|تحریر: وریشا خان|
پاکستان جیسے معاشرے میں جنسی ہراسانی اور درندگی عروج پر ہے۔ عام طور پر پاکستان میں عورت کا نا صرف ملازمت کرنا بلکہ اکیلے گھر سے باہر نکلنا بھی معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں جتنی تیزی سے بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے اور عوام کے چولہے تک ٹھنڈے پڑ رہے ہیں، ان حالات میں سب سے زیادہ خواتین ہی پس رہی ہیں۔ مثال کے طور پر خواتین گھر کے سارے معاملات کو اپنے بجٹ کو سامنے رکھتے ہوئے چلاتی ہیں جس میں گھر کی ضروریات کی تمام اشیاء شامل ہیں۔ لیکن دن بہ دن جتنی تیزی سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے، گھر کے مالی حالات بہتر ہونے کی بجائے بد ترین ہوتے جا رہے ہیں۔ جس رقم سے گھر کی تمام ضروریات کو پورا کیا جاتا تھا، آج اس رقم میں کچن تک چلانا نا ممکن ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر کے مالی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے خواتین نوکری کی تلاش میں گھر سے باہر قدم رکھتی ہیں تاکہ اپنے مالی حالات بہتر کر سکیں۔ ساتھ ہی خواتین کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ انہیں کسی ایسے ادارے میں نوکری ملے جہاں وہ جنسی ہراسانی اور درندگی سے بچ کر روزگار کو جاری رکھیں تاکہ ان کی عزت بھی محفوظ رہے۔
آئے دن خواتین کے ساتھ گھریلو تشدد، غیرت کے نام پر قتل اور بچیوں کے ساتھ ریپ جیسے واقعات منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ اول تو حکومت اور کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے ان واقعات پر کوئی بیان نہیں آتا اور اگر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کوئی بیان آ بھی جائے تو اس میں فوراً خواتین کے لیے حفاظتی قوانین، جو حقیقت میں صرف کاغذوں میں موجود ہیں، کی یاد دہانی کروا کے کاروائی کا حکم دے دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ بیان بھی سننے کو ملتے ہیں کہ اس معاشرے میں عورت کی بے پردگی کی وجہ سے یہ سب ہو رہا ہے۔ لہٰذا خواتین کو بھی کچھ خیال کرنا چاہیئے، اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھنا چاہیئے اور اگر گھر سے باہر نکلنا بھی ہے تو اپنے کسی محرم کے ساتھ نکلنا چاہیئے۔
ان معاملات میں خواتین کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ سفید جھوٹ اتنی ڈھٹائی سے بولا جاتا ہے کہ کچھ لوگوں کو یہ سچ لگنے لگتا ہے۔ پاکستان میں جنسی ہراسانی اتنی پھیل چکی ہے اور حکمرانوں کی طرف سے ایسے بیانات اس قدر معمول بن چکے ہیں کہ واضح طور پر یہ معاشرہ اب خواتین کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ جھوٹے پراپیگنڈے اور مختلف حیلوں بہانوں سے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ لیکن ان جھوٹ کے پلندوں کے باوجود عوام کا غصہ سڑکوں پر دیکھنے کو ملتا ہے جس کا عملی ثبوت 2018ء کے آغاز میں قصور میں 7 سالہ بچی زینب کے ریپ اور قتل کے خلاف ایسی بغاوت کی صورت میں نظر آیا جس نے پورے سماج کو ہلا کے رکھ دیا۔ اس بغاوت کے دوران شہروں کے عام لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور قصور میں عوام نے ڈی سی آفس اور پولیس کے تھانے پر حملہ کر دیا۔ کئی ریاستی نمائندوں کو اپنی جان بچا کر بھاگنا پڑا۔ یہاں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہیں کہ جنسی ہراسانی اور ریپ کے خلاف ہونے والے احتجاج اپنے اندر موجودہ نظام اور حکمرانوں کے خلاف بڑی لڑائی کے بیج رکھتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان میں بے روزگاری عروج پر ہے۔ ایک عام محنت کش ایک دن میں سولہ گھنٹے نوکری کرنے کے باوجود اپنے خاندان کی ضروریات کو پورا نہیں کر پاتا بلکہ صرف اس کو اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ وہ خود کو زندہ رکھ سکے۔
