|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پروگریسو یوتھ الائنس، کوئٹہ|
بلوچستان یونیورسٹی سمیت بلوچستان کی بڑی یونیورسٹیوں جن میں بیوٹمز اور دیگر شامل ہیں، اس وقت مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کے ملازمین پچھلے لمبے عرصے سے احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر ان تمام جامعات کے مسائل اب تک جوں کے توں موجود ہیں۔ اس ضمن میں بلوچستان یونیورسٹی کے محنت کش احتجاج کر رہے ہیں۔ بیوٹمز پر اس وقت مقتدر قوتوں کا کنٹرول ہے اور انتہائی سخت حالات کے اندر بھی محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔
26 دسمبر کو بلوچستان یونیورسٹی میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے یونیورسٹی کے مالی مسائل پر مذکورہ ایکشن کمیٹی کے زیرِاہتمام ”جامعہ بلوچستان کا غیر حل شدہ مالی بحران“ کے زیرِ عنوان ”گرینڈ ڈائیلاگ“ کے نام سے بلوچستان یونیورسٹی کے مین آڈیٹوریم میں ایک پُروقار تقریب کا انعقاد کیا۔ تقریب میں بلوچستان بھر کی سیاسی پارٹیوں، انسانی حقوق، طلبہ و مزدور تنظیموں سمیت وکلاء اور صحافیوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ تقریب سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی بلوچستان یونیورسٹی کے تنظیمی عہدیداران نے یونیورسٹی کے موجودہ مالی بحران کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت بلوچستان یونیورسٹی جس بحران کا شکار ہے، اُس کی وجہ اب تک 18 ویں ترمیم کے بعد صوبائی خودمختاری کے نام پر غیر یقینی ماحول کا موجود ہونا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی سمیت صوبے بھر کی جامعات کو اس وقت فنڈز کے اجراء کے حوالے سے شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں ایک درجن کے قریب یونیورسٹیز ہیں، جبکہ ان یونیورسٹیز کے کیمپسز اس کے علاوہ ہیں۔ ان یونیورسٹیوں کو اپنی سالانہ ضروریات سے نصف کم فنڈ مل رہا ہے۔
ٹھوس بنیادوں پر اگر جائزہ لیں تو اس وقت بلوچستان یونیورسٹی کو ماہانہ بنیادوں پر صرف تنخواہوں کی مد میں لگ بھگ 24 کروڑ روپے کی ضرورت ہے، جوکہ سالانہ کم از کم 2 ارب 88 کروڑ بنتے ہیں۔ جبکہ 12 یونیورسٹیوں کے لیے ہائیر ایجوکیشن سے محض ڈھائی ارب روپے اور صوبائی حکومت سے 3.5 ارب روپے ملتے ہیں جوکہ مجموعی طور پر 6 ارب روپے بنتے ہیں۔ اس میں بلوچستان یونیورسٹی کا حصہ محض سالانہ 48 کروڑ بنتا ہے اور اسی طرح 48 کروڑ روپے بیوٹمز کا حصہ بنتا ہے۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر جوائنٹ ایکشن کمیٹی بلوچستان یونیورسٹی کے بینر تلے اساتذہ، افسران اور ملازمین ماہانہ تنخواہوں کی تاحال عدم ادائیگی، یونیورسٹی کو درپیش سخت مالی و انتظامی بحران کے خاتمے، اور یونیورسٹیز ایکٹ 2022ء کے پالیسی ساز اداروں میں اساتذہ، افسران، ملازمین اور طلبا و طالبات کی منتخب نمائندگی یقینی بنانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر احتجاج کر رہے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے صدر پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کا کہنا ہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے اساتذہ، افسران اور ملازمین پچھلے کئی سالوں سے اپنے آئینی حق، یعنی تنخواہ سے بھی محروم ہیں اور انہیں پچھلے دو مہینے کی تنخواہ ابھی تک نہیں ملی۔ اسی طرح دسمبر کے مہینے کی تنخواہ بھی ملنے کے امکانات نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف تو تنخواہ کے لئے رقم نہیں اور ساتھ ساتھ افسران اور ملازمین کو پروموشن اور اپ گریڈیشن سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔ ہاؤس ریکوزیشن اور ڈسپیریٹی الاؤنس کے بقایاجات بھی ادا نہیں کیے گئے۔ لیکن دوسری جانب بلوچستان یونیورسٹی میں مختلف بلڈنگز کی تعمیر اور پراجیکٹس کے لئے 3 ارب روپے سے زیادہ رقم خرچ ہورہی ہے۔ پروفیسر کلیم اللہ بڑیچ کا مزید کہنا تھا کہ ان مسائل کے حل کے لیے صوبائی سطح پر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ جامعات کے محنت کشوں کو روزانہ کی بنیاد پر مسائل سے نجات ملے۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اور پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین کے مطالبات کی غیر مشروط حمایت کرتے ہیں اور روز اول سے ملازمین کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہے ہیں، اور مستقبل میں بھی ان کے ساتھ کھڑے رہنے کا عزم کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچستان یونیورسٹی کے مالی بحران کی ذمہ دار یونیورسٹی کی کرپٹ انتظامیہ کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت بھی ہے جو عالمی مالیاتی سامراجی اداروں جیسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت دیگر سامراجی قوتوں کے گماشتہ ہیں اور ان کا کام ان عالمی سامراجی قوتوں کی بنائی گئی پالیسیوں کو اس ملک میں لاگو کرنا ہے۔ ان مزدور دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں آج تمام سرکاری اداروں اور نجی اداروں کے محنت کش سراپا احتجاج ہیں۔ بالخصوص حالیہ عرصے میں سرکاری اداروں کے محنت کشوں کے چند ملکی سطح کے اتحاد بھی تشکیل پائے ہیں جنہوں نے پچھلے تین سال سے ملک گیر سطح کے دیو ہیکل احتجاج بھی کیے ہیں۔
بلوچستان یونیورسٹی کے حالیہ مالی بحران اور اس کے اثرات کے نتیجے میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے زیرِ اہتمام جاری احتجاجی تحریک فی الوقت صوبے بھر میں جاری دیگر احتجاجی تحریکوں اورمزدور تنظیموں سے الگ تھلگ ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یونیورسٹی کے ملازمین کو چاہئیے کہ وہ اس جدوجہد میں دیگر اداروں کے ورکرز سے یکجہتی کی اپیل کریں اور ان کی جدوجہد میں بھی ان کا ساتھ دیں۔ اسی طرح صوبے میں جاری دیگر احتجاجی تحریکوں میں شامل محنت کشوں کو بھی یونیورسٹی کے ملازمین کے ساتھ یکجہتی کرنی چاہئیے تا کہ اکٹھے ہو کر جدوجہد کو آگے بڑھایا جا سکے۔ اسی میں سب کا فائدہ ہے۔ اسی طرح ملک گیر مزدور اتحاد قائم ہوگا جو اس عام ہڑتال جیسے اقدام کو بروئے کار لاتے ہوئے ایک وقت آنے پر سرمایہ دارانہ نظام کا بھی تختہ الٹ ڈالے گا۔