انقلابی کمیونسٹ پارٹی کا پہلا ’کمیونسٹ سکول‘ اور جلسہ۔۔۔کمیونسٹ آ رہے ہیں!

|رپورٹ: انقلابی کمیونسٹ پارٹی|

’آزاد‘ کشمیر کے شہر راولاکوٹ میں 9 سے 12 اگست کے درمیان، انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی جانب سے پہلے ملک گیر تین روزہ ’کمیونسٹ سکول‘ کا انعقاد کیا گیا۔

اس سکول کا مقصد نئے انقلابیوں کی ایک پرت کو انقلابی نظریات سے لیس کرنا، کمیونسٹوں کے سامنے موجودہ عہد کے فرائض کو واضح کرنا اور آنے والے طوفانی دور کے لیے ایک راستہ متعین کرنا تھا۔

یہ تین روزہ کمیونسٹ سکول کوئی ایسا پروگرام یا سیمینار نہیں تھا جس میں محض دانشگردی کی گئی یا جہاں ہر بولنے والے شخص نے اپنی علمیت جھاڑی۔ نہ ہی بلوچستان کے دور دراز علاقوں سے لے کر گلگت بلتستان کے دور دراز علاقوں تک سے آئے 350 سے زائد طلبہ، مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کا مقصد اپنے کیریئر کی بہتری کیلئے علم میں اضافہ کرنا تھا۔ بلکہ ہوشربا مہنگائی کے باوجود ہزاروں روپے خرچ کر کے یہ تمام لوگ وہ انقلابی نظریات سیکھنے آئے تھے جو امیروں کے سرمایہ دارانہ نظام کو نیست و نابود کرنے میں ان کی رہنمائی کریں گے۔ یعنی دوسرے الفاظ میں یہ وہ 350 سے زائد سر پھرے تھے جو ہزاروں روپے خرچ کر کے وہ انقلابی نظریات سیکھنے آئے تھے جو انہیں طبقاتی جنگ کا سپاہی بنا کر حکمرانوں اور ان کی ریاست کے مدمقابل کھڑا کر دیتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور عالمی انقلاب کا تناظر

پہلے دن کا آغاز انقلابی شاعری سے ہوا۔ ملک کے مختلف حصوں سے آئے ہوئے انقلابی کمیونسٹوں نے مختلف زبانوں میں انقلابی شاعری اور گیت پیش کیے۔ اس کے بعد سکول کے پہلے سیشن کا آغاز ہوا۔ پہلے سیشن کا عنوان تھا ”سرمایہ دارانہ نظام کا بحران اور عالمی انقلاب کا تناظر“۔ ’آزاد‘ کشمیر سے کامریڈ یاسر ارشاد نے اس سیشن میں بحث کا آغاز کیا۔ اس سیشن کو چیئر لاہور سے سلمیٰ ناظر نے کیا۔

یاسر ارشاد

اس وقت ہر شخص کے ذہن میں ایک ہی سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر پوری دنیا کو ہو کیا گیا ہے؟ آج دنیا کا کوئی ایک ایسا خطہ نہیں بچا جو معاشی، سیاسی، سماجی بحران سے محفوظ ہو۔ روس-یوکرین جنگ، اسرائیل کی فلسطین پر بربریت، تائیوان میں امریکہ اور چین کی لڑائی، جنوبی اور شمالی کوریا میں کشیدگی، متعدد ممالک میں خانہ جنگیاں، عالمی سطح پر مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ، ماحولیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں پورے سیارے کے وجود کو درپیش خطرات؛ یہ ہے آج کی دنیا۔ اس دنیا کو دیکھ کر بہت سارے لوگ یہ نتیجہ نکال رہے ہیں کہ شاید قیامت آنے والی ہے۔ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے جیسے سلطنت روم کے زوال کے وقت تھی۔ تب بھی لوگوں کو لگ رہا تھا کہ قیامت آنے والی ہے اور سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ مگر اُس وقت جو چیز ختم ہو رہی تھی وہ دنیا نہیں بلکہ اُس وقت کا غلام دارانہ نظام تھا۔

