تحریر: | آفتاب اشرف |
انقلاب روس کے لیڈر اور عظیم مارکسی استاد لینن نے کہا تھا کہ ’’سیاست مجتمع شدہ معیشت ہے‘‘۔ اسی حوالے سے پاکستانی سیاست کی پیچیدگی، مالی مفادات کی لڑائی میں باہم بر سر پیکار سیاسی پارٹیوں اور ریاست و حکمران طبقات کے مختلف دھڑوں کے باہمی تضادات کو سمجھنا اس وقت تک ناممکن ہے جب تک ہم پاکستان کی سیاست کواس کی معاشی بنیادوں کے ساتھ جدلیاتی طور پر جوڑ کر نہیں دیکھتے۔ اسی طرح پاکستانی معیشت کو عالمی معیشت سے کاٹ کر بھی نہیں دیکھا جا سکتا کیونکہ پاکستانی معیشت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا ہی ایک حصہ ہے۔ پاکستانی معیشت کا تجزیہ کرنے کے لئے ایک طرف تو ہمیں وزارت خزانہ کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے پلندے میں سے سچ اور جھوٹ کو الگ کرنا پڑے گا تو دوسری طرف معاشی اعداد وشمار کو ایک باہم جدلیاتی ربط میں لاتے ہوئے طبقاتی نقطہ نظر سے ان کی تشریح کرنا پڑے گی تاکہ یہ پتہ لگ سکے کہ بلند وبانگ حکومتی دعوؤں اور اعدادوشمار کے اس گورکھ دھندے کا محنت کش طبقے کی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس کی کل معیشت کا ایک قابل ذکر حصہ کالے دھن پر مبنی ہے جو کہ سرکاری معیشت پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کی گرفت سے باہر ہے۔ لیکن کالے دھن کی ملکی معیشت میں اس اہم عمل دخل کے باوجود سرکاری معیشت کے طبقاتی تجزیئے کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی کیونکہ حتمی تجزیئے میں یہ سرکاری معیشت ہے جو کہ قرضہ جات کے معاملات اور دفاعی اخراجات سے لیکر عوام پر لادے جانے والے ٹیکسوں کا تعین کرتی ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے نفاذ کو یقینی بناتی ہے۔
سرکاری معیشت کے جھوٹ
1۔ قرض کی دلدل
موجودہ حکمرانوں کے دعووں میں سے غالباً سب سے مضحکہ خیز دعویٰ قرض کے کشکول کو توڑ دینے کا ہے۔ ایک ایسے عہد میں جب ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتیں سر سے پیر تک قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہیں تو پاکستان کی لولی لنگڑی سرمایہ داری کے لئے قرض کے بغیر چلنا بھلا کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق دسمبر 2015ء تک پاکستان کا کل سرکاری قرضہ 18,900ارب روپے ہو چکا ہے جس میں 12,900ارب روپے کا اندرونی قرضہ (جو مختلف ملکی بینکوں سے حاصل کیا گیا ہے) اور57ارب امریکی ڈالر (6000ارب روپے) کا بیرونی قرضہ شامل ہے جو کہ مختلف عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کیا گیا ہے۔ 2013ء میں جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو کل سرکاری قرضہ 14,300ارب روپے تھا جس میں 9,500ارب روپے کا اندرونی قرضہ تھا اور بیرونی قرضہ 48ارب ڈالر کے قریب تھا ۔ یعنی کہ موجودہ حکومت کے تقریباً تین سالہ دور حکومت میں مقامی قرضوں میں 3,400ارب روپے اور بیرونی قرضوں میں 9ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ لیکن بیرونی قرضے میں اضافے کے یہ اعدادوشمار ادھورے ہیں کیونکہ ان میں نہ تو وہ 3.5ارب ڈالر شامل ہیں جسے حکومت نے 7.25فیصد سے 8.25فیصد کی بلند شرح سود پر عالمی مالیاتی منڈیوں سے یورو بانڈ اور سکوک بانڈ کے اجرا سے حاصل کیا ہے اور نہ ہی اس میں مختلف نجی کمپنیوں اور اداروں کی جانب سے حاصل کئے گئے وہ بیرونی قرضہ جات شامل ہیں جو کہ اگرچہ غیر سرکاری ہیں لیکن حتمی تجزیئے میں اسی ملک کے غریب عوام کی ہڈیوں سے گودا چوس کر واپس کئے جائیں گے۔ یوں اگر ان تمام اعداد و شمار کو اکٹھا کیا جائے تو سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے بقول پاکستان کاکل بیرونی قرضہ (سرکاری و غیر سرکاری ) تقریباً 68.5ارب امریکی ڈالر بنتا ہے۔
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مزید انکشاف کیا کہ مالی سال 2018ء کے اختتام تک پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 90ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا اور یہ IMFکی جانب سے لگائے جانے والے تخمینے (جوحکومتی اعداد وشمار پر مبنی ہے) سے 14ارب ڈالر زیادہ ہے اور اس فرق کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حکومت اپنے اعداد و شمار میں CPECکے تحت اگلے 4سال میں زیادہ تر چینی بینکوں سے لئے جانے والے بیرونی قرضے کو شامل نہیں کر رہی ہے اسی تناظر میں ڈاکٹر حفیظ پاشا نے کہا کہ 2018-19ء تک پاکستان کو صرف قرضوں اور مارک اپ کی واپسی کے لئے سالانہ 20ارب ڈالر کی رقم درکار ہو گی۔ مالی سال 2015-16ء کے 4500ارب روپے کے بجٹ میں حکومت نے تقریباً 1600ارب روپے قرضوں اور مارک اپ کی واپسی کے لئے رکھے تھے جس میں6-7ارب ڈالر بیرونی قرضہ جات اور مارک اپ کی واپسی کے لئے مختص کئے گئے تھے۔ 1600ارب روپے کی اس قرض ادائیگی میں ابھی کھربوں روپے کی وہ رقم شامل نہیں ہے جو حکومت کو ہر سال توانائی کے شعبے میں گردشی قرضوں کی مد میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن آئندہ آنے والے سالوں میں حکومت کے بہت سے بیرونی قرضوں کی معیاد پوری ہو رہی ہے۔ مالی سال 2016-17ء میں 1.2ارب ڈالر کے یورو اور سکوک بانڈ اپنی دس سالہ معیاد پوری کر رہے ہیں جو کہ مشرف حکومت نے 2005-07ء میں جاری کئے تھے۔ اسی طرح 9/11کے بعد 13ارب ڈالر کے پیرس کلب کے قرضوں کی ری شیڈیولنگ کی گئی تھی، ان کی واپسی بھی 2016-17ء میں شروع کرنا ہو گی۔ اسی طرح 2013ء میں 3سالہ پروگرام کے تحت IMFسے لئے گئے 6.6ارب ڈالر کے قرضوں کی واپسی بھی مالی سال 2017-18ء سے شروع ہو جائے گی۔ اسی طرح سال 2018-19ء تک CPECکے تحت حاصل کئے جانے والے حالیہ بیرونی قرضے بھی قابل واپسی ہونا شروع ہو جائیں گے۔ اس سب پس منظر میں مالی سال 2018-19ء تک بیرونی قرضوں کی واپسی کے لئے سالانہ 20ارب ڈالر کی ضرورت کا ڈاکٹر حفیظ پاشا کا دعویٰ حقیقت کے قریب تر محسوس ہوتا ہے۔ بیرونی قرضوں کی واپسی کے اس بوجھ تلے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جو اس وقت GDPکے 1فیصد کے قریب ہے سال 2018ء تک بڑھ کر GDPکے 4فیصد تک ہو جائے گا۔ اس خسارے کو پورا کرنے اور قرضوں کی ادائیگی کے لئے حکومت کے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ نہایت سخت شرائط پر عالمی مالیاتی اداروں سے مزید قرضہ لے، عوام پر مزید ٹیکس لگائے اور سہولیات کی فراہمی میں مزید وحشیانہ کٹوتیاں کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ بجٹ کو قرضے اتارنے کے لئے مختص کیا جا سکے۔ اندرونی اور بیرونی قرضوں کی اس دلدل میں ڈوبی اس لولی لنگڑی معیشت کا حکمرا ن طبقہ آنے والے دنوں میں اپنی طبقاتی بقا اور حکمرانی کے لئے محنت کش طبقے پر مہنگائی، بیروزگاری، نجکاری اور ٹیکسوں کی شکل میں مزید حملے کرے گا اور سماج میں پھیلی بربادی اور غربت مزید شدت اختیار کرے گی۔
2۔ ٹیکسوں کا بوجھ
موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے سے قبل مالی سال 2012-13ء میں ٹیکسوں کی مد میں کل 1900ارب روپے اکٹھے ہوئے۔ موجودہ حکومت نے برسراقتدار آتے ہی سرمایہ دار طبقے کی تجوریاں بھرنے اور IMFکی شرائط پورا کرنے کے لئے محنت کش عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی۔ مالی سال 2014-15ء میں ٹیکسوں کی مد میں 2600ارب روپے اکٹھے کئے گئے اور مالی سال 2015-16ء میں ٹیکسوں کی مد میں 3100ارب روپے اکٹھا کرنے کا ٹارگٹ رکھا گیا ہے، جس میں سے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق 3000ارب روپے تک اکٹھا کر لیا جائے گا۔ یوں اپنے اقتدار کے تقریباً 3سالوں میں نواز حکومت نے عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں1100ارب روپے کا اضافہ کیا ہے اور مستقبل میں اس بوجھ میں مزید اضافہ یقینی ہے۔
لیکن ایک طبقاتی سماج میں ٹیکسوں کے مجموعی اعداد و شمار کو بیان کر دینا کافی نہیں ۔ لازمی ہے کہ ہم گہرائی میں جا کر طبقاتی نقطہ نظر سے ان اعدادو شمار کا جائزہ لیں تاکہ حقیقت واضح ہو سکے۔ پاکستان میں کل ٹیکس آمدن کا 2/3بالواسطہ ٹیکسوں سے حاصل کیا جاتا ہے جس میں سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی، مختلف اقسام کے ٹیرف، سرچارج اور حکومتی لیوی شامل ہیں۔ بالواسطہ ٹیکسوں کا زیادہ تر بوجھ محنت کش طبقے اور نچلے درمیانے طبقے پر پڑتا ہے اور وہ امیر طبقے کے مقابلے میں اپنی آمدن کا زیادہ بڑا حصہ ان بالواسطہ ٹیکسوں کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق پاکستان کی 10فیصد غریب ترین آبادی اپنی کل آمدن کا 16فیصد جبکہ 10فیصد امیر ترین آبادی اپنی کل آمدن کا 10فیصد بالواسطہ ٹیکسوں میں ادا کرتی ہے۔ بالواسطہ ٹیکسوں کے برعکس براہ راست ٹیکس پاکستان کی کل ٹیکس آمدن کا بمشکل 1/3بناتے ہیں لیکن براہ راست ٹیکس کی مد میں اکٹھا ہونے والی کل رقم کا 2/3صرف ودہولڈنگ ٹیکس سے آتا ہے جو کہ خاص طور پربینکوں کے چھوٹے اور درمیانے کھاتہ داروں (نچلے درمیانے اور درمیانے طبقے) کی اکثریت سے حاصل ہوتا ہے۔ باقی کا براہ راست ٹیکس بھی سرکاری ملازموں کی تنخواہوں سے کٹوتیوں اور درمیانے طبقے کے مختلف حصوں کی جیب سے نکلوایا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف محنت کش طبقے اور درمیانے طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے وہیں پر سرمایہ دار طبقے، بڑے کاروبار اور اداروں کو ٹیکس میں مسلسل چھوٹ دی جارہی ہے۔ ویسے تو غالباً ٹیکس چوری وہ واحد شعبہ ہے جس میں پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ ترقی یافتہ ممالک کے سرمایہ دار طبقے سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ لیکن قانونی طور پر بھی حکومت سرمایہ دار طبقے کے منافعوں پر ٹیکس کو بتدریج کم کر رہی ہے۔ اس کی ایک واضح مثال کارپوریٹ ٹیکس ہے جسے 35فیصد سے کم کر کے 33فیصد کر دیا گیا ہے اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق 2017-18ء تک اسے مزید کم کر کے 30فیصد تک کر دیا جائے گا۔
3۔ زرمبادلہ کے ذخائر کی حقیقت
وزیرخزانہ اسحاق ڈار صاحب اکثر اوقات ٹی وی پروگرامز میں بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ ان کی حکو مت نے زرمبادلہ کے ذخائر میں بے پناہ اضافہ کیا ہے اور یہ سب ان کی معاشی جادوگری کا نتیجہ ہے۔ یہ درست ہے کہ جب جون 2013ء میں موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالا تھا تو اسٹیٹ بینک کے پاس صرف 6ارب ڈالر زرمبادلہ کے ذخائر موجود تھے اور اس وقت ملک میں زرمبادلہ کے کل ذخائر 20ارب ڈالر تک پہنچ چکے ہیں جس میں سے 15ارب ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس ہیں اور بقیہ 5ارب ڈالر مختلف نجی بینکوں کے پاس ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب پیسہ آیا کہاں سے ہے؟ معاشی جادوگری کے دعووں کے برعکس زرمبادلہ کے ذخائر میں بڑھوتری کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک بیرونی قرضوں، بانڈز، نجکاری اور بیرونی امداد کے ذریعے زرمبادلہ کا حصول اور دوسری بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر۔ اگر ہم پہلی وجہ کا گہرائی میں جائزہ لیں تو پتہ لگتا ہے کہ اب تک 5.5ارب ڈالر سے زائد رقم 2013ء میں IMF کے ساتھ طے پانے والے قرض کے معاہدے کی مد میں حاصل ہوئی۔ 1.8ارب ڈالر ورلڈ بینک سے قرضے کی صورت میں حاصل کیا گیا۔ 3.5ارب ڈالر یوروبانڈز اور سکوک بانڈز کے اجرا سے عالمی مالیاتی منڈیوں سے بلند شرح سود پر حاصل کیا گیا ۔ 1.5ارب ڈالر مختلف ’’خدمات‘‘ کے صلے میں سعودی عرب سے بھیک میں ملے اور اسی طرح 2013ء سے لیکر اب تک 2.6ارب ڈالر امریکی سامراج کی نوکری کر نے پر کولیشن سپورٹ فنڈ (CSF) کی مد میں حاصل ہوئے۔ 