|تحریر: صبغت وائیں|
چند دن پہلے ایک کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا جو کہ اس عنوان کے تحت روزنامہ ”دنیا“ اخبار میں 21 نومبر 2019 ء کو چھپا تھا:
”فیض احمد فیض کی شاعری کا ایک اکیڈمک جائزہ“
عنوان فیشن ایبل شکل ہے، یہ جائزہ فلاں نقطہ نظر سے کیا ہے، گنجائش بچ جاتی ہے کہ اصل میں تو ہم کچھ اور بھی کہہ سکتے تھے لیکن یہ صرف اس نقطہ نظر سے ہے۔
جائزہ روایتی اخلاص کے اظہار اور اعلیٰ صحافتی اخلاق اور اقدار کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شروع ہوتا ہے۔
”فیضؔ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، میں خود ان کے مداحین میں شامل ہوں۔“
لیکن ”یہ میرے بڑے اچھے دوست ہیں، میں ان کی بہت عزت کرتا ہوں“ ایک عام جملہ ہے، جو کہ سیاستدانوں اور صحافیوں کے منہ سے ہر ٹی وی شو پر سنا جاتا ہے، اس کے بعد مخاطب کی کلاس لینا شروع کی جاتی ہے۔ یہ صحافتی حربہ عام دیکھا جا سکتا ہے۔
ویسے بندہ یہ بھی پوچھ سکتا ہے کہ اہمیت سے انکار کیوں نہیں کیا جا سکتا؟
آگے اصل مدعے پر بات شروع ہوتی ہے:
”کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا کہ فیضؔ کے شعر میں ارتفاع تو ہے، گہرائی نہیں ہے اور اس کے کسی شعر کے ایک سے زیادہ معانی بھی نہیں نکلتے۔ اس پر مجھے حسن نثار کا فون آیا کہ یہ بات تو فیضؔ کی شاعری پر آج تک کسی نے نہیں کہی، میرا جواب تھا کہ آخر کسی کو تو یہ بات کہنی ہی تھی۔“
ارتفاع کا ہونا، لیکن گہرائی کا نہ ہونا، یا اس سے الٹ کر لیں، کہ گہرائی تو ہے لیکن ارتفاع نہیں ہے۔ پہلی نظر میں یہ بات بڑی شاندار لگتی ہے، لیکن تھوڑی دیر غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات تو ان سولہ سترہ جملوں میں سے ہے، جو کہ ہمارے بیشتر نقادوں نے یاد کر رکھے ہیں، جو کہیں بھی، کسی پر بھی، کسی کو بھی اور کسی جگہ پر بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے بول دیے جاتے ہیں۔ یہ ایسی عمومیت کے حامل اور مبہم فقرے ہیں، کہ اس سے مخاطب صرف سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ وہ یہ بھی سوچتا ہے کہ اگر اس بات کو درست نہ مانا تو میری علمیت مشکوک سمجھ لی جائے گی، لہٰذا دُور اندیشی(حقیقت میں بزدلی اور کاہلی) کا تقاضا یہی ہے، کہ خاموش ہی رہا جائے۔
باقی گہرائی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ کوئی عام سی اور فضول سی بات کو بھاری سی آوازمیں بالکل آہستہ آہستہ سے بولا جائے تو بہت گہری لگتی ہے:
ہم سب فانی ہیں،
کون جانتا ہے کیا ہونے والا ہے؟ وغیرہ
یا پھر متضاد باتوں کو رک رک کر بھاری آواز کر کے بولا جائے تو وہ گہری ہو جاتی ہیں کسی نے جارج آرول کے ”انیس سو چوراسی“ سے مثالیں لکھی ہیں:
جنگ امن ہے
آزادی غلامی ہے
لاعلمی طاقت ہے وغیرہ
آج کل گہرائی پیدا کرنا اور اس کی باتیں کرنا ایک آرٹ بن چکا ہے، جو کہ شاعر اور افسانہ نگار مشاعروں اور اجلاسوں میں اپنی آوازوں کے اتار چڑھاؤ سے پیدا کرتے نظر آتے ہیں۔
حسن نثار صاحب نے یہ بات کہ، ”پہلے یہ بات کسی نے نہیں کہی“ لگتا ہے مذاق میں کی ہے۔ کیوں کہ فیض کے شعر کے ”ایک سے زیادہ“ مطالب ہوں یا نہ ہوں لیکن حسن نثار کی اس بات کے کہ یہ ”پہلے کسی نے نہیں کہی“ کے دو سے زیادہ مطالب ضرور تھے۔
پہلا یہ کہ یہ بات ہی غلط ہے، اگر اس میں ذرا سی بھی سچائی یا دانائی کی بات ہوتی تو کوئی نہ کوئی تو ضرور ہی کر دیتا۔
دوسرا یہ کہ سالہا سال سے ہر حلقے اور ہر انجمن کے اجلاس میں اس بات کی دوہرائی اور رٹائی کی اور کروائی جاتی ہے، یونیورسٹیوں اور کالجوں کے اساتذہ، یہاں تک کہ ”ترقی پسندی“کے نام پر بھی یہ بات دوہراتے نظر آتے ہیں، کہ”فیض بھی کوئی شاعر تھا؟“ پوچھیں کیوں، تو جواب ملتا ہے، ”اس کی شاعری، اس کی باتیں تو سمجھ میں آ جاتی ہیں۔ اور شاعری تو وہ ہوتی ہے، جو سمجھ میں نہ آئے“۔ تو جب اس بات کو سالہا سال سے تنقیدیوں کی محفلوں میں فیشن کی طرح کیا جاتا ہو تو۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ حسن نثار نے یہ کہا ہو کہ یہ کوئی نئی بات تھوڑا ہی ہے؟
تیسرا وہ مطلب ہے، جو انہوں نے خود لے لیا ہے، ویسے حسن نثار صاحب بھی اتنے لاعلم نہیں ہیں، کہ انہوں نے وہ بات نہ سنی ہو جو ہر ادبی حلقے میں گھڑی گھڑائی اتاری گئی ہے۔
”میرا مطلب یہ تھا کہ شاعری کے جدید نظریات کے مطابق، شعر کو کثیر المعانی ہونا چاہیے اور اس سے ابہام کا تقاضا بھی کیا جاتا ہے، لیکن فیضؔ کی بالخصوص غزل ہمیں ان دونوں آلائشوں سے پاک نظر آتی ہے۔ پھر ہم نے دیکھا ہے کہ فیضؔ کا طرزِ بیان وہی ہے، جو تقسیم کے وقت تھا اور اس عرصے میں زبان نے جو نئی کروٹیں لی ہیں یا جس حد تک اپنا فیشن تبدیل کیا ہے، بالخصوص جدید طرزِ احساس کو بھی فیضؔ نے کوئی گھاس نہیں ڈالی، پھر فیضؔ کی غزل میں کوئی ڈائیورشن یا ڈائیورسٹی نظر نہیں آتی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ ساری عمر ایک ہی غزل لکھتے رہے ہیں۔“
یہاں کالم نگار صاحب کا یہ فرمانا کہ ”شاعری کے جدید نظریات کے مطابق“ شعر اس طرح کا ہونا ”چاہیے“ انہی کے بتائے گئے جدید نظریے کے مطابق پرکھیں تو حیران کُن حد تک خود تضادی کا شکار بیان ہے۔
