|تحریر: زین العابدین|
مشعل خان پر توہین مذہب کے جھوٹے الزامات کے نتیجے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور مذہبی انتہاپسند غنڈوں کے ہاتھوں منظم قتل کے بعد ملک بھر سے آنے والے عوامی ردعمل نے ریاست کو اپنے پالے ہوئے ان غنڈوں کے خلاف ’کاروائی‘ کرنے پر مجبور کردیا تاکہ اس قتل کے خلاف ابھرنے والے عوامی جذبات کو ٹھنڈا کیا جاسکے اور ملک بھر میں جاری طلبہ کے احتجاجی مظاہروں کے سلسلے کو روکا جا سکے۔ کئی حلقوں کی جانب سے ملزمان کے خلاف حکومتی کوششوں کو سراہا بھی گیا۔ مگر نوجوانوں کے ردعمل سے خوفزدہ ریاست نے اس معاملے کو دبانے کی بھرپور کوشش بھی کی جو کہ اب تک جاری ہے۔ پہلے تو میڈیا خصوصاً اردو اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں اس خبر کو نشر ہونے سے روکا گیا لیکن سوشل میڈیا کے باعث ایسا نہ کیا جا سکا۔اس کے بعد پانامہ کے ڈرامے کو مسلط کیا گیا۔پھر اس عوام دشمن ریاست نے ہزاروں معصوموں کے قاتل احسان اللہ احسان کو قومی ہیرو بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ اور اب ڈان لیکس کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے مگر ان سب کوششوں کے باوجود مشعل کے بہیمانہ قتل کا معاملہ دبایا نہیں جا سکا۔ ویسے احسان اللہ احسان اور ڈان لیکس کا معاملہ بھی بالواسطہ طور پر مشعل کے معاملے سے منسلک ہے جس سے پاکستانی ریاست کی دہشت گردوں کی پشت پناہی بے نقاب ہوتی ہے۔ قوی امکان ہے کہ مشعل کے چہلم پر احتجاجوں کا ایک نیا سلسلہ دیکھنے کو ملے گا۔ مگر حالیہ دنوں میں ہونے والے چند واقعات نے حکومتی اقدامات کا پردہ چاک کردیا ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ ریاست دہشت گردوں کی پشت پناہی کی اس پالیسی کو ترک کرنے میں کس حد تک ’سنجیدہ‘ ہے۔ 28 اپریل کو مشعل کے قاتلوں کی ’’رہائی‘‘ کے لئے متحدہ علما کونسل کی ریلی، جس میں دیگر سیاسی جماعتیں بھی شامل تھی، اور مشعل قتل کیس کے مرکزی ملزم عارف خان کی بیرون ملک فرار کی اطلاعات،یہ دونوں واقعات اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ریاست کی دہشت گردوں کی پشت پناہی کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ اس کے علاوہ بہت سے سوال ابھی بھی جواب طلب ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کے افراد بالخصوص قائم مقام وائس چانسلرورجسٹرار، چئیرمین جرنلزم ڈیپارٹمنٹ کو شامل تفتیش کیوں نہیں کیا گیا؟ مشعل کا قتل قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں ہوا، ان کے خلاف ابھی تک کوئی کاروائی نہیں کی گئی۔ وہی پولیس اور ایجنسیاں جو مشعل کے قتل میں ملوث ہیں، کس طور اپنے ہی بھائی بندوں کے خلاف کاروائی کریں گی اور ان کے اقدامات کی کیا حیثیت ہے۔ مشعل کا قتل تعلیمی اداروں میں سیکیورٹی کے نام پر مسلط مسلح گارڈز، پولیس، رینجرز اور فوج کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کیا ایسے میں ان پر مزید بھروسہ کیا جاسکتا ہے؟ کیا ریاست دہشت گردی اور دہشت گردوں کی پشت پناہی کی اپنی پالیسی ترک کرسکتی ہے؟ مذہبی تعصبات اور منافرت کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ طلبہ یونینز اور سیاست پر پابندی کے باوجود جمعیت جیسی بنیاد پرست دہشت گردتنظیم کیوں اور کیسے کام کررہی ہے؟ فیسوں میں اضافے، نجکاری، بیروزگاری اور دیگر مسائل کے خلاف کیسے لڑا جاسکتا ہے؟ طلبہ مسائل کے حل کے لئے طلبہ یونین کیوں ضروری ہے؟ کیا یونیورسٹی انتظامیہ طلبہ مسائل کے حل میں کوئی کردار ادا کرسکتی ہے؟ مشعل کے قتل کے بعد لاہور میں ہونے والی وائس چانسلرز کی میٹنگ کا اعلامیہ جس میں یونیورسٹیوں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی کی سفارش کی گئی، سے کیا پیغام دیا گیا؟ کیا موجودہ سیاسی پارٹیاں بشمول قوم پرست پارٹیاں غربت، مہنگائی، لاعلاجی، بیروزگاری، دہشت گردی سمیت دیگر مسائل کے خاتمے کے لئے کوئی کردار ادا کرسکتی ہیں؟ اور سب سے بڑھ کر یہ سوال اہم ہے کہ مشعل جن نظریات پر مسائل کے خلاف لڑ رہا تھا اس کی جدوجہد کو کیسے جاری رکھا جائے اور اس کے قتل کا بدلہ کیسے لیا جائے؟
مشعل خان کے بہیمانہ قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ کا بھیانک کردار سب کے سامنے ہے مگراس کے باوجود یونیورسٹی انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران میں سے کسی ایک کو بھی شامل تفتیش کرنا تو دور کی بات اس بارے میں بات بھی نہیں کی گئی۔ مشعل خان کے دوست عبداللہ کا میڈیا کو دیا گیا انٹرویو اورجوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے دیا گیا بیان اس واقعے میں وائس چانسلر، رجسٹرار، ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ کو شامل تفتیش کرنے کے لئے کافی تھا۔ عبداللہ نے اپنے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے اس پر دباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ مشعل کے خلاف توہین کے جھوٹے الزامات کے حق میں گواہی دے جس کا اس نے صاف انکار کردیا۔ جمعیت اور تحریک انصاف کے غنڈوں کو نہ صرف انتظامیہ کی مکمل مدد حاصل تھی بلکہ مشعل کو راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی بھی مردان یونیورسٹی کے ان ’بڑے دماغوں‘ نے کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو اس واقعے میں کھلی چھوٹ دے دینا حکمرانوں، ریاست اور یونیورسٹی انتظامیہ کے طلبہ دشمن گٹھ جوڑ کا ثبوت ہے۔ طلبہ دوستی کا سوانگ رچانے والی یہ یونیورسٹی انتظامیہ ہر جگہ ہی طلبہ کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ فیسوں میں اضافہ ہو یا سیکیورٹی کا جبر یہ سب یونیورسٹی انتظامیہ ہی سرانجام دیتی ہے۔ جمعیت جیسی غنڈہ گرد طلبہ تنظیمیں بھی اسی انتظامیہ کی حمایت سے تعلیمی اداروں میں کام کر رہی ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا یہ طلبہ دشمن کردار تمام تعلیمی اداروں میں یکساں ہے۔ مشعل کے قتل کے بعد لاہور میں پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کا اجلاس منعقد ہوا جس کا مقصد تعلیمی اداروں میں ’امن اور رواداری‘ کی فضا کو قائم کرنے کے لئے اقدامات کو زیربحث لانا تھا۔ ان وائس چانسلرز نے مشعل کے قتل کی مذمت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا۔ اس میٹنگ میں تمام طلبہ تنظیموں پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا جو کہ سراسر ایک بھونڈا مذاق ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست اور طلبہ تنظیموں پر ضیا آمریت سے ہی پابندی ہے۔ اس نئی پابندی کا واضح مطلب یہ ہے کہ مشعل جیسی کوئی بھی آواز کسی بھی تعلیمی ادارے میں اٹھے اس کو اسی طرح دبایا جائے جیسے مشعل کو دبایا گیا جبکہ دہشت گردوں کو قتل عام کی کھلی چھوٹ دی جائے گی۔ طلبہ کی اصل لڑائی تعلیمی اداروں کی اس کرپٹ انتظامیہ کے خلاف ہے جو کہ تمام تر ریاستی پالیسیوں کو مسلط کرتی ہے۔
پاکستانی ریاست کی دہشت گردوں کی سرکاری پشت پناہی اور ان کو اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال تو کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ یہ دہشت گرد اسی ریاست کے پالے ہوئے ہیں جن کے کچھ دھڑے اپنے آقاؤں کے مخالف بھی جا کھڑے ہوتے ہیں مگر بالعموم یہ ریاستی اداروں کی چھتر چھایا کے تلے ہی اپنے ’فرائض‘ سرانجام دیتے ہیں۔ انہی اثاثوں میں مذہبی جماعتیں بھی شامل ہیں جس کو ریاست پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی ٹھیکہ دیا گیا ہے۔ مگر پچھلے کچھ عرصے سے ریاست اپنے ان سٹریٹجک اثاثوں کا جس ننگے طریقے سے استعمال کررہی ہے اس کی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ توہین مذہب کا مسئلہ اٹھا کر سوشل میڈیا پر پابندی کی دھمکیاں، بد عنوانی کے الزامات میں گھرے ہوئے جسٹس شوکت عزیز کے کمرۂ عدالت میں بیٹھ کر ٹسوے بہانا، ہائیر ایجوکیشن منسٹر کا تعلیمی اداروں میں لڑکیوں کے حجاب پہننے پر پانچ نمبر اضافی دینے کا اعلان، جنید جمشید کی سرکاری اعزازات کے ساتھ تدفین، یونیورسٹیوں میں اوریا مقبول جان اور حافظ سعید کے لیکچرز،لاہور میں چیئرنگ کراس پر خودکش حملے کے بعد جلسے جلوسوں اور احتجاجوں پر پابندی، آپریشن ردالفساد جس کا ہدف خاص طور پنجاب ہے اور اس کے بعد لاہور میں کام کرنے والے پشتون محنت کشوں پر ریاستی جبر، تعلیمی اداروں میں جمعیت کو مسلط کرنے کی ریاست کی شدید کوششیں جس میں پنجاب یونیورسٹی میں پشتون کلچر ڈے پر حملہ اور اس طرح کے دیگر واقعات کیا ظاہر کرتے ہیں۔ یہ حکمران اور ریاست مسلسل سماج پر رجعت نافذ کرنے اور مذہبی اور لسانی تعصبات کو فروغ دینے کی کوششیں کیوں کررہے ہیں؟ گو کہ ریاست کو اپنے ان مذموم مقاصد کے حصول میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے اور یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے ان رجعتی اقدامات اور تعصبات کو رد کیا ہے اور یہ تعصبات اور رجعتی پالیسیاں سماج میں کوئی بنیادیں حاصل نہیں کرسکیں مگر یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو ریاست کو یہ سب کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ اس ’معمے‘ کو سمجھنے کے لئے رائج الوقت دانش کسی کام نہیں آئے گی۔ یہ کارپوریٹ میڈیا کے بڑے بڑے دماغ سماج میں جاری طبقات کے ٹکراؤ، طبقاتی قوتوں کے توازن، سرمایہ دارانہ نظام کے بطور ایک سماجی و معاشی نظام تاریخی متروکیت، رائج الوقت سیاست اور سیاسی پارٹیوں کی سماج سے بیگانگی کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ یہ لوگ کسی اور عہد میں زندہ ہیں جبکہ سماج آگے نکل چکا ہے۔ 