|تحریر: راشد خالد|
فرانس کے شہر پیرس میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کے حالیہ اجلاس (18تا23فروری) میں پاکستان کو منی لانڈرنگ اور دہشت گرد گروہوں کی مالی امداد کرنے والے ممالک کی فہرست میں شامل کرتے ہوئے واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔اس پر عملدرآمد کا آغاز تین ماہ بعد جون سے ہو گا۔ یہ فیصلہ امریکہ کی طرف سے ایک درخواست پر کیا گیا جسے برطانیہ، فرانس اور جرمنی کی حمایت حاصل تھی۔ امریکہ کی اس کاروائی کے فوری بعد ہی پاکستانی ریاست کا ناطقہ بند ہو چکا تھا اور مختلف ریاستی اور حکومتی اہلکاروں کی FATFکے رکن ممالک کے دوروں کی دوڑیں لگ گئی تھیں لیکن کہیں سے بھی پاکستان کو کوئی خاطر خواہ حمایت نہیں مل سکی۔ اجلاس کے آغاز پرہی پاکستان کے وزیر خارجہ نے روس کا ہنگامی دورہ بھی کیا۔ اسی دورے کے دوران 21فروری کو پاکستان کے وزیرخارجہ خواجہ آصف نے ٹویٹ کے ذریعے یہ پیغام دیا تھا کہ ہماری کوششیں رنگ لے آئی ہیں اور پاکستان کو دہشت گرد گروہوں کی مالی امداد کرنے کے حوالے سے واچ لسٹ میں شامل کرنے کے حوالے سے تین ماہ کی مہلت دے دی گئی ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کے مطابق واچ لسٹ میں شامل کرنے کے حوالے سے فیصلے کی مخالفت میٹنگ کے آغاز پر چین، سعودی عرب اور ترکی کر رہے تھے۔ لیکن امریکی ذرائع نے اس بیان کے بعد ردعمل میں وضاحت کی تھی کہ ابھی اس کے حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ بعد ازاں اجلاس کے آخری دن امریکہ اس پر دوبارہ ووٹنگ کروانے پر کامیاب ہوا اور چین اور سعودی عرب نے بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی حمایت واپس لے لی۔ امریکی پاکستان سے اقوام متحدہ کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی تنظیموں اور افراد جیسا کہ حقانی نیٹ ورک، حافظ سعید، جیش محمد، لشکر طیبہ اور جماعت الدعوۃ وغیرہ کے خلاف سخت کاروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جون میں ہونے والے اجلاس میں پاکستان کو ان دہشت گرد تنظیموں کے حوالے سے اپنا پلان آف ایکشن دینا ہو گا اور اگر پاکستان اس پلان آف ایکشن پر FATFکے ارکان کو مطمئن نہیں کر پاتا تو پاکستان کو ’بلیک لسٹ‘ کیا جا سکتا ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل FATFکی طرف سے صرف دو ممالک، شمالی کوریا اور ایران، ہی بلیک لسٹ کئے گئے ہیں۔
اس خبر کے منظر عام پر آتے ہی پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں تیز ترین گراوٹ دیکھنے میں آئی اور فوری طور پر 500پوائنٹس نیچے گر گئی۔ اس سے اس فیصلے کے مستقبل میں پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات کی ایک جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ اس سے قبل ستمبر2017ء میں حبیب بینک آف پاکستان کی نیویارک میں کام کرنے والی برانچ کو امریکہ کے ڈیپارٹمنٹ آف فنانشل سروسز نے منی لانڈرنگ اور دیگر خلاف ورزیوں پر 225ملین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس برانچ کا بینکنگ لائسنس بھی کینسل کر دیا گیا تھا۔ اس وقت منظر عام پر آنے والی خبروں میں یہ خبر بھی اہم تھی کے حبیب بینک کے ذریعے ناصرف کالے دھن کو سفید کیا جا رہا ہے بلکہ حبیب بینک کی یہ برانچ دہشت گرد تنظیموں کے لئے رقوم کی منتقلی میں بھی ملوث ہے۔