3G/4Gسپیکٹرم کی نیلامی سے 500ملین ڈالر حاصل ہوئے اور مختلف اداروں کی نجکاری خصوصاً ABL، UBL اور HBLمیں حکومتی حصص کی عالمی منڈیوں میں فروخت سے بہت سا زرمبادلہ حاصل ہوا (صرف HBLکے حصص کی فروخت سے 600ملین ڈالر وصول ہوا)۔ اسی طرح 1.5ارب ڈالر ایشیائی ترقیاتی بینک سے بطور قرض حاصل کیا گیا ۔ زرمبادلہ کے حصول کا دوسرا اہم ذریعہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ترسیلات زر پر مبنی ہے۔ مالی سال 2014-15ء میں تارکین وطن نے 18.4ارب ڈالر ملک واپس بھجوائے۔ اسی طرح مالی سال 2015-16ء کے پہلے 6ماہ میں بھی 9.7ارب ڈالر ترسیلات زر کی صورت میں موصول ہوئے ہیں۔ اگرچہ پچھلے تین چار سال میں مجموعی طور پر تارکین وطن کی ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے۔ جس کی مختلف وجوہات ہیں؛ ایک اہم وجہ تو روزگار کے حصول کے لئے اس عرصہ میں بڑی تعداد میں پاکستانیوں کا بیرون ملک (خصوصاً خلیجی ممالک) جانا ہے، اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ کی نسبت پاکستان میں بلند شرح سود اور کالے دھن کی بدولت تیزی سے پھیلتا ہوا رئیل اسٹیٹ سیکٹر بھی تارکین وطن کے لئے کشش کا باعث ہے لیکن اب ترسیلات زرپر بھی عالمی معیشت کی سست روی اور جمود کے اثرات واضح طور پر نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ اقتصادی رپورٹ کے مطابق ’’عالمی معیشت کی سست روی کی وجہ سے ترسیلات زر کی رفتار حالیہ مہینوں میں تمام ترقی پذیر ممالک میں سست ہوئی ہے۔ پاکستان بھی اس رجحان سے محفوظ نہیں ہے اور ترسیلات زر میں اضافے کی شرح اب کمزور پڑنا شروع ہو گئی۔‘‘
رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں ترسیلات زر میں اضافے کی شرح صرف 6.3فیصد تھی جبکہ پچھلے مالی سال کے پہلے 6ماہ میں یہی شرح 17.6فیصد تھی۔ آنے والے سالوں میں جیسے جیسے عالمی معیشت مزید بحران کا شکار ہو گی اور خصوصاً تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث خلیجی معیشتیں گہرے بحران میں دھنستی جائیں گی(پاکستان میں 2/3ترسیلات زر خلیجی ممالک سے آتے ہیں) ویسے ویسے ترسیلات زر میں اضافے کی شرح مزید کم ہو گی اور حتمی طور پر اس کا نتیجہ ترسیلات زر کے مجموعی حجم میں کمی کی صورت میں نکلے گا۔
آنے والے سالوں میں عالمی معاشی بحران کی وجہ سے گرتی ہوئی ترسیلات زر اور برآمدات اور بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں کی واپسی کے لئے درکار زر مبادلہ کی ضرورت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو دیمک کی طرح چاٹ جائے گی لیکن اس ساری صورت حال سے پیدا ہونے والی روپے کی قدر میں ناگزیر کمی اور افراط زر کا سارا بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر پڑے گا اور ان کی زندگیوں کو مزید اجیرن بنا دے گا۔
4۔ درآمدات اور برآمدات کا بگڑا توازن
بھاری قرضوں ، امداد اور ترسیلات زر کے بر عکس ایک سرمایہ دارانہ معیشت میں زر مبادلہ کے حصول کا سب سے اہم ذریعہ ملکی برآمدات ہوتی ہیں۔ مگر 2008ء کے عالمی مالیاتی کریش اور اس کے بعد سے لیکر اب تک گہرے ہوتے ہوئے عالمی معاشی بحران نے پاکستان کی برآمدات پر بہت منفی اثرات ڈالے ہیں اور یہ ہر گزرتے سال کے ساتھ ساتھ مسلسل کم ہو رہی ہیں۔ مالی سال 2015ء کے پہلے 6ماہ میں ملکی برآمدات میں 4.4فیصد کی کمی ریکارڈ ہوئی تھی لیکن رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں برآمدات میں 14.5فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ برآمدات میں کمی برآمد کی گئی اشیا کی مقدار اور قیمت دونوں حوالوں سے ہوئی ہے۔
برآمدات کے ساتھ ساتھ پچھلے کچھ عرصہ میں ملک کے درآمدی بل میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ مالی سال 2015ء کے پہلے 6ماہ میں درآمدات میں 11.4فیصد کا اضافہ ہوا تھا جبکہ رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں اس میں 8.1فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ لیکن درآمدات میں کمی کی وجہ کوئی حکومتی معاشی جادوگری نہیں ہے بلکہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں بے تحاشا گراوٹ ہے۔ جولائی 2014ء میں عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 107-110ڈالر فی بیرل تھی جو اب گر کے 43-45ڈالر فی بیرل ہو گئی ہے۔ خام تیل پاکستان کے درآمدی بل کا سب سے بڑا حصہ بناتا ہے اور عالمی منڈی میں تیل کی گرتی ہوئی قیمت نے پاکستان کے درآمدی بل کو کم کرنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مالی سال 2015ء کے پہلے 6ماہ میں خام تیل کا درآمدی بل 3.8ارب ڈالر تھا جو کہ رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں کم ہو کر 2.2ارب ڈالر ہو گیا ہے۔
پاکستان معیشت کے درآمدات اور برآمدات کے شعبے کو پوری طرح سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اسے عالمی معیشت کے پس منظر میں دیکھا جائے اور عالمی معاشی بحران کے جو اثرات پاکستان کی برآمدات اور درآمدات پر آ رہے ہیں انہیں جدلیاتی طور پر جوڑتے ہوئے ہر پہلو سے پرکھا جائے۔ 2008ء کے بعد سے مسلسل بڑھتے اور گہرے ہوتے ہوئے عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں عالمی معیشت شدید سست روی کا شکار ہے۔ زائد پیداواری صلاحیت اور بے تحاشا استحصال کی وجہ سے گرتی ہوئی قوت خرید کی بدولت ہمیں عالمی طور پر تفریط زر کا مظہر دیکھنے کو ملتا ہے۔ عالمی منڈی میں اشیا کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں اور صنعتی پیداوار میں سست روی کی وجہ سے خاص طور پر خام مال کی قیمتیں بہت تیزی سے گراوٹ کا شکار ہیں۔ پچھلے ڈیڑھ سال میں تیل کی قیمت میں آنے والی تیز گراوٹ بھی اس عالمی معاشی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تفریط زر کا ہی ایک حصہ ہے۔