اپنے مالی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے محنت کش خواتین اپنا پیٹ پالنے اور نوجوان لڑکیاں جن پر والدین نے قیمتی سرمایہ لگایا ہوتا ہے، روزگار کی تلاش میں گھر سے باہر نکلتی ہیں اور کچھ ایسے اداروں کو تحفظ کے نقطہ نظر سے محفوظ سمجھتی ہیں جہاں انہیں لگتا ہے کہ وہ عزت سے روزگار حاصل کر سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک شعبہ تعلیم کا ہے۔ عورت کے لیے روزگار فراہم کرنے والے ادارے بہت کم ہیں اور معاشرے کی تنگ نظری کے پیش نظر پڑھی لکھی محنت کش خواتین کی اکثریت سکولوں میں تدریس کا پیشہ چنتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسی طالبات بھی ہوتی ہیں جو اپنی یونیورسٹی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے پرائیویٹ سکولوں میں تدریسی عمل کا رخ کرتی ہیں۔
تعلیم ایک کاروبار بن چکا ہے اور ہمیں ہر گلی محلے میں ایک یا دو پرائیویٹ سکول اور ٹیوشن سنٹر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پچھلے چند سالوں میں پاکستان میں پرائیویٹ سکولوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے۔ صرف پچھلے 25 سالوں میں 30 گنا اضافہ ہوا ہے جن کی تعداد میں حالات کے مطابق کمی بیشی ہوتی رہی ہے۔ یہی پرائیویٹ سکول شام کے وقت ٹیوشن سنٹر اور اکیڈمیوں کی صورت میں کھولے جاتے ہیں تاکہ تعلیم کے کاروبار سے دوگنا منافع حاصل کیا جائے۔ زیادہ تر پڑھی لکھی خواتین روزگار کے لیے ان سکولوں کا رُخ کرتی ہیں۔ تنخواہ کے طور پر ماہانہ 10 سے 15 ہزار روپے یا پھر مشہور سکولوں میں 20 سے 25 ہزار وپے ان کی محنت کی قیمت رکھی جاتی ہے۔
ان پرائیویٹ سکولوں میں روزگار تعلیم کی بجائے تجربہ دیکھ کر دیا جاتا ہے۔ ان خواتین سے 8 گھنٹے کام لیا جاتا ہے اور ان 8 گھنٹوں کی قیمت 330 یا 380 روپے دی جاتی ہے۔ اس دوران ان سے کوئی غلطی ہو جائے تو اس کا ذمہ دار ہر حال میں انہی کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ایک دن اگر کسی مجبوری یا بیماری کی وجہ سے چھٹی کر لی جائے تو ایک دن کی تنخواہ کاٹ دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان اساتذہ کو سکول میں کام کے بعد گھر کے لیے بھی کام دیا جاتا ہے جس میں ٹیسٹ پیپرز، کاپیاں وغیرہ چیک کرنا، آرٹ ورکس اور رزلٹ بنانے جیسے کام شامل ہیں۔
ان سکولوں میں اساتذہ کو کمرہِ جماعت میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ہوتی اور ان سے سارا وقت کھڑے ہو کر ہی کام لیا جاتا ہے۔ بچوں کی دیکھ بھال حتیٰ کہ وقفے کے دوران بھی ان پر ذمہ داری عائد کی جاتی ہے کہ بچے آپس میں لڑائی جھگڑا نہ کریں یا پھر بچوں کو کسی قسم کی چوٹ نہ لگے۔ لیکن اگر اس دوران کسی بھی وجہ سے کسی بچے کو کوئی نقصان پہنچتا ہے تو اس کا ذمہ دار بھی ٹیچرز کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے اور انہیں نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیچرز کو 7 گھنٹوں میں سے 40 منٹ کا محدود وقت دیا جاتا ہے جس میں خود کو ذہنی اور جسمانی طور پہ تازہ دم کر سکیں۔ لیکن اگر کسی وجہ سے سکول میں کوئی بھی ٹیچر غیر حاضر ہو تو اس کی ذمہ داری بھی باقیوں پر عائد کردی جاتی ہے اور ان سے وہ 40 منٹ بھی لے لیے جاتے ہیں۔ ان 40 منٹوں کی محنت کی قیمت بھی ادا نہیں کی جاتی۔
سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ ان اداروں میں اجرتوں کی بر وقت ادائیگی نہیں کی جاتی اور یہ بتایا جاتا ہے کہ والدین وقت پر بچوں کی فیسیں جمع نہیں کرواتے جس کی وجہ سے تنخواہوں کی ادائیگی میں تاخیر ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شروع میں جب ان کو ماہانہ تنخواہ دینے کی باری آتی ہے تو ان کی ایک ماہ کی تنخواہ سکیورٹی کے طور پر رکھی جاتی ہے تاکہ وہ بغیر بتائے سکول چھوڑ کر نہ جا سکیں۔ اسی وجہ سے انہیں اپنی پرانی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
ان تعلیمی اداروں میں کم اجرتوں کے ساتھ ساتھ ہراسانی کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ یہاں سب سے پہلے ہمیں ہراسانی کا مطلب سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ہراسانی کا مطلب کسی بھی فرد کو مسلسل تنگ کرنا یا زچ کرنا ہے۔ لیکن اس کی ایک سے زائد شکلیں ہیں۔ سکول کے اندر ٹیچرز کو ذہنی طور پر تنگ کرنا بھی ہراسانی کی ہی ایک شکل ہے۔ سکولوں میں کام کرنے والی خواتین اساتذہ پر مسلسل ذہنی دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ بہت سارے سکولوں میں خواتین کو ہی بطور پرنسپل تعینات کیا جاتا ہے۔ یہی پرنسپل خواتین اساتذہ کے ساتھ اپنے غلام کی طرح کا سلوک کرتی ہیں اور انہیں ذہنی طور پر اذیت دیتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ایک عورت ہی دوسری عورت کے مسئلے کو سمجھ سکتی ہے لیکن ہر ادارے کے اندر دیکھا جائے تو ایک عورت ہی اپنے عہدے کا استعمال کرتے ہوئے اپنے سے نچلے طبقے کی عورت کو ذہنی اذیت دینے سے نہیں کتراتی۔ اس کے علاوہ ان سکولوں میں جنسی ہراسانی بھی معمول کی بات ہے۔ اکثر سکولوں میں پرنسپل کے عہدے پر مرد حضرات بھی موجود ہوتے ہیں اور بہت سارے سکولوں میں مرد اور عورت دونوں کو بطور استاد رکھا جاتا ہے۔ ان سکولوں میں خواتین اساتذہ پرنسپل اور مرد اساتذہ سے جنسی طور پر ہراساں ہوتی ہیں اور اگر وہ اس کے خلاف آواز اٹھائیں تو انہیں نوکری سے فارغ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ ہمارے سکول کو بدنام کر رہی ہیں۔
اس کے علاوہ خواتین کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت موجود نہ ہونا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جس سے تنخواہ کا بہت بڑا حصہ اس پر خرچ ہو جاتا ہے۔ لیکن پھر بھی محنت کش خواتین یہ سب ہونے کے باوجود روزگار کی خاطر اپنی محنت بیچنے پر مجبور ہیں۔ اس کے ساتھ ان اداروں میں مستقل نوکری کی ضمانت بھی نہیں دی جاتی۔ خواتین زیادہ پیسوں کی خاطر شام کو چار گھنٹے ٹیوشن سنٹر میں پڑھاتی ہیں یا پھر گھر میں ہی ٹیوشن کھول لیتی ہیں۔ اس نظام میں عورتوں کی اجرت مردوں کی نسبت کم ہوتی ہے۔ اس لیے ان اداروں میں بھی خواتین کو اس لیے رکھا جاتا ہے کہ ان اداروں کے مالکان کم پیسہ خرچ کر کے زیادہ سے زیادہ سرمایہ جمع کر سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین شام کے وقت بھی ٹیوشن سنٹر میں پڑھانے پر مجبور ہیں۔
