تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے ارضِ وطن
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کریں
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحراؤں کو گلزار کریں
تیرے ایوانوں میں پرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے جو نا آسودۂ اقرار ہوئے
کتنی آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے تیری شاہراہوں میں سنگسار ہوئے
فیض احمد فیض