معاشی مظاہر کا تجزیہ رسمی منطق کے تحت کرنے والے سرمایہ دار ماہرین معیشت کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مظہر کے ایک پہلو کو پکڑ کر ایک یک رخے انداز میں پورے مظہر کی تشریح کر دیتے ہین۔ اور اس عمل میں اس مظہر کے متضاد سمت میں جانے والے پہلووں کو مکمل طور پر نظر انداز کردیتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ان معاشی ’’ماہرین‘‘ کی ہے جو تیل کی قیمتوں میں کمی کو پاکستانی معیشت کے لئے اکسیر سمجھتے ہیں اور عالمی معاشی بحران کے پاکستانی معیشت پر اثرات کو ہر پہلو سے دیکھنے میں ناکام ہیں۔ گو کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خام تیل کی قیمتوں میں کمی سے پاکستان کی لولی لنگڑی معیشت کو کچھ سہارا ملا ہے اور درآمدی بل میں کمی واقع ہوئی ہے لیکن دوسری طرف اسی عالمی معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات میں بھی شدید کمی ہو رہی ہے۔ گرتی ہوئی قوت خرید کی بدولت یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں پاکستانی ٹیکسٹائل و دیگر مصنوعات اور اسی سے منسلک چین کی صنعتی سست روی کی وجہ سے پاکستان کے خام مال (خصوصاً کپاس) کی مانگ تیزی سے کم ہو رہی ہے۔ کساد بازاری کا شکار عالمی منڈی میں عالمی سرمایہ دار طبقے کے مختلف حصوں میں باہم مقابلے بازی مزید شدت اختیار کر گئی ہے اور ایسے میں محنت کش طبقے کا وحشیانہ استحصال کرنے کے باوجود اپنی تاریخی کمزوری اور تکنیکی پسماندگی کی بدولت پاکستان کا خصی سرمایہ دار طبقہ مقابلہ بازی کی اس دوڑ میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اس ساری صورتحال کا مجموعی نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ درآمدی بل میں کمی کی صورت میں جتنی بچت ہو رہی ہے اس سے کہیں زیادہ نقصان برآمدات میں کمی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 6ماہ میں پاکستان کا تجارتی خسارہ 12ارب ڈالر تھا جو کہ اس مالی سال اختتام تک 18ارب دالر سے تجاوز کر جائے گا اور آنے والے سالوں میں یہ تجارتی خسارہ مزید بڑھنے کی طرف جائے گا۔
5۔ دفاعی اخراجات کی عیاشیاں
قرضوں اور مارک اپ کی واپسی کے بعد بجٹ کا سب سے بڑا حصہ ہڑپ کر جانے والا شعبہ نام نہاد فوجی اخراجات کا ہے۔ مالی سال 2015-16ء کے بجٹ میں 781ارب روپے دفاعی اخراجات کی مد میں رکھے گئے۔ لیکن یہ اعداد و شمار عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں کیونکہ یہ رقم صرف براہ راست فوجی بجٹ کو ظاہر کرتی ہے۔ اس رقم میں ریٹائرڈ فوجیوں کی پنشن کی مد میں رکھے گئے 175ارب روپے ، Contingent Liability Fundکی مد میں رکھے گئے 165ارب روپے، ایٹمی پروگرام کی توسیع کے لئے رکھے گئے 30ارب روپے، کولیشن سپورٹ فنڈ کی مد میں آنے والے 85ارب روپے اور CPECسیکیورٹی فورس کی تشکیل کے لئے رکھے گئے 30ارب روپے شامل نہیں ہیں۔ اگر ہم ان تمام اخراجات کو جمع کریں تو پتا چلتا ہے کہ بجٹ میں کل ملا کر 1266ارب روپے کی رقم فوجی اخراجات کے لئے مختص کی گئی ہے۔ افواج پاکستان کی پیشہ ورانہ نااہلی کو سامنے رکھتے ہوئے اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ اس دفاعی بجٹ کا ایک بڑا حصہ کرپشن، کمیشن، گرانٹس اور کک بیکس کی مد میں فوجی اشرافیہ کی تجوریوں میں چلا جاتا ہے۔ اس سب کے باوجود جہاں محنت کش طبقے کے لئے زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول بھی مشکل بنا دیا گیا ہے وہیں فوجی اخراجات میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے۔ مالی سال 2012-13ء کے بجٹ میں براہ راست فوجی بجٹ 570ارب روپے تھا اور حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق وزارت دفاع نے بجٹ 2016-17ء میں براہ راست فوجی بجٹ کی مد میں 920ارب روپے کا مطالبہ کیا ہے۔
7۔ بیرونی سرمایہ کاری کا فریب
عالمی معاشی بحران کے سبب پچھلے کئی سالوں سے پاکستان میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی تھی۔ مالی سال 2014-15ء میں صرف 709ملین ڈالر کی FDIہوئی جو کہ مالی سال 2013-14ء کی نسبت 58فیصد کم تھی۔ لیکن رواں مالی سال میں براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں کچھ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور جولائی 2015ء سے مارچ 2016ء تک ملک میں 957ملین ڈالر کی FDI ہو چکی ہے۔ لیکن اگر ہم FDIمیں ہونے والے اس اضافے کی جزیات میں جائیں تو پتا چلتا ہے کہ یہ سارا اضافہ CPECکے تحت ہونے والی چینی FDIکی وجہ سے ہوا ہے اور چینی سرمایہ کاری کو نکال کر جولائی 2015ء سے مارچ 2016ء تک باقی تمام ممالک کی طرف سے ہونے والی FDIمیں درحقیقت 31فیصد کمی ہوئی ہے۔ مثلاً اسی عرصہ میں امریکی سرمایہ کاروں نے 41.7ملین ڈالر کی سرمایہ کاری پاکستان سے نکالی ہے۔ لیکن بیرونی سرمایہ کاری کے حوالے سے سب سے اہم بات سمجھنے کی یہ ہے کہ بیرونی سرمایہ کار خدمت خلق یا عوام کی فلاح و بہبود کے لئے سرمایہ کاری نہیں کرتے۔ سرمایہ کاری کی کسی بھی شکل کی طرح بیرونی سرمایہ کاری بھی صرف اور صرف منافع کے حصول کے لئے کی جاتی ہے اور یوں پاکستان میں آنے والا ہر ڈالر پاکستانی عوام کی ہڈیوں سے کئی ڈالر چوس کر واپس لے جاتا ہے۔ ٹی وی پر بیٹھ کر FDIکے حوالے سے سبز باغ دکھانے والے معاشی ماہرین کے دعووں کے برعکس حتمی تجزیئے میں FDIناصرف اس سماج میں مزید غربت پھیلانے کا سبب بنتی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی امارت اور غربت کے مابین خلیج کو مزید گہرا کرتی ہے۔
8۔ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور(CPEC)منصوبہ
آج کل ٹی وی، اخبارات پر ہونے والے تبصروں اور تجزیوں میں CPECکا بہت چرچا ہے۔ حکومت اور حکمران اشرافیہ کے طاقتور دھڑے CPEC معاہدے کو اپنی بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ میڈیا کے ذریعے عوام کو یہ تاثر دیا جا رہا ہے کہ CPECمنصوبہ پاکستان کو جنت بنا دے گا اور عوام کے تمام دکھ درد دور ہو جائیں گے۔ یہ دعوے حقیقت سے اتنا ہی دور ہیں جتنا سورج زمین سے دور ہے۔
