تحریر: |گل زادہ صافی |
پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں عمومی طور پر عوام پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے معاشرے میں کردار کے بارے میں مغالطوں کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو اسی میڈیا پر میڈیا کے کردار کے حوالے سے ہونے والے بحث و مباحثے ہیں جن میں میڈیا کے سماج میں کردار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ایسے لگتا ہے جیسے میڈیا کے عام ہونے سے قبل انسان دور وحشت میں رہتا تھا اور میڈیا، بالخصوص الیکٹرانک میڈیا، کی وسعت نے انسانوں کو تہذیب سے آشنا کر دیا ہے۔ اس سے قبل ہر طرف جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے تھے لیکن نیوز چینلز کے گھر گھرپہنچنے کے بعد نسل انسانی با شعور ہو گئی ہے۔اس کے علاوہ اپنے مالی مفادات کے تحفظ کے لئے انہی چینلزپر ہونے والے ٹاک شوز جن میں کبھی حکمران طبقے کے ایک دھڑے اور کبھی کسی دوسرے دھڑے کے کرتوت منظرعام پر لا کر یہی ٹی وی چینلز اور ان پر پروگرام کرنے والے اینکرز ’’سماج سیوک‘‘ ہونے کا ناٹک کرتے دکھتے ہیں۔ یہ عمل میڈیا سے بیجا توقعات کو جنم دیتا ہے کہ جب بھی عوام حکمرانوں و طبقہ امرا کو للکاریں گے تو میڈیا ان کے جائز حقوق کی جدوجہد میں انکے ساتھ کھڑا ہوگا کیونکہ وہ تو پہلے ہی اس ’’جہاد‘‘ میں پیش پیش ہے۔ لیکن یہ تصویر کا ایک رخ ہے، اگر تصویر کا دوسرا رخ دیکھا جائے تو پتا چلتا ہے کہ میڈیا مالکان جنہوں نے اپنی ناجائز کمائیوں اور لوٹ مار کو محفوظ بنانے کے لئے ٹی وی چینل کھولنے کے این او سی حاصل کئے ہیں اور بڑے بڑے اینکر پرسنز کو لاکھوں روپے تنخواہوں میں ملازم رکھا ہوا ہے؛ جن کا تعلق بھی اسی استحصال کرنے والے طبقے سے ہے جو کہ انکے خون پسینے کو چوس کر اندرون و بیرون ممالک اپنی بزنس ایمپائرز کھڑی کررہے ہیں۔ اس میڈیا کا کام صرف یہ ہے کہ یہ اپنے مالکان کے بزنس انٹرسٹ کی نگہبانی کے ساتھ برسراقتدار طبقہ کو ہیرو بنا کر نذرانے وصول کریں
عوام الناس کے حقیقی مسائل کو آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لئے روزانہ 24 گھنٹے کی نشریات میں سرمایہ داروں اور ان کے دلال ریاستی اداروں کی آپسی نوراکشتیوں اور حصہ بقدر جثہ کی لڑائیوں کو مرچ مصالحہ لگا کر عوام کے مسائل بنا کر پیش کریں۔ قندیل بلوچ ،ایان علی اور دیگر اس نظام زر کے مداریوں کی مصنوعی ڈرامے بازیوں کو یہ رنگین کر کے کئی کئی منٹ کا قیمتی وقت تو دے دیتے ہیں لیکن دوسری طرف اگر محنت کش کئی کئی گھنٹے سڑکوں پر احتجاج کریں تو انکے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ہے۔ یہ میڈیا کبھی بھی ملٹی نیشنل کمپنیوں، فیکٹریوں اور اداروں میں محنت کشوں کے استحصال پر بات نہیں کرے گا۔ کیونکہ انہی سرما یہ داروں کے اشتہارات کے ذریعے ان چینلز کو اربوں روپے کے منافعے حاصل ہوتے ہیں۔ یہ میڈیا مالکان اپنے میڈیا ہاؤسز میں کام کرنے والے صحافی ورکرز کا بھی خوب استحصال کرتے ہیں۔ان ورکرز کو یا تو بالکل تنخواہ ہی نہیں دی جاتی یا محض برائے نام، جن چند خوش قسمت میڈیا ورکرز کو جو تھوڑی بہت تنخواہ ملتی بھی ہے تو وہ کئی کئی ماہ تک انتظار کی سولی پر لٹکتے ہیں۔ اخباروں اور ٹی وی چینلز کے ارب پتی مالکان خود ہی میڈیا رپورٹرز اور ورکرز کو بلیک میلنگ اور بھتہ لینے پرراغب و مجبور کرتے ہیں۔
سرکاری و پرائیویٹ اداروں سے اشتہارات و کمیشن لینے کے سبب یہ ان کرپٹ اداروں و شخصیات کے بارے میں حقیقت کو چھپاتے ہوئے ’’سب اوکے‘‘ کی رپورٹ دیتے ہیں۔ان بھتوں، کمیشنوں اور رشوت کی رقم میں سے ہر تحصیل و ضلع کے رپورٹر کو ہر سال ایک خطیررقم اپنے اداروں کو باقاعدگی سے بھیجنی پڑتی ہے۔ عدم ادائیگی پر ان میڈیا ورکرز کو فارغ کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔ اخبار میں اشتہار دے کر نمائندگی کے لئے باقاعدہ بولی لگائی جاتی ہے اور جو زیادہ بولی دیتے ہیں وہ بلا شرکت غیرے انکے نمائندہ یا ایجنٹ قرار پاتے ہیں۔ کسی چینل یا اخبار کی نمائندگی کے لئے جیب میں لاکھوں روپے ہونے ضروری ہیں نہ کہ متعلقہ شعبے کی تعلیم یا تجربہ ۔اکثریت تو ایسے صحافیوں کی ہوتی ہے جو صحافت کا علم تو درکنار حروف تہجی بھی لکھنا نہیں جانتے۔وہ اس مقصد کے لئے چند ہزار روپے میں پڑھے لکھے بے روزگار نوجوانوں کی خدمات حاصل کرکے خوب مال کماتے ہیں۔
درحقیقت یہ میڈیا بھی اس نظام کے ایک محافظ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس نظام کی کچھ خرابیوں پر تو بات ہو سکتی لیکن کبھی اس نظام کی تبدیلی کی بات کو یہ سرمایہ دارانہ میڈیا ترویج نہیں دے سکتا۔ ہمیں اس بورژوا میڈیا کے بارے میں تمام تر غلط فہمیوں کو دور کرنا ہو گا۔ اپنے زور باز پر یقین کرتے ہوے میدان عمل میں اترنا ہوگا۔تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جب بھی محنت کش عوام نے بغاوت کی تو صدیوں سے برسراقتدار بادشاہوں کو اپنا بوریا بستر گول کر کے بھاگنا پڑا۔ محنت کش طبقہ جب عمل میں آتا ہے تو پھر اس نظام کے ہر ادارے کو چیلنج کرتا ہے اور انقلابات میڈیا کوریج کے محتاج نہیں ہوتے۔ انقلابات اپنا پیغام پھیلانے کے لئے اپنے ذرائع استعمال کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلز لاکھ کوششیں کریں کہ کسی آواز کو دبا دیں لیکن وہ آواز دب نہیں سکتی جو مستقبل کی نوید ہو۔