اس بات کا غیر مدرسانہ جائزہ لیا جائے تو بہت سی باتیں کی جا سکتی ہیں، لیکن ہم چند ایک پر ہی اکتفا کریں گے۔
پہلی بات یہ کہ کسی شعر کو اس نظر سے دیکھا جانا چاہیے کہ یہ شعر ”شاعری کے جدید نظریے کے تابع“ہے یا نہیں؟ لیکن اس کا مطلب یہ ہوا گویا کہ نظریے پہلے سے گھڑے جاتے ہیں اور شاعری ان نظریوں اور اصولوں پر چل کر کی جاتی ہے۔ اس طرح نئے شاعرانہ تجربات نظریات کی تقلید کرنے پر مجبور ہو جائیں گے، اور جدید نظریات تو شاید کہیں سے ٹپک پڑیں لیکن نئی شاعری کی پیدائش کے امکانات تو جڑوں سے ختم کر دیے جائیں گے۔
دوسری بات یہ کہ”جدید نظریے“ کے مطابق تو ہر لفظ کے بہت سے معنی ہوتے ہیں، اور پھر معنیوں کے آگے کئی معنی اور پھر معنی کے معنی کے آگے معنی ہوتے ہیں، آپ کو فیض کی شاعری میں یہ والی آلائش نظر نہیں آئی؟ ہم تو اس جدید (مابعد الجدیدیت) نظریے کو سمجھتے ہی عقل دشمن ہیں، لیکن حیرت ہے کہ ”جدید“ نظریوں کے پرستار، ان کی ہر بات پر یہ دیکھے بغیر کہ درآمد شدہ بات درست ہے یا غلط اس پر آمین کہہ دینے والے، یہ بات بھی نہ جانتے ہوں کہ”جدید“ نظریے کا اس بارے حکم کیا ہے؟ پھر وہ لفظوں کے کئی معنی اور معنیوں کے معنی والا پوسٹ ماڈرنسٹ حکم کیا ہوا؟
تیسرے یہ کہ ہم ”ابہام ہونا چاہیے“ کی شرط کو مانتے ہیں، یا نہیں، الگ بحث ہے، لیکن یہ بات کہ جدید نظریے کے مطابق ابہام ہوتا ہے یا نہیں، مابعدجدیدیت کے رجحان پر نظر ڈال کر دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں ابہام ساز ہر بات میں سے ابہام برآمد کرتے نظر آ جاتے ہیں۔
چوتھے یہ کہ شعر کے کثیر المعانی ہونے اور اس میں ابہام کی شرط قائم کر دینے پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کم از کم یہ نظریہ نیا تو نہیں ہے۔ بہت عرصہ پہلے غلام عباس نے ایک ناولٹ لکھا تھا ”جزیرہ سخنوراں“ جس کی ایک مثال اس بات پر خاطر خواہ روشنی ڈال دے گی کہ قدیم وقتوں سے شاعری کے نکتہ سنج اور نکتہ چیں ہی نہیں بلکہ نکتہ بیں، نکتہ داں اور نکتہ رس بھی چلے آ رہے ہیں۔ غالبؔ کے ایک شعر کے اپنے والے ”جدید“نظریے کے تابع ہونے پر ایک ثبوت ملاحظہ فرمایئے:
”محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا
اس شعر کی شرح کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ مرزا غالب کو صنائع بدائع میں کس درجہ کمال حاصل تھا۔
”نوا، پردہ، ساز علمِ موسیقی سے متعلق اور باہم مناسبت رکھتے ہیں، اس لیے یہ صنعت مراۃالنظیر ہے۔ پردہ کے معنی اوٹ کے بھی ہیں، اس لیے اس شعر میں صنعت توریہ مرشح بھی ہے۔ اس کے علاوہ ان معنوں میں یہ لفظ حجاب، راز اور محرم کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے، لہٰذا یہ بھی صنعت مراۃ النظیر ہے۔
نوا، پردہ اور ساز کی رعایت سے یاں کا لفظ ”تان“کا تجنیس تصحیف ہو کر زمزمہ پردازی کر رہا ہے۔ بقاعدہ تجنیس مرفو حجاب کا ”حج“ اور محرم کا ”حرم“ خانہ خدا کی زیارت کرا رہے ہیں۔ جوباقاعدہ تجنیس محرف ”جو“ بن کر جس کی بیئر بنتی ہے، حرم کے ”رم“کے ساتھ کیف دوبالا کر رہا ہے۔ ادھر نواہائے کا ”نو“ اور پردہ کا ”دہ“ یعنی دس گویا صنعت سیاقتہ الاعداد کی تاش میں نہلے پہ دہلا ہے۔
ایک لطف اس شعر میں اور ہے، وہ یہ کہ چونکہ شعر تصوف کا رنگ لئے ہوئے ہے، اس لئے تو ہی نواہائے میں نوا ”نو“ باقاعدہ تجنیس تصحیف ”تو“ ہو کر وحدت الوجود کی یکتائی کا دم بھر رہا ہے اور تُو ہی تُو کا نغمہ الاپ رہا ہے۔“
(جزیرۂ سخنوراں، از غلام عباس)
اور اسی ناولٹ پر خود فیضؔ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھیے کیا کہا ہے:
”ہمارے روایتی شعرا کی زندگی سے بے تعلقی، مختلف صنائع بدائع سے ان کا شغف، ان کی زندگی کا بے رنگ کھوکھلاپن مصنف نے اس تفصیل سے اُجاگر کیا ہے کہ اُن کے متخیلہ کی داد دینی پڑتی ہے“۔
اس کو دیکھ کر کون یہ نہیں جان سکتا کہ ابہام پیدا کرنا تو چٹکیوں کا کام ہے، نقاد ٹوپی میں سے خرگوش برآمد کرنے والا جادوگر ہے، جس شعر میں جتنے کا کہیں ابہام ڈال دیں، یا اس میں سے برآمد کر کے دکھا دیں۔
پانچویں یہ کہ زبان کے”نئی کروٹ لینے سے“ کیا زبان اعلیٰ درجے کی ہو جاتی ہے؟ یا تنزلی کا شکار ہوا کرتی ہے؟ اس پر آج کے اردو دانوں کو ضرور روشنی ڈالنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ ہم نے تو ساری دنیا میں جہاں بھی دیکھا، نئے دور کے آنے سے زبان کو تنزلی کا شکار ہوتے ہی دیکھا۔ آج سے پچاس سال پہلے کے ٹی وی یا ریڈیو کی زبان سن لیں، اور ”نئی کروٹ“ کے بعد کے ٹی وی یا ریڈیو کی زبان ملاحظہ فرما لیں۔ قدیم عربی، انگریزی، فارسی یا اردو ہی کے ادب کی زبان دیکھ لیں، اور کروٹوں کے بعد کی زبان دیکھ لیں کافی ہے۔