CPECبنیادی طور پر ٹرانسپورٹ اور توانائی کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے مختلف پراجیکٹس پر مبنی منصوبہ ہے جس کی اعلان کردہ مالیت 46ارب ڈالر ہے۔ یہ ساری رقم بیرونی قرضوں کی صورت میں حاصل کی جائے گی۔ 11ارب ڈالر کے قرضے ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر منصوبوں (موٹرویز، سڑکیں، گوادر پورٹ، اورنج ٹرین) کے لئے براہ راست حکومت پاکستان کو دیئے جائیں گے۔ 35ارب ڈالر کے بیرونی قرضے توانائی، پائپ لائنز، فائبر آپٹکس کیبل بچھانے جیسے منصوبوں کے لئے براہ راست چینی اور پاکستانی نجی و سرکاری کمپنیوں کو دیئے جائیں گے۔ ان قرضوں کا ایک بڑا حصہ توانائی کے منصوبوں پر خرچ ہو گا۔ اس پراجیکٹ کے لئے درکار 46ارب ڈالر کا کل قرضے کا ایک بڑا حصہ چینی بینکوں سے حاصل کیا جائے گا۔ لیکن اس کے علاوہ عالمی مالیاتی اداروں مثلاً ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی (6ارب ڈالر) قرض لیا جائے گا۔
بہت سے تجزیہ کار یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ CPECکے تحت ملک کے کونے کونے میں سڑکوں کا جال بچھ جائے گا، نئے پاور پلانٹ لگیں گے اور ملک ترقی کرے گا۔ اگر سطحی انداز میں اس منصوبے کا جائزہ لیا جائے تو یہ باتیں درست معلوم ہوتی ہیں لیکن مارکس وادیوں کا کام سطح کے نیچے تضادات کا مارکسی بنیادوں پر تجزیہ کرنا ہوتا ہے تاکہ پتا لگایا جا سکے کہ ’’قومی مفاد‘‘ اور ’’ملکی مفاد‘‘ کے پرفریب نعروں کو پیچھے درحقیقت کس طبقے کا مفاد چھپا ہوا ہے۔
سب سے پہلے تو عالمی معاشی بحران اور خصوصاً چینی معیشت کی مسلسل سست روی کی وجہ سے چینی ریاست اور بینکوں کے لئے وعدہ کئے گئے تمام قرض دینا مشکل نظر آتا ہے۔ حال ہی میں معتبر سرمایہ دارانہ اخبار فنانشل ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2016ء کے آغاز تک چین کا کل قرضہ اس کے GDPکا 237فیصد تک ہو چکا تھا جبکہ 2008ء میں یہ کل GDPکا 148فیصد تھا۔ رپورٹ کے مطابق چینی معیشت اس بھاری قرض کے بوجھ تلے دب رہی ہے اور مستقبل میں معاشی سست روی میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے گا۔ چینی معیشت کی مسلسل کمزور پڑتی ہوئی حالت CPECمنصوبہ کے لئے درکار قرض کی پوری فراہمی اور منصوبے کی بروقت تکمیل پر ایک بہت بڑا سوالیہ نشان لگا دیتی ہے۔ لیکن اگر اگلے تین چار سال میں درکار کل قرضے میں سے آدھا (23ارب ڈالر) بھی مل جاتا ہے تو یہ 2019ء تک پاکستان کے کل بیرونی قرضے کو 90ارب ڈالر سے اوپر لے جائے گا اور جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ 20ارب ڈالر صرف بیرونی قرض اور مارک اپ کی واپسی کے لئے چاہئے ہوں گے۔ وہ تمام قرضہ جو زیادہ تر ٹرانسپورٹ انفرااسٹرکچر کے لئے براہ راست حکومت پاکستان کو دیا جا رہا ہے وہ تو پاکستان کے محنت کش طبقے کا خون نچوڑ کر واپس کیا ہی جائے گا لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک 5-6فیصد کی شرح سود پر ملنے والا وہ قرض ہے جو حکومت پاکستان کی ضمانت پر زیادہ تر توانائی کے شعبے میں چین اور پاکستان کی کمپنیوں کو دیا جائے گا۔ ہائیڈل پاور سے 40سے 60ہزار میگاواٹ سستی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ہونے کے باوجود اس قرضے سے بے تحاشہ آلودگی پھیلانے والے تھرمل پاور پلانٹس لگائے جائیں گے جن سے ہائیڈل پاور کے مقابلے میں کئی گنا مہنگی بجلی پیدا ہو گی جسے حکومتِ پاکستان ان Independent Power Producers (IPPs) سے پہلے سے طے شدہ مزید مہنگے ریٹ پر خریدنے کی پابند ہو گی۔ یہاں پر یاد رہے کہ حکومت نے ابھی تک ان طے شدہ ریٹس کے حوالے سے تمام معلومات پوشیدہ رکھی ہوئی ہیں لیکن یقینی طور پر یہ ریٹ پہلے سے بجلی پیدا کرنے والے IPPs کے ریٹ سے بھی زیادہ ہو گا۔ اس طرح آنے والے سالوں میں ان قرضوں کی واپسی کیلئے ایک طرف تو عوام پر مزید ٹیکس کی بھرمار کی جائے گی، صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی ضروریات کے بجٹ میں مزید کٹوتیاں کی جائیں گی تو دوسری طرف انتہائی مہنگی بجلی کا طوق بھی محنت کش طبقے کے گلے میں ڈالا جائے گا۔ لیکن عوام کی حالتِ زار سے بے نیاز حکمران طبقے کو CPEC منصوبے میں کرپشن، کک بیک، کمیشن اور شراکت داری کی بنیاد پر لمبا مال نظر آ رہا ہے۔ FWO سے لے کر منشا گروپ اور عارف حبیب گروپ سے لے کر اینگرو گروپ تک، پاکستان کی حکمران اشرافیہ کے تمام دھڑوں میں اس وقت CPEC منصوبے میں موٹا مال بنانے کیلئے سخت مقابلے بازی چل رہی ہے۔ کرپشن اور کک بیکس کا بازار گرم ہے۔ شفافیت کے معاملے میں حکمران طبقہ کے سابقہ ٹریک ریکارڈ رکو دیکھتے ہوئے اس امر کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس منصوبے کیلئے حاصل کئے جانے والے بیرونی قرضوں کا ایک قابلِ ذکر حصہ براہِ راست حکمران اشرافیہ کی تجوریوں میں منتقل ہو جائے گا اور چھ رویہ موٹروے کے ساتھ گزرتی کچی پگڈنڈی پر صحت اور تعلیم کی بنیادی ضروریات سے محروم ٹوٹی چپلیں پہن کر سائیکل چلانے والا پاکستان کا عام آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گا کہ آخر اس ’’ترقی‘‘ کا اسے کیا فائدہ ہوا؟
9۔ افراطِ زر میں کمی کے حکومتی دعوے