دوسری طرف سرکاری سکولوں کا حال بھی برا ہے۔ سرکاری سکولوں کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ اگر کسی کی سرکاری سکول میں نوکری ہے تو اس کے لیے آرام ہی آرام ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ بات قدرے درست بھی ہے۔ پرائیویٹ سکول میں نوکری کی نسبت سرکاری سکول کافی بہتر ہیں۔ لیکن پاکستان میں اس وقت جو حالات ہیں ان میں یہ آسائش بھی خطرے میں ہے۔ آئے روز سرکاری اداروں کی نجکاری ہو رہی ہے۔ بہت سارے سکولوں کی نجکاری ہو چکی ہے اور کافی عرصے سے کوئی نیا سرکاری سکول نہیں بنایا گیا۔ پچھلے کچھ عرصے سے دیکھا جا رہا ہے کہ سرکاری سکولوں میں ایک سے دو سال کے کنٹریکٹ پر اساتذہ کو رکھا جاتا ہے جو پورے 2 سال تک کم اجرتوں میں اپنا خون پسینہ بہاتے ہوئے محنت سے کام کرتے ہیں اور اس کے بعد انہیں نکال دیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ کافی عرصے سے جاری ہے اور اس کنٹریکٹ پر باقاعدہ دستخط کروائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جن خواتین کی مستقل نوکری ہوتی ہے ان کو محکمے کی طرف سے اتنا تنگ کیا جاتاہے کہ وہ خود نوکری چھوڑ کر چلی جائیں۔ جب اساتذہ اس کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو ان کا ایک جگہ سے دوسری جگہ تبادلہ کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ تنگ آ کر نوکری چھوڑ دیں۔ لیکن مجبوری میں روزی روٹی کی خاطر خواتین کو یہ سب برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ایک طرف بڑھتی ہوئی غربت اور دوسری طرف ذلت ہے جس میں خواتین پس رہی ہیں۔ اس میں اضافہ کرنے کیلئے یہاں کے لبرلز اور ملاؤ ں نے غلاظت سے بھرپور ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ لبرل اور ملاؤ ں کی لڑائی میں ہمیشہ خواتین پستی ہیں۔ لبرلز کا یہ موقف ہے کہ عورت پر ظلم مرد کرتا ہے اور یہ مرد کی فطرت ہے۔ لبرلز اس ظاہریت کو بنیادبنا کر این جی اوز کی صورت میں کاروبار کرتے نظر آ تے ہیں اور محنت کش خواتین کو استعمال کر کے اپنے کاروبار کو چلاتی ہیں۔ لبرل ہر مسئلے کی طرح خواتین پر ظلم و جبر کو بھی کُل سے کاٹ کر دیکھتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ لبرلز کے نزدیک خواتین پر ہونے والا ہر ظلم طاقت کا زور ہے یعنی مرد حضرات اپنے گرد موجود عورتوں کو اپنا شکار بناتے ہیں اور انہیں ہراساں کرتے ہیں۔ کیا آخر اس معاشرے میں موجود طاقتور اور کمزور کی تقسیم صرف صنفی بنیاد پر وجود رکھتی ہے؟ ہر گز نہیں کیونکہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اس نظام میں سرمائے کی طاقت کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ طاقتور ہونے کا تعلق مرد اور عورت کے وجود سے نہیں بلکہ مال و دولت موجود ہونے یا نہ ہونے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ یہی مال و دولت اپنے ارد گرد ایک مربوط ڈھانچہ کھڑا کرتا ہے۔ یہی حقیقت سرمایہ دارانہ نظام کے تمام مسائل کی اصل جڑ ہے۔ اسی لئے ہمیں کسی فیکٹری، کمپنی یا گھر کی امیر مالکن اتنا ہی محنت کش مردوں اور عورتوں، دونوں کا استحصال اور ان پر تشدد کرتی نظر آتی ہے جتنا اس طبقے سے تعلق رکھنے والا ایک مرد اپنا حق سمجھ کر کرتا ہے۔ لبرلز کبھی ظلم و جبر اور استحصال کی بنیاد اس معاشی نظام پر کوئی بحث اور گفتگو اس لئے کرتے پائے نہیں جاتے کیونکہ ان کے اپنے مالیاتی مفادات اور کاروبار اس نظام سے جڑے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف ملاء اشرافیہ بھی اسی طبقاتی معاشی نظام کی علم بردار ہے جو مذہب کو استعمال کر کے عورت پر ظلم و جبر اور استحصال اور ان کی حیثیت کو فطری بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ عورت کو عزت کے نام پر چادر اور چار