|تحریر: بابو ولیم، پیر بخش، فضیل اصغر|
اس وقت پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت بد ترین بحران کا شکار ہے۔ کئی ملز بند اور لاکھوں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔ ایک حالیہ سروے کے مطابق پاکستان میں ٹیکسٹائل پیداوار کے تمام مراحل سے وابستہ 70 لاکھ مزدوروں کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے۔ یعنی کہ 70 لاکھ خاندانوں کے کروڑوں لوگوں کی آمدن کا واحد ذریعہ ختم ہو چکا ہے۔ اتنے بڑے پیمانے پر مزدوروں کو ایک ایسے وقت میں نوکریوں سے نکالا گیا ہے جب مہنگائی آسمان کو چھور رہی ہے اور آئے روز اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ان مزدوروں میں ایک بہت بڑی تعداد خواتین کی ہے۔ یہ 70 لاکھ خاندانوں کا معاشی قتل ہے۔ اسی طرح جو مزدور باقی بچ گئے ہیں، سرمایہ داروں نے ان کا استحصال مزید بڑھا دیا ہے۔
فیکٹریاں کیوں بند ہو رہی ہیں؟ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ پچھلے سال آنے والے سیلاب نے فصلیں تباہ کر ڈالی ہیں۔ جس کی وجہ سے کپاس کی کمی ہوگئی جو کہ ٹیکسٹائل میں بطور خام مال استعمال ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے کپاس درآمد کرنا پڑ رہی ہے جو کہ بہت مہنگی پڑتی ہے۔ مگر دوسری طرف کپاس کو درآمد کرنے میں بھی کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ اس وقت پاکستانی ریاست کے پاس زر مبادلہ کے ذخائر (یعنی کہ ڈالرز) انتہائی کم ہو چکے ہیں اور عملاً ملک دیوالیہ ہو چکا ہے لیکن ابھی تک دیوالیہ ہونے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ لہٰذا حکومت نے درآمدات پر پابندیاں لگا دیں تاکہ ڈالر ملک سے باہر نہ جائیں۔ مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کپاس سمیت دیگر خام مال اور ٹیکسٹائل صنعت میں استعمال ہونے والی مشینری،فاضل پرزہ جات اور کیمیکلز کی بھی درآمد رکی ہوئی ہے۔ اس کی وجہ سے بہت بڑے پیمانے پر صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ مزید برآں ملکی معاشی بحران کے کارن ملکی منڈی کی قوت خرید میں زبردست گراوٹ اور عالمی معاشی بحران کی وجہ سے مغربی منڈیوں سے ملنے والے ٹیکسٹائل آرڈرز میں بڑی کمی نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔
اس حوالے سے فیکٹری مالکان یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم کیا کریں، ہمارے پاس خام مال ہی نہیں پیداوار کرنے کیلئے۔ اس طرح دہائیوں سے اندھا دھند لوٹ مار،منافع خوری کرنے اور ریاستی سبسڈیوں پر پلنے والے فیکٹری مالکان اپنے آپ کو مظلوم بنا کر پیش کر رہے ہیں اور ساتھ ساتھ بڑی سفاکی اور چالاکی کے ساتھ مزدوروں کو جبری برطرف کر رہے ہیں،ان کی تنخواہیں کاٹ رہے ہیں، کئی کئی ماہ تک ان کی تنخواہیں روک رہے ہیں اور جرمانے وغیرہ لگا کر ان کی تنخواہ کھا رہے ہیں۔ اسی طرح مزدوروں کے یونین بنانے پر عملاً سخت پابندی عائد ہے۔ یہ فیکٹری مالکان مزدوروں کو یہ کہتے ہیں کہ حالات خراب ہیں لہٰذا مزدوروں کو مشکل وقت برداشت کرنا پڑے گا۔ اگر وہ برداشت نہیں کرتے تو پھر فیکٹری بند ہو جائے گی اور وہ بھی باقیوں کی طرح بیروزگار ہو جائیں گے۔ مگر ان فیکٹری مالکان کی اپنی دولت اور جائیدادوں میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہی ہو رہا ہے۔