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش کے بعد پوری دنیا میں ابھرنے والی تحریکوں اور انقلابات نے ہر خطے پر اثرات مرتب کیے ہیں اور پاکستان پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔پاکستان بھی سرمایہ دارانہ نظام کے اس تاریخی بحران سے نہیں بچا۔ عالمی سامراجی اداروں کی ایما پر ہونے والی نجکاری، ٹیکسوں میں بے تحاشا اضافے، بڑھتے ہوئے ملکی قرضے، برآمدات میں مسلسل کمی، بیروزگاری اور غربت میں اضافے نے یہاں کے محنت کشوں اور نوجوانوں پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ حکمران طبقے کے ان حملوں کے جواب میں پچھلے عرصے میں ہر ادارے میں تحریکیں ابھری ہیں۔ محنت کشوں اور کسانوں کی ان تحریکوں نے مستقبل کی طبقاتی جنگ کا نقارہ بجا دیا ہے۔ ایک حقیقی عوامی تحریک کے خوف نے ان حکمرانوں کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ یہ تحریک محنت کش طبقے یا نوجوانوں کی جانب سے بھی ابھر سکتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں سیکیورٹی کے نام پر ہر دم بڑھتا جبر اور جمعیت کو پھر سے زندہ کرنے کی کوششیں اسی تحریک کو ابھرنے سے پہلے دبانے کے لئے ہے۔ پچھلے سارے عرصے میں حکمران طبقے کی جانب سے محنت کشوں کو تقسیم کرنے اور سماج پر رجعت نافذ کرنے کی تمام کوششیں محنت کشوں اور نوجوانوں کی اسی ممکنہ تحریک کا پیشگی ردعمل ہیں۔ مگر یہ عقل کے اندھے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ یہ ایک ناگزیر عمل ہے اور اس ملک کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی زندگی موت کا مسئلہ ہے۔ ایسے میں ان حکمرانوں اور اس قاتل ریاست اور اس کے تمام اداروں سے کسی خیر کی توقع رکھنا عبث ہے۔ حکمران طبقہ اپنے مفادات کی نگہبانی کے لئے مشعل کے قتل سے بھی بھیانک اور انسانیت سوز ومظالم ڈھائے گا۔
کوئی شخص اس بات کو نہیں جھٹلا سکتا کہ مشعل خان کو ’قانون‘ نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں قتل کیا گیا۔ پولیس کی موجودگی میں غنڈے اس کو تشدد کا نشانہ بنا رہے تھے اور پولیس والے کھڑے تماشا دیکھ رہے تھے۔ اطلاعات کے مطابق مشعل کی لوکیشن بھی پولیس نے ٹریس کرکے دی تھی اور سب جانتے ہیں کہ یہ کام کون کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود ان اداروں کے ذمہ داران کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ سب سے بڑا مذاق جو کیا جا رہا ہے کہ یہی پولیس اور ایجنسیاں مشعل کے قتل کے خلاف تحقیقات کررہی ہیں۔ کون سی تحقیقات اور کیسی کاروائیاں! عارف خان کے بیرون ملک فرار کی اطلاعات ان قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بد نیتی کا ثبوت ہے۔ ایسے میں ان اداروں کی کیا وقعت رہ جاتی ہے۔ کہنے کو تو یہ سیکیورٹی گارڈز، پولیس، فوج اور رینجرز کو تعلیمی اداروں کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے موجود ہیں مگر مشعل کے قتل نے ان کی اصلیت کا پردہ چاک کردیا ہے اور ان اداروں کا حقیقی کردار سامنے لے آیا ہے۔ ان قانونی غنڈوں کامقصد ہی طلبہ پر جبر کرنا، فیسوں میں اضافے یادیگر مسائل کے خلاف آواز اٹھانے والے کو خاموش کروا دینا ہے۔ مگر یہ تمام ادارے دہشت گرد اور جمعیت پروف ہیں اور یہ دہشت گرد ان کے کسی سکینر کسی پکڑ میں نہیں آتے۔ وہ کھلے عام ان کی عین ناک کے نیچے اپنی کاروائیاں جاری رکھتے ہیں۔ان حالات میں کسی طور بھی ان اداروں پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ تعلیمی اداروں کی سیکیورٹی کی ذمہ داری طلبہ کو خود سنبھالنا ہوگی اور یہ کام طلبہ کی منتخب قیادت ہی سرانجام دے سکتی ہے۔