”فیضؔ ایک نظریے کے تحت شعر کہتے تھے اور میری ناقص رائے میں ان کی شاعری کا زیادہ تر حصہ سیاسی اور صحافیانہ ہے، کیونکہ ان کا تعلق سیاسی نظریے سے بھی تھا اور صحافت کے ساتھ اس طرح کہ وہ ایک عرصے تک پاکستان ٹائمز، امروز اور ہفت روزہ لیل و نہار کے چیف ایڈیٹر بھی رہے۔ یہی صورت حال ایک اور نظریاتی شاعر احمد ندیم قاسمی کی بھی تھی؛ حالانکہ شاعر کسی سماج سدھار تنظیم کا رکن یا اخبار کا تجزیہ نگار نہیں ہوتا، لیکن فیضؔ نے کم و بیش یہ دونوں کام کیے؛ چنانچہ ان کی شاعری کا بہت تھوڑا حصہ ایسا رہ جاتا ہے، جو خالص شاعری کی ذیل میں آتا ہے اور جس پر ہمیں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ یقینا یہ موضوعات شاعر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتے، لیکن سوال صرف تناسب کا ہے، جبکہ نظریاتی شاعر پہلے نتیجہ نکالتا ہے اور پھر اس کے مطابق نظم تخلیق کرتا ہے اور فیضؔ کمیونسٹ پارٹی کے بھی باقاعدہ رکن تھے اور لینن پرائز انہیں ان کے نظریے کی بنیاد پر دیا گیا، محض شاعری پر نہیں۔“
اس جدیدیت کے پرستاروں میں ایک بات بہرحال مشترک ہے جو کہ انہوں نے کہیں سے سیکھ لی ہے کہ اگر ان کی بات کسی کو سمجھ میں آسانی سے آ جائے، اور بہت سی صورتوں میں یوں کہیں کہ سمجھ میں آ جائے تو ان کی بات شاید چھوٹی ہو جائے گی، اس لیے یہ لوگ بات اس طرح سے کرتے پائے جاتے ہیں کہ بات کا سرا پکڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اب یہی بات دیکھ لیجئے؛ کہ ایک شاعر کو اس لیے شاعر نہ مانا جائے کہ وہ کسی تنظیم کا رُکن ہے، یا وہ اخبار کا چیف ایڈیٹر رہا ہے؟ کیا فیضؔ کسی اخبار کا کوئی ماڑا موٹا کالم نگار ہوتا تو ٹھیک تھا؟
تحریر کا یہ حصہ شدید جذباتی سا ہو کر لکھا گیا ہے، بے ربطی میں ساری تحریر کو مات دے رہا ہے۔ کبھی کوئی ذکر آ جاتا ہے اور کبھی کوئی۔ اندر ہی احمد ندیم قاسمی کو بھی رگڑا لگا دیا۔ ویسے ان کے حساب سے تو دنیا کا عظیم ترین آرٹسٹ پابلو پکاسو بھی آرٹسٹ نہیں ہے، وہ بھی کمیونسٹ پارٹی کا رُکن تھا۔ اور تقریباً تمام بڑے شعرا، ادیب اور آرٹسٹ یہ کچھ نہیں رہیں گے، جن میں شیخ سعدی جنہوں نے ”در سیرت پادشاھان“ لکھی، شیکسپیئر جس کا ہر بڑا ڈرامہ سیاسی تھا، تاریخی ڈراموں کو چھوڑ بھی دیں تو بھی ہیملٹ، میکبتھ، انطنی اور قلوپطرہ، جولیس سیزر اور کنگ لیئر میں سے کون سا ڈرامہ سیاسی نہیں تھا؟ سوفوکلیز کے ڈرامے غیر سیاسی تھے، یا ایسکلس کے؟ یوری پیڈیز کے ڈرامے غیر سیاسی تھے؟
یہ کہ ”شاعر صحافی نہیں ہو سکتا“، سمجھ میں نہیں آتا۔ کیوں کہ شاعر کا پیشہ کون سا ہو سکتا ہے، نہ کبھی پڑھا نہ سُنا۔ دوسرے یہ کہ ”شاعر کسی سماج سدھار تنظیم کا رُکن نہیں ہوتا“ والا دعویٰ تو فیضؔ کو دیکھ کر ہی جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے۔ یا پھر یہ کہ صاحبِ تحریر فیضؔ کو شاعر ماننے سے ہی انکاری ہیں؟ لیکن اگر ایسا ہے، تو پھر یہ صاحب دوبارہ سے وضاحت کرنا پسند کریں گے کہ جو انہوں نے شروع میں لکھا ہے کہ وہ فیض صاحب کے مداح ہیں، تو اس مداحی کو ہم لوگ کس کھاتے میں لکھیں؟
خالص شاعری سے کیا مراد ہے؟ جس میں سوچ نہ ہو؟ یا شاعر کی سیلف نہ ہو؟ یا اس میں کسی بھی قسم کی ادبی سچائی نہ ہو؟ یا اس کا گردوپیش کی زندگی سے، یا اس کے مسائل سے کوئی تعلق نہ ہو؟
صاحب تحریر نے جدیدیت کے بہت بڑے دلدادے ہونے کا دعویٰ کیا ہے لیکن مزا تو تب ہے کہ عمل میں بھی جدیدیت نظر آئے۔ مختصر یہ کہ جدید دور میں ہر لحاظ سے ادب کی سب سے بڑی صنف ناول مانی جاتی ہے۔ جس کو بورژوا ایپک (رزمیہ) کہا جاتا ہے۔ قدیم ایپک کو دیکھیں تو اس کے موضوعات ایک ہیرو کی زندگی کے گرد گھومتے تھے جو کہ پُراسرار قوتوں (حقیقت میں فطرت) سے نبرد آزما ہوا کرتا تھا۔ لیکن آج کی ایپک یعنی ناول کو دیکھیں تو وہ مڈل کلاس کے کسی نوجوان کا سماج کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے متعلق ہوتا ہے۔ یعنی آپ گُل و بلبل، عارض و رخسار، خال و خد والی جس شاعری کے کرنے کا فیضؔ صاحب کی وفات کے بعد ان کو حکم صادر فرما رہے ہیں، اس کا دور ہی گزر چکا ہے۔ آسکر وائلڈ نے ”گُل و بلبل“ لکھی تو ہے، لیکن آپ کے حکم کیے گئے ”فن برائے فن“ کا سب سے بڑا نقیب ہونے کے باوجود اس کا یہ شاہکار آج کے دور کے مسائل پر ہے، نظریاتی ہے، سیاسی ہے، ساٹائر (طنزیہ) ہے۔ اس کے دیگر کاموں میں بھی اس کا ”یہ والا“ نظریہ کہیں نظر نہیں آتا۔
اقبال کے بعد اس کے رنگ میں کوئی شاعری نہیں کر سکا۔ کیوں کہ اقبال جیسا عالم اور پڑھا لکھا شاعر ان میں سے کوئی آیا ہی نہیں۔ اقبال کے بعد اگر اردو زبان کو کوئی ایسا شاعر ملا ہے، جس کی عالمی ادب پر اور اردو کلاسیک پر گہری نظر ہو تو بلاشبہ وہ فیضؔ ہی تھے۔
شروع ہی سے اعلیٰ تعقل کے حامل لوگ زمانے کو بھانپ لیتے رہے ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ مافیہا مسلسل مبدل پذیر ہے، یہ کسی کے روکے نہیں رکتا۔ تبدیلی ہمارے گردا گرد جاری و ساری ہے۔ یہ رکتی نہیں۔ تبدیل ہوتا مافیہا پہلے پہل تو محض باریک بین لوگوں کو نظر آتا ہے، اس کے بعد اس کا دباؤ شدید تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ بنتر کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے مطابق ہو جائے، تبدیل ہو جائے۔ لیکن بنتر رکے رہنے پر، قائم رہنے پر یا ٹھہرے رہنے پر زور لگاتی ہے۔ بالآخر ایک ایسی جگہ آتی ہے، جہاں بنتر کو تبدیل ہونا پڑتا ہے۔ یہ فرق واضح ہوتا ہے۔ اس کے درمیان میں کیفیتی رخنہ ہوتا ہے، اہل نظر اس کو تعقل سے دیکھ لیتے ہیں۔ یہ محض منہ ماری نہیں ہے، اس کو دنیا کی ہر زبان میں دیکھا جا سکتا ہے، انگریزی میں صرف شیکسپیئر کو دیکھیں تو بُعد ہیگل اور مارکس سے پہلے اس کے ہاں نظر آتا ہے۔ جس کو ہم ہیملٹ، میکبتھ، کنگ لیئر، مرچنٹ آف وینس یا ٹمن آف ایتھنز میں دیکھ سکتے ہیں۔ دوسری طرف اردو میں پرانے مافیہا کی تبدیلی کو محسوس کرتا رتن ناتھ سرشارؔ بٹیر لڑاتے نوابوں کا ٹھٹھہ اڑا رہا ہے۔ منشی محمد حسین جاہؔ طلسم ہوش ربا میں ایسے شہر کا ذکر کر رہا ہے، جس کا نام ہی شہرِ ناپُرساں ہے، جہاں جس کا جو جی چاہے کرتا ہے۔ اگر کوئی چوراہے میں چارپائی ڈال کر دن دیہاڑے سو گیا ہے، تو باقی لوگ اس سے بچ کر گزر رہے ہیں، اس کو اٹھاتا کوئی نہیں۔ مرزا ظاہر دار بیگ ایک مڈل کلاس کے مغائرت زدہ نوجوان کا کردار ہے، جو کہ اپنے ظاہر اور ماہیت میں بدلتے مافیہا کو دکھا رہا ہے۔ بے شمار مثالیں صرف اردو ادب سے دی جا سکتی ہیں۔ شاعری میں تو بدلتا مافیہا صاف نظر آ جاتا ہے، کیوں کہ بات ہی مختصر کی گئی ہوتی ہے۔ اس طرح ہم جب غالبؔ، حالیؔ اور اقبالؔ ہی کی شاعری کو سامنے رکھیں تو ہمیں مافیہا کے ساتھ ساتھ بنتر تبدیل ہوتی واضح نظر آ جاتی ہے۔
فیضؔ کی بُنتر پرانی ہے، لیکن مافیہا نیا ہے۔ اصل میں مافیہا ہمہ وقت ”بننے“ کے عمل میں رہتا ہے، یعنی تبدیل ہوتا رہتا ہے۔ بُنتر تبدیلی کے خلاف مزاحم رہتی ہے، لیکن اس کے اندر دھیرے دھیرے چھوٹی تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں، جن کو ہم کمیتی یا مقداری تبدیلیاں کہتے ہیں، پھر ایک وقت ایسا آتا ہے، جب پہلا یکسر مٹ جاتا ہے، اور نیا آ جاتا ہے، ”آرام سے، ورنہ زبردستی سے“ ادب میں تب کوئی پرانا لکھنے کی کوشش کرتا ہے تو مضحکہ خیز یا پھکڑ بن جاتا ہے، جیسے آج کوئی مولوی نذیر احمد یا سجاد حیدر یلدرم کی زبان لکھنا شروع کر دے، وغیرہ۔
فیض اس بات کو پہچان رہا ہے، کہ تبدیلی کانٹینٹ میں آئی ہے، فارم کو زبردستی تبدیل کرنا، جیسے ولگر شعرا نے ہیئت میں تجربوں کے نام پر کیا ہے، ضروری نہیں تھا۔ تو اس نے جانتے بوجھتے ہوئے ”ہیئت میں تجربے“ کرنے کی بجائے وہ کام کیا جس کا تقاضا سماج کی اور مافیہا کی لازمیت کرتی تھی۔
لیکن اس کے باوجود کیا ہم کسی فنکار کو، شاعر یا ادیب کو یہ مجبور کر سکتے ہیں، کہ وہ ہمارے بتائے اصولوں پر شاعری وغیرہ کرے؟ کیا یہ اس کی صوابدید یا اس کی فنکاری نہیں، کہ اس کا فن اس سے جو کروائے وہ کرے؟ اس کا دل چاہے تو پرانے مافیہا کی دُم سے لٹک کر ہلارے لیتا رہے، یا پھر اس کو ترک کر کے نئے مافیہا کو، نئی زندگی کو دیکھے، اور اس کے مطابق فن تشکیل کرے۔ اپنے اظہار کے لیے اسی کو معلوم ہے، کہ کون سی بُنتر بہتر ہے۔ بنتر میں خاصی لچک موجود ہے، جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے، کہ یہ خود کو قائم رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔ فیضؔ جیسا شاعر جس کے پاس نئے مافیہا کو دیکھتے ہوئے کہنے کو کچھ تھا، اس نے ”ہیئت میں تجربے“کرنا شاید وقت کا ضیاع سمجھا ہو گا۔ بلکہ اس کو علم ہو گا، کہ یہ ان لوگوں کا کام ہے، جن کے پاس کہنے کو کچھ بھی نہیں۔ شاعری میں کچھ کہنا ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کا کوئی فقرہ ایسا نہیں، جو کہ خالص فقرہ ہو۔ جس کا معنی اس فقرے سے باہر کچھ اور نہ ہو۔ اگر ایسا ہو، تو اس کو فقرہ نہیں کہا جاتا الفاظ کا اکٹھ ہی کہا جائے گا۔ تو شاعری میں کچھ تو بہرحال کہا جائے گا، خواہ اس کا تعلق انسان کے ساتھ دوستی کا ہو، دشمنی کا، یا پھر لاتعلقی کا۔ لیکن ہم جو بھی کہتے ہیں، اس کا ان تین میں سے کوئی تعلق تو ہوتا ہی ہے۔ کوئی بات ایسی نہیں ہو سکتی جس کا تعلق انسان کے ساتھ نہ ہو۔ انسان ہمارے ارد گرد مر رہے ہوں، بلک رہے ہوں، پِس رہے ہوں، وہاں انسان سے لاتعلقی کا اظہار، محض لاتعلقی نہیں رہے گا، بلکہ انسان دشمنی ہی شمار ہو گا۔
فیضؔ کو یہ نظر آ رہا تھا، اس نے ہیئتوں پر تجربے کرنے پر مغز ماری کرنے کی بجائے کہہ ڈالنے کو ترجیح دی۔ ہم جانتے ہیں، کہ جب ہمارے پاس کوئی خیال ہوتا ہے، تو ہم کوشش کرتے ہیں کہ اس کو جلدی سے ظاہر کر دیں، ورنہ وہ بھلایا جا سکتا ہے۔ اس طرح پرانی بنتریں جدید مافیہا کے اظہار کا ذریعہ بھی بنتی رہیں۔ فیضؔ نے غزل میں نئے مافیہا کا اظہار کیا اور اپنی بات کہی۔ ”نالہ پابند نے نہیں ہے“۔
اس بارے پریم چند دو ٹوک بات کرتے ہیں:
”ہمارا ادبی مذاق بڑی تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ ادب محض دل بہلاؤ کی چیز نہیں ہے۔ دل بہلاؤ کے سوا اس کا کچھ اور بھی مقصد ہے۔ وہ اب محض عشق وعاشقی کے راگ نہیں الاپتا بلکہ حیات کے مسائل پر غور کرتا ہے، ان کا محاکمہ کرتا ہے اور ان کو حل کرتا ہے۔ وہ اب تحریک یا ایہام کے لئے حیرت انگیز واقعات تلاش نہیں کرتا یا قافیہ کے الفاظ کی طرف نہیں جاتا بلکہ اس کو ان مسائل سے دلچسپی ہے جن سے سوسائٹی کے افراد متاثر ہوتے ہیں۔“
ہمارا یہ جدید سماج اس پرانے جاگیردارنہ سماج سے مختلف ہے، جس میں چھپ چھپ کر محبت ہوا کرتی تھی اور کافی سارا ادب ہجر و فراق کے گرد ہی گھوما کرتا تھا، اگر آپ جدیدیت کے علمبردار ہیں، تو باتوں کی حد سے نکل کر عملی میدان میں جدید سرمایہ دارانہ سماج کے جوہر، استحصال تک پہنچیں، اور اس پر لکھیں، خواہ اس کو جائز ہی قرار دے دیں، جو کہ ویسے بھی آپ ڈھکے چھُپے طریق سے کر ہی رہے ہیں۔
