|تحریر: سٹیو جونز، ترجمہ: جویریہ ملک|
انگلینڈ بھر میں فٹ بال شائقین کے بڑے پیمانے پر مظاہروں کی بدولت یورپی سپر لیگ کے منصوبوں کو بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ شائقین کی ایک بڑی فتح ہے۔ لیکن ’عام عوام کے کھیل‘ پر منافع خوری اور اس کی لوٹ مار کو روکنے کی لڑائی اب بھی جاری ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ملک بھر میں فٹ بال گراؤنڈز کے باہر زبردست احتجاجوں کے نتیجے میں، یورپین سپر لیگ (ای ایس ایل) نامی اشرافیہ کے نئے منصوبے کو کم از کم فی الحال تو ناکام بنا دیا ہے۔
اتوار کو ای ایس ایل کے منتظمین کے اعلان نے ہر سطح پر شدید ردعمل کو بھڑکایا۔ شائقین، کھلاڑیوں اور حکومت کے دباؤ کے نتیجے میں، مجوزہ مقابلے میں شامل انگلش پریمئیر لیگ کے چھ کلبوں نے لیگ سے دستبرداری اختیار کرلی۔
’انقلاب کا سماں‘
یہ مظاہرے نہ صرف ای ایس ایل بلکہ شائقین کی کھیل میں کوئی آواز اور رائے شامل نہ ہونے کے خلاف تھے۔ شائقین کا یہ غصہ دراصل پورے سیٹ اپ پر وسیع پیمانے کے غصے کی عکاسی کرتا ہے؛ مہنگی ٹکٹیں؛ اشرافیہ کی پریمئیر لیگ؛ ٹی وی فکسچر؛ یوئیفا اور فیفا میں بدعنوانی، وغیرہ وغیرہ۔
سٹیم فورڈ برج کے باہر، جہاں چیلسی اور برائٹن کا میچ چل رہا تھا، شائقین کے غصے کا یہ عالم تھا کہ ایک اخبار نے اس منظر کو ”انقلاب کا سماں“ تک لکھ ڈالا۔
اسی طرح پیر کو لیڈز، جہاں لیور پول کا میچ چل رہا تھا، سمیت دوسرے تمام کلب جنہوں نے ای ایس ایل میں شمولیت اختیار کی تھی، کے سٹیڈیمز کے باہر مظاہرے کیے گئے۔
دراصل ایسی بڑی بغاوت، دور دراز رہنے والے شائقین کیلئے ٹکٹوں کی قیمتوں میں کمی کروانے کیلئے ہونے والی کمپئین کے کئی سالوں بعد دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہمیں اسے اور آگے لے جانا ہوگا۔
Fan protests at Elland Road this evening ✊🤝 pic.twitter.com/LpSZxgYwwD
— ~ (@snappedlfc) April 19, 2021
بوسیدہ نظام
بورس جانسن کے جعلی دعووں کے باوجود، یہ شائقین ہیں جنہوں نے کھلاڑیوں اور کوچز کی مدد سے اس جنگ کو جیتا ہے۔ شائقین نے ای ایس ایل کو شروع سے ہی جعلی سمجھا اور پرجوش الفاظ میں اس کا اظہار بھی کیا۔ سپر لیگ کا غیر منصفانہ، اشرافیہ دوست سسٹم جو فٹ بال مالکان نے تجویز کیا ہے، وہ دراصل شائقین کو لوٹنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔
ای ایس ایل کے خلاف لڑائی نے فٹ بال کی بوسیدہ حالت پر روشنی ڈالی ہے۔ آج فٹ بال ’عام عوام کا کھیل‘ نہیں رہا، بلکہ اشرافیہ کے لئے دولت کمانے کا ذریعہ بن گیا ہے۔
ای ایس ایل پراجیکٹ کے ختم ہونے کے باوجود ابھی تک بنیادی طور پر کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔
ہم کہتے ہیں؛ یہ ہمارا کھیل ہے، اور اسے واپس اپنے ہاتھ میں لینے کا وقت آگیا ہے۔
Chelsea fans protest the Super League outside Stamford Bridge 🙅♂️ pic.twitter.com/DESCtgKI2d
— GOAL (@goal) April 20, 2021
آگے کیا؟
ای ایس ایل اور دیگر کلبز اب دوبارہ گروپ بندی کریں گے اور ہمارے ہی خرچ پر زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے کے لئے مختلف لائحہ عمل طے کریں گے۔ ان ارب پتیوں نے اسی وجہ سے ان کلبز کو خریدا تھا۔
ابتدائی اعلان کے فوراً بعد ای ایس ایل کلبز کے شیئرز کی قیمتیں بڑھنا اس اقدام کے پیچھے اصل محرک کو واضح کر دیتا ہے۔