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2015-2016ء میں افراطِ زر کی شرح (CPI) 3-4 فیصد کے درمیان رہے گی جو کہ ماضی کی نسبت کم ہے۔ افراطِ زر کی شرح میں کمی کو حکومت اپنی بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہے لیکن عام آدمی مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے زندگی دوبھر ہو جانے کا شکوہ کرتا نظر آتا ہے۔ حکومتی دعوں اور عام آدمی کی زندگی کے مابین اس تضاد کو سمجھنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے یہ سمجھنا ہو گا کہ افراطِ زر کی شرح میں کمی کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اشیا کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں۔ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ ماضی کی نسبت اشیا کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار کم ہے۔ماضی میں بھی حکومتیں بے شمار مرتبہ افراطِ زر کی شرح کو کم دکھانے کیلئے (Consumer Price Index (CPIکے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتی رہی ہیں۔ حکومت کے معاشی ’’ماہرین‘‘ کو انہی کاموں کیلئے پیسے ملتے ہیں۔ہر بار کسی بھی دئیے گئے عرصے کیلئے افراطِ زر کی شرح نکالتے وقت CPI بنڈل میں سے ان اشیا کو نکال دیا جاتا ہے جن کی قیمتیں اس عرصے میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھی ہوں۔ اس طرح عوام بے شک مہنگائی کی چکی میں پستی رہے لیکن افراطِ زر کی شرح حکومت کی من پسند ہی نکلتی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے غیر سرکاری معاشی تھنک ٹینک یہ دعوی کر رہے ہیں کہ اگرچہ افراطِ زر کی شرح میں ماضی کی نسبت کمی ہوئی ہے لیکن یہ ابھی بھی حکوت کی اعلان کردہ شرح سے زیادہ ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ افراطِ زر میں کمی کی وجہ کوئی حکومتی کمال نہیں ہے بلکہ یہ سب عالمی معاشی سست روی اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تفریطِ زر (Deflation) کا نتیجہ ہے۔ عالمی منڈی میں بحران کی وجہ سے اشیا (خصوصاً خام مال) کی قیمتیں مسلسل کمی کا شکار ہیں۔ تیل کی قیمتوں میں کمی بھی اسی بحران کی پیداوار ہے۔ پاکستان میں حالیہ عرصے میں ہونے والی افراطِ زر کی شرح میں کمی اشیا کی قیمتوں میں کمی کے اس عمومی عالمی رجحان کے ساتھ منسلک ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ حکومت نے عالمی منڈی میں قیمتوں کے گرنے کا بہت کم فائدہ عوام تک پہنچنے دیا ہے اور موقع کا فائدہ اٹھا کر عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی ہے۔ اشیاکی بنیادی قیمتوں میں کمی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ڈیوٹی، سرچارج، حکومتی لیوی اور سیلز ٹیکس میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا گیا ہے۔اس کی واضع مثال پاکستان میں پٹرول کی قیمتیں ہیں۔ جب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 110 ڈالر فی بیرل تھی اس وقت پاکستان میں تیل کی قیمت 112روپے فی لیٹر تک گئی تھی۔ آج جب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت 45 ڈالر فی بیرل ہے تو پاکستان میں پیٹرول کی قیمت ابھی بھی تقریباً 65 روپے فی لیٹر ہے۔ان پالیسیوں کے اثرات جہاں براہِ راست محنت کش پڑے ہیں وہیں پر معیشت کا برآمدی سیکٹر بھی شدید متاثر ہوا ہے۔خصوصاً کسان مقامی طور پر زائد لاگتِ پیداوار اور عالمی منڈی میں اجناس کی گرتی ہوئی قیمتوں کے دو پاٹوں کے درمیان پس کر رہ گئے ہیں۔ اس پوری بحث کا ایک اور پہلو بھی ہے اور وہ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر کے ساتھ منسلک ہے۔IMF کے مطابق حکومتِ پاکستان نے اسٹیٹ بینک کی مالیاتی منڈی میں مداخلت کے ذریعے پاکستانی روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر حقیقی قدر سے 10-20 فیصد زیادہ پر قائم رکھا ہوا ہے۔ بنیادی طور پر حکمران طبقہ کے اس اقدام کا مقصد پاکستان کے محنت کش طبقے کے شدید استحصال سے جمع کی گئی دولت کو بیرونِ ملک منتقل کرتے ہوئے نقصان سے بچنا ہے۔اگرچہ اس اقدام کے بر آمدی سیکٹر پر بہت منفی اثرات آ رہے ہیں لیکن وقتی طور پر یہ قدم افراطِ زر کی شرح کو تیزی سے بڑھنے سے روکنے کا موجب بھی بن رہا ہے۔ آنے والے سالوں میں عالمی معاشی بحران کے سبب عالمی منڈی میں اشیا کی قیمتوں میں کمی کا رجحان جاری رہے گا لیکن اس کے باوجود پاکستان میں افراطِ زر کی شرح میں اضافہ ہو گا۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ آنے والے سالوں میں حکمران طبقہ محنت کش طبقے پر ٹیکسوں (خصوصاً بالواسطہ ٹیکس) کے بوجھ میں مزید اضافہ کرے گا تو دوسری طرف حکومت مصنوعی طور پر لمبے عرصے کیلئے روپے کی قدر کو اس کی حقیقی قدر سے زائد پر قائم نہیں رکھ سکتی۔ ان دونوں رجحانات کا ناگزیرنتیجہ آنے والے وقت میں افراطِ زر کی شرح اور مہنگائی میں مزید اضافہ کی صورت میں نکلے گا جو غریب عوام کی زندگی کو مزید اجیرن کر دے گا۔
10۔GDP کی شرحِ اضافہ؟
اسٹیٹ بینک کی حالیہ رپورٹ کے مطابق مالی سال 2015-2016ء میں ملک کے GDP میں اضافے کی شرح 4-5فیصد کے درمیان رہے گی۔ اگر ان اعداد و شمار کو درست مان بھی لیا جائے تو بھی اس امر کا تعین کرنا بہت اہم ہے کہ یہ شرح اضافہ کیسے حاصل کی جا رہی ہے اور اس کا عوام کی حقیقی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
GDP کی شرح اضافہ ایک بہت پر فریب پیمانہ ہے جو اپنے اندر بہت خوفناک تضادات چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔ مثلاً اگر ملک میں نئے جیل خانے بن رہے ہیں تب بھی GDP کی شرح میں اضافہ ہو گا لیکن کیا نئے جیل خانے بننے سے عوام کی زندگی آسان ہو جائے گی؟ اگر سٹے بازی کی بنیاد پر رئیل اسٹیٹ کے سیکٹر میں تیزی آ رہی ہے تو GDP میں اضافہ تو ہو گا لیکن عام آدمی کیلئے رہائش کا حصول اتنا ہی مشکل ہو جائے گا۔ اسی طرح سٹاک مارکیٹ کی تیزی بھی GDP کی شرح میں اضافے کو بڑھاتی ہے لیکن اس سے جہاں سرمایہ دار طبقے اور اوپری درمیانے طبقے کی دولت میں اضافہ ہوتا ہے وہیں محنت کش طبقے اور نچلے درمیانے طبقے کے استحصال میں اور زیادہ شدت آ جاتی ہے۔ ایک فائیو سٹار ہوٹل نما ہسپتال کی تعمیر کے نتیجے میں بھی GDP کی شرح اضافہ میں بڑھوتری ہو گی لیکن کیا ایک غریب آدمی وہاں اپنا علاج کروا سکتا ہے؟
