|تحریر: زینب سید|
عالمی سطح پر ہم تاریخ کے سب سے ہنگامہ خیز دور سے گزر رہے ہیں۔ کرونا وباء اور معاشی بحران کے آپس میں جڑے ہوئے اثرات محنت کشوں کے حالات زندگی کو کچلتے ہوئے نکل رہے ہیں اور روز بہ روز ان کو زمین پر ہی جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں۔یہ صرف ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طور پر بے صلاحیت ہو چکا ہے اور اس کی پروردہ ریاست بربادی سے نمٹنے اور عوام کو کسی بھی قسم کے ریلیف پیکجز دینے میں نااہل ثابت ہوچکی ہے۔ عالمی سرمایہ داری شدید بحران کا شکار ہے اور اس کا اظہار ہمیں ایک کے بعد ایک ملک میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی مزاحمتی جدوجہدوں کی صورت میں نظر آرہا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی محنت کش مرد و خواتین اور طلبہ کے حالات بھی بہتری کی طرف نہیں بڑھ رہے ہیں۔ سرمایہ داری نے محنت کش طبقے (خواتین اور مرد دونوں) کو ظلم و ستم کے سوا کچھ نہیں دیا۔ لیکن اگر ہم خواتین کی بات کرتے ہیں، بالخصوص محنت کش طبقے کی خواتین، تو یہ اس نظام میں دہرے جبر کا شکار ہیں: خواتین محنت کشوں کی اجرت مرد محنت کشوں کے مقابلے کم ہے، ان کے پاس تعلیم کے مواقع کم موجود ہیں، طبی انفراسٹرکچر کی کمی کی وجہ سے بچے کی پیدائش میں ہر منٹ میں غریب خواتین کی موت ہوتی ہے، پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں ہزاروں لڑکیوں کی شادی 15 سال سے کم عمر میں کروادی جاتی ہے۔ جبکہ 18.3 فیصدلڑکیوں کی شادیاں 18 سال سے کم عمر میں ہو جاتی ہیں۔ 28 فیصد خواتین کو 50 سال کی عمر تک ”جسمانی تشدد کا سامنا“ کرنا پڑتا ہے، تقریباً 1 کروڑ 30 لاکھ بچے سکول سے غیر اندراج شدہ ہیں، جن میں سے 60 فیصدلڑکیاں ہیں۔ پاکستان بھر کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو مختلف انداز سے ہراسمنٹ کے گھناؤنے واقعات سے گزرنا پڑتا ہے، کروڑوں خواتین اپنے گھروں میں گھریلو غلامی کا شکار ہیں۔ زخموں کی فہرست اتنی لمبی ہے کہ بیان کرتے کرتے دن راتوں میں بدل جائیں گے۔ تاہم، خواتین، ان سب کے باوجود، محض مظلوم یا بیچاری نہیں ہیں۔ وہ ہر روز بدترین حالات میں بھی اپنے دفاتر، کارخانوں، سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں میں جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہیں۔
پاکستان میں کرونا کی وباء پھیلتے ہی تعلیمی اداروں نے طلبہ کو فیسوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن بھیجے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ انتظامیہ اور ایجوکیشن مافیا اس بات سے باخبر ہیں کہ زیادہ تر سرکاری سیکٹر کی یونیورسٹیوں میں، وہاں پڑھنے والے طلبہ کا بڑا حصہ محنت کش طبقے سے تعلق رکھتا ہے، جن میں سے زیادہ تر لڑکیاں ہیں، جن میں سے 27 فیصد اعلیٰ تعلیم تک پہنچنے میں کامیاب ہوئیں اور اپنے مستقبل کے لیے بہت کچھ داؤ پر لگا دیا۔ اس کے باوجود انتظامیہ اور ریاست نے طلبہ کی ترقی اور معیاری تعلیم کی فراہمی کو نظر انداز کیا اور اپنے منافع کے حصول میں آگے بڑھتے رہے۔ کیمپسز میں طلبہ کے ساتھ مختلف شکلوں میں اور طریقے سے استحصال کیا جاتا ہے۔ ان استحصالوں میں کورس کی تکرار کے نام پر ٹیوشن فیس کے نام پربھاری رقوم، جرمانے، بھاری ”متفرق“ فنڈز، معیاری ٹرانسپورٹ اور ہاسٹل کی سہولیات کا فقدان، طلبہ کی نمائندگی کا حق نہ ہونا اور ہراساں کرنے کے سنگین واقعات شامل ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں تعلیمی نظام ایک بازار بن چکا ہے، جہاں طلبہ اپنی ڈگریاں خریدنے آتے ہیں، اور تعلیمی ادارے جیل کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ یہاں طلبہ کو روبوٹ بننے پر مجبور کیا جاتا ہے، ان کی تعلیمی ضروریات اور حقوق کو پورا نہیں کیا جاتا، اور ساتھ ہی ہراسمنٹ جیسی وحشت موجود ہے جس سے طالبات کو باقاعدگی سے گزرنا پڑتا ہے۔ انتظامیہ احتساب سے بچنے کے لیے مختلف چالوں میں مصروف رہتی ہے، حتیٰ کہ جعلی کیسز بنائے جاتے ہیں، مختلف ذرائع استعمال کرتے ہوئے طلبہ کے اتحاد کے درمیان تقسیم پیدا کی جاتی ہے، ان کے خلاف تادیبی کارروائی کرنے، یا طلبہ کو ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھانے سے بھی انتظامیہ دباتی ہے۔ بالخصوص جنسی ہراسانی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ آج کل تقریباً ہر تعلیمی ادارہ جنسی ہراسانی کا گڑھ بن چکا ہے۔ رپورٹ کیے جانے والے اور رپورٹ نہ کیے جانے والے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ہراسمنٹ کے خلاف اسمبلیوں میں قانون سازی اور حکومتی سطح پر ادارے بنائے جانے کے باوجود، جنسی ہراسانی کے واقعات میں کوئی بڑی کمی نہیں آئی ہے، جو اس حقیقت کی نشاندہی کرتی ہے کہ ہراسانی کے مسئلے کی مادی بنیاد ہے، جسے محض قوانین سے مکمل طور پر حل نہیں کیا جا سکتا۔
پچھلے کچھ عرصے میں ملک کے مختلف گوشوں کے تعلیمی اداروں میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے مسائل، ہاسٹل کی سہولیات، سیکورٹی اور دیگر مسائل سے متعلق احتجاج کی لہر ابھرتی نظر آئی ہے۔ حال ہی میں نومبر میں، پشاور میں اسلامیہ کالج یونیورسٹی کی طالبات نے ایک عظیم الشان احتجاجی مظاہرہ کیا تھا اور انہیں ہراساں کرنے میں ملوث اساتذہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔ امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال اور تحقیقی پراجیکٹس کی آڑ میں اساتذہ نے انہیں ہراساں کیا تھا۔ انتظامیہ نے اس معاملے پر توجہ دینے کے بجائے قابل اعتراض ریمارکس دیئے اور کیمپس میں ان طالبات کا راستہ بھی روک دیا تھا۔ یہاں تک کہ جب بنیادی سہولیات کی کمی سے متعلق مسائل کو حل کرنے کے لیے احتجاج کا اہتمام کیا جاتا ہے، ہراساں کرنا انتظامیہ کی طرف سے طالب علموں کو ڈرانے یا دبانے کے لیے استعمال کیا جانے والا حربہ ہے، تاکہ وہ اپنی ساکھ اور مفادات کو بچا سکے۔ کچھ ایسا ہی ہم نے کوئٹہ میں سردار بہادر خان (SBK) ویمن یونیورسٹی کی طالبات کی بڑی تعداد کے انتہائی سرد موسم میں اپنے ہاسٹلز میں گیس کی عدم فراہمی کے خلاف منعقدہ احتجاج میں دیکھا۔ وہ وائس چانسلر کے دفتر کے باہر جمع ہوئیں اور ہاسٹل میں بنیادی سہولیات فراہم کرنے میں ناکامی پر انتظامیہ کے خلاف نعرے بازی کی۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کیمپس کے اندر داخلے کے تمام دروازے بند کر دیے، طالبات کو اندر سے بند کر دیا اور احتجاج ختم کرنے کی کوشش میں انہیں ہراساں کیا۔ میڈیا یا باہر کے لوگوں کو بھی اندر جانے اور احتجاج کو کوریج دینے کی اجازت نہیں تھی۔ اسی طرح 2019ء میں بلوچستان یونیورسٹی میں ایک اور مبینہ جنسی ہراسانی کا سکینڈل سامنے آیا تھا۔ طالبات کو ان کی ”قابل اعتراض“ ویڈیوز کے ذریعے بلیک میل کیا جاتا تھا۔ یہ ویڈیوز کم از کم چھ کیمروں کے ذریعے ریکارڈ کی گئیں جو یونیورسٹی کے کوئٹہ کیمپس میں خفیہ طور پر نصب کیے گئے تھے۔ کیمپس کے کچھ واش رومز اور تمباکو نوشی والے علاقوں میں کیمرے نصب کیے گئے تھے اور وہاں سے آنے والے ویڈیو کلپس کو یونیورسٹی کی انتظامیہ کے کچھ اہلکاروں نے طالب علموں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بلیک میل کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ بڑی تعداد میں طلبہ نے عملے کی طرف سے طالبات کو جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور حکام پر سخت ایکشن لینے کے لیے دباؤ ڈالنے کے لیے مارچ بھی کیا۔ جہاں یونیورسٹی کے احاطے طالب علموں کے لیے شکاریوں کی پرواہ کیے بغیر سیکھنے اور پرورش پانے کے لیے محفوظ جگہ تصور کیے جاتے ہیں، وہاں انتظامیہ کے اہلکاروں کی طرف سے دھمکیاں اور زبردستی گھناؤنا کام کرنا طالبات کے لیے معمول بن چکا ہے۔ پاکستان میں خواتین کی تعلیم کی صورتحال پہلے ہی سنگین ہے، تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے واقعات ان کے سکول چھوڑنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔ بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی کمی اور ناقص انفراسٹرکچر کی وجہ سے خواتین کے لیے تعلیم کی سہولیات پہلے ہی انتہائی کم ہیں۔ بہت کم سکول، کالج اور یونیورسٹیاں ہونے کی وجہ سے اکثر لڑکیاں سکول نہیں جا پاتیں۔ ایک سرمایہ دارانہ معاشرے میں روایتی طور پر خواتین کو سستی مزدوری اور گھریلو کام اور خاندان کی دیکھ بھال کا بوجھ اٹھانے والی نوکرانی سمجھا جاتا ہے، تاکہ مرد بغیر کسی رکاوٹ کے باہر سرمایہ دار کے لیے فرائض سرانجام دے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بلوچستان یونیورسٹی میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے سکینڈل سامنے آئے تو اس کے رد عمل کے طور پر ہم نے یونیورسٹی سے بہت سی طالبات کو زبردستی ڈراپ آؤٹ ہوتے دیکھا۔ ہراسانی کے ان سنگین واقعات نے یہ بھی ظاہر کر دیا ہے کہ تعلیمی ادارے طالبات کے لیے کس قدر غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ یونیورسٹی انتظامیہ معاملے کی صحیح تحقیقات کرنے اور مجرموں کو سزا دینے کے بجائے بس طلبہ پر ڈریس کوڈ نافذ کر دیتی ہے۔ اس سے زیادہ مایوس کن بات یہ ہے کہ انتظامیہ کی طرف سے اس معاملے کی تحقیقات کے لیے کی جانے والی نام نہاد کارروائی بس یہ ہے۔ دلچسپ یہ ہے کہ ان معاملات میں کمیٹی میں طلبہ کے نمائندے سرے سے شامل نہیں ہوتے۔