اگرچہ یہ کلبز شائقین کی بغاوت سے پریشان ضرور ہوئے ہیں مگر وہ اپنے ارب پتی مالکان اور اس کھیل میں شامل دیگر سرمایہ داروں کے دباؤ سے زیادہ خوف زدہ ہوں گے۔ لہٰذا ان حالیہ احتجاجوں کے باوجود بھی یہ کلبز ان سرمایہ داروں کے سامنے سر ہی جھکائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جیسے ہی ای ایس ایل پراجیکٹ کی ناکامی واضح ہوئی، یوئیفا نے اپنا لہجہ ہی بدل لیا۔ پہلے کی شدید مخالفت کے بعد اچانک اس نے 12 کلبز، جنہوں نے نئے (حریف) مقابلے میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا، کے ساتھ ایک بار پھر بہت دوستانہ سلوک اختیار کرنا شروع کر دیا۔
وجہ سادہ اور واضح ہے؛ وہ جانتے ہیں کہ یہی بڑے کلبز ہمارے منافعے اور پیسہ کمانے کا ذریعہ ہیں۔ درحقیقت یوئیفا برسوں سے اپنے مطالبات منوا رہی ہے۔
یوئیفا کا مرکزی یورپی مقابلوں کی تنظیم نو کا تازہ ترین منصوبہ ایک انتباہ ہے۔ اعلان کردہ نئی تجاویز میں سے متعدد ای ایس ایل سے مماثلت رکھتی ہیں۔ واضح طور پر یہ وہی بات ہے جو متن میں پوشیدہ ہے، سرکاری اعلامیے میں کہا گیا ہے:
”رسائی کی فہرست میں توازن، میچ کی تاریخ، سیڈنگ سسٹم، فائنلز کے لئے فارمیٹ، اعداد و شمار اور مالی تقسیم جیسے معمالات کے بارے میں مزید فیصلے سال کے آخر تک کیے جائیں گے، اور منظور شدہ فارمیٹ میں ضرورت کے مطابق ممکنہ تبدیلیاں بھی ہو سکتی ہیں۔
”ممکنہ تبدیلیاں“؛ ”استعدادی قدر“: یہ الفاظ اشرافیہ اور ان کے چھپے ہوئے حمایتی؛ ٹی وی کمپنیوں کو مزید مراعات دینے کا ڈھکا چھپا اظہار ہیں۔
میڈیا اور پیسہ
درحقیقت، کئی دہائیوں سے نشریاتی ملٹی نیشنل کمپنیوں کے مفادات فٹ بال اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دست و گریباں رہے ہیں۔ وہ مزید براہ راست میچز کے لئے تگودو کر رہے ہیں؛ مزید ناظرین، پُرکشش مقابلے اور ایسے اوقات کار پر جو ان کے لئے موزوں ہوں۔
بہرحال، امریکہ میں پیشہ ورانہ کھیلوں کا یہی طریقہ کار ہے۔ کھیلوں کو مختلف اوقات اور مقامات پر براہ راست دکھایا جاتا ہے۔ ایک’فرنچائز‘ نظام برقرار ہے جو ایک دکان کے طور پر چلتا ہے، جس میں ’ٹیموں‘ کو’برانڈز‘ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ سرمایہ داروں کے لئے امریکی بیس بال اور باسکٹ بال وغیرہ کے برعکس یورپی فٹ بال کی اصل کشش یہی ہے کہ اس پر کسی ایسی فیڈریشن کا کنٹرول نہیں جو اخراجات، اجرت، تبادلہ وغیرہ کے حدود اور قواعد بنائے۔
مثال کے طور پر انگلش پریمیئر لیگ کے امیر کلب بھاری پیسہ خرچ کرکے مقابلے کی فضا کو محدود کرنے میں کافی حد تک آزاد ہیں۔ ٹی وی کا پیسہ اس لیے مرکزی حیثیت حاصل کر چکا ہے۔ لہٰذا مرڈاک سکائے جیسی بڑی میڈیا کمپنیاں اپنے سرمایہ کاری کے بدلے میں بڑا منافع چاہتی ہیں۔
کچھ سال پہلے تک فٹ بال دوپہر میں کھیلا جاتا تھا۔ لیکن کرونا وبا سے پہلے ہی ہفتہ اور اتوار کے روز میچز شام کے کے وقت ہونا شروع ہو گئے تھے۔ اس وبا نے ٹی وی کمپنیوں کے اوقات کار کو وسیع تر کرنے میں مدد کی یعنی ہفتہ اور اتوار کے روز دوپہر تا رات گئے تک، اور اکثر ہر رات دو میچز تک۔
مداحوں کو دوبارہ گراؤنڈ میں جانے کی اجازت ملنے کے بعد بھی ٹی وی کمپنیاں یہ ترتیب کسی نہ کسی شکل میں جاری رکھنا چاہیں گی۔ میڈیا اجارہ دار اور ان کے مفادات (یعنی منافع) پہلے ہی پریمئیر لیگ اور یورپی فٹ بال پرغالب ہیں۔
سرمایہ داری اور مقابلہ
بہت سے لوگوں نے یہ نکتہ پیش کیا ہے کہ ای ایس ایل صرف آزاد منڈی کی پیداوار تھی۔ یہ سچ ہے؛ جو کچھ ہم نے دیکھا ہے وہ مجموعی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کا عکس ہے، جہاں مالکان اور ارب پتی افراد ہمارے خرچ پر اپنے منافع میں مستقل طور پر اضافہ کرتے ہیں اور عوام مزید دباؤ اور استحصال کا نشانہ بنتے ہیں۔
