|تحریر: اسفندیار شنواری|
24 مئی 2018ء کو فاٹا کو خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا فیصلہ موجودہ امکانات میں سب سے زیادہ قابل عمل قدم ہے، تاہم اس عمل میں مجرمانہ تاخیر سے کوئی انکار نہیں۔ 7 ایجنسیوں اور 6 فرنٹیر ریجنز پر مشتمل یہ علاقے ’’آزادی‘‘ کے نام پر 1901ء سے انگریز سامراج کے مسلط کردہ ہولناک قوانین، ایف سی آر کی شکل میں بدترین غلامی کا طوق پہنے ہوئے تھے۔ قبائلی پشتونوں کی مزاحمت کے جواب میں لاگو ان قوانین کی رو سے سامراج نے’مصنوعی‘ قبائلیت کو پروان چڑھایا، جو قبائلی ساخت سے بالکل متصادم تھی۔ زار روس سے ہندوستان کے تحفظ کی قیمت اس علاقے کے انسانوں کی زندگیوں سے لگائی گئی۔ اور سچ یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد بھی ان عوام کو جانوروں جتنے یا ان سے بھی کم حقوق دیے گئے۔ سویت یونین کے خلاف’ ڈالرجہاد‘ بعد میں امریکہ کے خلاف ’دہشت گردی‘ اور پھرڈالروں کے لیے’دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ میں بربادی کو ان علاقوں کا مقدر بنایا گیا۔ اس کے متوازی، سمگلنگ اور چوری وغیرہ سے بڑے پیمانے پر مال بٹورا جاتا رہا۔ لیکن عوام کو بنیادی حقوق، جو حقیقی جمہوریت کا جوہر ہیں، کبھی نہیں ملے۔ سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ذریعے ان کو محکوم بنانا ریاست کا وطیرہ اور تاریخی کردار تھا۔
ایف سی آر کی تاریخ
1893ء میں برطانوی سفارتکار مارٹیمر ڈیورنڈ اور افغانستان کے امیر عبدالرحمان کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کو ’ڈیورنڈ معاہدہ‘ کہا جاتاہے۔ اس معاہدے کے تحت موجودہ فاٹا اور بلوچستان کے شمالی اضلاع کو برطانوی انتظامیہ کے سپرد کیا گیا۔ سامراج ہر سال امیر عبدالرحمان کو 12 لاکھ ہندوستانی روپیہ دینے کا پابند تھا۔ تاہم قبائلی عوام اس فیصلے سے قطعاً خوش نہیں تھے۔ چنانچہ خیبر، تیراہ اور ملاکنڈ میں 1897ء میں بڑے پیمانے پر مزاحمتی جدوجہد دیکھی گئی۔ بھاری اسلحے اور جدید تکنیکی صلاحیتوں سے لیس برطانوی فوج کی بڑی نفری کو مارا گیا۔ اس بغاوت کو ختم کرنے کے بعد سامراج نے موقع کو غنیمت جان کر اس وقت کی 5 ایجنسیوں خیبر، کرم، وزیرستان، ملاکنڈ اور بلوچستان سمیت دریائے سندھ کے اس پار پشاور، کوہاٹ، بنوں اور اور ڈی آئی خان کو صوبہ پنجاب سے علیحدہ کر کے ایف سی آر کے زیر تسلط ’شمال مغرب سرحدی‘ کے نام سے 1901ء میں صوبہ بنایا۔ دریائے سندھ کے اس پار یہ اضلاع پہلے سکھ سلطنت کے قبضے میں تھے جو1848ء میں برطانوی سلطنت کا حصہ بنے۔
انگریز سامراج اپنی منڈیوں کو بچانے، وسائل کی لوٹ مار پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے اور دیگر سامراجی طاقتوں کو ہندوستان آنے سے روکنے کیلئے بہت ہوشیار تھا۔ ہندوستان کے وسائل کی’بہتر‘ لوٹ مار کیلئے یہ ناگزیر تھا کہ فاٹا جیسے تزویراتی علاقے کو استعمال کر کے زار روس کی یلغار کے امکان کو ختم کیا جائے۔ ایلف کیرو کے کتاب The Pathans کے مطابق 1877ء میں ایک انگریز وائسرائے لارڈ لائٹن نے بحیرہ عرب تک بفر زون اور باقی ہندوستان کو ہی صرف ’مخصوص‘ بنانے کی حکمت عملی بنائی جس کو بعد میں ملکہ برطانیہ نے قبول نہیں کیاکیونکہ یہ پالیسی زرعی اور معدنیاتی لوٹ مار میں خاطر خواہ شرح منافع کیساتھ متصادم تھی، لہٰذا ’’شمال مغرب سرحدی صوبے‘‘ تک ہی ’بفر زون‘ بنانے پر اکتفا کیا گیا۔