کامریڈ یاسر ارشاد نے وضاحت کی کہ آج بھی جو چیز ختم ہو رہی ہے وہ دنیا نہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یاسر کا کہنا تھا کہ آج سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر زائد پیداوار کے بحران کا شکار ہے۔ یہ معاشی بحران پھر سیاست اور سماج میں اپنا اظہار کر رہا ہے۔ اس نظام کا حکمران طبقہ آج اسے اسی لیے نہیں چلا پا رہا کیوں یہ اب چلنے کے قابل ہی نہیں رہا۔ اس بحران کے نتیجے میں ہی آج امریکہ سمیت دیگر ترقی یافتہ ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور بھی مسخرے ہی آرہے ہیں جو اس بحران کو مزید تیز کرتے جا رہے ہیں۔

بنگلہ دیش، کینیا، سری لنکا سمیت دیگر متعدد ممالک میں جاری عظیم الشان احتجاجی تحریکیں بھی اسی بحران کے نتیجے میں جنم لے رہی ہیں۔ اب پوری دنیا کے محنت کشوں کی بس ہو چکی ہے، وہ مزید مہنگائی اور بیروزگاری کا سامنا نہیں کر سکتے۔ یاسر نے ان احتجاجی تحریکوں بالخصوص بنگلہ دیش اور کینیا پر تفصیلی بات کی اور ان کے آغاز کی فوری وجوہات سمیت موجودہ صورتحال اور مستقبل کے تناظر کو بھی زیر بحث لایا۔

اسی طرح اسرائیل کی بربریت اور روس-یوکرین جنگ کی موجودہ صورتحال اور مستقبل کے تناظر کی بھی وضاحت کی۔ یاسر کا کہنا تھا کہ دیگر متعدد وجوہات کے ساتھ ساتھ ان جنگوں کی بنیادی وجہ امریکی سامراج کا نسبتی زوال ہے۔ اس وقت امریکی و دیگر سامراجی ممالک کے سرمایہ داروں کے منافعوں کی ہوس میں لاکھوں لوگ مر رہے ہیں، اربوں کی جانوں کو خطرہ ہے اور کروڑوں لوگ اپنے گھر بار چھوڑ کر در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔

منافعوں کی ہوس میں پورا سیارہ جہنم بن چکا ہے اور اس کے وجود کو خطرہ لاحق ہے۔ مگر دوسری طرف پوری دنیا میں امیر اور غریب کی لڑائی بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ مستقبل میں یہ طبقاتی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی۔

اس سیشن میں لاہور سے ثاقب اسماعیل، کراچی سے جلال جان،ملاکنڈ سے فرہاد علی، ڈی جی خان سے آصف لاشاری، کوئٹہ سے کریم پرھار، لاہور سے ولید خان اور آدم پال نے بھی گفتگو میں حصہ لیا۔ ان تمام کامریڈز نے عالمی سطح پر جاری جنگوں اور خانہ جنگیوں، معاشی بحران، ماحولیاتی تبدیلی سمیت دیگر کئی پہلوؤں پر تفصیلی بات کی۔

انقلاب، کمیونزم اور پاکستان

”انقلاب، کمیونزم اور پاکستان“ کے عنوان سے دوسرا سیشن کھانے کے وقفے کے بعد شروع ہوا۔ اس سیشن کو پختونخواہ سے کامریڈ صدیق جان نے چیئر کیا۔ سیشن میں لیڈ آف لاہور سے کامریڈ ولید خان نے دی۔

ولید خان

بیورو آف امیگریشن اینڈ اوور سیز ایمپلائمنٹ نامی سرکاری ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان سے 2024ء میں جولائی کے مہینے تک 7 لاکھ لوگ ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں جبکہ پچھلے سال 8 لاکھ 11 ہزار لوگ گئے تھے۔ ”غیر قانونی“ ذرائع سے جانے والے ابھی ان میں شامل نہیں ہیں، جو تپتے صحراؤں، پتھریلے پہاڑوں اور سمندر کے زہریلے پانی میں سے اپنی ہتھیلی پر جان رکھ کر سفر کرتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں مارے جاتے ہیں یا پھر گمنام جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔

پاکستان اس وقت جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں کیلئے کسی جنت سے کم نہیں، مگر یہاں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کیلئے دہکتا ہوا جہنم ہے۔ اس ملک کے حکمران اپنی اولادوں کی شادیوں میں اربوں روپے ہوا میں اڑاتے ہیں جبکہ کروڑوں محنت کشوں کے بچے رات کو بھوکے سوتے ہیں۔ انہیں تو سپنوں میں بھی روٹی ہی دکھتی ہے۔ جس رات سپنے میں وہ کسی کچرے کے ڈبے میں پڑا ہوا کسی امیر زادے کا پھینکا ہوا برگر یا پیزا اٹھا کر کھا لیں تو یہ ان کیلئے ایک خوبصورت سپنا ہوتا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس کی 2023ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ صحت مند خوراک کیلئے 1000 روپے سے زائد خرچہ آتا ہے، جبکہ ایک سال بعد مہنگائی میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس وقت کم از کم اجرت 37 ہزار روپے ہے۔ ایک ایسا خاندان جس میں کم از کم تین لوگ بھی ہوں، وہ بھلا ان پیسوں میں صحت مند کھانا کھائے یا پھر گھر کا کرایہ دے، آسمان کو چھوتے بجلی کے بل ادا کرے، بچوں کو تعلیم دلوائے یا علاج کروائے!

اس تباہی و بربادی کی تمام تر ذمہ داری آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے عالمی سامراجی اداروں اور اس ملک کے تمام جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں پر عائد ہوتی ہے۔ حکمران یہ جھوٹا رونا روتے ہیں کہ روزگار دینے اور مہنگائی کم کرنے کیلئے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، مگر اسی ملک میں ان میں سے ہر ایک سرمایہ دار کے درجنوں محل موجود ہیں اور بیرون ملک تجوریوں میں اربوں ڈالر محفوظ ہیں۔

پچھلے 77 سال سے بلوچوں، پشتونوں، سندھیوں سمیت دیگر مظلوم اقوام کے وسائل کو یہ حکمران بندوق کی نوک پر مسلسل لوٹ رہے ہیں۔ اس لوٹ مار کو جاری رکھنے کیلئے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور ٹارچر سیلوں میں جانوروں سے بھی بدتر حالات میں رکھا گیا ہے۔

ولید نے وضاحت کی کہ ”باقی دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بڑی احتجاجی تحریکیں جاری ہیں اور مستقبل میں طبقاتی لڑائی میں شدت آئے گی۔ اس وقت قومی جبر کے خلاف بلوچ، دہشت گردی کے خلاف پشتون، مہنگی بجلی، مہنگے آٹے اور دیگر جمہوری مطالبات کے حصول کیلئے گلگت بلتستان اور ’آزاد‘ کشمیر میں لاکھوں کی تعداد میں لوگ احتجاجی تحریکوں کا حصہ ہیں۔ مگر یہ تحریکیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ جاری ہیں۔ ضرورت یہ ہے کہ انہیں آپس میں جوڑا جائے۔ جلد ہی فیکٹریوں کے مزدور اور سرکاری اداروں کے محنت کش میدان عمل میں آئیں گے۔“

آخر میں ولید نے یہ وضاحت کی کہ کس طرح سوشلزم میں دولت پیدا کرنے والے تمام ذرائع کو اس ملک کے مٹھی بھر حکمرانوں کی ملکیت سے چھین کر مزدور ریاست کے جمہوری کنٹرول میں لینے کے بعد تعلیم، صحت، روزگار، ٹرانسپورٹ سمیت دیگر شعبوں کو پورے سماج کی فلاح و بہبود کیلئے چلایا جائے گا۔

اس کے بعد کامریڈ اجمل نے کشمیر کی تحریک کا تجزیہ پیش کیا اور کشمیر میں عوامی ایکشن کمیٹی کی بجلی اور آٹے کی بڑھتی قیمتوں کیخلاف کامیاب تحریک کے دوران ہونے واقعات بتا کر ہال میں بیٹھے کامریڈز کا لہو گرمایا۔

ڈ یرہ غازی خان سے لیڈی ہیلتھ ورکرز پنجاب کی جنرل سیکرٹری سلمیٰ نواز کا کہنا تھا کہ ”بطور پنجاب کے محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خاتون کے، ہمیں بلوچستان یا کسی بھی خطے کے وسائل کی لوٹ مار کی ضرورت نہیں، ہم آج بس اپنے جینے کا حق مانگ رہے ہیں۔“