اس کے علاوہ کراچی کی آئی بی اے یونیورسٹی میں ایک طالب علم نے ایک ایسا واقعہ دیکھا، جہاں فنانس ڈیپارٹمنٹ کی ایک خاتون ملازم ایک مرد سپروائزر کے ہاتھوں ہراس ہورہی تھی۔ جب طالب علم نے اس واقعے کا پردہ فاش کیا تو انتظامیہ نے اس کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی اور فیس بک پوسٹ کو ہٹانے، ساتھ ہی ساتھ ادارے اور ایک فرد کو بدنام کرنے پر عوامی معافی مانگنے پر مجبور کیا ورنہ ادارے سے بے دخل کرنے کی دھمکی دی۔ لیکن اس کے ردعمل میں طلبہ کی جانب سے شدید مزاحمتی احتجاج ہوا ااور طلبہ نے ہراساں کرنے کے واقعات اور انتظامیہ کے سخت اصول و ضوابط پر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ کچھ سال پہلے کراچی میں منظر عام پر آیا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس کا نتیجہ دل دہلا دینے والا تھا۔ نادیہ اشرف جامعہ کراچی کے ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولر میڈیسن اینڈ ریسرچ میں ڈاکٹریٹ کی طالبہ تھیں، لیکن وہ گزشتہ 15 سالوں میں پی ایچ ڈی مکمل نہیں کر پا رہی تھیں کیونکہ انہیں ان کے تھیسس سپروائزر کی جانب سے ہراساں کیا جا رہا تھا۔ سپروائزر کے ہاتھوں اسے مسلسل ہراساں کرنا اور برسوں کی محنت کے بعد پی ایچ ڈی کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے اس نے خودکشی کرلی۔ نادیہ اشرف کی خودکشی طلبہ کے حقوق کی علمبردار ہونے کا دعویٰ کرنے والی انتظامیہ کے لیے سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ یہاں صرف ایک نادیہ نہیں ہے، بلکہ بہت سی نادیہ بننے والی ہیں۔ تاہم، جنسی ہراسانی اور غنڈہ گردی کے مسائل معاشرے میں الگ تھلگ کیسز یا غیر متعلقہ واقعات نہیں ہیں۔ پاکستان میں خواتین کا جنسی طور پر ہراساں ہونا اور تشدد کسی نیوز چینل کی روزمرہ کی ہیڈ لائن بن گیا ہے، بلکہ ان واقعات میں مزید شدت آتی چلی جارہی ہے۔ یہ نظام خواتین اور نوجوان لڑکیوں کو اس طرح کے تشدد سے حکمرانوں کی اپنی بنائی ہوئی عدالتوں اور پولیس فورسز کے باوجود محفوظ رکھنے اور انصاف دلوانے میں بھی ناکام ثابت ہوا ہے۔ کچھ معاملات میں، نظام انہیں ان مسائل پر بولنے پر سزا بھی سنا دیتا ہے۔ کچھ جامعات میں طالبات کو حکومت کے زیر انتظام ہاسٹلز کی کمی اور پرائیویٹ رہائش کے اونچے نرخوں کی وجہ سے رہائش کے شدید مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے، جن میں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنسی طور پر ہراساں کرنے کے علاوہ، طالبات پر کرفیو لگانے کی ذلت آمیز پالیسی بھی موجود ہے جو انہیں بنیادی یونیورسٹی اور سماجی وسائل تک رسائی سے روکتی ہے، ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے، اور ان کی خودمختاری اور نقل و حرکت سے براہ راست متصادم ہے۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے خواتین معاشرے کا حصہ ہیں ہی نہیں اور چنانچہ وہ باہر نکلیں تو یہ واقعات ان کے لیے سزا ہوں۔