آگے آپ نے لکھ دیا ہے کہ ”ہمیں گزارہ کرنا پڑتا ہے“، ہوتا ہے، تو کر لیں، ورنہ کسی اور کو پڑھ لیں، فیضؔ نے آپ کے گزارے کے لیے تو لکھا نہیں ہے، ایسی باتیں تو بہتر ہوتا آپ تب لکھتے، جب فیض صاحب زندہ تھے، کہ وہ آپ جیسوں کے ”گزارے کے لیے“ بھی کچھ لکھ دیتے۔ لیکن سُنا ہے کہ ان کی ”اُس طرح کی“ شاعری تھی تو ضرور مگر چھپوائی نہیں گئی۔
باقی یہ کہ ”مدرسانہ طریق کار“ انتہا سے زیادہ لچک دار ہے۔ اس میں ہر فلسفے اور ہر نظریے کا کشتہ مار کے طلبہ کو پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس ہضم کی گئی غذا کے اثرات ہومیو پیتھک ادویہ جیسے ہیں۔ بندہ دوائی لے رہا ہے، مطمئن ہے، اثر ”Placebo“ ہے۔ ہر چیز کا سیدھا اور الٹا جائزہ لے کر طلبہ کو ”کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی“ ”Aporia“ کے مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ اسی طریق کار نے حکمران طبقے کی سب سے زیادہ خدمت کی ہے۔ آج ہم اردو بولنے والی ساری پڑھی لکھی آبادی کو دیکھیں، تو ہمیں شاعروں کے ہجوم مشاعرے پڑھتے اور داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے و سمیٹتے ہر سوُ دکھتے ہیں، لیکن شاعری۔۔۔ کہیں نہیں ہے۔ نہ اِدھر نہ اُدھر۔ انڈیا میں احتجاج ہو رہے ہیں، کروڑہا بندہ سڑک پر ہے، لیکن شاعری وہی ساحرؔ، حبیب جالبؔ اور فیضؔ کی پڑھی جا رہی ہے۔ کیا یہ صرف اس لیے پڑھی جا رہی ہے، کہ ”گویوں کے ذریعے“ ان تک پہنچی؟
اس مدرسانہ طریقِ کار کے ”کشتہ ماروں“ نے حلقہ اربابِ ذوق اور انجمن ’ترقی پسند‘ مصنفین اور اس طرح کے دیگر حلقوں وغیرہ کی صدارتوں وغیرہ پر ہر ہفتے براجمان ہونا ہوتا ہے، اور یہ لوگ نوجوانوں کے ذہنوں میں پنپنے والے واقعتاً جدید (مافیہا سے متعلق) خیالات کو انتہائی ڈھٹائی سے رد کرتے، اپنے مستقبل کے دشمنوں کے سر کچلتے پائے جاتے ہیں۔ نوجوان شعرا اور ادباء کو طوطوں کی طرح رٹی ہوئی باتیں رٹواتے ہیں، کہ ”اس طرح سے ’خالص ادب‘ اور ’خالص شاعری‘ کو ’تخلیق‘ کرنا“چاہیے‘، جیسے کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں۔ وہ نوجوان جس محفل میں اپنا کلام یا اپنی نثر لے کر پہنچتے ہیں، آگے خرانٹ کھوسٹ احبابِ کُہن ان میں موجود بغاوت کچلنے کو، بیخ کنی کو موجود ہیں۔ نوجوانوں کی دل شکنی ہر جگہ سے کی جاتی ہے، جیسے نوسر بازوں کی کہانی میں ہر نوسرباز بکرے کو کتا بتاتا ہے، بالکل ویسے ہی نئے خیالات کے حامل شاعر کو ہر جگہ پھٹکار سے، دھتکار سے۔۔۔ لیکن پیار سے لوہے کی ٹوپی پہنا کر ”چوہا“ بنا کر معاشرے میں بھیج دیا جاتا ہے۔
میں نے انجمن کے ایک اجلاس میں ایک نوجوان کا سٹیفن ہاکنگ پر لیکچر سنا۔ لیکچر کے بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ، ”آپ کو کیسا لگا میرا لیکچر؟“ تو میں نے سچ بات بتائی کہ باقی چیزیں تو میں نے پڑھی ہوئی تھیں، مشہور ہیں، لیکن تمہارے لیکچر کے فلاں حصے کے فلاں جملے بہت شاندار تھے۔ واقعی مزا آیا۔ اس نے کہا۔ ہاں واقعی وہ جملے میرے ہی تھے۔ تو میں نے پوچھا کہ تم نے اس طرح اپنا لیکچر کیوں تیار نہیں کیا؟ تو آج کئی سال گزر جانے کے بعد بھی اس کا جملہ میرے ذہن پر ہتھوڑے کی طرح لگتا ہے، اس نے کہا تھا کہ مجھے انجمن کے اصحاب کی جانب سے یہ بات سختی سے سمجھائی گئی تھی کہ تم نے اپنے پاس سے کچھ نہیں بولنا۔ اس سے ”آبجیکٹیویٹی“، جو سائنس کا خاصہ ہے، متاثر ہوتی ہے۔
نوجوان لکھنے والوں کی کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے، تمام یونیورسٹیوں کی چیئرز پر انہی کا قبضہ ہے، یہ ”نظریے“کے پیچھے ڈانگ لے کر بھاگنے والے، تھوک کے حساب سے”نئے“ نظریات باہر کے ملکوں سے درآمد کرتے ہیں۔ دوڑ لگی ہے، اس بات کی کہ فلاں ”نئی“ تھیوری اردو میں پہلے میں نے متعارف کروائی ہے۔ وہ تھیوری جھوٹ پر مبنی ہے، یا سچ پر، اس سے ان کو کوئی غرض نہیں۔ وہ وقت کے ساتھ درست ثابت ہوئی یا وہاں کے انسان دوست نظریہ دانوں نے اس ”نئی تھیوری“ کا نیا نقاب اتار کر اس کو دقیانوسی انسان دشمن نظریہ ثابت کر دیا، اس کی ان کو کوئی خبر نہیں۔ لیکن ”اب اس طرح کا لکھنا شروع کر دو“ کے فرمان مسلسل جاری ہوتے ہیں۔
کسی کا مقالہ ہی پاس نہیں کیا جاتا، ماسوائے یہ کہ ان کی کسی پسندیدہ شخصیت، کسی دوست پر ہو، کسی رشتے دار پر ہو، خود ان پر یا پھر ان کے ابے پر ہو۔ ایک خاتون کو ایم فل اردو کے مقالے میں ترقی پسند تحریک کے کسی خاص نکتہ نظر پر تھیسس نہیں کرنے دیا گیا، اس کو حکم صادر ہوا کہ تُم ایسے کرو کہ فلاں سوشلسٹ شاعر کی نعتیہ شاعری پر کام کر لو اگر ترقی پسندی پر ہی کام کرنا ہے تو۔
غرض یہ کہ یونیورسٹیوں کے مدرسانہ کاموں میں سے بھی مسلسل”خطرناک“، ”زہریلے“ اور اور سوچ کو متحرک کرنے والے عنصر سے مسلسل پاک کرنے کا کام کیا جاتا ہے، حلقوں اور انجمنوں میں بھی، کتابوں ادبی جریدوں میں بھی اور اخباروں میں بھی۔ واقعتاً نئی سوچ کو سامنے لانے والے نوجوان کی ہر جگہ اس قدر چھترول کی جاتی ہے، کہ وہ اپنی تحریر کو بار بار نظر ثانی اور تبدیل کرتا کرتا اپنا ذہن ہی ویسا بنا لیتا ہے، کہ اسی طرح کا لکھے جس کو یہ والے تمام بابے ”پاس“ کر دیں۔
