٹن نے امریکی سامراج کی زوال پذیری کے عمل کو خاص طور پر تفصیل سے واضح کیا۔ ٹرمپ کے آنے کے بعد نہ صرف امریکی بلکہ عالمی معیشت میں شدید بے چینی پائی جا رہی ہے۔ ٹرمپ نے امریکہ سے باہر پیداوار کرنے والی کمپنیوں پر 35 فیصد جبکہ چینی مصنوعات کی امریکہ برآمد پر 45 فیصد ٹیرف لگانے کا اعلان کیا ہے جس سے خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔ اس کے سیاست پر اثرات ہونگے۔ پہلے ہی برنی سینڈرز کی کمپین کے ذریعے نوجوانوں نے سوشلزم میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا ہے۔ لیکن برنی کا سوشلزم اصلاح پسندی پر مبنی تھا جو سرمایہ داری کو ختم کیے بغیر اس کو ’درست‘ کرنے کی ایک کوشش ہی تھا۔ اس حوالے سے برنی سینڈرز اور جیریمی کاربن میں کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ فریڈ نے مزید وضاحت کی کہ اگرچہ پروٹیکشنزم کا ابھار دیکھنے میں آ رہا ہے مگر اب امریکہ پوری دنیا پر اپنی مرضی فوجی طریقے سے مسلط کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ہم عراق اور شام میں پہلے ہی امریکی کمزوری کو دیکھ رہے ہیں۔ تیسری جنگ کے سوال پر فریڈ کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر طبقاتی توازن تیسری جنگ کے امکانات کو یکسر مسترد کر رہا ہے۔ دوسری جنگِ عظیم سے پہلے بھی مسلسل 20 سال کی طبقاتی جنگ دیکھنے میں آئی تھی اور اب تو نیوکلئیر ہتھیاروں کا پھیلاؤ بھی عالمی جنگ کے اوپر بڑی قدغنیں لگا رہا ہے۔ ہمارے سامنے فی الوقت جنگ نہیں ہے بلکہ ایک کبھی نہ دیکھی گئی طبقاتی جنگ ہے جس میں قیادت کی کمی شکستوں اور پسپائیوں کا سبب بھی بنے گی مگر اس کے اندر سے نئی قیادت بھی ابھرے گی۔ یونان کی نئی بائیں بازو کی پارٹی پاپولر یونٹی کے بارے میں فریڈ نے کہا کہ یہ پارٹی مکمل ناکامی سے دوچار ہے اور پارلیمنٹ میں اسکی کوئی نمائندگی موجود نہیں ہے۔ ان کے پاس بہت سے مواقع تھے لیکن انہوں نے کوئی واضح پروگرام نہیں دیا۔ وہ سرمایہ داری کی حدود کے اندر رہتے ہوئے دراشمہ کی طرف واپسی کی بات کر رہے تھے۔ اس قسم کے پروگرام کے ساتھ عوام کی بھاری اکثریت کو نہیں جیتا جا سکتا۔ اگر سائیریزا کے بائیں طرف حقیقی مارکسی قوتیں ہوتیں تو آج یونان کی تاریخ مختلف ہو سکتی تھی۔ آخر میں فریڈ نے مذہبی قوتوں کے ابھار کے عمل کو بھی قیادت کے بحران کے ساتھ جوڑ دیا۔ یوں فریڈ نے تقریباً تمام سوالوں پر تفصیل سے بات کی اور سیر حاصل جوابات دیئے۔
کھانے کے وقفے کے بعد دوسرا سیشن شروع ہوا جس کو کامریڈ خالد جمالی نے چیئر کیا اور کامریڈ آدم پال نے ’پاکستان تناظر‘ پر لیڈ آف دی۔ آدم کا کہنا تھا کہ سپلٹ کے دوران اور اس کے بعد بھی کامریڈوں میں تناظر کے حوالے سے گرما گرم بحثیں ہوتی رہی ہیں۔ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی صورتحال بدل چکی ہے مگر اس تبدیلی کی نوعیت اور شدت یورپ یا مشرقِ وسطیٰ سے مختلف ہے۔ ہم ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔ صورتحال 20 سال پہلے سے بہت مختلف ہے۔ جو واقعات ہو رہے ہیں وہ حادثاتی نہیں ہیں۔ اچانک جنوبی کوریا میں ایسا کیا ہوا کہ لاکھوں لوگ سڑکوں پر آگئے۔ ساؤتھ افریقہ میں طلبہ تحریک اور دیگر عالمی سطح کے واقعات درحقیقت ایک تبدیل شدہ عہد کی غمازی کر رہے ہیں۔ پاکستان میں بھی عوام کسمپرسی کی حالت میں رہ رہے ہیں۔ تعلیم، صحت سمیت تمام سوشل انفراسٹرکچر کا دھڑن تختہ ہو چکا ہے۔ دہشت گردی سماج کا معمول بن چکی ہے۔ ایسے میں کیا ملک کا تناظر لیبیا اور شام جیسا ہو گا؟ ایسے ہی کہا یہ جا رہا ہے کہ چین کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ لیکن یہ سب جھوٹ پر مبنی ہے۔ ماضی میں جب موٹر ویز بنائی گئی تھیں تو اس وقت بھی یہی کہا جاتا تھا مگر آج ان سڑکوں کے دونوں اطراف میں غربت اور بھوک کی فصل پک چکی ہے۔