موجودہ نظام میں خواتین کو تو ویسے ہی کم تراور کمزور سمجھا جانا ٹھیک مانا جاتا ہے، اور خواتین کے استحصال کو مرد کا حق بنا دیا گیا ہے، لیکن اگر ہم خواتین کے خلاف ہونے والے ایک ایک جرم اور جبر کی جڑ تک جا کر دیکھیں، تو ہمیں معلوم ہوگا کہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے۔ مسئلہ طاقت اور اختیار کا بھی ہے۔ موجودہ نظام میں طلباء و طالبات کو مکمل طور پر بے اختیار کر دیا گیا ہے، اور ان کو اسی طرح بے اختیار رکھنے کے لیے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں، جبکہ انتظامیہ اور پروفیسر حضرات خدا بن گئے ہیں۔ امتحانات کی چیکنگ، اٹینڈنس، تھیسسز کی منظوری سمیت کسی بھی تعلیمی کام میں طلبہ کے پاس سرے سے کوئی اختیار ہی نہیں کہ وہ انتظامیہ یا اساتذہ کا احتساب کر سکیں۔ یہ وہ بنیادی عنصر ہے جو ہراسمنٹ جیسی غلاظت کے لیے راہ ہموار کرتا ہے۔ استاد کو پتہ ہے وہ جیسے چاہے، جب چاہے کسی بھی طالبہ کو پاس یا فیل کرنے کے چکر میں، کبھی اس کا تھیسز منظور کرنے کے حوالے سے اور کبھی تو اس کی پوری ڈگری داؤپر لگا کر اسے بلیک میل کر سکتا ہے۔ طالبات، جو انتہائی مشکل حالات سے گزر کر یونیورسٹی لیول تک پہنچی ہوتی ہیں، وہ اپنی ڈگری ضائع ہونا افورڈ نہیں کر سکتیں اور انہیں ہراسمنٹ جیسی لعنت پر خاموش رہنا پڑتا ہے۔ تعلیمی اداروں میں ہراساں کرنے کے کیسز میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کیسز بڑھنے کی وجہ طلبہ یونین یا طلبہ پر مبنی منتخب اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیوں کا نہ ہونا ہے۔ طالبات جنسی طور پر ہراساں کیے جانے کے ان واقعات کی رپورٹنگ کرنے سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں، یا انہیں رپورٹ نہ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں میں موجودہ انسداد ہراسانی کمیٹیاں محض کمیٹیوں کے نام پر ٹھپا ہیں۔ درحقیقت وہ پیسہ کمانے کی مشینیں بن چکی ہیں، یا انہی ہراساں کرنے والوں، ہراساں کرنے والوں کے ساتھیوں، یا انتظامیہ کے اپنے اہلکاروں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اور یونیورسٹی انتظامیہ ہراساں کیے جانے کی اطلاع دینے والے طالب علم کو شکست دینے کے لیے ہر طرح کا حربہ استعمال کرتی ہے، اور آخر میں ان طالبات پر لگائے گئے تمام الزامات کو درست ثابت کر کے سب طلبہ کو یہ سبق سکھایا جائے کہ دوبارہ اگر کسی نے یونیورسٹی انتظامیہ کی عیش و آرام اور شہرت پر انگلی اٹھائی تو اس کا یہی حشر ہوگا۔
ہم سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں میں ہراسانی کے خلاف قانون سازی ہونی چاہیے اور تمام مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جانی چاہیے۔ ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو بے آواز کردیا گیا ہے اور تمام انتظامی امور سے ان کی نمائندگی کو ختم کیا گیا ہے، بالخصوص جنسی ہراسانی کے واقعات میں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سکول، کالج اور یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے جدوجہد کرنے کے لیے طلبہ کو متحرک اور منظم کرنا ہوگا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ طلبہ یونین کوفی الفور بحال کرنا چاہیے اور ہر تعلیمی ادارے میں یونین کے انتخابات فوری طور پرکروائے جائیں۔ طلبہ کے ہر قسم کے مسائل تب تک برقرار رہیں گے جب تک طلبہ کو نمائندگی نہیں دی جاتی۔ طلبہ یونین کے ساتھ ساتھ یونین اور کمیٹیوں میں مزید طالبات کی شمولیت کی جائے۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ کے مطالبات پورے کرنے، ان کے کسی بھی قسم کا مسئلہ مکمل حل کرنے یا استحصال کاپہیہ روک لینے پر خود راضی نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک طلبہ یونین کو بحال نہیں کیا جاتا اور طلبہ پر مبنی منتخب اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل نہیں دی جاتیں، جہاں طالبات کو ہر صورت میں معائنہ کرنے کا اختیار دیا جائے گا، جب تک طلبہ کو ان کے حقوق واپس نہیں کیے جاتے، جب تک ان کا پلیٹ فارم ان کو نہیں دیا جاتا، اس وقت تک انتظامیہ کی طرف سے ہراساں کرنے کے خلاف کسی بھی نام نہاد کارروائی کو صرف دھوکہ ہی سمجھا جائے گا۔
ایک لمبے عرصے تک طلبہ کو سیاست سے دور رکھا گیا ہے اور انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ طلبہ یونین کی تاریخ دیکھی جائے تو ان کا کردار صرف تعلیمی اداروں تک محدود نہیں تھا بلکہ اداروں کے اندر ملکی اور عالمی صورتحال پر بھی بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ طلبہ مزدور تحریک کے ساتھ جڑت بنانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیشہ آگے بڑھ کر مزدوروں کی جدوجہد کا حصہ بنتے تھے اور سرمایہ دار کے استحصال کے خاتمے کی آواز بلند کرتے تھے۔ اس وقت حکومت کے خلاف اپوزیشن کی پارٹیوں سے زیادہ طلبہ یونینز متحرک ہوا کرتی تھیں۔ پاکستان کے 1968-69ء کے انقلاب میں بھی طلبہ کا کلیدی کردار تھا بلکہ اس انقلابی تحریک کا آغاز بھی طلبہ تحریک سے ہوا تھا جس میں بعد میں محنت کش شامل ہوئے اور ایوب آمریت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس سب کی وجہ طلبہ کی وسیع پرتوں میں مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات کی موجودگی تھی۔ جنسی ہراسانی کے مسئلے کو مجموعی طور پر سماج سے کاٹ کر نہیں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ نجی ملکیت پر مبنی طبقاتی نظام ہی ہے جو عورت کو انسان کے بجائے ایک ”شے“ بنا دیتا ہے۔ سرمایہ داری پدر شاہی کی آخری کڑی ہے اور سرمایہ داری کے خاتمے کے بغیر عورت پر ہونے والے استحصال کا خاتمہ نا ممکن ہے۔ ملکیت کی نفسیات کے خاتمے کے بغیر عورت کی آزادی ناممکن ہے۔ یہ وہ بحثیں ہیں جو تعلیمی اداروں میں لمبے عرصے سے ناپید ہیں۔ اور اسی سے دور رکھنے کے لیے حکمران طبقہ طلبہ کو سیاست سے دور رکھنا چاہتا ہے۔ کیونکہ ہر مسئلے کی جڑ حتمی تجزیے میں ان حکمرانوں کا منافع پہ مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہی ہے۔ اگر طلبہ اس جڑ تک پہنچ گئے تو پھر ان کی حکمرانی کے دن ختم ہو جائیں گے۔ لیکن اگر طلبہ درست نظریات کے گرد ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو کر جدوجہد کریں تو نہ صرف جنسی ہراسانی سمیت تعلیمی اداروں میں موجود دیگر مسائل کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ بڑی سطح پر سماج کو تمام تر غلاظتوں اور جبر سے پاک کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے ایک عورت پر ہونے والا جبر اور استحصال بھی ہے۔ طبقات سے پاک ایک سوشلسٹ معاشرے میں ہی عورت آزاد ہو سکتی ہے۔ ایسے معاشرے کے قیام کی جدوجہد ہی آج نوجوان مرد و خواتین کا اولین فریضہ ہے۔