اور حیرت گُم ہو جاتی ہے، ان اجلاسوں میں یہ دیکھ کر کہ جس نوجوان کی تحریر میں کچھ بھی نہ ہو، اس کی پذیرائی دیکھ کر۔ اس مظہر کو میں کیا بیان کروں، اپنے گرد تخلیق ہونے والے آج کے ادب پارے پڑھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔ گو مجھے آج کے ادب سے عدم آگاہ باور کیا جائے گا، کہ”بہت شان والا ادب لکھا جا رہا ہے، اس کو علم ہی نہیں۔“ لیکن ہے تو کہاں ہے؟ ”وہ جی اب ادب کی قدر ہی نہیں رہی۔ ناقدرے لوگ ہیں، عوام۔ جاہل ہیں، پڑھتے نہیں۔“ عوام نے تو غالب سے لے کر جالب تک ہر اس شاعر کو سراہا ہے، جس کے پاس ان کے لیے کہنے کو کچھ تھا، جب کہ یہ دونوں شعرا اپنے نام پر تقریبات، مشاعرے، تقاریب رُونمائیوں کے خرچے اٹھا پانے کے قابل نہیں تھے، نہ ہی اپنی کتابیں چھپوا کر مفت بانٹے کے وسائل رکھتے تھے۔
آگے چلتے ہوئے اب اسی پیرے کو لے لیں، اس میں بعض متضاد (صوری منطق کے لحاظ سے، نہ کہ جدلیاتی اعتبار سے) باتیں انتہائی ٹیوشنسٹ اور مدرسانہ انداز میں کر دی گئی ہیں۔ جیسے ”یقینا یہ موضوعات شاعر کے دائرہ کار سے باہر نہیں ہوتے، لیکن سوال صرف تناسب کا ہے“ اب کوئی اعتراض کر ہی نہیں سکتا کہ آپ نے پابند کر دیا ہے، وہ کہیں گے ہم نے نہیں کیا۔ ”تناسب“ کیسے معلوم ہو؟ اب یہ تناسب ایک مصرعے میں، ایک فقرے میں قائم رکھنا ہے، ایک فن پارے(نظم، غزل، افسانے وغیرہ) میں یا پھر اپنے سارے کام میں؟ کون طے کرے گا؟ اگر تو سارے کام میں یہ والا حکمیہ”تناسب“ قائم کرنا ہے، اور شاعر پہلے ”وہ والی“ شاعری کر رہا ہے، کہ”خالص والی“ بعد میں کرنے پر اٹھا رکھی، اور وہ مر گیا، تو کیا ہو گا؟ اور یہ”تناسب“ طے کرنے والے مدرس، یہ تناسب کیسے نکالتے ہیں، کیا گُر ہے، کیا مدرسانہ طریق کے کسی مدرسے میں ہمیں یہ بھی کوئی بتائے گا؟
”جبکہ نظریاتی شاعر پہلے نتیجہ نکالتا ہے اور پھر اس کے مطابق نظم تخلیق کرتا ہے“
ویسے اس جملے پر بھی حیرت ہے (”جبکہ“ لفظ یہاں عجیب طرح سے ٹھونک دیا گیا ہے، گویا کوئی منطقی بات ہونے لگی تھی)، کہ کون سا شاعر ہو گا، جو اپنا قلم اٹھانے سے پہلے سوچتا نہیں، اور کون سا شاعر ہے جو کہ اپنی تخلیق خلق کرنے سے پہلے کسی نتیجے پر نہیں پہنچا ہوتا؟ صرف ایک مثال سے بات واضح کرنے کی کوشش کر دیتا ہوں۔ ایک شاعر ایک نتیجے پر پہنچ کر ایک مصرعہ کہتا ہے، دوسرا مصرعہ ہونے پر پہلے والے خیال کی تنسیخ ہو گئی شاعر کے اندر، یہ مانتے ہیں کہ ممکن ہے، ہوتا ہے، لیکن جب اس نے دوسرا مصرعہ تشکیل کیا، تو اس کا دوسرے والا نتیجہ تو ہر حال میں، مصرعے کی تخلیق سے پہلے تشکیل پا چکا تھا۔ اس بات کا رد افلاطون کی”آئن“میں کی گئی اسی بات سے کیا جا سکتا ہے، جس کو استاد ارسطو نے بھی ذکر کر کے اس پر بات کرنا پسند نہ کیا، کہ ”شاعری شاید کسی پاگل پن کی بیماری سے سرزد ہوتی ہے، یا پھر یہ خدا کی جانب سے کوئی تحفہ ہوتا ہے“، لیکن یاد رہے کہ یہ جملہ تحسین آمیز نہیں تھا، شاعروں کی احمقانہ باتیں سن کر سقراطؔ نے گِلہ کیا تھا، کہ شعروں میں باتیں تو عقلمندی کی کرتے ہیں، لیکن جانتے نہیں ہیں، کہ انہوں نے کیا بات کی ہے، لگتا ہے کہ یہ کسی پاگل پن کا نتیجہ ہے، یا کوئی تحفہ من جانب خدا، جو ان پر نازل ہوا۔
”فیضؔ نے سیاسی نظریے ہی کی بنیاد پر گُل و بلبل، باغ و باغباں کے معنی بھی تبدیل کر دیئے، اس لئے ہمیں غالبؔ کے زندان اور فیضؔ کے زندان و قفس میں ایک واضح فرق نظر آتا ہے۔ ان استعاروں سے فیضؔ نے اپنے سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق کام لیا۔“
”سیاسی نقطۂ نظر کے مطابق کام لینا“ غلط کیسے ہے؟ کیا اقبال کی شاعری اور اس کے استعارے ”سماج سدھار“ قسم کے نظریات سے اپنا دامن بچا پائے تھے؟ اگر ہم صرف شاہین کو ہی دیکھیں تو یہ ایسکلسؔ کے ’آگامیمنان‘ کے قاتل پرندے کا استعارہ ہے، جس کو اقبال نے اعلیٰ حوصلگی اور بلند نگاہی وغیرہ کی علامت کے بطور برتتے ہوئے اس کے ”معنی تبدیل کر دیے“۔ نئے استعارے، یا پرانے استعاروں کے”معنی تبدیل کر دینا“ ہی تو اصل کام ہے۔ غالبؔ نے بھی خضرؔ، سکندرؔ، مسیحاؔ، کوہکنؔ، وغیرہ جیسے پرانے استعارے اگر برتے ہیں تو ان کے معنی پرانوں سے یکسر مختلف ہیں۔
”ڈاکٹر ابرار احمد لکھتے ہیں ”باقی سبھی اہم شاعر ہم تک گائیکی کے ذریعے پہنچے، جن میں ناصر ؔکاظمی، منیرؔ نیازی اور فیضؔ و فرازؔ سبھی شامل ہیں، لیکن ظفرؔ اقبال واحد شاعر ہے، جو ہم تک کتاب کے ذریعے پہنچا“۔ یہ بات اگر میری تعریف میں ہے تو اسے نقل کرنے پر معذرت چاہتا ہوں اور اگر میں لوگوں تک گائیکی کے ذریعے نہیں پہنچا تو یہ میری نالائقی ہو سکتی ہے، جسے میں تسلیم کرتا ہوں۔“