گلگت بلتستان کی عظیم الشان احتجاجی تحریک کو منظم کرنے والی ’عوامی ایکشن کمیٹی‘ کے سربراہ اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے رہنما کامریڈ احسان علی ایڈووکیٹ نے گلگت بلتستان میں جاری تحریک کے بارے میں تفصیلی بات کی۔

ان کے علاوہ بلوچستان سے بلاول بلوچ،لاہور سے واپڈا کے محنت کش مقصود ہمدانی، کراچی سے آنند پرکاش، کوئٹہ سے سیما خان نے گفتگو میں حصہ لیا۔

انقلابی شاعری و موسیقی

پہلے دن کا آخری سیشن ’انقلابی شاعری و موسیقی‘ پر تھا۔

اس سیشن میں اسلام آباد سے آئے ہوئے انقلابی شاعر اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر مظہر حسین سید نے اپنا کلام پیش کیا اور پورے ہال سے داد وصول کی۔

استاد ناصر خان

اس کے بعد لاہور سے خصوصی طور پر اس تاریخی کمیونسٹ سکول میں شرکت کرنے کیلئے آئے ہوئے استاد ناصر خان نے اپنے طبلہ نواز شارون کے ساتھ مل کر سُر اور تال سے ہال میں موجود تمام لوگوں کو کبھی مکمل خاموش کرا کر ان کے تخیل کو جھومنے کا موقع دیا تو کبھی انہیں اپنی کرسیوں سے اُٹھ کر خود جھومنے پر مجبور کیا، اور کبھی انقلاب زندہ زندہ باد کے نعرے لگانے کے لیے نیا جوش دیا۔

کمیونزم کیا ہے؟

دوسرے دن کا آغاز ”کمیونزم کیا ہے؟“ کے موضوع پر لاہور سے فضیل اصغر کی لیڈ آف سے ہوا، جسے چیئر کوئٹہ سے کریم پرھار نے کیا۔

فضیل اصغر

فضیل نے گفتگو کا آغاز ان الفاظ سے کیا:

”کمیونزم ایک ایسا نظام ہے جس میں کوئی نجی ملکیت نہیں ہوگی، کوئی ریاست نہیں ہوگی، امیر اور غریب کا فرق نہیں ہوگا، انسانوں کے مابین بنیادی ضروریات کے حصول کے لیے مقابلہ نہیں ہو گااور سماج ایک منظم خود کار انداز میں چلے گا۔ اس نظام میں ہر شخص سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے گا اور ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق دیا جائے گا۔ بظاہر یہ ایک خیالی جنت لگتی ہے! مگر جس کمیونزم کا پرچار کمیونسٹ کرتے ہیں وہ کسی ایک شخص کے دماغ کی اختراع نہیں بلکہ اس کی سائنسی بنیادی ہیں جنہیں کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز نامی عظیم انقلابیوں نے تریب دیا ہے اور وضاحت کی ہے“۔

اس کے بعد فضیل نے یوٹوپیائی اور سائنسی کمیونزم میں فرق واضح کیا۔ اور بتایا کہ مارکسزم کا فلسفہ عینیت پرستانہ نہیں بلکہ مادیت پسندانہ ہے۔ یعنی کہ حقیقی مادی دنیا ہمارے ذہن سے باہر موجود ہے جسے سمجھنے کیلئے اس کا سائنسی تجزیہ کرنا پڑے گا نہ کہ اپنے ذہن سے اس کی اپنی مرضی کے مطابق کچھ بھی تشریح۔ لہٰذا کمیونسٹ معاشرے کا تصور سماج کی تاریخ کا سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کرتے ہوئے ترتیب دیا گیا ہے۔

اس کے بعد قدیم یونانی آئیونک (Ionic) فلسفیوں سے مادیت پسندی کے آغاز سے لے کر نشاطِ ثانیہ اور پھر کارل مارکس تک اس کے سفر کو مختصراً بیان کیا۔ اور یہ بتایا کہ کس طرح کارل مارکس اپنے سے پہلے والے عظیم فلسفیوں کے کندھوں پر کھڑا تھا۔