پاکستان کے GDP کی موجودہ شرحِ اضافہ ایسے بہت سے تضادات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ پاکستان کے موجودہ GDP میں بڑھوتری کی سب سے اہم وجہ انفراسٹرکچر کے منصوبے ہیں (خصوصاً CPEC) جو اندھا دھند بیرونی قرضے لے کر تعمیر کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سارے بیکار تعمیراتی منصوبے بے تحاشہ اندرونی قرضہ لے کر شروع کئے گئے ہیں۔ دوسری اہم وجہ کالے دھن کی سرکاری معیشت کے کئی اہم سیکٹرز خصوصاً بنکاری اور رئیل اسٹیٹ میں مداخلت ہے۔ تیسری اہم وجہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود کو کم کر کے چھ فیصد پر لے آنا ہے جس سے جہاں ایک طرف تو حکومت کیلئے اندرونی قرضوں کا حصول آسان ہو گیا ہے وہیں نجی شعبے کو بھی سستا سرمایہ میسر آیا ہے جسے وہ کسی پیداواری شعبے میں لگانے کے بجائے سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ کی سٹے بازی میں اندھا دھند لگا رہا ہے۔حتی کہ بڑی صنعتی پیداوار کے شعبے میں نظر آنے والی معمولی بہتری بھی بنیادی طور پر دو شعبوں گاڑیوں کی صنعت اور تعمیراتی صنعت سے منسلک ہے اور یہ دونوں شعبے پھر قرضوں کی معیشت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں جس میں نجی گاڑیوں کیلئے بنک قرضہ ، اپنا روزگار سکیم اور CPEC منصوبوں کی تعمیر شامل ہے۔یوں بھاری قرضوں، سٹے بازی کے بلبلوں، کالے دھن کی مداخلت اور خصی دلال سرمایہ دار طبقے کیلئے سستے سرمایے کی فراہمی کی بنیاد پر حاصل ہونے والی اس GDP کی شرح میں اضافے کے عوام کی زندگیوں پر الٹ اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔GDP کی شرح اضافہ بڑھنے کے باوجود بے روزگاری کی شرح بھی بڑھ رہی ہے کیونکہ اسٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ کے بلبلے اور نجی بنکاری کے پھیلاؤ تو کوئی خاص روزگار پیدا ہی نہیں کرتے اور جہاں تک انفراسٹرکچر کے بڑے منصوبوں کی بات ہے تو وہاں زیادہ تر ٹیکنکل لیبر براہِ راست چین سے آ رہی ہے اور جو روزگار یہاں کے محنت کش طبقے کو میسر بھی آتا ہے اس میں خوفناک ٹھیکیداری نظام کے تحت اجرتیں نہایت کم ہیں اور اوقات کار وحشیانہ حد تک طویل۔ یوں GDP کی شرحِ اضافہ میں اس بڑھوتری کے بدولت جہاں ایک طرف سرمایہ دار طبقہ امیر سے امیر تر ہوتا جا رہا ہے تو دوسری طرف معیشت قرضوں کی دلدل میں ڈوبتی چلی جا رہی ہے۔ محنت کش طبقے کے استحصال میں شدید اضافہ ہو رہا ہے، عوام پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی گئی ہے اور غریب آدمی کیلئے زندگی کی بنیادی ضروریات کا حصول ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔
غیر سرکاری معیشت کی وحشت
پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جن کی کل ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ غیر سرکاری معیشت یا کالے دھن پر مبنی ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق پاکستان کا ’نومینل‘ GDP (سرکاری معیشت) اس وقت تقریباً 260 ارب ڈالر ہے۔ 2012ء میں منظر عام پر آنے والی ایک غیر سرکاری معاشی تھنک ٹینک (PIDE) Pakistan Institute of Development Economics کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی غیر سرکاری معیشت کا حجم سرکاری معیشت کے کم از کم 75 فیصد کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر سرکاری معیشت تقریباً 195 ارب ڈالر کا حجم رکھتی ہے اور کل معیشت (سرکاری و غیر سرکاری) 455 ارب ڈالر کے قریب ہے۔ غیر سرکاری معیشت کا بڑا حصہ ایسی معاشی سرگرمیوں پر مشتمل ہے جو کہ اگرچہ قانونی طور پر جائز ہیں لیکن ان کی تفصیلات اور آمدن سرکاری ریکارڈ میں موجود ہی نہیں ہیں۔ مثلاً چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کی اکثریت، دکانیں، اپنا کام کرنے والے ہنر مند، پروفیشنلز (ڈاکٹر، وکیل وغیرہ)، چھوٹے کاروبار، نجی تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی اکثریت، ٹرانسپورٹ بزنس کا قابلِ ذکر حصہ اور گھریلو ملازمین وغیرہ۔اس کے علاوہ بڑی صنعتوں اور تجارت، رئیل اسٹیٹ سیکٹر اور بنکاری کے بھی ایک قابلِ ذکر حصے کا حکومت کے پاس کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ نتیجتاً یہ ساری معاشی سرگرمی جو سرکاری معیشت کی گرفت سے باہر ہے غیر سرکاری معیشت کا حصہ بن جاتی ہے۔ لیکن غیر سرکاری معیشت کا ایک اور انتہائی تاریک اور بھیانک رخ بھی ہے۔ 2013ء میں اقوامِ متحدہ کے ایک ادارے United Nations Office on Drugs and Crime (UNODC) کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت کا ایک قابلِ ذکر حصہ مجرمانہ سرگرمیوں پر مبنی ہے۔ جرائم کی اس معیشت میں منشیات (خصوصاً ہیروئین) کی پیداوار اور اسمگلنگ، اسلحہ اسمگلنگ، انسانوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، دہشت گردی کی صنعت، چوری ڈکیتی، قحبہ گری، ٹیکس چوری، بجلی و گیس چوری، ٹمبر مافیا، لینڈ مافیا، بھتہ خوری، جعل سازی سمیت ہر قسم کے جرائم شامل ہیں۔UNODC کی اس رپورٹ کے مطابق جرائم پر مبنی اس معیشت کا حجم سرکاری معیشت کے تقریباً 30 فیصد کے برابر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 195 ارب ڈالر کی غیر سرکاری معیشت میں سے 78-80 ارب ڈالر براہِ راست مجرمانہ سرگرمیوں سے آتے ہیں۔ یوں اگر غیر سرکاری معیشت کل ملکی معیشت کا تقریباً 43 فیصد بنتی ہے تو غیر سرکاری معیشت کا جرائم پر مبنی یہ کالا حصہ کل ملکی معیشت کا 18 فیصد بناتا ہے۔ جیو ٹی وی کی ایک رپورٹ کے مطابق صرف کراچی شہر میں ہر سال تقریباً 350 ارب روپے کا کالا دھن براہِ راست مجرمانہ سرگرمیوں سے پیدا ہوتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ کراچی ہر وقت میدانِ جنگ بنا رہتا ہے۔ یقینی طور پر کراچی میں ریاست، حکمران طبقے اور سیاسی پارٹیوں کے مختلف دھڑوں کے مابین ہونے والی لڑائی کسی سیاسی یا نظریاتی اختلاف پر نہیں بلکہ اس کالے دھن کی بندر بانٹ پر ہو رہی ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق ڈیورنڈ لائن کے دونوں طرف پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں ہر سال تقریباً 6000 ٹن افیون اگائی جاتی ہے جو کہ افیون کی عالمی پیداوار کا 90 فیصد بناتی ہے۔ اسی رپورٹ کے مطابق ہیروئین کی عالمی تجارت تقریباً 90 ارب ڈالر سالانہ کا حجم رکھتی ہے اور اسی میں سے تقریباً 30 ارب ڈالر کی ہیروئین پاکستان سے سمگل ہو کر عالمی منڈیوں تک پہنچتی ہے۔یہ کالا دھن سماج کی رگوں میں زہر کی طرح پھیلا ہوا ہے اور ریاستی اداروں کو اندر سے دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کر چکا ہے۔ ایک طرف دہشت گردی، مذہبی انتہا پسندی، لاقانونیت اور دوسری طرف ریاستی اداروں کی لرزتی ہوئی کیفیت، دونوں ہی اسی کالے دھن سے جنم لینے والے مظاہر ہیں۔