یہ منافع اور مسابقت پر مبنی سرمایہ داری کی بے رحم منطق ہے۔ اور جیسا کہ کارل مارکس نے واضح کیا تھا کہ، صنعتوں کی اجارہ داری اور اس کے نتیجے میں دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز کے نتیجے میں یہ مسابقت ہمیشہ اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔
ای ایس ایل کے معاملے میں بھی مارکس کی بات کی توثیق ہوتی ہے کہ ایک ایسی سپر لیگ تشکیل دی گئی ہے جہاں اصل مسابقت دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ بلکہ اشرافیہ کے اس ٹورنامنٹ میں بڑی ٹیموں کو مشہور برانڈز کے ساتھ پکی جگہ کی ضمانت دی گئی ہے تاکہ منافع ان کے ان کی یجوریوں میں آتا رہے۔
یہ انتباہ ہے۔ ای ایس ایل کو تو ناکامی کا سامنا ہوا ہے لیکن بوسیدہ نظام ابھی بھی موجود ہے۔ یوئیفا اور فیفا جانتے ہیں کہ وہ کس کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ان بدعنوان اداروں کا ای ایس ایل کے ساتھ اصل مسئلہ یہ تھا کہ وہ ان کے قابو میں نہیں تھی اور انہیں اس منافع میں حصہ نہیں مل رہا تھا۔
منافعے کا خاتمہ کرو
جب تک منافع ترجیح ہے، فٹ بال کلبز صرف کاروبار کے طور پر چلتے رہیں گے، وہ تمام چیزیں جن سے مداح غصہ ہوئے ہیں وہ بار بار لوٹ کر آئیں گی۔
مستقبل میں پریمئیر لیگ میں ’اصلاحات‘ کرنے کی مزید کوششیں ہوں گی۔ ہو سکتا ہے کہ ای ایس ایل اب یوئیفا کے بھیس میں دوسرے دروازے سے واپس آجائے۔ اور اب شائقین فٹ بال میچز کے ٹی وی کمپنیوں کے مفادات کی خاطر نامناسب اوقات کار اور شیڈول کیلئے بھی تیار رہیں۔
سب سے بڑھ کر، تمام بیانات کے باوجود، کلب انتظامیہ اور ویسٹ منسٹرکی جانب سے، حامیوں اور مداحوں کے مفادات نظرانداز ہوتے رہنے کی توقع بھی رکھیں۔
مسئلہ ملکیت اور کنٹرول کا ہے۔ امیر اور دولت مند ’ہمارے‘ کلبز کے مالک ہیں اور یوئیفا اور فیفا پر کنٹرول رکھتے ہیں۔ ہم لوگوں کا کردار ٹی وی پر محض ’ایکسٹراز‘ کا ہی ہے۔
سوشلزم کے لئے جدو جہد کرو
حالیہ دنوں میں ہم نے جو غصہ دیکھا ہے اسے اب اس پورے بوسیدہ نظام کی طرف بڑھنا چاہئیے۔ یہی وجہ تھی کہ مختلف حامیوں کی تنظیمیں قائم کی گئیں تھیں۔۔پریمیئر لیگ کے منظر نامے پر آنے کے بعد ہی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ کلبز کی ملکیت عوامی ہو، تاکہ وہ حامیوں، کھلاڑیوں، کوچز اور وسیع تر برادری کے مفادات کی حمایت کریں۔ اس کے برعکس، فی الحال یہ کھیل ارب پتی سرمایہ کاروں، ملٹی نیشنل کمپنیوں، بینکوں؛ میڈیا کی بڑی اجارہ داریوں اور ٹی وی نشریاتی اداروں جیسے بڑے کاروباری اداروں کے مفادات کو پورا کرنے کے لئے ترتیب دیا گیا ہے۔
یوئیفا اور فیفا پر اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ ان کی جگہ، حقیقی جمہوری باڈیز تشکیل دینی ہوں گی جو ان کے خفیہ بینک اکاؤنٹس کی بجائے کھیل کے مفادات کے لئے کام کریں۔
ای ایس ایل، فٹ بال اور سرمایہ دارانہ نظام کی ڈھکی چھپی غلاظتوں اور خرابیوں کا صرف ایک تازہ ترین اور واضح اظہار ہے۔
حل واضح ہے؛ لوگوں کے کھیل کے لئے لڑو! سنے جانے کے لیئے لڑو! سوشلزم کے لئے لڑو!
حالیہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم جب متحد، منظم اور متحرک ہوں تو جیت سکتے ہیں۔ اگر ای ایس ایل کو شکست دی جاسکتی ہے، تو پھر کچھ بھی ممکن ہے۔