دیواری میں قید کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد ایک طرف مرد و خواتین کو صنفی بنیادوں پر کاٹ کر طبقاتی بنیادوں پر اکٹھ کرنے سے روکنا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ وراثت اور نجی ملکیت سے جڑے سرمایہ دارانہ نظام کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ لبرلز اور ملاء میڈیا میں بیٹھ کر خواتین کے پیچیدہ مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالتے ہیں اور اس سرمایہ داری نظام کی بات تک نہیں کرتے جوان سب مسائل کی جڑ ہے اور انتہائی چالاکی سے مختلف چالبازیوں سے محنت کشوں کو آپس میں صنف سے لے کر فرقے اور دیگر ثانوی مسائل کے ذریعے تقسیم کر کے حکمرانوں کے اس نظام کو برقرار رکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اس وقت سرمایہ دارانہ نظام میں پوری دنیا کے اندر خواتین پر ظلم و جبر ہو رہا ہے کیونکہ ملک ترقی پذیر ہو یا ترقی یافتہ، دونوں کی معاشی بنیاد ایک ہی ہے اور وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ آج سرمایہ دارانہ نظام بہت بڑے بڑے دعوے کرتا نظر آتا ہے کہ ہم نے عورتوں کے لیے فلاں کام کیا، ہم نے عورتوں کیلئے بہت ادارے بنائے اور ان اداروں میں عورتوں کیلئے مخصوص جگہ رکھی اور یہ سرمایہ داری ہی ہے جس نے عو رت کو چادر اورچار دیواری کی قید سے باہر نکالا ہے اور عورت کو حقیقی آ زادی دی ہے۔ لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نے عورت کو اپنے مفادات کیلئے گھر کی چار دیواری سے نکالا تا کہ وہ اس کی محنت سے اپنے سرمائے میں اضافہ کر سکیں۔ جس نظام کی بنیاد ہی نجی ملکیت کے ساتھ جڑی ہو اس نظام میں عورت کو کیسے حقیقی آ زادی حاصل ہو سکتی ہے اور یہی وجہ ہے خواتین کے ساتھ نجی ملکیت جیسا سلوک صاف نظر آ تا ہے۔ ایک بچی جب دنیا میں قدم رکھتی ہے تو وہ اپنے باپ اور بھائی کی ملکیت سمجھی جاتی ہے۔ پوری زندگی عورت کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ وہ نہ کسی غیر مرد کو دیکھے نہ ہی اس سے بات کرے اور آ خر میں اپنے سر سے بوجھ ہٹانے کیلئے کسی غیر مرد سے شادی کر وا کر اس کی ذاتی ملکیت اور وارث پیدا کرنے کی مشین بنادی جاتی ہے۔ آ ج بھی ہمیں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ خاندان اپنی نجی ملکیت کی حفاظت کیلئے خواتین کی شادیاں نہیں کرواتے۔
اس وقت پوری دنیا میں خواتین کے موجودہ حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ اپنی تقدیر بدلنے کیلئے انقلابی جدوجہد کریں جس میں خواتین کے ساتھ ساتھ تمام مظلوم عوام کو محنت کش طبقے کے ساتھ مل کر اس سرمائے اور منافع خوری کے ظالم نظام اور اسے چلانے والوں کے خلاف انقلابی جدوجہد کرنا ہو گی۔
یہ آ ج کی ہر مظلوم عورت کا فرض ہے کہ وہ اس انقلابی جدوجہد کو اپنی بقا اور آ زادی کیلئے شروع کرے اور اس سماجی و معاشی نظام جسے سرمایہ دارانہ نظام کہا جاتا ہے، کو اکھاڑ کر پھینکے اور ایسا نیا نظام بنائے جہاں محنت کش کو انسان سمجھا جائے اور تمام معاشی پیداوار محنت کش طبقے کی اجتمائی ملکیت میں دی جائے۔ امیری اور غریبی کی طبقاتی تفریق کو ختم کیا جائے اور روٹی، کپڑا، مکان اور علاج جیسی بنیادی ضروریات جو ہر شخص کا بنیادی حق ہے وہ اسے دی جائیں اور یہ سب کچھ سوشلسٹ نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ اس لئے تمام محنت کشوں کو مل کر سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ سوشلسٹ نظام کی بنیاد رکھنی ہو گی۔