اس کے بعد قبائلی سماج میں ایف سی آر قوانین لاگوکیے گئے جس کی وجہ سے مسائل اور زیادہ بڑھ گئے۔ سماجی ترقی کو ٹھوس مادی بنیادیں دینے کے برعکس’خود مختاری‘ ہی کو اس کا درمان قرار دے دیا گیا۔ صنعت اور زراعت میں کسی قسم کی بھی اصلاحات نہیں ہوئیں اور نہ ہی انسانوں کو شخصی آزادی کیساتھ جینے کا حق حاصل رہا ہے۔ فاٹا میں عوام کو ووٹ دینے کا حق 1996ء میں حاصل ہوا۔ اس سے قبل صرف ریاست کے مقرر کردہ’ملک‘ کو ووٹ دینے کا حق حاصل تھا۔ سیاسی پارٹیوں کو اپنے ٹکٹوں پر الیکشن لڑنے کا حق بھی 2011ء میں ملا۔ گورنر کے مقرر کردہ پولیٹیکل ایجنٹ کو ہر قسم کی حاکمیت حاصل رہی ہے جس میں مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کے تمام اختیارات شامل ہیں۔ قومی جرگے کی نمائندگی، ٹیکس کی وصولی، بارڈر کے قوانین یہاں تک کہ شک کی بنیاد پر 2 سال تک کسی کو قید کرنا، ان اختیارات میں شامل ہیں۔
سامراج کے جانے کے بعد ایف سی آر کو سول اور ملٹری بیوروکریسی نے اپنے مفادات کیلئے استعمال کیا۔ جہاں ایک طرف افغانستان کے خلاف فاٹا کو محاذ بنایا گیا، تو دوسری طرف ہیروئن سمگلنگ اور بارڈر ٹیکسز میں بلند شرح پر چوری کے کاروبار کیے گئے۔
دہشت گردی کا کاروبار اور عوام کی حالت زار
26 اکتوبر2010ء کو واشنگٹن ٹائمز نے ایک مضمون میں پاک۔ افغان سرحدی علاقوں کو’دہشت گردی کے زلزلے کا مرکز‘ (EPICENTER) قراردیا۔ مزید برآں یہ بھی لکھا گیا کہ ادھر رہنے والے دہشت گردوں کے پاس مغربی ممالک کی شہریت ہے۔ یقینی طور پر سرمایہ داروں کا یہ مستند اخبار امریکی سامراج کی مجرمانہ پالیسیوں کا ذکر تو نہیں کرے گا، لیکن کم از کم اتنی سنجیدہ خبر میں کھل عام غلط بیانی سے گریز کرے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ2003ء سے شروع ہونے والے فوجی آپریشن اس دہشت گردی کو کیسے ختم نہیں کرسکے؟
حقیقت یہ ہے کہ طالبان گروہوں کیلئے فاٹا میں محفوظ مقامات بنائے گئے جہاں یہ طالبان امریکہ کے آنے کے بعد رہنے لگے اور اپنی کاروائیاں جاری رکھیں۔ افغانستان میں روس، ایران اور انڈیا کے مفادات بھی ہیں لیکن پاکستانی سامراجی ریاست اس خطے میں اپنی بقا کی جنگ کو جیتنے کیلئے جہاں باقی ممالک میں اپنی پراکسیز پالے ہوئے ہیں، وہیں افغانستان میں بھی اپنی پراکسی کے طور پر طالبان رکھتے ہیں۔ اور امریکی انخلا کے بعدطالبان ہی وہ واحد قوت تھی جس کے ذریعے یہ ریاست غریب افغانوں کی قیمت پر اپناوجود برقرار رکھ سکتی تھی۔ لہٰذا آج تک طالبان کو اس سامراجی ریاست کی آشیر باد حاصل ہے اور بڑے پیمانے پر اسلحے کی ترسیل بھی جاری ہے۔
