25نومبر کو کیوبا کے عظیم انقلابی راہنما فیڈل کاسترو نوے سال کی عمر میں طویل علالت کے بعددنیا سے رخصت ہو گئے۔ پوری دنیا میں سیاست سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے فیڈل کاسترو ایک جانا پہچانا نام ہے۔ دنیا بھر میں بائیں بازو سے وابستہ انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں نے کاسترو کی وفات پر ان کی لازوال جدوجہدکو خراج تحسین پیش کیا اور کیوبا کے عوام کے لیے ان کی قیادت میں برپا ہونے والے انقلاب کی حاصلات کو سراہا۔ 1959ء میں کیوبا پر مسلط جنرل بتیستا کی آمریت کا ایک انقلاب کے ذریعے خاتمہ کر کے کاسترو نے چے گویرااور دیگر انقلابیوں کے ہمراہ اس چھوٹے سے جزیرے کو دنیا بھر میں عوام کی فلاح وبہبود کے لیے مثال بنا دیا۔ امریکی سامراج کی بغل میں واقع اس جزیرے پر برپاہونے والے انقلاب کو ختم کرنے کے لیے سر توڑ کوششیں کی گئیں لیکن اس کے باوجود یہ سفر تمام تر مشکلات کے باوجود جاری رہا۔ خود فیڈل کاسترو کو قتل کروانے کی چھ سو سے زائد ناکام کوششیں کی گئیں لیکن یہ اس عظیم انقلابی کے حوصلے اور عزم کو نہ توڑ سکیں۔ جس وقت کیوبا میں انقلاب برپا ہوا اس وقت سوویت یونین کی مزدور ریاست سٹالنسٹ افسر شاہی کے زیر تحت زوال پذیر ہو چکی تھی ۔ لیکن اس کے باوجود منصوبہ بند معیشت کی منڈی کی معیشت پر فوقیت موجود تھی جس سے متاثر ہو کر کیوبا میں بھی اسی طرز پر منصوبہ بندی کی گئی۔ کچھ ہی عرصے میں کیوبا جیسے پسماندہ ملک سے لاعلاجی، ناخواندگی، غربت اور بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کر دیا گیا اورعلاج کی جدید ترین سہولیات کیوبا میں عوام کے لیے مفت فراہم کی گئیں۔ امریکہ سمیت پوری دنیا سے آنے والوں کے لیے نہ صرف ہر قسم کا علاج مفت فراہم کیا گیا بلکہ آبادی کے تناسب سے ڈاکٹر اور دیگر طبی سہولیات بھی بڑے پیمانے پر موجود تھیں۔ بیروزگاری کو ایک جرم قرار دے دیا گیا اور ہر بالغ شہری کے لیے رہائش کی علیحدہ سہولت ریاست کی جانب سے فراہم کی گئی۔ دور افتاد ہ دیہاتوں میں بھی ناخواندگی کو ختم کر دیا گیا اور خواتین کو سماجی جبر سے آزاد کرتے ہوئے انہیں تمام حقوق فراہم کیے گئے۔ امریکہ اور دیگر سرمایہ دارانہ ممالک کی معاشی ناکہ بندی کے باوجود کیوبا کا یہ چھوٹا سا جزیرہ کاسترو کی قیادت میں ان تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے عوام کو یہ سہولیات فراہم کرتا رہا۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد اسے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑالیکن اس کے باوجود منصوبہ بند معیشت کو ختم نہیں کیا گیا۔ اکیسویں صدی کے آغاز پر وینزویلا میں شاویز کی کامیابی اور بولیوارین انقلاب نے کیوبا کے انقلاب کو سہارا دیا جہاں تیل کے بدلے میں وینزویلا میں ہزاروں ڈاکٹر بھیجے گئے تاکہ وہاں کے مریضوں کا مفت علاج کیا جا سکے۔ 2005ء میں کشمیر میں آنے والے زلزلے میں بھی کیوبا سے ڈاکٹروں کی ایک بڑی تعداد نے یہاں متاثرہ افراد کا مفت علاج کیا اور انہیں جدید طبی سہولیات فراہم کیں ۔ اس کے بعد ہر سال پاکستان سے ایک ہزار طلبہ کو کیوبا میں مفت میڈیکل کی تعلیم فراہم کرنے کا اعلان کیا گیاجس سے بہت سے طلبہ مستفید ہو رہے ہیں۔ 2006ء میں کاسترو نے ضعیف العمری کے باعث قیادت راؤل کاسترو کو منتقل کر دی۔ گزشتہ دس سالوں میں کیوبا میں منصوبہ بند معیشت کو بتدریج ختم کرتے ہوئے منڈی کی معیشت کی جانب راغب کیا جا رہا ہے۔ امریکی سامراج کے خون آلود ہاتھوں سے ہاتھ ملاتے ہوئے انقلاب کی حاصلات کو تیزی سے ختم کیا جا رہا ہے اور سرمایہ دار گدھ کی طرح یہاں سے منافع نچوڑنے کے لیے منڈلا رہے ہیں۔ کیوبا میں امریکی سفارت خانے کا اوباما کے ہاتھوں افتتاح خود انقلاب کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا چکا ہے۔ لیکن کیوبا کے عوام اتنی آسانی سے یہ سب کچھ نہیں ہونے دیں گے اور اس کے خلاف بغاوتیں ابھریں گی۔ فیڈل کاسترو کی وفات ایک عہد کے خاتمے کا اعلا ن بھی ہے۔ اس عہد کے کردار کو سمجھنے کے لیے کاسترو کی طویل جدوجہد کا درست تجزیہ کرتے ہوئے اس سے اسباق اخذ کرنا ضروری ہیں۔ آنے والا عہد کیوبا کے انقلاب کوزیادہ بلند پر دہرانے کا تقاضا کرتا ہے۔ جس میں کیوبا سمیت پورے براعظم شمالی و جنوبی امریکہ میں ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرتے ہوئے ایک رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن قائم کی جائے۔ جو عالمی سوشلسٹ انقلاب کا نقطہ آغاز بنے گی۔
لال سلام
28 نومبر 2016ء