|تحریر: رزاق غورزنگ|
پاکستان کے کارپوریٹ میڈیا اور ریاستی اداروں میں پاکستان کی نام نہاد آزادی کے جشن کی بھرپور تیاریاں جاری ہیں، لیکن بلوچستان اور خصوصی طور پر کوئٹہ کے باسیوں کے لیے آج کا دن یومِ سیاہ کے طور پر منایا جا رہا ہے۔ پچھلے سال 8 اگست کو کوئٹہ میں دن دیہاڑے ایک خودکش حملے میں وکلا کی ایک بڑی پرت کو مارا گیا تھا۔ لیکن ریاستی اداروں کی طرف سے اس گھناؤنے حملے پر جو ردِعمل آیا اس نے بلوچستان کے لوگوں کے زخموں پر نمک پاشی کرتے ہوئے اس بدبخت صوبے کے گھاؤ اور بھی گہرے کر دیئے۔
ایک لمبے عرصے سے بلوچستان کے اندر ہزارہ قوم کے منظم قتل عام، خودکش حملے، سیاسی کارکنان کے اغوا اور مسخ شدہ لاشیں، افغانوں کیخلاف کریک ڈاؤن، سیکیورٹی کے نام پر عسکری اداروں کی حد سے زیادہ مداخلت اور آپریشن معمول بن چکے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف صوبے کے پشتون علاقوں میں ریاستی پشت پناہی میں اچھے طالبان یا دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کے لیے چندوں کا اکھٹا کیا جانا اس ریاست کی پالیسی کے دوغلے پن کا واضح ثبوت ہے۔ بے پناہ معدنی وسائل رکھنے کے باوجود یہاں پر جو غربت، پسماندگی اور عدم تحفظ کا احساس ہے، اس کا موازنہ ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ شاید ممکن نہیں۔ بلوچستان کے اندر زندگی ایک جرم بن چکی ہے اور ریاست کی تمام تر جابر پالیسیاں اس کی ذمہ دار ہیں۔
بلوچستان میں 8 اگست جیسا اندوہناک واقعہ نہ تو کوئی پہلا تھا اور نہ ہی آخری واقعہ ہوگا۔ بنیادی طور پر یہ ریاستی اداروں کے آپسی تضادات اور سامراجی مداخلت ہے جس نے بلوچستان کو ایک لمبے عرصے سے مسلسل عدم استحکام کی فضا میں تبدیل کر رکھا ہے۔ خون کی اس ہولی میں ایک طرف ہم بلوچستان کے اندر دربدر زندگیاں دیکھتے ہیں جبکہ دوسری طرف ریاست کی طرف سے مصنوعی آزادی کا مصنوعی جشن منانے کے نت نئے انداز دیکھنے کو ملتے ہیں، جس میں ملک بھر سے تعلیمی اداروں کے طلبہ اور دوسرے شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بلوچستان کے اندر ریاست کے جبر کو چھپانے کے لیے سرکاری خرچے پر ’’یکجہتی بلوچستان‘‘ کے نام پر بلایا جاتا ہے، تاکہ اس مصنوعی جشن کو بھرپور طریقے سے منایا جا سکے اور یہ ثابت کیا جا سکے کہ بلوچستان کے اندر ریاستی جبر کا کوئی نام ونشان ہی نہیں ہے۔ جبکہ ریاستی جبر کا یہ حال ہے کہ 8 اگست کے جیسے کسی اور سانحے سے بچنے کے نام پر بلوچستان بالخصوص کوئٹہ شہر کے اندر’’سرچ آپریشن‘‘ کے نام پر گھروں کے اندر لوگوں کو محصور کر کے جامہ تلاشیاں لی جاتی ہیں اور اس سرچ آپریشن میں 800 ٹیموں کو فعال رکھا گیا جن کے ساتھ صرف 2 خواتین اہلکار موجود تھیں، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ بھی لوگوں کو شدید خوف میں مبتلا کرنیکی ایک سنجیدہ کوشش اور مظلوم اور استحصال زدہ عوام کی تذلیل ہے۔ اسکے علاوہ صوبہ بھر میں سیکیورٹی کے نام پر چیک پوسٹیں، تمام سرکاری وغیر سرکاری اداروں میں سیکیورٹی فورسز کی بھرمار سے لوگوں کو نفسیاتی طور پر ٹارچر کیا جا رہا ہے۔ باوجود اس سخت سکیورٹی کے آئے روز ٹارگٹ کلنگ، اغوا کاری اور دھماکوں کا نہ رکنے والا سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔
8 اگست 2016ء کے اندوہناک واقعے کے ایک سال بعد بھی نہ ملزموں کی نشاندہی کی گئی اور نہ ہی اس تحقیقاتی رپورٹ کی روشنی میں کوئی نمایاں تبدیلی سامنے آئی ہے۔بلکہ ریاست کی جابرانہ پالیسیوں میں روزبروز اضافہ ہوتا چلا آرہا ہے؛ سکیورٹی اداروں کے ذریعے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مظلوم عوام کو بیجا ہراساں کرنا، کمیشنز اور بھتوں کے لیے عوام کا روزگار چھیننا، محنت کش طبقے کے حقوق کی سیاسی جدوجہد کا راستہ روکنا ان پالیسیوں میں قابلِ ذکر ہیں۔ حال ہی میں سیکرٹریٹ ایمپلائز یونین کے محنت کشوں پر اور کچھ وقت قبل پیرامیڈیکس کی تحریک پر ریاستی مشینری کا ظالمانہ تشدد اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ ریاست اپنی نا اہلی کو چھپانے کے لیے محنت کش طبقے اور مظلوم عوام کو مزید جبر کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اسکے علاوہ افغان مہاجرین کے حوالے سے ریاستی ادارے پیسہ بنانے میں مصروفِ عمل ہیں۔ جبکہ مصنوعی طور پر قومی، لسانی اور مذہبی تعصب کو فروغ دیا جارہا ہے۔ جس میں ریاستی مشینری کے علاوہ یہاں پر فاشسٹ قوم پرست پارٹیوں کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
ان سب غلاظتوں سے چھٹکارا پانے کے لیے بلوچستان کے محنت کش عوام کو اٹھنا ہو گااور حتمی مقصد کا حصول یہاں پر موجود قومی جبر، استحصال اور ظلم کیخلاف لڑائی کو پاکستان میں بسنے والے دیگر محنت کشوں سمیت برصغیر اور دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد کے ساتھ جوڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج کی تکمیل کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