پاکستانی ریاست کی بنیاد پرست دہشت گرد گروہوں سے متعلق پالیسی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں اور یہ پالیسی آغاز میں امریکی سامراج کے ساتھ مل کر ہی تیار کی گئی تھی ۔ لیکن پھر امریکہ نے اپنے سامراجی مقاصد کے لیے دہشت گردی کیخلاف جنگ شروع کر دی جس میں پھر پاکستان امریکہ کا اہم اتحادی بن گیا۔2001ء سے جاری اس جنگ کے دوران امریکی سامراج مسلسل کمزور ہوتا رہا اور خاص طور پر 2008ء کے مالیاتی بحران نے اس کو بڑے بحرانوں میں دھکیل دیا۔ اس تمام شکست و ریخت کے باعث جہاں عالمی منظر نامہ اور خطے کی صورتحال مکمل طور پر تبدیل ہو گئی وہاں یہ دونوں اتحادی بھی ایک دوسرے کے مدمقابل آ گئے۔ آج امریکہ پاکستان پر دوغلی پالیسی، دھوکہ بازی اور فراڈ کے الزام لگا کر اس کی تمام تر امداد بند کر رہا ہے اور اس پر پابندیاں عائد کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان امریکی سامراج کے تلوے بھی چاٹ رہا ہے اور چین اورروس کی گود میں زیادہ جگہ حاصل کرنے کی کوشش بھی کر رہا ہے۔
FATFکی واچ لسٹ میں شامل کرنے کی درخواست کی خبر منظر عام پر آتے ہی پاکستان کے حکومتی ایوانوں میں شدید بے چینی دیکھنے میں آئی۔ پاکستان کو واچ لسٹ میں شامل کیے جانے سے پاکستانی ریاست جس کی معاشی اساس ہی بیرونی قرضے ہیں، اسے عالمی مالیاتی اداروں اور بینکوں سے شدید مالیاتی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں، فرمیں، مالیاتی ادارے اوربینک پاکستان میں موجود اپنے کاروباری سیٹ اپ کو بند بھی کر سکتے ہیں۔ صرف سٹینڈرڈ چارٹرڈ بینک کی ملک میں 116برانچیں ہیں۔ایسی کیفیت میں اس ریاست کے معاشی بحران کا مزید شدت اختیار کر جانا بعید از امکان نہیں۔ گو کہ پاکستان کو جون میں دہشت گرد تنظیموں کے خلاف اپنے نئے لائحہ عمل کے ساتھ FATFکے اجلاس میں بلایا جا رہا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ تب تک عالمی اداروں کی جانب سے پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد نہیں کی جائیں گی مگر اس سے خطرات وقتی طور پر ٹل تو سکتے ہیں، ختم نہیں ہوں گے۔ تین ماہ کا مختصر وقت اس ریاست کی نس نس میں سرایت کر چکی اس کی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کے لئے ناکافی ہو گا۔ دوسری طرف امریکہ بار بار پاکستان کو دہشت گرد تنظیموں اور افراد کے خلاف اقدامات کا مطالبہ کر رہا ہے ۔اگر امریکہ کی ناراضگی شدت اختیار کرتی ہے تو جہاں آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج ملنا دشوار ہو جائے گا وہاں FATFکی گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں شامل کرنے کی دھمکی بھی موجود ہے۔گو کہ پاکستان اس سے قبل 2012ء تا 2015ء تین سال تک FATFکی گرے لسٹ پر رہا ہے لیکن تب مسئلہ صرف منی لانڈرنگ کا تھا اور پاکستان پر معاشی پابندیاں عائد نہیں کی گئی تھیں۔
دوسری جانب پاکستان کے لیے امریکی احکامات پر عملدرآمد بھی آسان نہیں۔ پاکستانی ریاست کے لئے دہشت گرد افراد اور ایسی تنظیمیں ایک طویل وقت سے اسٹرٹیجک اثاثوں کی حیثیت رکھتی ہیں اور پاکستانی ریاست انہیں اپنی بقا اور سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے اہم عنصر تصور کرتی ہے۔ ایسے میں پاکستان کی طرف سے ان کے خلاف سنجیدہ کوشش ریاست کی بنیادوں کو ہلا ئے گی۔ اور جب سے امریکی آقا نے آنکھیں دکھانا شروع کی ہیں، پاکستان نے اپنے لیے دیگر آقا تلاش کرنا شروع کر دیئے ہیں، جن میں سے ایک تو چین پہلے سے ہی موجود تھا لیکن پچھلے کچھ وقت سے پاکستان روس کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی بھی سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے۔
