|تحریر: آصف لاشاری |
محنت کش خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ملک کے تمام بڑے شہروں میں عورت مارچ کا انعقاد کیا گیاجس میں عورتوں کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی۔ گوکہ ان تمام مارچوں میں پیٹی بورژوا اور بورژوا خواتین کی اکثریت تھی مگر محنت کشوں کی مختلف پرتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین بھی اس مارچ میں شریک ہوئیں۔ اس مارچ کے ردِعمل میں جہاں رجعتی دائیں بازو کی انتہائی غلیظ مہم نظر آتی ہے جس میں مارچ میں شرکت کرنے والی خواتین اور مارچ منظم کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے مطالبات تک کیے گئے اور یہی نہیں بلکہ مارچ کے منتظمین کو جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔ دائیں بازو کے علاوہ بائیں بازو کی مختلف تنظیموں اور مارکسسٹوں نے اس مارچ اور خواتین کو در پیش مسائل حل کے متعلق اپنا نکتہ نظر پیش کیا۔ خاص طور پر مارکسسٹوں کے عورتوں پر ہونے والے جبر و استحصال اور پدرسرانہ رویوں کو طبقاتی نظام سے جوڑنے اور ان کے خاتمے کو طبقاتی نظام کے خاتمے سے جوڑنے کے موقف پرلبرلز اور مابعد جدیدیت پرستوں کی طرف سے ان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور ان کو دنیا کے تمام مسائل کا ایک ہی حل تجویز کرنے والے ’’مجرم‘‘ قرار دیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ مارکسسٹ طبقاتی استحصال کے نعرے کی آڑ میں سماج میں موجود دیگر جبر و استحصال کو چھپاتے ہیں یا استحصال کی دیگر شکلوں اور ان شکلوں کی پیچیدگی کو سمجھنے اور تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال ہمیں پشتون تحفظ تحریک کے ابھرنے کے بعد ہونے والی مختلف نظریاتی بحثوں کے اندر بھی نظر آئی۔ مارکسسٹ جب مظلوم قومیتوں پر ہونے والے جبر و استحصال کو سرمایہ دارانہ نظام سے جوڑتے ہیں اور قومی جبر و استحصال طبقاتی استحصال سے جوڑتے ہیں تو تب بھی ہمیں اس طرح کے الزامات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے کہ مارکسسٹ طبقاتی استحصال کے علاوہ دیگر کسی استحصال کو تسلیم نہیں کرتے؟ آئیے ہم اسی سوال کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
جبر اور استحصال کی مختلف شکلیں
ایسا بالکل نہیں ہے کہ مارکسسٹ سماج کے اندر موجود مختلف النوع جبر و استحصال کے وجود سے انکاری ہیں بلکہ اس کے برعکس مارکسسٹ ہر قسم کے جبر اور استحصال کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ اگر ہم محنت کش خواتین پر ہونے والے جبر و استحصال کی مثال لیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں ایک طر ف محنت کش خواتین کا بطور محنت کش طبقاتی استحصال نظر آتاہے وہیں پر ہمیں خواتین کا بطور خواتین صنفی استحصال بھی دکھائی دیتا ہے۔ مارکسسٹ ان دونوں قسم کے جبر کی مذمت کرتے ہیں اور دونوں کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم مظلوم قومیتوں کی بات کریں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ جہاں ایک طرف مظلوم قوموں پر قومی جبر و استحصال موجود ہوتا ہے وہیں پر اسی قوم سے تعلق رکھنے والے محنت کشوں پر طبقاتی جبر بھی موجود ہوتا ہے یعنی مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والے محنت کش بیک وقت دوہرے جبر کا شکا ر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہم ایک اور مثال سے تہہ در تہہ جبر اور استحصال کا جائزہ لیتے ہیں۔ مظلوم قومیتوں سے تعلق رکھنے والی محنت کش خواتین بیک وقت قومی، طبقاتی اور صنفی جبر و استحصال کا شکار ہوتی ہیں۔ مارکسسٹ جبر اور استحصال کی ان تمام شکلوں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں۔ یہاں پر اگر ہم پیٹی بورژوا یا بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور بورژوا یا پیٹی بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والے مظلوم قومیتوں کے افراد کا ذکر نہ کریں تو شاید ہم مابعد جدیدیوں کی لفظی گولہ باری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے اس سوال کو بھی ہم ابھی دیکھ لیتے ہیں۔ کیا مارکسسٹ پیٹی بورژوا و بورژوا طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے مظلوم اقوام کے افراد پر بالترتیب صنفی و قومی جبر کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں؟ اس سوال کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ہے، مارکسسٹ بالکل امیر طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین پر صنفی جبر کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں اور اسی طرح امیر طبقے سے تعلق رکھنے والے مظلوم قومیت کے افراد پر قومی جبر کے وجود کو تسلیم کرتے ہیں۔ مگر یہ بھی بتاتے ہیں کہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین اور افراد کے مقابلے میں پیٹی بورژوا و بورژوا جبر و استحصال کی شدت کئی گنا کم ہوتی ہے۔
یہاں ہم لبرلزسے سوال کرنا چاہیں گے کہ کیا دوہرے اور تہرے جبر کا شکار وہ فرد ہوتا ہے جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے یا کہ وہ فرد جس کا تعلق بورژوا یا پیٹی بورژوا طبقے سے ہوتا ہے؟ اسی طرح کیا دوہرے اور تہرے جبر کا شکار وہ خواتین ہوتی ہیں جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہیں یا کہ وہ خواتین جو بورژوا یا پیٹی بورژوا طبقے سے تعلق رکھتی ہیں؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لبرل دوستوں کا سب سے پسندیدہ موضوع صنفی اور قومی استحصال کیوں ہے؟ اور طبقاتی استحصال کا نام سنتے ہیں یہ آگ بگولہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ طبقاتی استحصال کے سوال سے ان کے ’مظلوم‘ جنہیں ہم بھی مظلوم تسلیم کر چکے ہیں ’ظالم‘ ثابت ہو سکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود کو بایاں بازو کہلانے والے ہمارے لبرل دوست مظلوم قومیتوں اور خواتین پر جبر و استحصال کی آڑ میں بورژوا طبقے کے مفادات کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں؟ اس تمام تر بحث سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مارکسسٹ نہیں ہیں جو سماج میں موجود جبر کی مختلف شکلوں سے انکاری ہیں بلکہ یہ لبرل ہیں جو طبقاتی استحصال کو چھپانے کے لیے قومی و صنفی استحصال کا راگ الاپتے ہوئے بورژوا طبقے کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔
یہاں ہم لبرلزسے سوال کرنا چاہیں گے کہ کیا دوہرے اور تہرے جبر کا شکار وہ فرد ہوتا ہے جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے یا کہ وہ فرد جس کا تعلق بورژوا یا پیٹی بورژوا طبقے سے ہوتا ہے؟ اسی طرح کیا دوہرے اور تہرے جبر کا شکار وہ خواتین ہوتی ہیں جو محنت کش طبقے سے تعلق رکھتی ہیں یا کہ وہ خواتین جو بورژوا یا پیٹی بورژوا طبقے سے تعلق رکھتی ہیں؟ تو پھر کیا وجہ ہے کہ ہمارے لبرل دوستوں کا سب سے پسندیدہ موضوع صنفی اور قومی استحصال کیوں ہے؟ اور طبقاتی استحصال کا نام سنتے ہیں یہ آگ بگولہ کیوں ہو جاتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ طبقاتی استحصال کے سوال سے ان کے ’مظلوم‘ جنہیں ہم بھی مظلوم تسلیم کر چکے ہیں ’ظالم‘ ثابت ہو سکتے ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ خود کو بایاں بازو کہلانے والے ہمارے لبرل دوست مظلوم قومیتوں اور خواتین پر جبر و استحصال کی آڑ میں بورژوا طبقے کے مفادات کے دفاع کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں؟ اس تمام تر بحث سے ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ مارکسسٹ نہیں ہیں جو سماج میں موجود جبر کی مختلف شکلوں سے انکاری ہیں بلکہ یہ لبرل ہیں جو طبقاتی استحصال کو چھپانے کے لیے قومی و صنفی استحصال کا راگ الاپتے ہوئے بورژوا طبقے کے مفادات کا دفاع کرتے ہیں۔
مارکسزم اور ما بعد جدیدیت
مارکسزم جبر و استحصال کی ہر صورت کو مادی حالات سے جوڑ کر ان کو ایک مسلسل ارتقائی عمل کی صورت میں دیکھتا ہے۔ عورت کی مرد کی غلامی یا پدر سری کا آغاز نیولیتھک انقلاب کے بعد سماج کے طبقات میں تقسیم ہو جانے سے ہوا۔ نجی ملکیت کے آغاز سے قبل پدر سری کا کوئی وجود نہیں تھا۔ عورت کی اس تاریخی شکست کی وجہ ذرائع پیداوار کے ساتھ تعلق اور محنت کی تقسیم کار کے تناظر میں سمجھی جا سکتی ہے۔ عورت کی غلامی کی تاریخ ہزاروں برس پرانی ہے اور ان ہزاروں برسوں میں عورتوں کی غلامی مرد و زن کے ذہنوں میں راسخ ہو چکی ہے۔ آج ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں وہاں عورت کو بھی ایک جنس کی حیثیت حاصل ہے اور عورت کو مرد کی نجی ملکیت سمجھا جاتا ہے۔ عورتوں کی جبر و استحصال سے آزادی نجی ملکیت پر مبنی طبقاتی نظام کے خاتمے سے ناگزیر طور پر جڑی ہوئی ہے۔ عورت کی سماجی و سیاسی آزادی معاشی آزادی سے جڑی ہوئی ہے۔ عورت کی ’’بغیر اجرت گھریلو مشقت‘‘ کا خاتمہ کیے بغیر اور عورتوں سے منسوب دیگر ذمہ داریوں کواجتماعی سماجی ذمہ داریوں میں تبدیل کیے بغیر عورت کے پیروں میں پڑی غلامی کی بیڑیوں کو نہیں توڑا جا سکتا اور نہ ہی پدر سرانہ رویوں اور تعصبات کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ہونا ناممکن ہے بلکہ جہاں ایک طرف عورت کی بغیر اجرت گھریلو محنت کے بنا سرمایہ داروں کا اپنے شرح منافع کو برقرار رکھنا ناممکن ہے بلکہ اپنے اس تاریخی بحران کے عہد میں ماضی کی حاصلات بھی واپس چھینی جا رہی ہیں۔ مارکسزم ہی وہ نظریہ ہے جو عورت کی موجودہ سماجی حالت کو تاریخی ارتقاء کے تناظر میں درست طور پر دکھاتا ہے اور اس کی موجودہ سماجی حالت کی تبدیلی کا سائنسی طریقہ کاربھی بیان کرتا ہے۔ اس کے برعکس اگر ہم مابعد جدیدیت پرست اورلبرلز کے مؤقف کا جائزہ لیں تو ہمیں واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یہ لوگ کسی بھی سوال کو اس کے تاریخی ارتقاء اور اس کی مادی بنیادوں کے حوالے سے دیکھے بغیر اس کو کاٹ کاٹ کر دیکھتے ہیں۔ وہ خواتین کی موجود حالتِ زار کو پدرسری نظام اور رویوں کا نتیجہ قرار دیتے ہیں لیکن پدر سری اور ان رویوں کی مادی وجوہات سے انکار کرتے ہیں ان کے نزدیک پدر سری نظام اور رویوں کے ذمہ دار مرد ہیں اور اگر مرد خود کو تبدیل کر لیں تو پھر سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ ان لبرلزکے نزدیک شاید سماجی رویے، سماجی نظام سے الگ تھلگ خلا میں پیدا ہوتے ہیں، بیرونی محرکات سے کٹ کر افراد کی خواہشوں کے زیرِ اثر پروان چڑھتے ہیں اور ان رویوں کو شاید محض خواہشات کے ذریعے ہی بدلا جا سکتا ہے۔ جس طرح ہمیں مذہبی اخلاقی مبلغین نظر آتے ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ نظام کو بدلنے کی کوئی ضرورت نہیں، بس ہر شخص اپنی اصلاح کرلے، جب ہر شخص ٹھیک ہو جائے گا تو نظام بھی خود بخوتبدیل ہو جائے گا۔ اسی طرح ہمیں یہ لبرل ما بعد جدیدیت پرست مبلغین نظر آتے ہیں جن کے نزدیک شاید ’’اپنا موزہ خود ڈھونڈلو‘‘ جیسی نصیحتیں انقلابی نعرے ہیں، ان لبرلوں کو یہ نظر آتا کہ ہماری لبرل خواتین کے اس نعرے کا زیادہ سے زیاد ہ اثر یہی ہونا ہے کہ ان کے لبرل مردموزہ ڈھونڈ دینے کے لیے ایک محنت کش خاتون کو اجرتی غلام رکھ دیں گے۔ عورت مارچوں میں ہمیں اکثریتی خواتین کے حقیقی مسائل کے گرد نعروں کے برعکس جنس، سیکس اور خواہشات سے متعلقہ بیانات زیادہ نظر آئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ خواتین کے حقیقی مسائل مثلاًفیکٹریوں، کارخانوں، گھروں، نجی اداروں اور دفاتروں میں ہونے والے ظالمانہ استحصال اور جنسی ہراسگی سے متعلقہ نعرے بالکل ناپید تھے مگر ہمیں نظر آتا ہے کہ محنت کش خواتین کے عالمی دن کو این جی اوز اور این جی او نما سیاسی تنظیموں نے پیٹی بورژوا خواتین کے ’ایڈونچر ڈے‘ میں تبدیل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ عورت مارچ کے زیادہ تر نعرے اور بینرز این جی اوزکے بھاڑے کے لبرل دانشوروں کی ذہنیت کی عکاسی کرنے کے لیے کافی تھے۔ جب مارکسسٹوں نے ان این جی اوز کے مکروہ دھندے اور غیر عملی اور گمراہ کن (مرد کو عورت کا دشمن دکھانے والے) اور پیٹی بورژوا شور شرابے اور محنت کش خواتین کے عالمی دن پر پیٹی بورژوازی کے تماشے پر تنقید کی تو لبرل دانشوروں کو یہ تنقید ایک آنکھ نہ بھائی۔ اور مارکسسٹو ں کو عورت کی آزادی سے خوف زدہ قرار دیے جانے کے فتوے دیے گئے۔ کسی بھی مارکسسٹ کو اس بات پر کیا اعتراض ہو سکتا ہے کہ عورت کو مرد کے موزے ڈھونڈنے کی یا مرد کا کھانا گرم کرنے کی یا اس کے جسم و روح پر دوسرے انسان کی مرضی کی، غلامی سے آزادی مل جائے۔ مارکسسٹ عورت پر مرد اور سماج کے جبر کے مخالف ہیں اور عورتوں کی آزادی کے علمبردار ہیں، ہاں مگرمارکسسٹ لبرلز کی طرح عورت کے جسم کی بطور جنس خرید و فروخت کے حامی نہیں اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام کے حامی ہیں۔
عورت مارچ کے پوسٹ ماڈرن اسٹ نظریات کے عکاس نعروں اور بینرز کے دفاع میں ہمیں بہت سے ماضی کے ’طبقاتی جدوجہد ‘ کے علمبردار انقلابی بھی میدان میں کودتے نظر آئے جن کے نزدیک ’اپنا کھانا گرم کر لو‘ کا نعرہ ’گھریلوبغیر اجرت محنت کے خاتمے‘ کے مارکسی نعرے کے مترادف ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں نعرے ایک دوسرے سے بالکل متضاد ہیں اور دو مختلف نظریوں کی عکاسی کرتے ہیں۔ پہلا نعرہ پوسٹ ماڈرن نظریات کا عکاس ہے جو نظام کو بالکل بری الذمہ قرار دیتے ہوئے عورت کو مرد کے مقابلے میں کھڑا کر دیتا ہے جب کہ دوسرا نعرہ عورت کی محنت کے استحصال کے خاتمے کا مطالبہ کرتا ہے اور جو فی الحقیقت طبقاتی استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کا مطالبہ بھی ہے۔ ہم واضح طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ ہر قسم کے جبر و استحصال ہونے کی مہانتا کے بھیس میں اور جبر و استحصال کو ایک ہی چشمے سے دیکھنے کی بجائے رنگ برنگی چشموں سے دیکھنے کی آڑ میں یہ پوسٹ ماڈرن دانشور حکمران طبقات کے مفادات کے دفاع کا نظریاتی فریضہ سرانجام دیتے ہیں ۔
قومی سوال کا حل: بورژوا قوم پرستی یا پرولتاری بین الاقوامیت