اسی طرح قدیم اشتراکی سماج میں غاروں سے نکل کر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں خلاؤں تک پہنچنے والے انسان کے سفر کا مادی بنیادوں پر کیا گیا کمیونسٹ تجزیہ جسے تاریخی مادیت کہا جاتا ہے، بیان کیا۔ طبقاتی سماج کے آغاز کی وجوہات بیان کرنے کے بعد فضیل نے ’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘ کے تاریخی الفاظ ”آج تک کی سماج (تہذیب) کی تاریخ، طبقاتی کشمکش کی تاریخ ہے“ کا ذکر کرتے ہوئے طبقاتی سماجوں کی تاریخ کا تجزیہ شروع کیا۔ اور یہ وضاحت کی کہ کیونکر طبقاتی جدوجہد ہی سماجی ارتقا کی قوت محرکہ ہے۔

آخر میں فضیل نے سرمایہ دارانہ نظام میں موجود محنت اور سرمائے کے تضاد اور زائد پیداوار کے بحران کو زیر بحث لاتے ہوئے موجودہ عہد میں کمیونزم کی ناگزیریت کو واضح کیا۔

فضیل کا کہنا تھا کہ ”ہماری لڑائی صرف روٹی، کپڑے اور مکان کی نہیں بلکہ ایک ایسا معاشرہ بنانے کی ہے جہاں ایک کاغذ کا ٹکڑا (روپیہ) انسان کی تقدیر کے فیصلے نہ کرے بلکہ انسان حقیقی معنوں میں آزاد ہو کر خود کرے۔“

لیڈ آف کے بعد اس سیشن میں سوالات کی بھرمار ہوگئی۔ تقریباً تیس سے زائد سوال پوچھے گئے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس سیشن میں تمام شرکا کی دلچسپی بہت زیادہ تھی۔

اس سیشن میں ڈیرہ غازی خان سے آصف لاشاری، لاہور سے سلمیٰ ناظر، کراچی سے جلال، دادو سے عمران شاہ، کشمیر سے خرم، گوجرانوالہ سے صبغت وائیں، بہاولپور سے فرحان رشید، حیدر آباد سے مجید پنھور، لاہور سے ثناء اللہ جلبانی اور سرگودھا سے ریاض احمد نے بحث میں حصہ لیا اور سوالات کے مدلل اور دلچسپ جواب دیے۔

نظریہ انقلاب مسلسل: پسماندہ ممالک میں انقلاب کا کردار

دوسرے دن کھانے کے وقفے کے بعد ”نظریہ انقلاب مسلسل: پسماندہ ممالک میں انقلاب کا کردار“ کے موضوع پر بات ہوئی۔

ڈاکٹر آفتاب اشرف

اس سیشن کو چیئر حیدر آباد سے علی عیسیٰ نے کیا اور لیڈ آف لاہور سے ڈاکٹر آفتاب اشرف نے دی۔

پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں بائیں بازو کے حلقوں میں ایک سوال سب سے زیادہ زیر بحث رہتا ہے؛ وہ یہ کہ ان ممالک کی ترقی اور سماجی ارتقا سرمایہ دارانہ پارلیمانی جمہوریت کے ذریعے ہوگا یا ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے؟ یہ درحقیقت کوئی نیا سوال نہیں ہے بلکہ 1917ء میں روس میں ہونے انقلاب سے پہلے بھی روسی بائیں بازو میں موجود تھا۔ بہر حال انقلاب روس کی کامیابی نے اس کا عملی جواب دے دیا تھا کہ پسماندہ ممالک کی ترقی کی کنجی ان ممالک کے پرولتاریہ کے ہاتھ میں ہے۔ مگر اس کے بعد سٹالنسٹ افسر شاہی کی صورت میں انقلاب روس کی زوال پذیری کی وجہ سے یہ سوال موجود رہا۔