سرکاری و غیر سرکاری معیشت کا باہم تعلق
سرکاری اور غیر سرکاری معیشت کے باہم تعلق کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں سب سے پہلے یہ بات واضح کرنی ہو گی کہ ہم کوئی سیدھی لکیر کھینچ کر ان دونوں کو میکانکی انداز میں ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔ کل ملکی معیشت کے یہ دونوں حصے ہزاروں لاکھوں تانوں بانوں سے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اور ان کے مابین بیک وقت معاونت اور مخالفت پر مبنی ایک متضاد جدلیاتی رشتہ ہے۔ جہاں ایک طرف لاقانونیت، بھتہ خوری، ٹیکس چوری، بجلی چوری اور کرپشن سرکاری معیشت کو نقصان پہنچاتی ہے وہیں سرکاری معیشت کے رئیل اسٹیٹ، اسٹاک مارکیٹ اور بنکاری جیسے شعبوں کا پھیلاؤ اسی کالے دھن کی مداخلت کا مرہونِ منت ہے۔ ایسے ہی جہاں ایک طرف تارکینِ وطن کی ترسیلاتِ زر ملک کے ذرِ مبادلہ کے ذخائر کا ایک اہم حصہ بناتی ہیں وہیں ان ترسیلات کا ایک بڑا حصہ ہنڈی کے غیر قانونی طریقہ سے ملک واپس بھیجا جاتا ہے۔ عمران خان جیسے نوٹنکی سیاست دانوں کی کرپشن کے خلاف نعرے بازی سے قطع نظر یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستانی منڈی کی قوتِ خرید کو سہارا دینے میں کالے دھن کا ایک بہت اہم کردار ہے۔ حتمی تجزیے میں ہم یہ بات یقین سے کہ سکتے ہیں کہ کالا دھن کوئی آسمان سے نہیں ٹپکا بلکہ عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی متروکیت کے عہد میں پاکستان کی لاغر اور کمزور سرمایہ داری سے اس کا جنم اور پھیلاؤ ایک ناگزیر امر تھا۔
مسائل کی جڑ سرمایہ داری ہے!
بہت سے غیر سرکاری معاشی تجزیہ نگار اور نام نہاد اپوزیشن کے سیاستدان موجودہ حکومت کو تمام معاشی مسائل اور بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔ سرمایہ دار طبقے کی براہِ راست نمائندہ ہونے کی وجہ سے نواز حکومت کی مزدور دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اہم سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی افق پر نظر آنے والی رائج الوقت سیاسی پارٹیوں میں سے کسی کے پاس سماج کو ترقی دینے، پیداواری قوتوں کو آگے بڑھانے اور عوام کی وسیع تر اکثریت کی زندگی کو خوشحال بنانے کیلئے کوئی معاشی پروگرام ہے؟ سیاسی حکومت کے علاوہ کیا فوجی آمریت کے پاس مسائل کا کوئی حل موجود ہے؟
ہم سمجھتے ہیں کہ اس عہد کے تمام سماجی اور معاشی مسائل کی جڑ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یہ نظام عالمی سطح پر اپنی تاریخی افادیت کھو چکا ہے۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت پر مبنی اس کے پیداواری رشتے اب ذرائع پیداوار کا گلا گھونٹ رہے ہیں اور کرہِ ارض کی وسیع ترین آبادی کی زندگی کو جہنم بنا رہے ہیں۔ اگر ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں یہ نظام سماج کو مزید ترقی اور خوشحالی دینے سے قاصر ہو چکا ہے تو پھر پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں تو اس مرتے ہوئے گلے سڑے نظام کی اذیت کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔لیکن جب تک سرمایہ دارانہ نظام سماج پر مسلط رہے گا اس وقت تک ہر حکومت( چاہے جمہوریت ہو یا آمریت) کو سرمائے کے آہنی قوانین کی پابندی کرنی پڑے گی۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی افق پر نظر آنے والی تمام رنگ برنگی سیاسی پارٹیوں کا معاشی منشور نجی ملکیت کے گن گاتے ہوئے منڈی کی معیشت (سرمایہ داری) کے سامنے سر بسجود نظر آتا ہے۔ حکمران اشرافیہ اور ریاست کے مختلف دھڑوں کی نمائندگی کرنے والی تمام سیاسی پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتیں۔سرمایہ دار طبقے کے مختلف دھڑوں کی براہِ راست یا بالواسطہ نمائندگی کرنے والی ان تمام پارٹیوں کا حتمی مقصد نجی ملکیت کا تحفظ کرتے ہوئے بحیثیتِ مجموعی حکمران اشرافیہ کے سیاسی اور معاشی اقتدار کو قائم رکھنا ہے۔ نام نہاد جمہوریت کی طرح فوجی آمریت بھی اسی سرمایہ دارانہ نظام کو چلانے کا ہی ایک طریقہ کار ہے۔ آمریت چاہے مذہبی ہو یا لبرل، دونوں صورتوں میں سرمایہ دارانہ نظام اور نجی ملکیت کی محافظ ہے۔
نجات کا واحد راستہ —— سوشلسٹ انقلاب
پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت کے خلاف لاوا پک رہا ہے۔ بے شمار سماجوں میں اس طبقاتی نظام کے خلاف چلنے والی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کی سینکڑوں تحریکیں اس حقیقت کی غمازی کرتی ہیں۔ پاکستان میں بھی پچھلے کچھ عرصے سے چلنے والی محنت کش طبقے، کسانوں اور طلبا کی بے شمار چھوٹی تحریکیں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ابھرتی ہوئی بغاوت کا عندیہ دے رہی ہیں۔ وہ وقت دور نہیں جب یہ بے شمار چھوٹی چھوٹی تحریکیں طبقاتی بنیادوں پر جڑتے ہوئے ایک دھماکے کی صورت میں ایک عظیم انقلابی تحریک کو جنم دیں گی۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ ایک مرتبہ پھر تاریخ کے میدان میں اترتے ہوئے 1968-69ء کی انقلابی جدوجہد کو کہیں زیادہ بلند پیمانے پر دہرائے گا۔ اس مرتبہ ایک مارکسسٹ انقلابی قوت کی موجودگی محنت کش طبقے کی جدوجہد کو سوشلسٹ انقلاب کی حتمی منزل تک پہنچانے میں اپنا فیصلہ کن کردار ادا کرے گا۔