عالمی سطح پر تیزی سے تبدیل ہوتی صورتحال میں امریکہ اور اس کے حواریوں کی معاشی اور سامراجی حیثیت میں کمی آئی ہے اور بالخصوص امریکہ کی سامراجی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے اس کے باوجود پاکستان جیسے ملک کے لیے مکمل طور پر امریکی کیمپ سے نکل کر چینی رحم و کرم پر منتقلی کوئی آسان عمل نظر نہیں آ رہا۔ اس کے علاوہ ابھی تک دونوں سامراجی طاقتوں میں کوئی واضح لکیر بھی موجود نہیں جس میں ایک سامراجی طاقت کے حمایتی دوسری طاقت سے تعلقات نہ رکھ سکیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ امریکہ اور چین کے تضادات شدت اختیار کر رہے ہیں۔ پاکستانی ریاست کے ایک دھڑے کی شدید کوشش ہے کہ اپنے آپ کو چینی آقا کے سپرد کر دیا جائے اور امریکی پالیسیوں کی وجہ سے انہیں ریاست کو چین کی طرف دھکیلنے کے مواقع بھی میسر ہیں لیکن اس کے باوجود ریاست میں موجود دیگر دھڑے امریکی سامراج کی ہی غلامی کو جاری رکھنا چاہتے ہیں۔ FATFکے اجلاس میں چین پاکستان کو امریکی غیض و غضب سے نہیں بچا پایا جو ایک طرف چین کی نسبتاً کمزور حیثیت کو واضح کرتا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے چین سے انتہائی بڑے مطالبات اور توقعات کو واضح کرتا ہے جو چین کے لیے پورا کرنا بھی ممکن نہیں۔ایسے میں ریاست کے مختلف دھڑوں میں لڑائی شدت اختیار کرے گی۔
یہ عمل اور دھڑے بندی کی شدید ہوتی لڑائیاں سیاسی منظر نامے پر بھی ایک دوسرے سے نبردآزما نظر آتی ہیں۔ یہ عمل نون لیگ اور فوج کے ایک دھڑے کی لڑائی میں کھل کر اپنا اظہار کر رہا ہے اور یہ لڑائی فوج اور پارلیمنٹ سے آگے نکل کر ریاست کے دیگر حصوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ہر دھڑے کے اندر بھی مختلف دھڑے ہیں جیسا کہ نون لیگ کی داخلی لڑائی میں واضح ہے۔ یہی حالت دیگر تمام دھڑوں کی ہے جو بحران کی شدت کی غمازی کرتے ہیں۔ یہ تضادات جس حد تک گھمبیر ہو چکے ہیں ان کا کوئی قابل عمل حل اب اس ریاست کے پاس موجود نہیں اور یہ ریاست کو تیزی سے کمزور کرتے ہوئے اس کو انہدام کی جانب لے کر جائے گا۔
ایسے میں سماجی سطح پر تیز ترین تبدیلیاں بھی نظر آتی ہیں۔ پاکستانی حکمران طبقہ ایک طویل وقت سے اپنے معاملات چلانے کے لئے ایک ہی طریقہ کار اختیار کئے ہوئے ہے اور ریاست کو چلانے اور عوام کو کسی قسم کی سہولت فراہم کرنے میں اپنی نااہلیوں کو چھپانے کے لئے جو طرز عمل اختیار کیا جاتا رہا ہے اب وہ اپنی انتہاؤں کو چھو چکا ہے۔ ایک طویل وقت سے پاکستانی ریاست نے پاکستانی عوام پر دہشت گردی کا خوف مسلط کیے رکھا ہے تاکہ عوام بیروزگاری، مہنگائی اور دیگر حملوں کیخلاف آواز نہ بلند کر سکیں۔مگر اب دہشت گردی کے واقعات پاکستانی عوام میں خوف پھیلانے کی بجائے اس ریاست کی کارکردگی اور اس کے کردار کے حوالے سے سوالات کو جنم دینا شروع ہو گئے ہیں اور اب عوام کسی بھی دہشت گردی کے واقعے کے بعد کھلے عام سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر بات کرنا شروع کر دیتے ہیں اور احتجاجوں کا سلسلہ دہشت گرد حملوں کے باوجود جاری رہتا ہے۔ اسی پالیسی کے تسلسل میں یہ ریاست ایک طویل وقت سے عوام میں موجود بے چینی کو دبانے کے لئے مذہبی فرقہ واریت کو بھی استعمال کرتی رہی ہے لیکن یہ عمل بھی اب مذاق بن چکا ہے بالخصوص فیض آباد دھرنے کے بعد عوام نے ان مذہبی ناٹک باز عناصر کے پیچھے ’’نادیدہ‘‘ ہاتھوں کے متعلق کھل کربات کرنا شروع کر دی ہے اور ان ملاؤں کی سنجید ہ گفتگو سماج میں طنز و مزاح اور لطیفوں کا مرکز بن گئی ہے۔ اسی طرح اس ریاست کے اداروں کی کارکردگی بھی مشال خان کے قتل، زینب زیادتی و قتل اور نقیب محسود کے ماورائے عدالت قتل اور اس کے بعد پختون دھرنے کی صورت میں عوام کے سامنے کھل کر عیاں ہو چکی ہے اور ان واقعات پر عوام کا ردعمل اس بات کا اظہار ہے کہ عوام اب ان ہتھکنڈوں کا مزید شکار ہونے سے دوٹوک انکار کر رہے ہیں۔ اسی طرح سوات میں فوجی چیک پوسٹوں پر عوام کے ساتھ ناروا سلوک کیخلاف ردعمل اس بات کا اظہار ہے کہ ریاست کی یہ پالیسیاں اب مزید کارگر ثابت نہیں ہوں گی۔