آفتاب اشرف نے اپنی بات کا آغاز سرمایہ دار طبقے کے سیاسی کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کیا۔ آفتاب نے بورژوازی کے مختلف ادوار میں سیاسی کردار پر روشنی ڈالی۔ سب سے پہلے انقلاب فرانس، جو کہ سرمایہ دارانہ انقلاب تھا، میں سرمایہ دار طبقے کے کردار پر بات کرتے ہوئے وضاحت کی کہ اپنے انقلاب میں بھی یہ طبقہ فیصلہ کن قائدانہ کردار ادا کرنے سے قاصر تھا۔ انقلاب فرانس میں بھی نوازائیدہ پرولتاریہ ہی انقلاب کو آگے بڑھا رہا تھا۔ آفتاب کا کہنا تھا کہ وہ طبقہ جس کا سیاسی کردار اپنے آغاز (عروج) میں اتنا محدود تھا، وہ بھلا آج جب سرمایہ دارانہ نظام اپنے نامیاتی بحران کا شکار ہے، کیا ترقی پسندانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔

اس تناظر میں آفتاب نے پسماندہ ممالک کی بورژوازی کا تجزیہ شروع کیا۔ آفتاب کا کہنا تھا کہ یہ بورژوازی اپنے آغاز سے ہی خصی اور کمپراڈور کردار رکھتی ہے۔ یہ سامراج کی بی ٹیمیں ہیں۔ نہ صرف سیاسی بلکہ معاشی طور پر بھی یہ کئی تانوں بانوں سے عالمی سامراجی ممالک اور اداروں کے ماتحت ہیں۔ درحقیقت ان کے وجود کی بنیادی شرط ہی سامراجی دلالی ہے۔ لہٰذا پسماندہ ممالک میں یہ کسی بھی طرح کا ترقی پسندانہ کردار ادا نہیں کر سکتی۔

دوسری طرف آج پرولتاریہ اپنی بنت میں ماضی سے قدرے مختلف ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے حجم میں کئی گنا زیادہ ہو چکا ہے۔ اور آج جس حد تک سرمایہ دارانہ نظام عالمگیریت آج اختیار کر چکا ہے اتنا ماضی میں کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ آج پسماندہ ممالک میں معاشی و سماجی ترقی کے ساتھ ساتھ دیگر جمہوری آزادیوں کو بھی نہ تو ان ممالک کی سرمایہ دارانہ پارلیمنٹ کے ذریعے ممکن بنایا جا سکتا ہے اور نہ ہی اقوام متحدہ جیسے عالمی سامراج کے کٹھ پتلی ادارے کے ذریعے۔ بلکہ یہ فرائض اب ان ممالک کا پرولتاریہ ہی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پورے کر سکتا ہے۔ بنگلہ دیش کی حالیہ تحریک نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں حقیقی آزادی مل ہی نہیں سکتی۔ حقیقی آزادی سرمائے کے خاتمے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔

کشمیر سے یاسر ارشاد، کوئٹہ سے کریم پرھار، بہاولپور سے عرفان منصور، لاہور عدیل زیدی، پشاور سے تیمور خان، لاہور سے آدم پال اور کراچی سے پارس جان نے اس موضوع سے جڑے دیگر پہلوؤں جیسے سٹالن کا ’مرحلہ واریت کا نظریہ‘ وغیرہ پر گفتگو کی اور سوالات کے جواب دیے۔

آرٹ اور انقلاب

دوسرے دن کا تیسرا سیشن ’آرٹ اور انقلاب (سنیما، تھیٹر، شاعری، موسیقی پر گفتگو)‘ کے موضوع پر تھا۔

اس سیشن کو چیئر ڈی جی خان سے آصف لاشاری نے کیا جبکہ لیڈ آف آدم پال نے دی۔

آدم پال

یہ سیشن بھی سب کی دلچسپی کا مرکز بنا رہا۔ یہ سیشن روایت سے تھوڑا مختلف تھا۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ گپ شپ تھی۔ ایسی گپ شپ جس میں آدم پال نے طنز و مزاح سے بھرپور بات چیت کی۔ آدم نے آرٹ اور انقلاب کے تعلق پر بھی بات کی اور آرٹ کے زوال کی معروضی وجوہات پر بھی۔ بالخصوص برصغیر کے سنیما اور موسیقی پر بہت سی گفتگو ہوئی۔گفتگو میں فیض احمد فیض کی شاعری، کرشن چندر اور پریم چند کے افسانے، سپارٹیکس کی غلاموں کی بغاوت اور اس پر بننے والی فلم، برصغیر کی کلاسیکی موسیقی اور راگ درباری، فلمی موسیقی اور گلوکاری،ادب میں کردار نگاری اور مختلف مشہور کرداروں کے سماج پر اثرات، مصوری اور مجسمہ سازی سمیت مختلف فنون لطیفہ پر ایک کمیونسٹ نقطہ نظر سے گفتگو کی گئی جسے حاضرین نے بہت پسند کیا۔

