|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|
سپریم کورٹ نے 2010ء کے برطرف ملازمین بحالی ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک بھر کے مختلف وفاقی اداروں میں 16000 ملازمین کو برطرف کیا جا رہا ہے۔ برطرف ہونے والے ملازمین میں سوئی ناردرن گیس کمپنی کے 519 ملازمین بھی شامل ہیں۔
اس کے خلاف 31 اگست 2021ء بروز سوموار لاہور پریس کلب کے سامنے سوئی ناردرن گیس کمپنی کے ملازمین کی کال پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں مختلف محکمے، جن میں پی آئی اے، سٹیٹ لائف انشورنس اور دیگر بھی شامل تھے، کے ملازمین نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ احتجاجی مظاہرے میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان نے بھی شرکت کی۔
مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہم میں سے کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ ان محکموں میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہوئے گزارا ہے۔ اب ہمیں نوکری سے برطرف کیا جا رہا ہے جو سراسر ظلم اور نا انصافی ہے۔ 16000 ملازمین کو برطرف کرنے کا مطلب ہے کہ 16000 خاندانوں کا رزق چھینا جا رہا ہے اور انہیں غربت کی کھائی میں پھینکا جا رہا ہے۔ تبدیلی سرکار نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھا، اوراب اس کے برعکس حکومت میں آنے کے بعد تبدیلی سرکار نہ جانے کتنے لوگوں کا روزگار چھین چکی ہے۔ پاکستان سٹیل ملز کے 5000 ملازمین کو راتوں رات نوکری سے نکال دیا گیا اور مزید لوگوں کو برطرف کرنے کا منصوبہ تیار ہے۔ اسی طرح پاکستان ریلوے میں بڑی تعداد میں برطرفیاں کی جا رہی ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں کام کرنے والے محنت کشوں کا روزگار محفوظ نہیں ہے اور یہاں کے حکمران آئی ایم ایف کی دلالی اور اپنی عیاشیوں کو بچانے کیلئے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ اس فیصلے کی شدید مذمت کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ 2010ء کے ایکٹ کو فوری طور پر بحال کرتے ہوئے برطرفیوں کے فیصلے کو واپس لیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ آئی ایم ایف کی ایماء پر حکومت کی نجکاری کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ محنت کشوں کے اداروں کو آئی ایم ایف کے احکامات پر کوڑیوں کے داموں بیچا جا رہا ہے۔ محنت کشوں کے روزگار کے عوض حکومتی قرضے ادا کیے جائیں گے اور اوپر بیٹھے لوگ اپنی جیبیں بھریں گے۔ اس فیصلے نے عدلیہ کے مزدور دشمن کردار کو بھی بالکل واضح کردیا ہے، اس سے پہلے بھی یہ عدالتیں محنت کشوں کی تحریکوں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے کام آتی رہی ہیں، لیکن اس دفعہ کھل کر اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے، اب محنت کشوں کو ان تمام مزدور دشمن ریاستی اداروں کے جھانسے میں نہیں آنا چاہئیے۔
سوئی ناردرن گیس کمپنی ایمپلائز یونین کے قائدین فی الحال پیپلز پارٹی کو نجات دہندہ قرار دے رہے ہیں، اور ان کا کہنا ہے کہ بلاول ان کی آواز بنے گا۔ یہاں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیئے کہ نجکاری کی پالیسی پر تمام سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہیں، جس میں پیپلز پارٹی سر فہرست ہے۔ پیپلز پارٹی نے پاکستان میں نجکاری کے عمل کا آغاز کیا تھا اور مسلسل اس عمل کو دوام دینے میں ہر حکومت کے شانہ بشانہ رہی ہے۔ ہمیں 2016ء میں پی آئی اے کی نجکاری مخالف تحریک میں محنت کشوں پر پیپلز پارٹی کی حکومت کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں دو محنت کشوں کی شہادتوں کو بھی ہرگز نہیں بھولنا چاہیئے۔
ہمیں مزید یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ تمام ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے تحفظ کے لئے کام کر رہی ہیں۔ محنت کشوں کے مفادات حکمران طبقے سے تصادم میں ہیں، مگر دوسری طرف پورے ملک کے محنت کشوں کے مفادات آپس میں مشترکہ ہیں، لہٰذا، ان مشترکہ مفادات کے حصول کیلئے تمام سرکاری و نجی اداروں و فیکٹریوں کے محنت کشوں کو ملک گیر اتحاد قائم کرکے ایک ملک گیر جدوجہد کا آغاز کرنا ہوگا۔ اس ملک گیر جدوجہد میں ایک ملک گیر عام ہڑتال ایسا اقدام ہوگا جو حکمران طبقے کو نجکاری سمیت تمام تر مزدور دشمن اقدامات اٹھانے سے وقتی طور پر پیچھے ہٹنے پر مجبور کرے گا، جبکہ دوسری طرف محنت کشوں کو نا صرف حوصلہ دے گا بلکہ ملک گیر سطح پر منظم بھی کرے گا۔ اسی اتحاد اور حوصلے کی بنیاد پر پھر محنت کش سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے حتمی لڑائی کا آغاز کریں گے۔ صرف اور صرف سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کی صورت میں ہی نجکاری سمیت تمام تر مزدور دشمن قوانین و اقدامات کا ہمیشہ ہمیشہ کیلئے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ محنت کشوں کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ موجود ہے اور مستقبل میں بھی شانہ بشانہ موجود رہنے کا عہد کرتا ہے۔