سماجی سطح پر ہونے والی یہ تبدیلیاں ایسی کیفیت میں ہو رہی ہیں جب کوئی بھی سیاسی پارٹی عوام کے سلگتے مسائل کے حوالے سے کوئی پروگرام دینے سے قاصر ہے۔ سماجی سطح پر یہ تبدیلیاں اپنے ساتھ رائج الوقت تمام سیاسی سیٹ اپ سے بیزاری کا بھی اظہار ہیں۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اس وقت اپنی کوئی سماجی بنیادیں نہیں رکھتی اور اپنے داخلی اور خارجی بحرانوں کی وجہ سے سیاسی منظر نامے پر موجود تمام تر پارٹیاں ناصرف کھوکھلی ہو چکی ہیں بلکہ ٹوٹ کر بکھر رہی ہیں۔
عالمی تعلقات میں دھماکہ خیز تبدیلیوں کے اثرات
عراق اور افغانستان میں ناکامی کا منہ دیکھنے کے بعد مشرق وسطیٰ کے بحران میں امریکی سامراج کی محدودیت نے اپنا کھل کر اظہار کیا۔ مشرقِ وسطیٰ بالخصوص شام میں امریکہ کی سامراجی حدود کے عیاں ہو جانے کے باعث روس اور اس کی حلیف طاقتوں نے اس خلا کو پر کیا اور نہ صرف اس عمل میں عالمی سطح پر ابھر کر سامنے آئیں بلکہ مستحکم بھی ہوئیں۔ اسی طرح چین بھی ایک نئی سامراجی طاقت کے طور پر ابھررہا ہے، جس کے باعث عالمی تعلقات میں دھماکہ خیز تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحادیوں میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی تیز ہوا۔ وفاداریاں تبدیل ہوئیں اور کیمپ بدلے گئے۔ لیکن یہ نئے اتحاد اپنی بنیادوں میں ہی مصنوعی تھے۔ جس کی وجہ سے ان کی طبعی عمر بھی زیادہ طویل نہیں ہو سکتی تھی اور جو باقی ہیں وہ بھی دور رس نہیں ہیں۔ لیکن مشرق وسطیٰ کے بحران میں جہاں امریکہ کی محدودیت کھل کر سامنے آئی وہیں اس کے علاقائی اتحادیوں کو بھی شدید ندامت کا سامنا کرنا پڑا جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔ سعودی عرب کی بنیاد پرست انتہا پسندوں کو پالنے پوسنے کی کی پالیسی نے اسے عراق اور شام میں ذلیل و رسوا کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ اپنی خفت مٹانے کے لئے اس نے یمن پر جو حملہ کیا اس میں بھی سعودی عرب کوئی قابل ذکر نتائج حاصل نہیں کر سکا۔ اسی دوران عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں کمی نے سعودی عرب کی معیشت کو شدید نقصان پہنچایا۔
سعودی عرب کے بحران کے اثرات اس پر انحصار کرنے والی پاکستانی ریاست پر بھی شدید ہیں۔ ایک تو سعودی عرب میں روزگار کے کم ہونے کے باعث پاکستان کو تارکین وطن کی طرف سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور دوسری طرف سعودی ریاست کی طرف سے براہ راست امداد بھی تقریباً بند ہو گئی ہے۔ بالخصوص یمن کی جنگ کے لئے پاکستان سے فوج مانگنے کے مطالبے پر پاکستان کی طرف سے کسی خاطر خواہ جواب کے نہ ملنے کی وجہ سے سعودی پاکستان سے اپنی ناراضگی کا بار بار اظہار کر چکے ہیں۔ گو کہ اس سوال پر پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث میں یہ فیصلہ کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے بحران میں پاکستان کسی فریق کا ساتھ نہیں دے گا اور نہ ہی یمن کی جنگ کے لئے فوج کو سعودی عرب بھیجے گا۔ لیکن حال ہی میں سینیٹ میں وزیر دفاع نے نہ صرف یہ تسلیم کیا ہے کہ پارلیمنٹ کے فیصلے کے برخلاف پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں موجود ہیں بلکہ ان میں اضافے کا فیصلہ بھی سنایا گیا ہے۔ وزیر دفاع کے بیان کے مطابق سعودی عرب میں 1600 پاکستانی فوجی اس وقت تعینات ہیں اور مزید 1ہزار فوجی بھیجے جا رہے ہیں۔اس تعداد میں کتنا سچ ہے اور کتنا جھوٹ یہ بھی وقت آنے پر پتہ چل جائے گا لیکن وزیر دفاع نے یہ نہیں بتایا کہ بھیجے جانے والے فوجیوں کا مسلک کیا ہے۔ کیونکہ سعودی عرب نے مطالبہ کیا تھا کہ صرف سنی فوجی ان کے پاس بھیجیں جائیں۔اگر اس مطالبے کو تسلیم کیا گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ پاکستانی فوج کو مسلک کی بنیاد پر تقسیم کیا جا چکا ہے جو پاکستان کی کمزور ریاست کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔ اس سے قبل پاکستانی ریاست نے سعودی عرب میں اپنے فوجی دستوں کی موجودگی کے حوالے سے ہمیشہ انکار کیا ہے، یہ پہلی بار کسی حکومتی فرد کی جانب سے اس بات کا اعتراف ہے۔ وزیر دفاع کی بتائی گئی تعداد پر شک اس لیے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ایک ایسی کیفیت جب یمن سعودی عرب کے لئے ایک مستقل دردسر بنا ہوا ہے ایسے میں پاکستان کی طرف سے اتنے کم فوجی وہاں بھیجے گئے ہوں۔ یہ فوج ہمیشہ سے ہی اپنے عرب آقاؤں کے لیے کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کرتی رہی ہے اور اس لڑائی میں بھی پاکستانی فوج کا یہی کردار ہے۔
سعودی عرب میں فوج بھیجنے سے گو کہ وقتی طور پر سعودی آقاؤں کو خوش تو کیا جا سکتا ہے اور فوری امداد لی جا سکتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ داخلی اور خارجی سطح پر نئے تضادات کو جنم دے گا۔ بالخصوص یمن میں ایران کے سامراجی مفادات کے خلاف پاکستانی فوج کی مداخلت ایران کی پاکستان میں پراکسیوں کو سرگرم ہونے کا موقع فراہم کرے گی۔ ساتھ ہی ایران کا چاہ بہار کی بندرگاہ کو لیز پر انڈیا کو دینے کا معاہدہ اور انڈیا کا افغانستان میں بڑھتا ہوا سامراجی کردار پاکستان کے لئے نئے مسائل کو جنم دے گا۔ ایسے میں پاکستان کا افغانستان میں کردار مزید کم ہو گا جو پاکستانی ریاست کے افغانستان میں ناصرف مفادات کو ٹھیس پہنچائے گا بلکہ جس دھڑے کے مفادات کو ٹھیس پہنچے گی اس کو مزید انتہا پسندی کی طرف دھکیلے گا۔ پاکستانی ریاست کا بحران پہلے ہی شدید ہے، وہ ہر آنے والے دن کے ساتھ مزید شدت اختیار کرتا جائے گا اور دھڑے بندیوں اور نئی لڑائیوں کے راستے کھلتے جائیں گے۔ اس دوران توازن کے لیے ایران اور ترکی سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہو سکتی کیونکہ ایک طرف تو ایران میں ملا ریاست کیخلاف عوامی تحریکیں ابھر رہی ہیں اور دوسرا امریکہ اور اس کے اتحادی اسرائیل اور سعودی عرب کیخلاف نئے محاذ کھل رہے ہیں۔شام کی دلدل میں ترکی بھی دھنستا چلا جا رہا ہے اور امریکہ سے تعلقات کی بحالی کی قیمت پر اسے روس کی مخالفت مول لینا پڑی ہے۔ایسے میں پاکستان کے لیے مشرق وسطیٰ کی آگ سے بچنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے۔
سی پیک نے پاکستان کو خطے کی سامراجی طاقتوں کا اکھاڑہ بنانے کا کردار ادا کیا ہے اور خود چین کا سامراجی کردار یہاں انتہائی تیزی سے مضبوط ہوا ہے۔19فروری کو فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق چین سی پیک کے تحت منصوبوں کی سیکیورٹی کے لئے بلوچستان میں علیحدگی پسند تنظیموں سے براہ راست مذاکرات کر رہا ہے اور فنانشل ٹائمز نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ عمل گزشتہ پانچ سال سے جاری ہے اور چین کو اس میں کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ پاکستانی ریاست کی طرف سے گو کہ سرکاری سطح پر اس کے حوالے سے کوئی بیان ابھی تک جاری نہیں کیا گیا لیکن کچھ سینیٹرز اور بلوچ قوم پرست علیحدگی پسندوں کے کچھ دھڑے ایسے مذاکرات سے لاعلمی کا اظہار کر رہے ہیں۔ چین ایک طویل وقت تک ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی پالیسی پر کارفرما تھا لیکن گزشتہ کچھ وقت سے ہمیں چین کی اس پالیسی میں تبدیلی نظر آتی ہے۔ اور پاکستان میں اتنے بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کے دوران چین کبھی بھی پاکستان کے سابقہ ریکارڈ سے چشم پوشی نہیں کر سکتا، ایسے میں چین کا براہ راست علیحدگی پسند گروہوں سے مذاکرات کرنا اس بات کا کھلم کھلا اعلان ہے کہ وہ ان معاملات میں پاکستانی ریاست کی گارنٹیوں یا وعدوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھ رہا۔ یہ اس ریاست کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