اس بات کے کرنے کا مقصد؟ شاید انہوں نے پی ایچ ڈی ڈاکٹروں کو لے کر”ہم“ کا صیغہ استعمال کیا ہے۔ اس کو ایسے ہی رہنے دیتے ہیں۔ البتہ صرف لفظ ”واحد“ پر اعتراض درج کر دینا بنتا ہے کیوں کہ ہر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے والے ڈاکٹروں کے مقالات کے ڈھیر پڑے سڑ رہے ہیں جو سارے کے سارے انہی شاعروں پر ہیں جو ان ڈاکٹر صاحبان تک ”کتاب کے ذریعے پہنچے ہیں“۔ جہاں شاعر لوگ اتنا خرچہ کر کے کتابیں چھپوا کر مفت بانٹتے ہیں، خود پر مقالے لکھواتے ہیں، ان کو چاہئے، کہ اپنا کلام کسی سے گوا بھی لیں۔ نصیحت بظاہر فضول لگے گی، لیکن غور کریں گے تو بڑے ہی کام کی ہے۔
”فیضؔ کے بارے میں بجاطور پر کہا جاتا ہے کہ اُنہوں نے رومان اور مزاحمت کا ایک اعلیٰ نمونہ پیش کیا ہے، لیکن فیضؔ نے جس مجبور و مقہور طبقے کیلئے شاعری کی ہے، فیض ؔکا خود اس طبقے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، کیونکہ وہ ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔“
اس فقرے کا پہلا حصہ ایک بات کو تسلیم کر رہا ہے، جس کا اظہار ”بجا طور پر“ کے الفاظ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد”لیکن“ کا لفظ آ جاتا ہے، جو کہ پہلے کی گئی بات کو رد کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن آگے ہم دیکھتے ہیں، کہ ”رومان اور مزاحمت“ کے ”اعلیٰ نمونے کی پیش کاری“ کو گھٹیا ثابت کرنے کے لیے فیضؔ کی شاعری میں سے گھٹیا پن کی کوئی مثال دینے کی بجائے، یا فیضؔ کی شاعری کے اثرات کے برے ہونے کی بات کرنے کی بجائے، ایک عام منطقی مغالطے دلیلِ شخصی (ad hominem) کا سہارا لیا گیا ہے، جس میں مخالف کی بات سے دھیان ہٹا کر اس کی ذات پر بات شروع کر دی جایا کرتی ہے۔ یعنی کسی کے حق میں لکھنے کے لیے انسان کا تعلق اسی کے قبیلے سے ہونا ضروری ہے۔ محنت کش لوگ عام طور پر روٹی کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں، کہ اگلا کھانا کیسے ملے گا۔ اس چکر میں پھنس جانے والا ہی جان سکتا ہے، کہ تمام کے تمام شاعریاں اور فلسفے ایک دن کی بھوک کی مار ہیں۔ اس طرح محنت کش طبقے کے نظریہ دان دنیا میں کہیں بھی، اور کبھی بھی ان کے اپنے طبقے سے نہیں ابھرے، شاید چند مستثنیات کہیں سے مل جائیں۔
محنت کش طبقے کے نظریہ دان واضح طور پر ان کے مخالف طبقے میں سے ہی برآمد ہوا کرتے ہیں، جو کہ غور و فکر سے، یا شرم سے اس نتیجے پر پہنچ جاتے رہے ہیں کہ استحصال ایک غیرانسانی مظہر ہے۔ اس بات کو ساری تاریخ میں کہیں سے بھی شروع کر لیں، یہی نتیجہ ملے گا۔ گوتم بدھ سے شروع کر لیں، یا ہیراکلیتسؔ و افلاطون سے۔
فیضؔ کی مثال لے کر یہ شیکسپیئر، بالزاک، ٹالسٹائی، تھامس مان وغیرہ سے لے کر مارکس، اینگلس اور لینن وغیرہ سب کو رد کر دینے کے چکر میں ہیں۔ کیوں کہ ان میں سے کسی کا بھی ”خود اس طبقے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا، کیوں کہ وہ ایک مراعات یافتہ طبقے سے تعلق رکھتے تھے“۔
ویسے میڈم نورجہاں نے بھی پاک فوج کے لیے ترانے گائے تھے، حالاں کہ ان کا بھی فوج سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ عجیب نہیں لگے گا کہ کل کو کوئی بھٹہ مزدوروں کے لیے شاعری کرے تو اس سے بھٹہ مزدور ہونے کا تقاضہ کیا جائے، جرمنی جاپان میں بہت سے لوگ جانوروں کے حقوق کے لیے انجمنیں بنا کر کام کرتے ہیں۔ اور میں نے خود محسوس کیا ہے، کہ وہ سب تو انسان ہیں۔ اور کوئی شاہین پر شاعری کرنے والے کے متعلق کہے کہ وہ تو اڑنا ہی نہیں جانتا تھا۔
”اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فیضؔ نے جس طبقے کیلئے اتنی زور دار شاعری کی، کیا وہ شاعری اس طبقے تک پہنچی؟ ہرگز نہیں، بلکہ اس سے بھی وہی ایلیٹ طبقہ لطف اندوز ہوتا ہے، جو فیضؔ کا اپنا طبقہ تھا؛ چنانچہ فیض ؔکا یہ سارا نظریاتی کلام اس طبقے کیلئے محض ایک ذہنی عیاشی کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کی کتابیں ان حضرات نے اپنے شیلف سجانے کیلئے رکھی ہوتی ہیں۔ پھر جو ہر سال فیضؔ میلہ منایا جاتا ہے، اس کے کرتا دھرتا اور شرکاء بھی اسی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور کوئی یہ تردد نہیں کرتا کہ اس جشن میں اُن لوگوں کو بھی شامل کیا جائے، جن کیلئے فیضؔ نے شاعری کے انبار لگا رکھے ہیں۔“
”سب سے بڑے سوال“ کا چھوٹا سا جواب ہے، ”جی ہاں پہنچی ہے“۔ خوب پہنچی ہے۔ انڈیا میں غربت، مہنگائی، بھک مری اور بے روزگاری کے خلاف نکلنے والے جلوسوں میں فیضؔ کی شاعری ہی پڑھی گئی ہے، بینروں پر سجی ہے، دیکھنے والوں کو نظر آتی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ فیضؔ کی کتابوں کے، بشمول نسخہ ہائے وفا کے کتنے ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، لیکن مجھے یہ ضرور معلوم ہے، کہ ان کی کثیر تعداد کام کرنے والے، نوکری پیشہ لوگ ہی خریدتے ہیں۔”الیٹ“ کلاس کی تعداد اتنی بھی نہیں ہے پاکستان میں کہ ساری کتب وہی خرید لے۔
اب جب کہ آپ نے فرما دیا کہ ایلیٹ طبقہ ہی”فیض میلے“ کا کرتا دھرتا ہے، تو پھر یہ کہنا تو مخول ہی ہو گیا کہ ایلیٹ طبقہ محروم و مقہور طبقے کو اپنے والے جشن میں شامل کر لے؟
یہ بات درست ہے کہ حکمران طبقہ محنت کش کی ہر ملکیت پر قابض ہوتا چلا جا رہا ہے، یہاں تک کہ فیضؔ میلے کو عوام سے چھین لیا گیا ہے، اور جالبؔ کے شعر شہباز شریف پڑھتا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جن لوگوں کے خلاف انقلاب کی ضرورت ہے، انہی لوگوں نے انقلاب اور تبدیلی کے الفاظ کو بھی عوام سے چھین کر بے عزت کیا ہے۔