پاکستان کے اندر شدید ترین قومی جبر و استحصال موجود ہے جونظام کے بحران کی شدت میں اضافے کے ساتھ مزید بڑھتا چلا جار ہا ہے اور اس قومی جبر و استحصا ل کے خلاف مظلوم قومیتوں کے اندر بھی تحرک بڑھتا چلا جار ہا ہے۔ پچھلے برس ہمیں پشتون تحفظ تحریک کی صورت میں ایک دیوہیکل تحریک نظر آئی جس نے جہاں ایک طرف قنوطی دانشوروں کو حیران و پریشان کر دیا وہیں اس نے بڑے بڑے قوم پرست دانشوروں اور بائیں بازو کے کئی نامور دانشوروں کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ مارکسسٹوں کے علاوہ کسی کے پاس ایسی کسی تحریک کا کوئی تناظر موجود نہیں تھا اوریہ مارکسسٹ ہی تھے جنہوں نے تحریک کے بالکل آغاز میں تحریک کے آگے بڑھنے کا تناظر پیش کیا اور تحریک کے مواد کا تجزیہ پیش کرتے ہوئے تحریک میں موجود مختلف سیاسی قوتوں اور طبقات کے طبقاتی مفادات کوواضح دکھایا۔ مارکسسٹوں نے پشتون بورژوازی و پیٹی بورژوازی، بورژوا قوم پرستوں اوراصلاح پسندوں کے ریاست اور سرمایہ دارانہ نظام سے جڑے مفادات اور ان مفادات کے تحریک کے آگے بڑھنے میں رکاوٹ پیدا کرنے کے یقینی امکانات کو واضح طور پر پیش کیا۔ تحریک کی ابتدا میں ہمیں تحریک کی قیادت کا محنت کشوں اور دیگر مظلوم قومیتوں کی طرف جھکاؤ نظر آیا جہاں ایک طرف یہ مؤقف پیش کیا جارہا تھا کہ دیگر مظلوم قومیتیں پہلے اپنی تحریک پیدا کریں پھر ہم ان سے اظہارِ یکجہتی کریں گے وہیں تحریک کی قیاد ت ’بلوچ و سندھی مسنگ پرسنز ‘کے کیمپوں میں جاتی ہوئی بھی نظر آئی جس سے ہمیں تحریک کے اندر مختلف قوتوں کے درمیان واضح تضاد دکھائی دیتا ہے۔ یہ مؤقف کہ تمام مظلوم و استحصال زدہ اپنی اپنی لڑائی الگ الگ منظم کریں، اپنی بنیادوں میں ہی مابعد جدیدیت کا مؤقف ہے چونکہ پشتونوں کا استحصال بطور پشتون ہوتا ہے، بلوچوں پر ہونے والاجبر ان کی بلوچ شناخت کی وجہ سے ہے، عورتوں پر جبر ان کے عورت ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے، ہزارہ پر مظالم ہزارہ ہونے کی وجہ سے ہے، شیعوں کی نسل کشی ان کے شیعہ ہونے کی وجہ سے ہے، سیاہ فاموں کا استحصال ان کے سیاہ فام ہونے کے وجہ سے ہے، نیز تمام استحصال زدگان کا استحصال ان کی مخصوص شناخت کی وجہ سے ہوتا ہے اور چونکہ ان تمام کے استحصال میں کوئی قدر مشترک نہیں اس لیے اس کا منطقی نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ تمام مظلوم علیحدہ علیحدہ خود کو منظم کریں اور پریشر گروپس کا کام کرتے ہوئے اپنے حقوق حاصل کریں۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ پوسٹ ماڈرن نظریات مظلوموں کوتقسیم کرنے اور انہیں مظلوم رکھنے کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن ازم حتمی طور پر جو کام کرتا ہے وہ یہی ہے کہ طبقاتی استحصال کے سائنسی نقطہ نظر کو پسِ پشت ڈال دے کیونکہ طبقاتی استحصال کا نظریہ ان تما م مظلوموں کو جدوجہد کے لیے ایک قدرِ مشترک فراہم کرنے کا ’’خطر ناک‘‘ کام سرانجام دے سکتا ہے اور تمام تر جبر و استحصال کو سرمایہ دارانہ نظام سے جوڑ کر دکھانے کی اہلیت رکھتا ہے۔ پشتون تحفظ تحریک کے ابھار اور اس تحریک کے پڑنے والے اثرات سے بوکھلاہٹ کا شکار ہونے والی ریاست کے جوابی شدید جبر کے نتیجے کے طور پر ہمیں بہت سے حلقوں کی جانب سے مظلوم قوموں کے اتحاد کی سرگوشیاں سنائی دیں اور کہا گیا کہ مظلوم قومیتوں کو ریاست کے جبر کے خلاف متحد ہو کر جدوجہد کرنی چاہیے لیکن اس سوال کی جانب کوئی توجہ نہیں دی گئی کہ یہ اتحاد کس نظریے کے تحت ممکن ہوگا۔ بورژوا قوم پرستی کے خمیر میں قومی تعصبات اور قومی تفریق کے بیج تو موجود ہیں مگر یہ نظریہ مظلوم قوموں کی بورژوازی کے مختلف طبقاتی مفادات کے زیرِ اثرمظلوم قومیتوں کو متحد کرنے کا فریضہ سر انجام نہیں دے سکتا۔ اگر بالفرض مظلوم قومیتیں ریاستی جبر کے خلاف بغیر کسی انقلابی نظریے کے اتحاد کی جانب بڑھتی ہیں تو یہ اقدام اپنی اساس میں ترقی پسند ہونے کی بجائے رجعتی ہوگا۔ وہ نظریہ جو تمام مظلوموں کو متحد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے پرولتاری بین الاقوامیت کا نظریہ ہے۔ پرولتاری بین الاقوامیت کا نظریہ دنیا بھر کے تمام محنت کشوں کو طبقاتی استحصال کی قدرِمشترک کے زیرِسایہ اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد کرتا ہے اور اس نظام کو ختم کرکے اس کی جگہ غیر طبقاتی معاشرے، جس میں استحصال کی تما م شکلوں کا خاتمہ کر دیا جائے گا، کے لیے دنیا بھر کی جبر و استحصال کا شکار محنت کش عوام کو منظم کرتا ہے۔ پرولتاریہ وہ واحد قوت ہے جو دنیا بھر کی مظلوم استحصال زدہ عوام کو پرولتاری بین الاقوامیت کے نظریے اور بینر تلے عالمگیر سرمائے کی زبردست قوت کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔
اصلاح پسندی یا سوشلسٹ انقلاب
آج ہم سرمایہ داری نظام کے زوال پذیری کے عہد میں جی رہے ہیں اور آج دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام ہزاروں بر س پرانے تعصبات اور تفریقوں کو از سرِ نو ابھار رہا ہے۔ وہ تمام پرانے تعصبات، قومی، لسانی و نسلی تفریق پر مبنی رجعتی نظریات جن کو سرمایہ داری نے اپنے ترقی یافتہ مرحلے میں سماج سے تقریباً ختم کر دیا تھا، آج دوبارہ سر اٹھا رہے ہیں اور ہر جگہ قومی، مذہبی اور لسانی اقلیتوں پر مظالم میں اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح مظلوم اقوام اور محنت کش مرد و خواتین پر جبر و استحصال میں بھی کئی سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ جہاں ایک طرف جبر اور استحصال میں اضافہ ہورہا ہے وہیں اس جبر و استحصال کے خلاف مزاحمت بھی بڑھ رہی ہے اور دنیا میں ہر جگہ ان مسائل کے خلاف تحریکیں بھی ابھر رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک تحریک ہمیں سپین میں ’کیٹالونیا کی آزادی کی تحریک ‘ نظر آتی ہے۔ کیٹالونیا کی آزادی کی تحریک ہو یا دنیا کے کسی بھی خطے میں قومی حقوق یا آزادی کی جدوجہد ہو، سرمایہ دارانہ نظام کی حدود کے اندر کسی بھی مسئلے کا کوئی بھی حل ممکن نہیں۔ مارکسسٹ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے محنت کش طبقے کے حق میں ہونے والی اصلاحات کے خلاف نہیں۔ جہاں وہ مکمل طور پر نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں وہیں پر وہ محنت کشوں، کسانوں، طالب علموں اور خواتین کے فوری مسائل کے حل کے لیے اور ان کی زندگیوں میں وقتی بہتری کے لیے جدوجہد کرتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ آج یہ نظام کروڑوں محنت کش انسانوں کی زندگیوں میں کسی بھی قسم کی کوئی بہتری لانے کی صلاحیت نہیں رکھتا اور اسی سائنسی سمجھ کی بنا پر مارکسسٹ فوری مطالبات کی لڑائی کو نظام کی تبدیلی کے پروگرام سے جوڑتے ہیں اور اس نظام کے مکمل خاتمے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔ آج تو یہ نظام زوال پذیری کی انتہاؤں کو چھو رہا ہے اور ہر طرف کشت و خون اور بربریت کے بیج بو رہا ہے لیکن اپنی ترقی یافتہ حالت میں بھی اس نظام میں اربوں محنت کش انسانوں کی زندگیاں جانوروں سے بد تر تھیں۔ اپنی ترقی یافتہ حالت میں بھی سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی اربو ں محنت کشوں کی تنزلی اور بدحالی سے مشروط تھی اور آج بھی اس نظام کو اپنی بقاء کے لیے اربوں انسانوں کے شدید ترین استحصال، وسائل کی لوٹ مار، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں موجود کثیرالنوع جبر و استحصال کا خاتمہ دنیا بھر سے استحصالی سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ مشروط ہے۔ آج انسانیت کے پاس آگے بڑھنے کے لیے ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سوشلزم کو تعمیر کرنے کا راستہ ہے ۔