یہاں ہم ان سرمایہ داروں سے سوال کرتے ہیں کہ یہ ملک دیوالیہ کس نے کیا؟ کیا اسے دیوالیہ مزدوروں نے کیا؟ پچھلے 76 سال سے تو اسے سامراجی عالمی مالیاتی ادارے، سرمایہ دار، جاگیردار،بنکار،جرنیل،جج،سول افسر شاہی اور طبقہ امراء سے تعلق رکھنے والے سیاستدان چلا رہے ہیں۔ قرضے بھی سارے انہوں نے ہی لیے، جو محنت کش عوام پر لگے بھی نہیں البتہ سرمایہ داروں کی دولت میں ضرور اضافہ ہوا۔ سیلاب سے بچنے کیلئے بند بنانے اور دیگر حفاظتی اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا مزدوروں نے کرنا تھا یا حکمرانوں نے؟ الٹا سیلاب سے جن لوگوں کی فصلیں اور گھر بار تباہ ہوئے ان کی کوئی ریاستی مدد نہیں کی گئی۔ جس بھی پارٹی کی حکومت آئے، یہ سرمایہ دار یا تو خود حکومت میں ہوتے ہیں، یا ان کا کوئی رشتہ دار یا نمائندہ حکومت میں ہوتا ہے۔ اور دوستیاں تو ان کی تمام پارٹیوں، جرنیلوں، ججوں، بیوروکریٹوں کے ساتھ ہوتی ہی ہیں۔
یہی صورت حال فیصل آباد میں بھی موجود ہے۔ فیصل آباد چونکہ پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر کا گڑھ ہے، لہٰذا اس بحران کا سب سے زیادہ سامنا بھی فیصل آباد میں ٹیکسٹائل سیکٹر کے مزدوروں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق فیصل آباد میں 13 لاکھ سے زائد مزدور بڑی ٹیکسٹائل ملوں اور پاور لومز سے وابستہ ہیں جن میں سے آدھی کے قریب بند ہو چکی ہیں اور5لاکھ مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں۔ لیکن ہمارے اندازے کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ درست تعداد بتا پانا ممکن نہیں کیونکہ اس حوالے سے باقاعدہ کوئی سروے نہیں کرایا گیا ہے۔
اس ضمن میں ہم نے سمال انڈسٹریل ا سٹیٹ فیصل آباد کے کچھ مزدوروں سے موجودہ صورت حال کے حوالے سے بات کی۔ مالکان کے شدید جبر اور بیروزگاری کی لٹکتی تلوار کے دباؤ کے تحت انہوں نے اپنا نام سامنے نہ آنے کی شرط پر ہم سے بات کی۔
ایک مزدور، جس کا تعلق ساہیوال سے تھا، نے ہمیں بتایا کہ اسے ماہانہ 16 ہزار روپے تنخواہ ملتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ ”اتنے پیسوں میں بھلا کوئی کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟“ اس سے جب سوال پوچھا گیا کہ کیا آپ کی فیکٹری میں یونین ہے؟ تو یہ سوال سن کر اس پر ایسی خاموشی چھا گئی جیسے وہ یونین کا نام ہی پہلی بار سن رہا ہو۔ کچھ لمحے خاموشی کے بعد اس نے جواب دیا کہ ”نہیں ہے کوئی یونین“۔ اس سے جب یہ سوال پوچھا گیا کہ ”ہم نے سنا ہے کہ سمال انڈسٹریل ا سٹیٹ میں کافی فیکٹریاں بند ہو گئی ہیں، کیا یہ سچ ہے؟“ تو اس نے جواب دیا کہ ”مجھے نہیں پتہ۔ ہم تو دن رات اپنی فیکٹری میں ہی بند رہتے ہیں۔ ہمیں باقی مزدوروں سے ملنے کا وقت نہیں ملتا۔“
ایک ڈائنگ فیکٹری کے مزدور کا کہنا تھا کہ ”ہم مزدوروں کی کمزوری یہ ہے کہ ہم منظم نہیں ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمیں اپنی طاقت کا بالکل بھی ادراک نہیں ہے، مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی بھی ایک مزدور آواز اٹھائے تو اسے نشان عبرت بنا دیا جاتا ہے۔ مزدور اس لیے بھی خاموش ہیں کیونکہ بہت زیادہ بیروزگاری ہے، اگر نوکری سے نکال دیا گیا تو پھر گھر کا کیا کریں گے۔ ویسے بھی ہم ٹھیکیداروں کے آسرے پر ہیں، ہماری کوئی پکی نوکری تو ہے نہیں۔ دوسرا ہمیں یونین لیڈروں نے اتنے دھوکے دیے ہیں کہ اب مزدور کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔ انہیں لگتا ہے کہ جو بھی یونین لیڈر بنے گا وہ دھوکا ہی دے گا۔ مزدوروں کی طاقت کو استعمال کر کے وہ اپنی تو کوٹھیاں بنا لے گا مگر مزدوروں کو نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑ جائے گا۔“ اس سے جب یہ پوچھا گیا کہ اگر کوئی ایسی پارٹی بن جائے جو بکاؤ نہ ہو اور نہ صرف سمال انڈسٹریل ا سٹیٹ کی تمام فیکٹریوں کے مزدوروں کو منظم کرے بلکہ پورے فیصل آباد اور پورے ملک کے مزدوروں کو منظم کر کے ملک گیر ہڑتال کی جانب بڑھے تو کیا آپ اس کا ساتھ دیں گے؟ اس نے جواب دیا کہ ”فی الحال ایسا ہوتا دکھائی تو نہیں دیتا۔ ہاں اگر ایسا ہوگیا تو کیا ہم پاگل ہیں کہ اس پارٹی کے ساتھ نہیں جڑیں گے! صرف میں ہی نہیں بلکہ سمال ا سٹیٹ کے تمام مزدور بہت تنگ ہیں اور حالات کیخلاف لڑنا چاہتے ہیں۔“