بلکہ یہ تو عوام کے سوشلزم اور کمیونزم کو بھی ”کلاسیک“ قرار دے کر اپنا گھڑا ہوا”سوشلزم“ اور”کمیونزم“ بھی عوام میں اتارنے کو ہیں۔ جس میں سوشلزم اور سرمایہ داری کے مابین مخاصمت ختم کر دی جائے گی اور سرمایہ داروں کے دل میں محنت کش کے متعلق درد بھر جائے گا۔ اور وہ اس کو مزدوری کے ساتھ سال میں ایک دو بار خیرات بھی دے دیا کرے گا۔
”میں نے ایک بار تجویز پیش کی تھی کہ فیضؔ کے کلام میں سے انتخاب کر کے اس کا پنجابی اور دیگر علاقائی زبانوں میں ترجمہ کروا کر پیپر بیک کتابوں پر پمفلٹس کی شکل میں خصوصاً دیہات میں رہنے والے ان لوگوں تک پہنچایا جائے، جسے پڑھ کر ان میں تحریک پیدا ہو کہ وہ خود بھی اپنی حالت کو تبدیل کرنے کے بارے سوچ بچار کریں، کیونکہ وہ اس بات سے صریحاً بے خبر ہیں کہ فیضؔ نے ان کے بارے میں کیاکچھ لکھ رکھا ہے، جبکہ فی الحال تو فیضؔ کے انقلابی کلام کا صریحاً غلط استعمال ہی ہو رہا ہے۔ مطلب یہ کام اچھا ہو گا؟ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ فیضؔ، صوفی تبسم سے اصلاح لیا کرتے تھے اور جب صوفی صاحب کا انتقال ہوا تو یہ سلسلہ ختم ہو گیا اور شاید اسی لئے فیضؔ کے آخری دنوں کے کلام میں وزن وغیرہ کی فنی غلطیاں نظر آتی ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اوپر مجیدؔ امجد، منیرؔ نیازی اور ناصرؔ کاظمی کا ذکر آیا ہے، جنہوں نے کسی سیاسی یا غیر سیاسی نظریے کا سہارا نہیں لیا، جبکہ مزاحمت اور مایوسی کے آثار ان کے ہاں بھی نظر آتے ہیں۔ ن۔ م۔ راشد کے ہاں بھی ایسے جذبات دستیاب ہیں، لیکن ایک حُسن تناسب کے ساتھ؛ البتہ حبیبؔ جالب کی شاعری، وہ جیسی بھی تھی، اُن طبقات تک کسی حد تک پہنچی ضرور، جن کیلئے تخلیق کی گئی تھی، جبکہ فیضؔ کی ایسی شاعری مراعات یافتہ طبقے تک ہی محدود رہی۔ ”سر عام“ نامی میرے مجموعے میں صرف اسی طرح کی غزلیں ہیں اور جن کی تحسین بھی ہوئی، لیکن کتاب کے فلیپ میں، میں نے اسے اپنی کم تر درجے کی شاعری قرار دیا ہے۔“
یہاں فاضل کالم نگار صاحب نے ”مزاحمت اور مایوسی“ کو ایک ساتھ استعمال کر کے یہ تاثر دیا ہے، گویا یہ الفاظ ہم معنی ہیں۔ حالاں کہ یہ دونوں الفاظ اپنی نوعیت میں متضاد ہیں۔ یا تو ایک انسان مایوس ہو سکتا ہے اور یا مزاحمت کر سکتا ہے۔ صاف نظر آ رہا ہے کہ یہ بات جان بوجھ کر ان تمام شعرا کی ہتک کرنے کے لیے کی گئی ہے جنہوں نے محنت کش طبقے کے حق میں کچھ لکھا ہے۔ اس چیز کو ہم ذہانت تو نہیں کہہ سکتے، البتہ مکاری یا عیاری کہنا بالکل درست ہو گا۔
جناب کالم نگار صاحب نے خود ہی یہ بات کہہ کر کنفیوز کر کے رکھ دیاہے کہ ان کا شاعری کا ایک مکمل مجموعہ ان کی کم تر یا گھٹیا درجے کی شاعری پر مشتمل ہے، سمجھ نہیں آ رہی کہ ”کمتر“یا گھٹیا قسم کی شاعری کو چھَپا دینا قرین عقل تھا، یا کہ چھُپا دینا؟
”یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اختلاف رائے کے بغیر ادب جامد ہو کر رہ جاتا ہے۔ میں فیضؔ کے ماننے والوں میں سے ہوں، اسی لئے میں نے اس کا نوٹس بھی لیا ہے کہ میرے نزدیک یہ سوالات اور تحفظات موجود تھے، جو میں نے بیان کر دیئے ہیں۔ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں، لیکن میں اپنی بات کہنے کے حق سے دستبردار نہیں ہو سکتا کہ یہ میری مجبوری بھی ہے اور میں یہ کام کرتا بھی رہتا ہوں۔ ادب میں رعایتی نمبر نہیں ہوتے۔ میں کسی کو رعایتی نمبر دیتا بھی نہیں، کیونکہ میں خود کسی سے رعایتی نمبروں کا طلبگار نہیں ہوتا!“
ہم نے بھی کوشش کی ہے کہ فاضل کالم نگار کی باتوں پر ہمارے جو سوالات اور تحفظات تھے، بیان کر دیں بالکل اسی طرح سے جیسے موصوف نے اپنے اس کالم میں کیے ہیں۔ لیکن ان تمام نقائص، عیوب اور جرائم کی موجودگی میں، جو کچھ کہ صاحبِ تحریر نے گنوائے، جن میں فکر کے اتھلے پن، یک طرفہ پن، عدم فنکارانہ پن، فکری و لسانی جمود، قدامت پرستی، یکسانیت زدگی، فنی سقم یا عروضی کوتاہیاں، عدم حسن تناسب؛ ڈائیورشن، ڈائیورسٹی اور یہاں تک کہ ”خالص شاعری“ سے دوری، کے علاوہ خطرناک قسم کے وہ جرائم جن کا دنیا کے کسی بھی لکھاری میں پایا جانا ممکن ہو سکتا تھا؛ جیسے کہ لوگوں تک کلام کا کتاب کی بجائے گویوں اور قوالوں کے ذریعے پہنچانا، شاعری مشہور کروانے کے لیے نظریے کا سہارا لینا، اُس ایوارڈ کو (فن کی بجائے) نظریے کے بل پر لے اڑنا جو کہ فنکاروں کے لیے تھا، مایوسی پھیلانے کا مرتکب ہونا، صوفی تبسمؔ کے کاندھوں پر چڑھ کر شہرت کاحصول، شاعری کو سیاسی اور صحافیانہ گراوٹ کا شکار کر دینا، مخصوص نظریے کا حامل ہونا، پھر اُس نظریے سے ذاتی زندگی کا بُعد میں ہونا، متعصب ہو نا(پہلے کے گھڑے گھڑائے نتیجوں کو منظوم کر دینا)، جیسی برائیوں کا مجموعہ فیضؔ کو قرار دے دیے جانے کے بعد، موصوف کی ایسی کون سی مجبوری تھی، کون سی ایسی وجوہات تھیں جن کی بنا پر یہ کہنا پڑا کہ: ”فیض کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا، میں خود ان کے مداحین میں شامل ہوں“ اور ”میں فیضؔ کے ماننے والوں میں سے ہوں“؟