سیشن کے اختتام پر کامریڈز آدم پال کے طنز و مزاح سے بھرپور جملوں کو تمام شرکا ایک دوسرے کے ساتھ دوہراتے رہے اور لطف لیتے رہے۔

سیشن کے اختتام کے بعد خواتین کے کام کو ملک بھر میں منظم کرنے کیلئے خواتین کمیشن کا بھی انعقادبھی کیا گیا جس میں اب تک کے کام کا جائزہ اور مستقبل کیلئے لائحہ عمل ترتیب دیا گیا۔

اس دن کا اختتام ایک دفعہ پھر استاد ناصر خان کی گائیکی اور انقلابی موسیقی سے ہوا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر

تین روزہ کمیونسٹ سکول کا اختتامی سیشن انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تعمیر کے حوالے سے تھا۔ اس سیشن کو چیئر لاہور سے فضیل اصغر نے کیا جبکہ لیڈ آف کراچی سے پارس جان نے دی۔

پارس جان

پارس کا کہنا تھا کہ ”عالمی سطح پر انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل بنانے، اور پاکستان میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی بنانے کا فیصلہ ہماری موضوعی خواہش یا منشا کی بنیاد پر نہیں کیا گیا، بلکہ معروضی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ جب خود سرمایہ دار طبقے کے جریدے امریکہ سے برطانیہ تک لاکھوں نوجوانوں کی کمیونزم میں دلچسپی اور خود کو کمیونسٹ کہنے کے اعدادوشمار پیش کر رہے ہوں، ایسے میں ہمیں واضح کمیونسٹ شناخت کے ساتھ سیاست کرنی ہوگی۔“

پارس کا کہنا تھا کہ ”آج پاکستان میں بھی یہ حالات بن چکے ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں کے اندر ہی سوشلسٹ انقلاب کو کامیاب کر سکتے ہیں۔اور اگر نہیں کرتے تو پھر اس ملک میں ہونے والی بربریت کی ذمہ داری بھی ہم پر ہی جائے گی۔ لہٰذا ہمیں اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنا تھا، اور ہم آج اعلان کرتے ہیں ’پاکستان میں بھی کمیونسٹ آ رہے ہیں!‘۔ وقت آگیا ہے کہ کمیونزم کے نظریے کو ہر فیکٹری، گلی، محلے، تعلیمی ادارے میں لے کر جایا جائے۔ اب کمیونزم بند کمروں کی بحث نہیں رہی۔ فرانسس فوکویامہ کے ’تاریخ کے خاتمے‘ کے نام نہاد نظریے کا تاریخ نے خود خاتمہ کر ڈالا ہے۔ اس وقت ملک میں جو شخص بھی مفت بجلی، تعلیم، علاج، روزگار چاہتا ہے وہ کمیونسٹ ہی ہے، کیونکہ یہ سب کچھ آج ایک کمیونسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کر کے ہی مل سکتا ہے۔ کامریڈز! لوگ ہمارے انتظار میں ہیں، انتظار مت کریں، آگے بڑھیں سرخ جھنڈے اٹھا کر!“

