فلم ری ویو: تمس (1988ء)

اگست کا مہینہ برصغیر کے خونی بٹوارے کے زخم تازہ کر دیتا ہے۔ ایک طرف خطے کے حکمران طبقات ہر سال اس نام نہاد آزادی کا جشن مناتے ہیں جبکہ دوسری جانب محنت کش عوام ہر طرف مسلسل مہنگائی، بیروزگاری، ذلت اور محرومی کی چکی میں پستے چلے جاتے ہیں۔ برطانوی سامراج کے مفادات اور اس خطے میں سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ دینے کے لیے برصغیر کے کروڑوں محنت کشوں کو آگ اور خون کی بھٹی میں جھونک دیا گیا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد پورے برصغیر میں مزدور طبقے کی ایک انقلابی تحریک ابھر چکی تھی جو اس خطے کو نہ صرف برطانوی سامراج سے آزادی دلانے کی جانب بڑھ رہی تھی بلکہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سامراج کے مسلط کردہ سرمایہ دارانہ نظام کو بھی اکھاڑ سکتی تھی۔ لیکن قیادتوں کی غداریوں بالخصوص کمیونسٹ پارٹی کی سٹالنسٹ زوال پذیری نے اس تحریک کو زائل کر دیا۔ سامراج سے نام نہاد آزادی تو مل گئی لیکن حکمران طبقے نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ذریعے پورے خطے کو مذہبی فسادات اور قتل و غارت گری میں برباد کر دیا۔

آج 77 سال گزر جانے کے باوجود یہ زخم رِس رہے ہیں۔ انڈیا اور پاکستان کے حکمران طبقات ایک دوسرے کے خلاف دشمنی کا راگ الاپتے ہیں لیکن ان کے مفادات مشترک ہیں اور وہ اس سرمایہ دارانہ لوٹ مار کو تحفظ دینا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب محنت کش عوام مذہب، قوم، رنگ اور نسل کے نام پر ہر تفریق کو ختم کرتے ہوئے امیر اور غریب کی تفریق پر مبنی اس طبقاتی نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔

بنگال سے لے کر پنجاب اور پشتون علاقوں سے لے کر کشمیر تک یہ پورا خطہ مصنوعی تقسیموں کے باعث سلگ رہا ہے جبکہ عوامی بغاوتیں ایک دفعہ پھر ہر طرف سے ابھرنا شروع ہو چکی ہیں۔ یہ مصنوعی لکیریں صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ختم ہو سکتی ہیں اور جنوبی ایشیا کی ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن کے تحت ہی یہاں پر جنگوں کے ساتھ ساتھ بھوک، بیماری اور ہر طرح کے قومی جبر کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔

تمس 1988ء میں بننے والی ایک فلم ہے جس میں اس خونی بٹوارے کے پیچھے موجود محرکات کو دکھایا گیا ہے۔ یہ بھیشم ساہنی کے اسی نام سے لکھے گئے ناول پر بنائی گئی ہے جس کے ڈائریکٹر گووند نہلانی ہیں۔ اس فلم میں اوم پوری نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ جبکہ امریش پوری، پنکج کپور، دیپا ساہی اور دیگر بڑے اداکاروں نے بھی جوہر دکھائے ہیں۔ فلم میں سماج میں نچلی ذاتوں کے کردار، مذہبی فسادات، سیاستدانوں کے گھناؤنے کردار اور دیگر پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہے۔

اس فلم کو ریلیز ہونے کے بعد پذیرائی بھی ملی اور سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ فلم کا پہلا سین ہی دیکھنے والوں کو جکڑ لیتا ہے جس میں سیاسی لیڈر ایک نچلی ذات کے ہندو (اوم پوری) سے ایک سازش کے تحت سؤر مار کر مسلمانوں کے محلے میں پھینکواتا ہے۔ پوری فلم میں ایسے ہی کردار اور واقعات ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ان واقعات اور فلم کا انجام تکلیف دہ ہی ہے لیکن ایک انقلابی کے دل میں یہ ٹریجڈی حکمران طبقے کے خلاف جدوجہد کا جذبہ ضرور ابھارتی ہے۔

Tags: × ×

Comments are closed.