مشعل قتل کیس میں گرفتار کیے گئے دہشت گردوں کی رہائی کے لئے مردان میں متحدہ علما کونسل کی ریلی ریاستی اداروں(پولیس، فوج، رینجرز اور دیگر ایجنسیاں) کی موجودگی میں ہوئی جس میں دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی شرکت کی اور نام نہاد آزاد میڈیا بھی موجود تھا۔ اصولاً ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دہشت گردوں کے ان حمایتیوں کو بھی شامل تفتیش کرکے مقدمات چلائے جاتے مگر نہ کسی میڈیا چینل اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے اس کی مذمت کی۔ بھلا یہ سامراجی گماشتہ ریاست اپنے ان قیمتی اثاثوں کے خلاف کاروائی کیونکر کرے گی؟ یہ اس ریاست کے خصی پن کا واضح اظہار ہے اور یہ ریلی بھی دراصل ریاست کے اپنے اثاثوں کی اپنے آقاؤں کے خلاف تھی۔ یہ ریلی ان نام نہاد مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی اصلیت کا پردہ چاک کرتی ہے جس میں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ بظاہر ایک دوسرے سے دست و گریبان مختلف سیاسی جماعتیں حکمران طبقے کے دفاع کے لیے محنت کشوں اور انقلابی طلبہ کیخلاف متحد ہو جاتی ہیں۔ مردان میں ہوانے والا یہ مظاہرہ ان مذہبی جماعتوں کے نظریات کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ مذہب کا لبادہ اوڑھے ملا اور مذہبی تنظیمیں اپنے جنم سے ہی عوام دشمن کردار ادا کرتی چلی آ رہی ہیں۔ مشعل کے خلاف اس کے قاتلوں کے حق میں ریلی کا مطلب یہ ہے کہ یہ جماعتیں نہیں چاہتیں کہ نجکاری بند ہو، تعلیمی اداروں کی فیسوں میں کمی ہو، غربت کا خاتمہ ہو، معاشی برابری ہو، مزدوروں محنت کشوں کا استحصال ختم ہو، سب کو روزگار ملے۔ یہ ہے ان نام نہاد مذہبی جماعتوں کا اصل کردار جو کہ وہ سالوں سے بخوبی ادا کررہی ہیں۔ مذہب کے بھیس میں یہ سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے ایجنٹ ہیں جو کہ یہ چاہتے ہیں کہ یہ امیر اور غریب کا نظام اسی طرح قائم رہے۔
اسی کے ساتھ مشعل کے قتل کے بعد سے ملک بھر کے مختلف تعلیمی اداروں میں ایک اور عمل جاری و ساری ہے۔ بہت سے تعلیمی اداروں میں جمعیت اور دیگر غنڈہ گرد تنظیموں نے ترقی پسند سوچ کے حامی طلبہ کے خلاف توہین مذہب کے جعلی الزامات کو بنیاد بنا کر ایک گھناؤنی کمپین شروع کر رکھی ہے جس میں انہیں انتظامیہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے تاکہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں موجود ایسے طلبہ جو حقیقی مسائل کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور طلبہ مسائل کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں ان کو ڈرا دھمکا کر خاموش کروایا جاسکے۔ اپنے ذاتی اور آقاؤں کے مفادات کی تکمیل میں جمعیت جیسی دہشت گردتنظیم کسی بھی حد تک گر سکتی ہے۔ یہ مذہبی غنڈے دلیل سے تو کسی سیاسی بحث کی صلاحیت نہیں رکھتے نہ ہی ا ن کی کوئی سماجی بنیادیں ہیں۔ اپنے اس نظریاتی دیوالیہ پن کو چھپانے کے لئے یہ جھوٹے الزامات کا سہار ا لیتے ہیں۔ اس صورتحال میں نظریں ریاست کی طرف اٹھتی ہیں کہ کیا کوئی ریاست وجود بھی رکھتی ہے۔ کیا کوئی قانون، کوئی ادارے موجود ہیں جو ان کو روک سکیں یا جہاں ان کے خلاف کوئی شکایت ہی درج کروائی جاسکے۔ پنجاب یونیورسٹی میں جمعیت نے پشتون اور بلوچ طلبہ کوخاموش کروانے کے لئے کچھ طلبہ کے خلاف توہین مذہب کے سراسر جھوٹے اور بے بنیاد الزامات لگائے اور طلبہ کومشتعل کرنے کی کوشش کی اور یونیورسٹی کی سیکیورٹی نے باقاعدہ ان دہشت گردوں کا ساتھ دیا۔ اسی طرح اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی ترقی پسند سوچ رکھنے والے طلبہ کے خلاف یہ کمپین کی جا رہی ہے۔ اس موقع پر ہم یہ واضح ہے کہ مستقبل میں مشعل جیسا کوئی واقعہ پیش آیا تو اس کی ذمہ دار یونیورسٹی انتظامیہ اور ریاستی ادارے ہوں گے۔ اس ریاست اور حکمرانوں کے پاس محنت کشوں اور نوجوانوں کو دینے کے لئے کچھ بھی نہیں ۔ یہ ٹوٹ کر بکھرتی ریاست بس بھوک، افلاس، بیماری، لاعلاجی، بیروزگاری، دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، ٹیکسوں میں مزید اضافہ دے سکتی ہے۔ ایسے میں عوام کو بغاوت سے روکنے کے لئے جہاں پولیس اور فوج کا سہارا لیا جاتا ہے تو وہیں ان نام نہاد مذہبی جماعتوں کو بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس زوال پذیر ریاست کو اپنے ان گماشتوں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔
ایسے میں عام طلبہ اور نوجوانوں کے ذہن میں یہ سوال لازمی ابھرتا ہے کہ فیسوں میں اضافوں، بیروزگاری، ریاستی جبر، غنڈہ گرد مذہبی تنظیموں اور دیگر بے شمار مسائل کے خلاف کیسے لڑا جائے؟ سرمایہ دارانہ نظام کے ارتقا کے دوران تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں طلبہ حقوق کی جدوجہد کے دوران جو ادارے وجود میں آئے وہ اسٹوڈنٹ یونینز تھیں۔ اسٹوڈنٹس یونینز ہی وہ ادارے ہیں جہاں سے طلبہ تعلیمی اداروں میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرتے آئے ہیں اور ایک جمہوری عمل کا یہ لازمی حصہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں طلبہ مسائل سے آگے بڑھ کر طلبہ تنظیموں نے وسیع عوامی بغاوتوں اور انقلابات میں بھی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان میں بھی طلبہ یونینز اور طلبہ سیاست کا ماضی میں ایک ترقی پسندانہ کردار رہا ہے مگر ایک لمبے عرصے سے طلبہ یونیز پر ریاستی پابندی نے نوجوانوں سے یہ حق چھین رکھا ہے۔ طلبہ کے پاس اپنے مسائل کئے حل کے لئے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی ان کے مسائل کے حوالے سے بات کرنے کو تیار ہے۔ مشعل کے قتل کے بعد بننے والی صورتحال میں ایسے پلیٹ فارمز کی کمی کو شدت سے محسوس کیا گیا ہے جہاں سے طلبہ نہ صرف اپنے حقوق کی لڑائی لڑ سکیں بلکہ اپنے اداروں کا دفاع بھی کرسکیں۔ ایک عمومی مغالطہ جو طلبہ میں عام پایا جاتا ہے وہ تعلیمی اداروں میں ریاستی پشت پناہی سے موجود جمعیت اور دیگر طلبہ تنظیموں کو ہی یونینز سمجھتے ہیں اور اس وجہ سے ان سے نفر ت بھی کرتے ہیں۔ اسٹوڈنٹ یونین کسی بھی ادارے کے طلبہ کی اپنی منتخب کردہ ایک جمہوری قیادت ہوتی ہے جس کے باقاعدہ ایک مخصوص مدت کے بعد الیکشن ہوتے ہیں۔ مختلف طلبہ تنظیمیں اپنے منشور اور نظریات کی بنیاد پر الیکشن میں حصہ لیتی ہیں۔ آج طلبہ یونینز کی بحالی ملک بھر کے کروڑوں نوجوانوں کے بقا کے مسئلے کے ساتھ جڑی ہے۔ یہ وقت کا تقاضا ہے کہ طلبہ یونین کی انقلابی بنیادوں پر بحالی کے لئے جدوجہد کو تیز کیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی اس جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑنا انتہائی ضروری ہے۔
آخری تجزیے میں مشعل کے اصلی قاتل یہ عوام دشمن سرمایہ دارانہ نظام اور یہ سرمایہ دارانہ ریاست ہیں۔ مشعل کا قتل اس دہشت گرد ریاست کا کوئی آخری حملہ نہیں ۔ یہ ظلم و بربریت اس نظام کا پیدا کردہ ہے جو اپنی تاریخی حدوں کو پہنچ کر بحران کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتا جا رہا ہے اور ساتھ ہی نسل انسانی اور تہذیب کے لئے خطرہ بن چکا ہے۔ پاکستان میں غربت، بیروزگاری، دہشت گردی، لوڈشیڈنگ، مذہبی انتہاپسندی سب کی جڑ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام مسائل کی جڑ اس سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنے کے لئے جدوجہد کی جائے اور اس جدوجہد میں طلبہ اور نوجوانوں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ ایک سوشلسٹ ریاست ہی بلاتفریق سب کے لئے مفت تعلیم، روزگار، علاج، رہائش، امن اور خوشحالی کی ضمانت دے سکتی ہے۔ مشعل کے کمرے میں لگے کارل مارکس اور چی گویرا کے پوسٹر اور اس کے ساتھ لکھی یہ عبارت ’’دنیا بھر کے محنت کشو ایک ہوجاؤ! اس کے سوشلسٹ نظریات کی گواہی دینے کے لئے کافی ہے اور حتمی اور یقینی فتح کے لئے انہی نظریات پر آج طلبہ کو اپنی لڑائی استوار کرنے کی ضرورت ہے۔ کوئی سیاسی و مذہبی پارٹی، این جی او، پولیس، فوج، عدالت، بیوروکریسی اس لڑائی میں ان کے ساتھی نہیں بن سکتے۔ نہ ہی فوجی عدالتیں کسی قسم کا انصاف مہیا کر سکتی ہیں۔ ضیا الباطل کی آمریت میں فوجی عدالتوں کے گھناؤنے کردار سے تمام سیاسی کارکن بخوبی واقف ہیں اور بہت سے کارکنوں کے جسموں پر ان عدالتوں کے فیصلوں کے نشانات بھی ثبت ہیں۔آج پھر ان عدالتوں کا قیام دہشت گردوں کی سرپرست ریاست کی اپنی کھوئی ہوئی رٹ کو بحال کرنے کی ایک ناکام کوشش ہے۔ ان عدالتوں سے انصاف کا تقاضا کرنے کا مطلب اسی عطار کے لونڈے سے دوا طلب کرنا ہے جس کے سبب بیمار ہوئے ہیں۔یہ سب اس سرمایہ دارانہ نظام کے وفادار ہیں۔ اس ملک کے محنت کش ہی وہ واحد قوت ہیں جن کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے انقلابی طلبہ لڑائی کو آگے بڑھا سکتے ہیں اور یہاں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کر سکتے ہیں۔ محنت کش ہی پورے سماج کو چلاتے اور ساری دولت پیدا کرتے ہیں اور وہی اس سارے سماج کا پہیہ جام کرسکتے ہیں۔ مشعل بھی اسی پسے ہوئے اور محکوم محنت کش طبقے اور کسانوں کی بات کرتاتھا۔ مشعل کی جدوجہد کو آگے بڑھانے اور اس کے قتل کا بدلہ لینے کا واحد رستہ یہی ہے۔