آخر میں پارس نے اعلان کیا کہ دسمبر کے مہینے میں انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی تاسیسی کانگریس منعقد کی جائے گی۔ اس کانگریس سے پہلے ہم نے ایک خصوصی پوسٹر شائع کریں گے جس پر واضح لکھا ہوگا کہ ”اگر آپ کمیونسٹ ہیں تو پھر انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے ممبر بنیں!“۔ یہ پوسٹر ہم ہر گلی، کوچے، تعلیمی ادارے، فیکٹری کے باہر لگائیں گے اور کروڑوں محنت کشوں تک یہ پیغام پہنچائیں گے اب انتظار ختم، ان کی اپنی پارٹی اس ملک میں آ چکی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ہم نے ’کمیونسٹ‘ کے نام کے ساتھ ایک نیا اخبار شروع کیا ہے۔ اس کا پہلا شمارہ 2500 کی تعداد میں شائع کیا گیا ہے۔ پارس نے کہا کہ ”ہمارا ٹارگٹ ہے کہ اس اخبار کو ہم نے ماہانہ سے یومیہ بنانا ہے اور 2500 سے بڑھا کر 25 ہزار اور پھر 25 لاکھ کرنا ہے۔یہ ہمارا وہ ہتھیار ہے جو ہمیں ایک ایسی طاقت میں تبدیل کر ڈالے گا جسے پھر دنیا کی کوئی ریاست شکست نہیں دے سکے گی۔ ہم اس کے ذریعے نا صرف پاکستان کے محنت کشوں کو منظم کریں گے بلکہ ایک فولادی انقلابی کمیونسٹ پارٹی بھی تعمیر کریں گے۔

پارس جان کے بعد سندھ کے علاقے دڑو سجاول سے رشید آزاد اور کشمیر سے یاسر ارشاد نے پارٹی کی تعمیر کے حوالے سے مزید پہلوؤں پر بات کی۔

سکول کے اختتامی کلمات انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما آدم پال نے ادا کیے۔ آدم کا کہنا تھا کہ ”ہم کسی ایک ملک، رنگ، نسل، زبان، قوم کی پارٹی نہیں ہیں بلکہ ہم ایک عالمی پارٹی ہیں۔ اس کا نام ہے انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل۔ انقلابی کمیونسٹ پارٹی اس انٹرنیشنل کا پاکستانی سیکشن ہے۔ ہماری انٹرنیشنل آج پوری دنیا میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ایک سنجیدہ قوت کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔“

تمام شرکا محنت کشوں کا عالمی ترانہ گاتے ہوئے

آدم نے امریکہ، برطانیہ سمت دیگر ممالک میں انقلابی کمیونسٹ انٹرنیشنل کی حاصلات پر بھی روشنی ڈالی اور اس جدوجہد کو تمام مشکلات کے باوجود جاری رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔

انقلابی کمیونسٹ پارٹی کی پہلی ریلی اور جلسہ

سکول کے اختتام کے بعد انقلابی کمیونسٹ پارٹی نے ایک شاندار ریلی نکالی۔ سرخ جھنڈوں کے سائے تلے یہ ریلی پہلے موٹر سائیکلوں، رکشوں، کاروں اور بسوں پر سرخ پرچم لہراتے ہوئے چک بازار سے چاندنی چوک راولاکوٹ پہنچی اور پھر چاندنی چوک سے ایک پیدل مارچ کا آغاز ہوا۔ ظہیر چوک پر پہنچ کر یہ ریلی ایک جلسہ عام کی شکل اختیار کر گئی، جہاں دکانوں اور اطراف کی عمارات کی چھتوں اور گراؤنڈ میں موجود سینکڑوں لوگوں تک بھی ریلی کے شرکا اور مقررین کا انقلابی پیغام پہنچایا گیا۔

جلسہ عام میں سٹیج سیکرٹری کے فرائض اجمل رشید نے ادا کیے جبکہ مقررین میں گلگت سے احسان علی ایڈووکیٹ، کشمیر سے یاسر ارشاد، لاہور سے آفتاب اشرف اور کراچی سے پارس جان شامل تھے۔ ریلی کے شرکا نے نہ صرف انقلابی کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام اور مطالبات کے بینر اٹھائے ہوئے تھے بلکہ بنگلہ دیش کے طلبہ اور محنت کشوں کی انقلابی تحریک اور بلوچ خواتین اور حریت پسندوں کی شاندار تحریک کے ساتھ یکجہتی کے بینر بھی ریلی میں موجود تھے۔

سماج کی انقلابی جراحت اور سوشلسٹ انقلاب کے عزم سے بھر پور تقاریر کے بعد اپنے مطالبات کے حق میں بھرپور نعرے بازی کی گئی اور بعد ازاں مظاہرین پرامن طور پر منتشر ہو گئے۔

سکول کا اختتام محنت کشوں کا عالمی ترانہ گا کر کیا گیا۔

Comments are closed.