ایک مزدور سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا اسے موجودہ کسی سیاسی پارٹی سے امید ہے کہ وہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ کرے گی اور ان کے حالات بہتر کرے گی؟ تو اس کا کہنا تھا کہ ”ہمیں کسی بھی سیاسی پارٹی سے کوئی امید نہیں۔“ اس جواب کے بعد ہم نے اس سے پوچھا کہ کیا ان سیاسی پارٹیوں کو آپ ووٹ نہیں ڈالتے؟ اس کے جواب میں اس کا کہنا تھا کہ ”ہم نے نہ تو عمران خان کو ووٹ دے کر وزیر اعظم بنایا تھا اور نہ ہی شہباز شریف کو۔ ہم تو بس اپنی روزی روٹی کمانے میں لگے ہیں۔ الیکشن الیکشن کھیلنا پیسے والوں کا کام ہے۔“
اگر ان تمام انٹرویوز پر غور کیا جائے تو یہ باتیں ہمارے سامنے آتی ہیں کہ: 1۔ سمال انڈسٹریل ا سٹیٹ کے مزدوروں کی موجودہ تنخواہ ان کے اخراجات کے مقابلے میں نہایت کم ہے اور مہنگائی میں اضافے کے تناسب سے ان کی تنخواہیں نہیں بڑھائی گئیں بلکہ افراط زر کے کارن ان کی حقیقی اجرتوں میں بہت بڑی کمی ہوئی ہے۔ 2۔ فیکٹریوں میں مزدوروں کو یونین بنانے کا قانونی حق تک نہیں دیا جا رہا، جس کا مقصد مزدوروں کو اکٹھا ہونے سے زبردستی روکنا ہے تا کہ ان کا شدید ترین استحصال جاری رکھا جا سکے۔ 3۔ بہت بڑے پیمانے پر مزدوروں کے نوکریوں سے نکالے جانے کے بعد پیچھے بچ جانے والے ورکرز میں ایک وقتی خوف موجود ہے کہ کہیں وہ بھی نوکری سے نہ نکال دیے جائیں جس کی وجہ سے فوری طور پر وہ کوئی بڑی احتجاجی تحریک نہیں شروع کر رہے 4۔ تمام مزدور شدید غم و غصے کی حالت میں ہیں اور جدوجہد کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے پاس کوئی ایسی لڑاکا قیادت نہیں ہے جو انہیں منظم کرے۔ 5۔ نئی قیادت کی تعمیر کے رستے میں رکاوٹ ان کے ذہنوں میں ماضی کی قیادتوں کی غداریوں کے سبب بیٹھا ہوا خوف اور بد اعتمادی ہے۔ 6۔ مزدور سرمایہ داروں اور ریاست سے ڈر کر خاموش نہیں ہیں بلکہ ان پر تو انہیں شدید غصہ ہے، خاموشی کی وجہ قیادت کا فقدان ہے۔ 7۔ مزدور تمام سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں سے متنفر ہیں، لہٰذا اگر آج ایک انقلابی پارٹی اتنی تعداد میں موجود ہوتی ہے جو مزدوروں کو نظر آئے تو وہ فوراً اس کا حصہ بنیں گے۔
یہ باتیں کی تو فیصل آباد سمال انڈسٹریل سٹیٹ کے چند مزدوروں نے ہیں، مگر یہ ملک بھر کے تمام مزدوروں کی باتیں ہی ہیں۔ لہٰذا ان تمام باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے واضح طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ مزدور زیادہ عرصہ اب خاموش نہیں رہیں گے۔ جلد ہی ہمیں مزدوروں کی بڑی بغاوتیں دیکھنے کو ملیں گی۔