معاشی زبوں حالی
پاکستان کی معیشت گو کہ ہمیشہ سے ہی نحیف رہی ہے اور ایک طویل وقت سے معیشت کی بہتری کے لئے کوئی پالیسی اختیار کرنے کے متعلق اس ریاست نے سوچنا تک چھوڑ دیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں پر حد سے بڑھے ہوئے انحصار نے اس کے بحران میں ناصرف مزید اضافہ کیا بلکہ اس کو ایک ایسی گنجلک میں دھکیل دیا ہے جہاں یہ عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں پر عمل کریں تو بھی نقصان میں ہیں اور ان پر عمل نہ کریں تو بھی نقصان میں ہیں۔ پاکستانی معیشت ایک ایسی بند گلی میں داخل ہو چکی ہے جس کے پاس بحالی کا کوئی آپشن سرے سے موجود ہی نہیں ۔ پاکستان اس وقت تاریخ کے بدترین کرنٹ اکاؤنٹ اور بجٹ خسارے کا سامنا کر رہا ہے۔ زر مبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہوتی جا رہی ہے۔ اور ان خساروں کو پورا کرنے کے لئے ریاست کے پاس قرضوں پر قرضے لینے کے سوا کوئی آپشن نہیں۔ اور ایسی کیفیت میں جب ریاست کے امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے جا رہے ہیں، آئی ایم ایف مزید قرضے دینے کی حامی نہیں بھر رہا تو ریاست کو کمرشل بینکوں سے قرضے لینے پر انحصار کرنا پڑ رہا جو پاکستان جیسی نحیف معیشت کے لئے زہرقاتل ثابت ہوں گے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق دسمبر 2017ء میں پاکستان کے بیرونی قرضے 89 ارب ڈالر سے بڑھ چکے ہیں۔ اس مالی سال کے پہلے سات ماہ میں پاکستان نے 6.6 ارب ڈالر کے بیرونی قرضے حاصل کئے ہیں۔ جس میں سے 1.6 ارب ڈالر چینی بینکوں سے حاصل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ گزشتہ نومبر میں 2.5 ارب ڈالر سکوک اور یوروبانڈز کے ذریعے حاصل کئے گئے تھے جبکہ ایک بار پھر مزید 1 ارب ڈالر مالیت کے بانڈز مارکیٹ میں فروخت کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ کمرشل بینکوں (کریڈٹ سوئس، سٹینڈرڈ چارٹرڈ، دبئی بینک وغیرہ) سے 1.8 ارب ڈالر حاصل کئے گئے۔ اس کے باوجود پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے اور اتنے قرضے حاصل کرنے کے باوجود پچھلے سات ماہ میں یہ 3.5 ارب ڈالر کی کمی کیساتھ 12.8 ارب ڈالر تک گر گئے ہیں۔ اور سٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا جنوری میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 9.165 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے اور پچھلے مالی سال کی اسی مدت کی نسبت اس میں 48فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ اگر یہی صورت حال رہی تو اس مالی سال میں یہ 15 ارب ڈالر تک ہو گا، جس میں اضافہ بھی متوقع ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ تجارتی خسارہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اسی دورانیے میں 20 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکا ہے۔
حکومت بار بار تجارتی خسارے کی وجہ سی پیک کے لئے درآمد کی جانے والی مشینری اور آلات کو بتا رہی ہے لیکن اس خسارے میں مسلسل ہونے والا اضافہ کوئی اور ہی داستان سنا رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس خسارے کو کم کرنے کا ریاست کے پاس کیا نسخہ ہے؟ دوسری طرف آئی ایم ایف کے شدید دباؤ کے نتیجے میں روپے کی قدر کو کم کیا گیا ہے جس کی وجہ سے افراط زر میں تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں بھی بڑے پیمانے پر اضافہ ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر روپے کی قدر کو کم کرنے کے لئے منڈی کو بلا روک ٹوک کے کام کرنے دیا گیا لیکن اس عمل سے روپے کا اپنی قدر سے بھی نیچے گر جانے کا خدشہ لاحق ہو گیا جس کی وجہ سے سٹیٹ بینک کو منڈی میں مداخلت کرتے ہوئے روپے کو موجودہ سطح پر روکنا پڑا۔ لیکن ابھی بھی کہا جا رہا کہ روپیہ اپنی اصل قدر سے زائد پر ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے فوائد میں بتایا جا رہا ہے کہ اس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا لیکن پہلے ہی مارکیٹ میں شدید مسابقت ہے جس کی بدولت پاکستانی برآمدات میں کمی ہو رہی ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی کے باوجود معیشت کو کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ دوسری طرف بڑھتی ہوئی درآمدات اور اس پر روپے کی گرتی قدر تجارتی خسارے میں مزید بڑے اضافے کا باعث بننے کی طرف جائے گی اور یہ نسخہ کیمیا بھی تجارتی خسارے کے اس بحران کو قابو میں لانے میں کامیاب نہیں ہو پائے گا۔
ریاستی اخراجات کو کم کرنے کے لئے بھی عالمی مالیاتی اداروں کی نجکاری کی پالیسی ہی اختیار کی جا رہی ہے۔ وزیراعظم نے گزشتہ دنوں ایک بار پھر پی آئی اے اور پاکستان سٹیل ملز کی نجکاری کے عمل کا آغاز کرنے کا اجازت نامہ دے دیا ہے۔ لیکن اس سے پہلے کی گئی نجکاری نے معیشت میں کونسی دودھ کی نہریں بہائی ہیں، وہ سب ہمارے سامنے ہیں۔ اور عالمی مالیاتی اداروں کے پاس بھی وہی گھسے پٹے فارمولے ہی ہیں جو باقی ممالک میں حتیٰ کہ یورپ اور امریکہ بھی میں ناکام ہو چکے ہیں۔ نجی سرمائے کی معیشت میں زیادہ سے زیادہ مداخلت نے کس ملک کی معیشت کو مستحکم کیا اس کا بات کا جواب نہ تو ان حکمرانوں کے پاس ہے اور نہ ہی ان کے لئے معاشی پالیسیاں مرتب کرنے والے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس۔ لیکن اس کے باوجود وہ ہر جگہ سرمایہ داروں کی لوٹ مارکے لئے تمام تر ریاستی اثاثہ جات فروخت کرنے کی ہی بات کر رہے ہیں۔ معیشت کی اس زبوں حالی کے ملک کے باقی شعبوں پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ چینی سرمایہ کاروں اور چینی مصنوعات کے لئے منڈی کو کھولنے کی باعث پہلے سے بند ہوتی صنعتوں کی رفتار میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ آنے والے وقتوں میں اس سے بیروزگاری میں تیز ترین اضافہ دیکھنے میں آئے گا، جس سے عوام کی زندگیاں پہلے سے بھی زیادہ کٹھنائیوں سے دوچار ہوتی جائیں گی۔
سماج میں پکتا لاوا
پاکستانی سماج طویل وقت تک بظاہر سکوت اور ہُو کی کیفیت میں رہا ہے۔ بظاہر کوئی بڑی تحریک یا سماجی ردعمل ابھر کر سامنے نہیں آیا اور اگر کوئی تحریک یا ہلچل ہوئی بھی تو وہ بہت مختصر مدت کی تھی یا سماج کے باقی شعبوں اور حصوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ گو کہ اس کی وجہ سے بہت سے دانشور، دائیں بازو کے بھی اور نام نہاد بائیں بازو کے بھی، یہ سمجھنا شروع ہو گئے کہ پاکستانی سماج میں حرکت مفقود ہو چکی ہے اور بہت سے تو محنت کشوں کو بھی بار بار کوسنے دیتے سنائی دیتے تھے۔ لیکن جیسے ہی سماج نے انگڑائی لینا شروع کی ان دانشور حضرات نے اس تبدیلی کو محسوس کرنے سے انکار کر دیا۔ حقیقت سے منہ پھیر لینے سے حقیقت تبدیل نہیں ہو جاتی۔ سماج میں جمود اور بس جمود ہی دیکھنے والوں کو سماج نے خود باور کروانا شروع کر دیا کہ وہ کس کیفیت میں سے گزر رہا ہے۔ اور گزشتہ چند سال میں تحریکوں، احتجاجوں اور ہڑتالوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو گیا۔ ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں، ایک شعبے سے دوسرے شعبے میں، ایک فیکٹری سے دوسری فیکٹری میں۔ یہی نہیں بلکہ ایک طویل وقت سے سیاست سے بیگانہ طلبہ تحریک نے بھی انگڑائی لینا شروع کر دی۔ مختلف تعلیمی اداروں میں مختلف ایشوز پر تحریکیں اور احتجاج جنم لینا شروع ہو گئے۔ حتیٰ کہ تعلیمی اداروں سے باہر نوجوان تعلیمی اداروں میں داخلوں کے طریقہ کار تک پر احتجاجوں پر اتر آئے۔