قبائلی علاقوں میں بے شمار آپریشنوں کا کھیل کھیلا گیا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان کے مطابق امریکہ بہادر نے پاکستانی ریاست کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 33 ارب ڈالر دیے ہیں، جس سے مسائل اور پیچیدہ ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دفتر برائے ہم آہنگی انسانی امور (UNOCHA) کے مطابق 53 لاکھ لوگ آئی ڈی پیز بنے جن میں ایک سے زائد بار بننے والے بھی شامل ہیں۔ صرف فاٹا میں دہشت گردی کے حملوں میں تقریباً 16ہزار لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔ آبادی کے تقریباً 30 فیصد حصے نے مستقل طور پر شہروں کا رخ کیا۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں سب سے کم شرح خواندگی اور سب سے کم آمدنی فاٹا کے عوام کا مقدر بنی ہے۔ اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور قتل و غارت معمول بن چکے ہیں۔
فاٹا میں ’دہشت گردی کے خلاف‘ جنگ میں بھی اس میں کمی آنے کے باوجود اور تیزی آئی ہے کیونکہ فاٹا میں طالبان اور امن کمیٹیاں (جو پہلے طالبان بھی تھے) سمگلنگ اور سیاہ معیشت میں ریاست سے اپنا حصہ لینے کیلئے سہولت کار ہیں۔ دراصل یہ کام ان سے بخوبی کروایا جاسکتا ہے۔ ہر روز فوج کے سامان سے لیس ٹرک افغانستان کے بارڈر کے راستے آتے ہیں اور ان کو چیک کرنے کا اختیار پولیٹیکل انتظامیہ کے پاس بھی موجود نہیں ہوتا۔ اس کے علاوہ کوئلے کے کانوں سے لیکر باقی معدنیات تک پر فوج کی اجارہ داری یا بعض علاقوں میں حصہ داری قائم ہے۔
فاٹا کا انضمام، آج کا عہد اور مستقبل
فاٹا کا خیبر پختونخواہ میں انضمام اس وقت ایک اہم فیصلہ ہے۔ جمہوری آزادی ہر انسان کا حق ہے اور ہماری خواہش ہے کہ خیبر پختونخواہ میں انضمام سے ادھر کے ترقی پسند عناصر اور محنت کشوں میں اس دہشت گردی کی بربریت اور نظام کی ناانصافی کے خلاف جڑت بنے۔ تاہم سیاسی مسائل کی سمجھ بوجھ کو جذبات اور خواہشات کے تابع نہیں کیا جاسکتا۔ اس کے برعکس سیاسی سائنس کے قوانین ہی کے ذریعے ان مسائل کے حل کی گنجائش کو سمجھا جاسکتا ہے۔
اگر یہ کہا جائے کہ فاٹا کا مکمل انضمام ممکن ہے تو کسی قدر اثبات میں جواب دیا جاسکتا ہے لیکن اگر یہ پوچھا جائے کہ انضمام سے مسائل ختم ہونگے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو جمہوری آزادیوں کا حصول مشکل ہے کیونکہ اس خطے پر جبر کی بنیادیں افغانستان کی جنگ میں پیوست ہیں۔ ریاست اس جنگ کو جاری رکھنے کیلئے کبھی بھی ان منافعوں کو ہاتھ سے جانے دینے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ اس انتہائی ریاستی بحران میں ملک کے دیگر حصوں میں بھی شخصی بنیادی آزادی ایک مضحکہ خیز بات بن چکی ہے اور ہر علاقے میں مسنگ پرسن ایک معمول بن چکے ہیں۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ قبائلی عوام تماشائی بن کر اس جبر کو صرف دیکھیں گے بلکہ یہ عوام لازمی طور پر اس تاریخی لڑائی میں شامل ہونگے۔ پہلے سے ہی ایک عظیم الشان تحریک پی ٹی ایم نے باقاعدہ لڑائی کا آغاز کردیا ہے۔ میر علی، شمالی وزیرستان میں اب تک ٹارگٹ کلنگز کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں لوگ دھرنا دے رہے ہیں۔ ان علاقوں میں نجی محفلوں میں بھی فوج کا نام نہیں لیا جاتا تھا۔ اس تحریک کے جواب میں جنوبی وزیرستان میں طالبان کا پھر سے نمودار ہونا اور تیراہ میں منگل باغ کی واپسی بھی ریاست کی اس تحریک کیخلاف ایک بزدلانہ حکمت عملی ہے۔