اب اس سال پھر پاکستان میں سیلاب کی پیش گوئی کی جا رہی ہے۔ اپریل کے مہینے سے تیز بارشیں شروع بھی ہو گئی ہیں۔ اگر بارشوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے تو نا صرف گندم کا ایک بڑا بحران جنم لے گا بلکہ کپاس کی فصل بھی بری طرح متاثر ہوگی جس سے دوبارہ کپاس کی قلت پیدا ہوگی۔ دوسری طرف روپے کی قدر مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے، قرضوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، زر مبادلہ کے ذخائر بھی گر رہے ہیں جس کی وجہ سے درآمدات میں کمی کا رجحان بھی جاری رہے گا۔ یہ سب ایک ایسی صورت حال میں ہو رہا ہے جب عالمی سطح پر بھی خوفناک بحران جاری ہے۔ اس وقت یورپ اور امریکہ میں مہنگائی تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے اور بڑے بڑے بینک دیوالیہ ہو رہے ہیں۔ اوپر سے روس یوکرین جنگ بھی جلد ختم ہوتی ہوئی نظر نہیں آرہی۔ امریکہ اور چین کی لڑائی بھی جاری ہے جس کی وجہ سے عالمی بحران مزید تیز ہوتا جا رہا ہے۔ اس عالمی بحران کی صورت حال میں پاکستان جیسے غریب ممالک پر قرضے تیزی سے بڑھتے جا رہے ہیں اور ان کے اعلانیہ دیوالیہ ہونے کے خطرات بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ لہٰذا یہ واضح نظر آرہا ہے کہ مستقبل میں ٹیکسٹائل سمیت دیگر تمام شعبے اور انڈسٹریاں بھی تیزی سے بند ہوں گی اور لاکھوں مزید مزدوروں کو نوکریوں سے نکالا جائے گا۔
اس بحران کی وجہ یہ ہے کہ فیکٹریوں،ملوں،بنکوں،جاگیروں،معدنی وسائل سمیت تمام ذرائع پیداوار پر مٹھی بھر سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ مگر پورے ملک میں جتنی بھی دولت پیدا ہوتی ہے وہ کرتے تو مزدور ہیں مگر اس پر قبضہ سرمایہ داروں کا ہوتا ہے۔ یعنی کہ مزدور کی محنت کا استحصال کر کے سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتا جاتا ہے۔ ایک فیکٹری سے دوسری اور پھر تیسری لگاتا جاتا ہے، مگر مزدور کی آمدن کم سے کم ہوتی جاتی ہے۔ آج صرف سات عالمی سرمایہ داروں کے پاس اتنی دولت ہے جتنی آدھی دنیا کے پاس ہے۔ ان سات سرمایہ داروں میں فیس بک کا مالک بھی شامل ہے۔
لہٰذا اس بحران کا ایک ہی حل ہے کہ ایک مزدور انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ نظام لایا جائے، سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کر کے مزدور ریاست قائم کی جائے۔ یعنی کہ ملک میں موجود تمام فیکٹریوں، بینکوں اور جاگیروں کو مٹھی بھر سرمایہ داروں و جاگیرداروں سے چھین کر مزدوروں کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں دیا جائے۔ تمام تر سامراجی قرضوں کو ضبط کر کے ان کی واپسی سے یکسر انکار کیا جائے۔ اس طرح جتنی بھی دولت پیدا ہو گی وہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے پاس جانے کی بجائے پورے سماج کے پاس آئے گی۔ اس دولت سے ہزاروں نئے ہسپتال، سکول، یونیورسٹیاں، سڑکیں، فیکٹریاں بنائی جا سکتی ہیں۔ اس طرح کئی نئی صنعتیں لگا کر بیروزگاری کا مکمل خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ اس مزدور ریاست میں فیصلے سرمایہ دار نہیں بلکہ مزدور وں،کسانوں اور نوجوانوں کے جمہوری طور پر منتخب کردہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹیاں کریں گی جو نیچے سے لیکر اوپر تک ہر سطح پر موجود ہوں گی۔صرف ایسے سوشلسٹ غیر طبقاتی سماج میں ہی محنت کش عوام صحیح معنوں میں انسانی زندگی بسر کرنے کے قابل ہوں گے۔
اس وقت فیصل آباد سمال انڈسٹریل سٹیٹ سمیت ملک بھر کے تمام مزدوروں کے پاس منظم ہو کر جدوجہد کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں بچا۔ اب جینا ہے تو لڑنا ہوگا۔ اور مزدور اتنی بڑی طاقت ہیں کہ اگر وہ سمال انڈسٹریل سٹیٹ سمیت پورے ملک میں منظم ہو گئے تو پھر یہ صرف اپنی تنخواہوں میں اضافہ نہیں مانگیں گے، بلکہ پھر یہ اپنی محنت سے پیدا کی گئی ہر شے پر اپنا قبضہ مانگیں گے۔ پھر فیکٹریاں مٹھی بھر مالکوں کی مرضی سے نہیں بلکہ ان کروڑوں مزدوروں کی مرضی سے چلیں گی جو اپنی محنت سے ان فیکٹریوں میں دولت پیدا کرتے ہیں۔