دوسری طرف ریاست کے ماضی کے طریقہ کار پر عوامی احتجاج جنم لینا شروع ہو گئے۔ پہلے ریاست جب، جہاں، جسے مرضی اٹھا لیتی تھی اور اس پر دہشت گردی یا اسی طرح کے دیگر الزامات لگا دیئے جاتے تھے یا سرے سے اس کے حوالے سے چپ سادھ لی جاتی تھی۔ لیکن اب عوام نے ان جبری گمشدگیوں کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ فاٹا سے غائب کئے گئے سینکڑوں لوگوں کے حوالے سے عوامی ردعمل نے ریاست کو مجبور کر دیا کہ ان لوگوں کو منظرعام پر لایا جائے۔ اسی طرح ریاستی اداروں بالخصوص پولیس کی غنڈہ گردی اور نااہلی پر ایک وقت تک عوام نے چپ سادھ رکھی تھی لیکن قصور میں زینب زیادتی اور قتل کے واقعے کے بعد عوام نے مزید برداشت کرنے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح پولیس کے ماورائے عدالت قتل کی تاریخ کوئی نئی نہیں ہے لیکن نقیب محسود کے قتل پر عوام نے نقیب محسود کو دہشت گرد ماننے سے انکار کر دیا اور عوامی ردعمل اتنا شدید تھا کہ ناصرف ریاست کو ماننا پڑا کہ نقیب محسود بیگناہ تھا بلکہ اپنے ایک قابل اعتماد قاتل کو بھی منظر عام پر لانا پڑا۔ اسی طرح فاٹا آپریشن اور آپریشن کے بعد وہاں کی عوام کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا اور ایک طویل وقت سے ریاستی اداروں کا ظلم و ستم سہنے کے بعد وہاں کے عوام نے مزید برداشت سے انکار کر دیا۔ اور پھر یہ ہوا کہ اسلام آباد میں ’’یہ جو دہشت گردی ہے، اس کے پیچھے وردی ہے‘‘ کے نعرے گونجنا شروع ہو گئے۔ ایسا کچھ وقت پہلے تک سوچنا بھی مشکل تھا لیکن یہ سب اسی سماج میں ہمارے سامنے رونما ہو رہا ہے۔ان واقعات نے پشتون قوم پرستی اور اس پر سیاست کرنے والی مفاد پرست پارٹیوں کو بھی بے نقاب کیا ہے اور ان کا خصی پن سب پر واضح ہو چکا ہے۔ یہ حقیقت اب منظر عام پر آ چکی ہے کہ ان قوم پرستوں کی عوام کے کسی بھی حصے میں اب کوئی بنیاد نہیں اور نہ ہی ان بوسیدہ نظریات کی کوئی حمایت موجود ہے۔ دیگر قوم پرست پارٹیوں کی صورتحال بھی کچھ مختلف نہیں۔ ایسے میں صرف مارکسزم کے بین الاقومیت پر مبنی نظریات ہی قومی مسئلے کا درست حل پیش کر سکتے ہیں اور مظلوم قومیتوں کی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی نظام کے خاتمے کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے حقیقی نجات کی منزل حاصل کر سکتے ہیں۔
ان تمام واقعات نے عوام کے شعور کو جھنجھوڑنے میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن یہ محض اس عمل کا آغاز ہے اور آنے والے عرصے میں اس سے بڑے واقعات سامنے آئیں گے۔ یہ واقعات نہ صرف محنت کش عوام کی مزید وسیع تر پرتوں کو متحرک کریں گے بلکہ اس ریاست کے تمام اداروں اور ان کی مسلط کردہ سیاسی پارٹیوں کیخلاف عوامی غیض و غضب کا بھی اظہار کرتے ہوئے انہیں نیست و نابود کریں گے۔ یہ تمام واقعات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور سماج کا کوئی بھی شعبہ ان کی حدت کو محسوس کئے بنا نہیں رہ سکتا۔ یہی واقعات پاکستان میں آنیوالے وقتوں میں ایک بڑی طبقاتی جنگ کی تیاری ہیں۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ ان تمام تر چھوٹی بڑی لڑائیوں سے اپنی حتمی لڑائی کے لئے ضروری اسباق حاصل کررہا ہے اور جیسے ہی وہ ایک بڑی اور فیصلہ کن لڑائی کے لئے تیار ہو گا، وہ میدان عمل میں کود پڑے گا۔ لیکن اس مخصوص وقت سے قبل ان مشکل اور کٹھن حالات میں محنت کشوں کے مارکسی نظریات اور درست طریقہ کار سے لیس ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر وہ ناگزیر عمل ہے جس کے ذریعے سرمایہ دار انہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے سوشلسٹ انقلاب کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جا سکے۔