حقیقت میں یہ سب امریکی سامراج کی کمزوری کی علامات ہیں کہ پاکستان میں میڈیا، سیاستدان اور جرنیل وغیرہ سب چین کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں اور چین تقریباً ہر چیزاور ہر متعلقہ فرد کو خریدتا جا رہا ہے۔ لیکن امریکہ بھی اس مداخلت کو روکنے کے لیے دوبارہ اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کرتا ہے جس کی وجہ سے صورتحال اور زیادہ تشویشناک ہوتی جا رہی ہے۔ ماضی میں اس قسم کی بحرانی کیفیت مارشل لا وغیرہ کا باعث بنتی تھی۔ لیکن اب امریکی سامراج کی نا اہلی، چین کی مکمل طور پرامریکی کالونی یعنی پاکستان کو اپنے کنٹرول میں لینے کی نااہلی اور فوج کے داخلی تضادات کے باعث یہ ممکن نہیں لگ رہا۔ لیکن اس کیفیت نے ریاست کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے۔ اسی طرح ہمیں مزدوروں، کسانوں اور غریب لوگوں کے اندر اس حکمران طبقے کے خلاف شدید غم و غصہ بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے جو وقتاً فوقتاً سطح پر اپنا اظہار بھی کرتا رہتا ہے۔ PIA کے محنت کشوں سے لے کر نرسوں تک سب میں اضطراب پایا جاتا ہے مگر ایسی کوئی سیاسی قوت نہیں جو اس اضطراب کو سیاسی قیادت دے۔ عمران خان بری طرح ناکام ہوا ہے ایسے ہی پیپلز پارٹی بھی زوال پذیر ہے۔ پیپلز پارٹی اور عوام کا تعلق بالکل بدل چکا ہے۔ اب نئی پی پی پی کی بات کی جا رہی ہے مگر سب اسی پرانی پالیسی پر گامزن ہیں۔ آگے چل کر ہمیں دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں نئی شکلیں بنتی ہوئی نظر آئیں گی۔ کشمیر میں تحریک پانچویں ماہ میں داخل ہو گئی ہے۔ انڈیا جبر سے جبکہ پاکستان بنیاد پرستی کی ملاوٹ کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہزاروں لوگ زخمی، سینکڑوں اندھے اور ایک سو سے زائد ہلاک ہو چکے ہیں مگر تحریک رکنے کا نام نہیں لے رہی۔ انڈین میڈیا خود تسلیم کر رہا ہے کہ یہ ماضی کی تحریکوں سے مختلف ہے۔
پاکستان کے طلبہ میں بھی ہیجان بڑھتا جا رہا ہے۔ حال ہی میں بوگس انتخابی نتائج کے خلاف ملک بھر میں تحریکیں دیکھنے میں آئی ہیں۔ یہ ابھی شروعات کی بھی شروعات ہے۔ شعور آگے بڑھ رہا ہے۔ کوئی ایک طلبہ یونین بھی ایسی نہیں جو ان تحریکوں کی قیادت کرنے کی اہل ہو۔ مزدوروں کے حالات کا اندازہ کچھ دن قبل گڈانی شپ بریکنگ یارڈ میں جل کر شہید ہو جانے والے 200 سے زائد محنت کشوں اور ان کو دیکھتے رہ جانے والے مزدوروں کی بے بسی اور لاچاری سے لگایا جا سکتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ ریاست اب معیارِ زندگی میں بہتری تو درکنار موجودہ معیارِ زندگی کو برقرار بھی نہیں رکھ سکتی۔ یہ محنت کشوں پر مزید حملے کرے گی۔ نجکاری، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ ہو گا۔ عوام بالآخر ایک تحریک کا راستہ اپنانے پر مجبور ہونگے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تحریک کے لیے مارکسی قوت کی تعمیر کے سفر کو تیز سے تیز تر کیا جائے۔ لیڈ آف کے بعد سوالات پوچھے گئے اور کنٹریبیوشنز کا سلسلہ شروع ہوا۔ کراچی سے فارس نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ یہ کانگریس اس بات کا عملی اظہار ہے کہ عددی نقصان کے باوجود ہم بہت آگے بڑھے ہیں۔ فارس نے کراچی کے حوالے سے کہا کہ کراچی ریاست کے مختلف دھڑوں کے مابین میدانِ جنگ بنا ہوا ہے۔ کراچی میں MQM کا خوف ٹوٹ رہا ہے اور پارٹی بھی اندر سے ٹوٹ پھوٹ رہی ہے۔ 10 سال پہلے تک ہزاروں، لاکھوں لوگ اکٹھا کر لینے والی MQMاب بمشکل ہی دو چار ہزار لوگ اکٹھے کر پاتی ہے۔ ماضی میں عوامی حمایت کے اعتماد کی وجہ سے وہ جبر کر لیتے تھے مگر اب وہ اپنے آپ کو زیادہ ’پر امن‘ بنا کر پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ اس سے تمام سیاسی دھارا متاثر ہو رہا ہے۔ عمران خان نے کراچی میں بہت مواقع کھو دیئے ہیں۔ اب وہاں اسکا کوئی مستقبل نہیں۔ پی پی پی بھی اب روایتی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے۔ ایسے میں کراچی کا محنت کش طبقہ سب نام نہاد دانشوروں کو حیرت میں ڈال سکتا ہے۔
خالد جمالی نے کہا کہ پی پی پی سندھ میں 9 سالوں سے برسرِ اقتدار ہے۔ ان سالوں میں عوام کی حالت دن دوگنی اور رات چوگنی بربادی کی طرف گامزن رہی ہے۔ عوام میں پی پی پی کا گراف مسلسل کم ہو رہا ہے۔ بہاولپور سے ڈاکٹر یاسر ارشاد نے کہا کہ OPEC بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ تیل کی قیمتیں عالمی منڈی میں 50-60 ڈالر سے بڑھنے کے امکانات کم سے کم ہوتے جا رہے ہیں۔ پاکستان کابیرونی قرضہ بڑھ کر 74 ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے۔ سی پیک سے اس میں بے پناہ اضافہ ہو گا۔ پرانی سیاسی قوتیں منہدم ہو رہی ہیں اور نئی ابھی نہیں ابھری ہیں۔ یہی بحران کا اصل خاصہ ہے۔ کامریڈ احمر نے کہا کہ کوئی بھی پارٹی موجودہ کیفیت میں عوام کی رہنمائی کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی دوسری طرف مڈل کلاس کی بھی زیادہ سے زیادہ پرتیں آہستہ آہستہ سیاسی میدان میں متحرک ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہیں۔ مارکسی قوتوں کی تعمیر کے لیے حالات سازگار ہیں۔ گوجرانوالہ سے کامریڈ ناصرہ نے بات کرتے ہوئے ملک میں خواتین کی حالتِ زار بیان کی اور پاکستان کو خواتین کے لیے دوزخ سے تشبیہہ دی۔ پختونخواہ سے کامریڈ صدیق نے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں صرف پیسے کی سیاست ہو رہی ہے۔ صدیق نے افغان مہاجرین کی قابلِ رحم حالت بیان کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ان کی سستی محنت کا خوب استحصال کیا گیا اور اب ان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کر کے پھینکنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس سے صورتحال مزید خراب ہو گی۔ کامریڈ صدیق نے قوم پرست سیاست کی نزاعی کیفیت پر بھی بات کی اور کہا کہ ڈیورنڈ لائن کے آر پار دو الگ الگ نہیں بلکہ ایک ہی انقلاب ہو گا۔
اس کے بعد کامریڈ پارس جان نے فنانس اپیل کی جس کا کامریڈوں نے دل کھول کر خیر مقدم کیا۔ سم اپ کرتے ہوئے آدم پال نے بلوچستان کے قومی سوال پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم مظلوم قومیتوں کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کرتے ہیں لیکن موجودہ صورتحال میں اگر قومی تحریکوں کو کامیابی کی طرف آگے بڑھنا ہے تو انہیں اپنے آپ کو محنت کش طبقے کی عالمگیر تحریکوں سے جڑنا پڑے گا۔ یہ کوئی ایک طرفہ عمل نہیں ہو گا اور اسی طرح مزدور تحریکوں کی قیادتوں کو بھی مظلوم قوموں کی جدوجہد کی حمایت کرنی ہو گی۔ آدم نے دوبارہ خطے میں امریکہ اور چین کے معاشی مفادات کے مابین ہچکولے لیتے ہوئے مستقل عدم توازن کی کیفیت کی وضاحت کی۔ سی پیک کی حفاظت کے لیے بنائے گئے 10000 کے دستے کے اخراجات بھی ریاستی اخراجات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ پاکستان مزید قرضے لے رہا ہے جبکہ ترسیلاتِ زر میں گراوٹ کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ اس سال ان میں38 فیصد گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ پاکستان میں زیادہ تر ٹیکس بالواسطہ ہیں اور براہِ راست ٹیکسوں کا زیاہ تر بوجھ بھی درمیانی پرتوں پر پڑتا ہے۔ روپے کی قدر میں گراوٹ بڑھ رہی ہے اور ہمیں کسی مرحلے پر زمبابوے جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایسی صورتحال میں میڈیا کا سرکس جاری ہے جو کسی نہ کسی بورژوا پارٹی کو عوام کے شعور پر مسلط کرنے کی ہرممکن کوششیں کر رہا ہے۔ آدم نے کشمیر کے معاملے پر پاکستان اور انڈیا کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بھی بات کی۔ اسی طرح بلوچستان اور افغانستان میں بھی انڈیا کی بڑھتی ہوئی مداخلت سے خطے میں عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے۔ ایسی کیفیت سرحدوں کے آر پار محنت کش طبقہ ہی امید کی واحد کرن ہے۔ ابھی محنت کش معاشی مطالبات اٹھا رہے ہیں لیکن بہت جلد یہ تحریکیں سیاسی شکل اختیار کریں گی۔ نیچے سے بڑھتا ہوا دباؤ ہماری توقع سے بھی جلد طلبہ یا محنت کشوں کی بغاوت کے لاوے کو پھاڑ سکتا ہے۔ حکمران طبقے کو بھی اس کا اندازہ ہے اسی لیے وہ دوبارہ محنت کشوں کو ہراساں کرنے کے لیے بنیاد پرستوں کو استعمال کرنے کی پالیسی اختیار کر رہے ہیں۔ یہ نیا عہد ہے اور ہمیں آنے والے بڑے بڑے واقعات میں مداخلت کرنے کے لیے بھرپور تیاری کرنے کی ضرورت ہے۔
دوسرے سیشن کے بعد شام کو یوتھ ورک، خواتین ورک اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے کمیشنز منعقد ہوئے جن میں کامریڈوں کی اکثریت نے گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا۔ دوسرے دن مزید 20 کامریڈوں کی رجسٹریشن ہوئی جس سے شرکا کی کل تعداد 280 ہو گئی۔ دوسرے دن کا پہلا سیشن اور مجموعی طور پر تیسرا سیشن ’تنظیم‘ پر تھا جسے کامریڈ راشد خالد نے چیئر کیا جبکہ کامریڈ پارس جان نے لیڈ آف دی۔ لیڈ آف میں سابقہ سیکشن کی پھوٹ کے اسباق، لائحہ عمل میں لچک کی ضرورت، نئی حکمتِ عملی، تنظیمی ڈسپلن اور اداروں کا کردار، سوشل میڈیا ورک سمیت دیگر تمام تنظیمی امور پر تفصیل سے بات کی گئی۔ پہلی دفعہ تنظیم کے سیشن کے بعد سوالات بھی لیے گئے۔ اس کے تمام شعبہ جات اور کمیشنز کی رپورٹ پیش کی گئی۔ ریجنل سیکرٹریز نے اپنے اپنے ریجن کی رپورٹ دی۔ اس کے بعد تنظیم پر اوپن بحث بھی کی گئی۔ طوالت کے باعث سیشن کھانے کے وقفے کے بعد بھی جاری رہا۔ چند اختلافی نکات بھی سامنے آئے جن پر کامریڈ پارس جان نے سم اپ کرتے ہوئے انٹرنیشنل کے نقطۂ نظر کو واضح کیا۔ چوتھا اور آخری سیشن انٹرنیشنل رپورٹس پر تھا جسے کامریڈ گلباز نے چیئر کیا اور کامریڈ فریڈ نے انٹرنیشنل رپورٹ پیش کی۔ پیش کی گئی رپورٹ سے واضح تھا کہ IMT کے تمام سیکشنز کا کام آگے بڑھ رہا ہے اور نئے سیکشنز بھی بنائے جا رہے ہیں۔ رپورٹ کے بعد سوالات کیے گئے اور کامریڈ کلاڈیو بلوٹی نے بھی اس سیشن میں کنٹری بیوشن کیا۔ آخر میں اس سیشن کا سم اپ اور اختتامی کلمات کامریڈ فریڈ نے ادا کیے۔ انٹرنیشنل گا کر کا نگریس کا با قاعدہ اختتام کیا گیا۔ اور ایوانِ اقبال سے پریس کلب تک گڈانی شپ بریکنگ کے سانحہ کے ذمہ داران کے خلاف ایک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ کامریڈوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ اس حوالے سے خاص طور پر ’لال سلام ‘ کے لیے نئے نعرے بھی دیکھنے میں آئے۔ یوں بالآخر یہ شاندار کانگریس اپنے اختتام کو پہنچی۔
کانگریس 17-2016 تصاویر میں
پہلا دن:
دوسرا دن:
لال سلام
9 دسمبر 2016ء