یہ دلیل غور طلب ہے کہ فاٹا کو قومی دھا رے میں لانے کا پروگرام بھی نئے چینی سامراج کی سی پیک (CPEC) پالیسی کیساتھ بندھا ہوا ہے کیونکہ چینی سامراج بار بار پاکستان کو دہشت گردوں کی پشت پناہی روکنے پر زور دے رہا ہے جس کا پچھلے سال (BRICS) کانفرنس میں بھی اظہار ہوا۔ اس احتجاج کے پیچھے دراصل بہت بلند شرح سود پر کی جانے والی سی پیک کی سرمایہ کاری ہے۔ اسی سرمایہ کاری کے پھل سے لطف اندوز ہونے اور اس سے سیاسی فوائد لینے کیلئے قوم پرست سیاسی پارٹیاں خصوصاً اے این پی فاٹا کو ضم کرنا چاہتی تھی۔ جو پارٹیاں انضمام کے خلاف تھیں ان کامقصد بھی فقط انتخابات کے ذریعے مروجہ غلیظ پارلیمانی عزائم پورا کرنا اور اسمگلنگ کے کاروبار سے وابستہ دولت مند افراد کے مفادات کی ترجمانی تھی۔ لیکن عوام کی حالیہ شعور کی تبدیلی کسی کو اپنے عزائم پورے نہیں کرنے دے گی۔ فاٹا سے تعلق رکھنے والے باشعور طلبہ کی بڑی تعداد انضمام کے حق میں تھی۔
ہم فاٹا کو جمہوری دھارے میں لانے کے حق میں ہیں۔ لیکن سرمایہ داری کے بدترین بحران میں یہ پیشرفت کامیاب نہیں ہو سکتی بلکہ نئے تضادات کو جنم دے گی۔ ریاست پہلے ہی مختلف دھڑوں میں بٹی ہوئی ہے اور امریکی و چینی سامراج کے درمیان ہچکولے کھا رہی ہے۔ ملک کا معاشی بحران بد ترین سطح پر پہنچ چکا ہے اور عوام پر مہنگائی کے مزید بڑے حملوں کے لیے ناخن تیز کیے جار ہے ہیں۔ ایسے بحرانوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی ریاست میں فاٹا کے پشتونخواہ میں پر امن انضمام کے بارے میں سوچنا بھی بیوقوفی ہو گی۔ اس وقت اس نظام میں اصلاحات کی گنجائش ختم ہو چکی ہے اور نہ ہی یہ ریاست کوئی اصلاح کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ انضمام کا فیصلہ پی ٹی ایم کی جرأت مندانہ تحریک کے دباؤ میں کیا گیا لیکن جیسے ہی تحریک کی شدت میں کمی آئے گی مختلف حیلے بہانوں سے پھر عوام پر جبر کے طریقہ کار وضع کیے جائیں گے۔ پہلے ہی ایک عبوری بل پاس کروانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کے ذریعے انضمام کے عملدرآمد میں رکاوٹیں ڈالی جائیں۔ اسی طرح کے دوسرے حربے بھی استعمال کیے جائیں گے جن کے ذریعے فاٹا کے عوام کو غلام ہونے کا احساس دوبارہ دلایا جا سکے۔ لیکن حکمرانوں کے غلیظ ہتھکنڈوں کے جواب میں پہلے سے کہیں زیادہ بڑی تحریکیں ابھریں گی جو فوری اورمعاشی مطالبات سے آگے بڑھتے ہوئے سیاسی تبدیلی اور نظام کی شکست کا اعلان کریں گی۔ موجودہ صورتحال نے عوام کو باور کروا دیا ہے کہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے کا واحد رستہ انقلابی بنیادوں پر جدوجہد ہے۔ اسی مزاحمتی جدوجہد کے نتیجے میں ایک صدی سے لٹکا ہوا معاملہ ایک دن میں حل ہو گیا۔ عوام کو ملنے والا یہی اعتماد زیادہ بڑی تحریکوں کی بنیاد بنے گا جو مصنوعی سرحدوں سے لے کر اس سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کریں گی۔ ان مزاحمتی تحریکوں میں غریب قبائل دیگر خطوں کے محنت کش طبقے کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہونگے اور جبر پر مبنی اس سامراجی نظام کو اکھاڑ پھینکیں گے۔ اس خطے کو امن اور خوشحالی کا گہوارا بنانا صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے، جو ٹراٹسکی کے ’انقلاب مسلسل‘ کے نظریے سے پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ سچے جذبوں کی قسم ہم کامیاب ہونگے۔