|تحریر: فضیل اصغر|
اگر آپ اس فلم کو دیکھیں گے تو فوراً آپ کو یوں محسوس ہو گا جیسے یہ ریپ کے خلاف پنجاب کالج لاہور سے شروع ہونے والی کالج سٹوڈنٹس کی تحریک پر بنی ہے۔ بس اس میں کرداروں کے نام اور ملک مختلف ہے۔
یہ فلم جنوبی کوریا میں 1987ء میں آمریت کے خلاف سٹوڈنٹس کی زبردست تحریک پر بنی ہے۔ یہ فلم حقیقی واقعات پر مبنی ہے اور انتہائی مہارت سے ریاست اور محنت کش عوام کے درمیان کشمکش کو سکرین پر پیش کرتی ہے۔
فلم کے آغاز میں ریاست کی جانب سے بنائی گئی ’اینٹی کمیونسٹ پولیس فورس‘ کی حراست میں پارک جونگ چُل نامی 22 سالہ سٹوڈنٹ کی بہیمانہ تشدد کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس سٹوڈنٹ کو حکومت مخالف سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کیا جاتا ہے۔ ریاست اس قتل کو چھپانے کی کوشش میں لگ جاتی ہے اور اسے حادثہ قرار دے دیتی ہے۔
یہاں اس سٹوڈنٹ کے والدین کا کردار ادا کرنے والوں کی اداکاری فلم دیکھنے والے کو رُلا دیتی ہے۔ دوسری طرف ریاستی اداروں سے شدید نفرت کو جنم دیتی ہے۔
بہر حال پھر چوئی ہووان نامی وکیل، ہین بیونگ یونگ نامی جیل کے گارڈ اور یون سینگ سیم نامی جرنسلٹ کی کاوشوں سے یہ خبر باہر آ جاتی ہے کہ سٹوڈنٹ کا شدید ٹارچر کر کے قتل کیا گیا ہے۔
فلم کا یہ حصہ جس میں یہ تین کردار اس خبر کو باہر نکالنے کی کوشش میں ریاستی اداروں سے ٹکراؤ میں آتے ہیں، انتہائی دلچسپ ہے۔ اس حصے میں بڑی خوبصورتی سے ریاست کا حقیقی عوام دشمن چہرہ ایکسپوز ہوتا ہے۔
خبر باہر نکلتے ہی سٹوڈنٹس کی تحریک شروع ہو جاتی ہے۔ اس تحریک پر پھر شدید ریاستی کریک ڈاؤن کیا جاتا ہے۔
اس دوران ایک احتجاج میں یے اون ہی نامی نوجوان لڑکی اور لی ہی یے اول نامی انقلابی سیاست کرنے والے سٹوڈنٹ کی ڈرامائی انداز میں ملاقات ہوتی ہے۔ اس ملاقات کے بعد ان کا رومانس شروع ہو جاتا ہے جو کہ فلم کے پلاٹ میں انتہائی اہم کڑی ہوتی ہے۔ ان کے رومانس کو فلم کے ڈائریکٹر جینگ جون ہوان نے انتہائی کم دورانیے میں نہایت خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔
اس کے بعد سیاست اور رومانس الگ الگ چلنے کی بجائے کہانی میں مدغم ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ ادغام فلم کے اختتام پر فلم دیکھنے والے کے دل کو نچوڑتا بھی ہے اور انقلابی جدوجہد کا حصہ بننے کا جذبہ بھی پیدا کرتا ہے۔ یہ کیسے ہوتا ہے؟ یہ ہم نہیں بتائیں گے۔ اس کے لیے آپ کو فلم دیکھنی پڑے گی۔
ہاں بس اتنا کہیں گے کہ فلم کے آغاز پر دکھائی جانے والی ایک غیر سیاسی اور کمزور اعصاب کی لڑکی اختتام پر ہوا میں مکا لہرا کر لاکھوں نوجوانوں کے مجمع کی قیادت میں موجود ہوتی ہے، اور ہاں، فلم کے اختتام پر گانا سننا مت بھولیے گا۔ اس کے بول آپ کی سکرین پر چل رہے ہوں گے۔