|منجانب: مرکزی بیورو ریڈ ورکرز فرنٹ|
پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت کے گڑھ فیصل آباد میں پاور لومز ورکرز کی احتجاجی تحریک پچھلے تقریباً تین ہفتوں سے جاری ہے۔ تحریک کی کال پاور لومز سیکٹر کی تینوں بڑی یونینز لیبر قومی موومنٹ، پاور لومز ورکر یونین اور پاسبان یونین کی طرف سے دی گئی تھی۔ تحریک کے مطالبات میں سب سے اہم مطالبہ اجرتوں میں 20 فیصد اضافے کا تھا۔ اپنے مطالبات کے حصول کیلئے پاور لومز ورکرز کی یہ کوئی پہلی تحریک نہیں ہے۔ پچھلے چند سالوں میں مزدوروں نے کئی دفعہ اپنے مطالبات کے حق میں پرزور احتجاجی تحریکیں چلائی ہیں لیکن ورکرز کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ ایسے ہی موجودہ تحریک بھی محنت کشوں کی تمام تر جرات اور ہمت کے باوجود ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے۔ ڈپٹی کمشنر فیصل آباد کے دفتر کے سامنے موجود احتجاجی کیمپ اور دھرنا ختم ہو چکا ہے اور زیادہ تر سیکٹرز میں ہڑتال بھی ٹوٹ چکی ہے۔ چند ایک سیکٹرز میں (خصوصاً جہاں بڑی پاور لومز ہیں) ہڑتال کے ابھی تک جاری رہنے کی وجہ درحقیقت مالکان کی طرف سے کیا گیا لاک آؤٹ ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ ٹوٹتی ہوئی تحریک سے پھیلنے والی مایوسی کا فائدہ اٹھا کر مزدوروں کو ماضی کی اجرت پر ہی کام کرنے پر مجبور کیا جائے۔جن سیکٹرز میں لومز چل رہی ہیں، وہاں پر بھی مزدور پرانی اجرت پر ہی کام کر رہے ہیں۔ بعض مالکان نے اگلے سال جنوری سے اجرتوں میں 7 فیصد کے معمولی اضافے کا وعدہ کیا تو ہے مگر اس کے پورا ہونے کے امکانات نہایت ہی کم ہیں۔ اس کے علاوہ مالکان تحریک میں سرگرم کردار ادا کرنے والے محنت کشوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کرتے ہوئے انہیں فیکٹریوں سے نکال رہے ہیں اور احتجاج کرنے والے مزدوروں پر تشدد کا بھی بلادریغ استعمال کیا جا رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حالیہ تحریک سمیت ماضی میں چلنے والی پاورلوم سیکٹر کی تحریکیں آخر محنت کشوں کی تمام تر جرات کے باوجود ناکام کیوں ہو رہی ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران کی وجہ سے پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری بھی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ سرکاری و غیر سرکاری رپورٹوں کے مطابق پچھلے چند سالوں سے پاکستان کی برآمدات میں تیزی سے کمی واقع ہو رہی ہے۔ پاکستان کی کل برآمدات کا ایک بڑا حصہ ٹیکسٹائل کی مصنوعات پر مشتمل ہے اور برآمدات میں کمی کا براہ راست اثر پاکستان کے ٹیکسٹائل سیکٹر پر پڑ رہا ہے۔ عالمی معاشی بحران کی وجہ سے جہاں ایک طرف یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی کھپت میں مسلسل کمی ہو رہی ہے وہیں دوسری طرف سکڑتی ہوئی عالمی منڈی میں چین، بھارت، ویتنام اور بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو شدید مقابلہ بازی کا سامنا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی منڈی میں بھی اب چینی ٹیکسٹائل مصنوعات کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری مقابلے سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت تکنیک کے معاملے میں اپنے مد مقابل ممالک سے کوسوں پیچھے ہے اور نتیجتاً پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت میں محنت کی پیداواریت کہیں کم ہے۔ یہ ساری صورتحال پاکستانی صنعت کاروں کی نا اہلی اور خصی پن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ رہی سہی کسر عالمی منڈی کے مقابلے میں مہنگے خام مال(کپاس)، بجلی کے بحران، حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل مصنوعات پر عائد کردہ بالواسطہ ٹیکسوں اور روپے کی مصنوعی طور پر برقرار رکھی گئی بلند شرح تبادلہ نے پوری کر دی ہے۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت محنت کی کم پیداواریت اور زائد پیداواری لاگت کے دو پاٹوں کے بیچ میں پس رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں مقامی صنعت کار اپنی شرح منافع کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کیلئے جہاں ایک طرف بجلی چوری، گیس چوری اور ٹیکس چوری کا سہارا لیتے ہیں وہیں دوسری طرف محنت کشوں کا بھی شدید ترین استحصال کر رہے ہیں۔ اجرتیں اتنی کم ہیں کہ محنت کشوں کیلئے دو وقت کی روٹی کھانا بھی مشکل ہے اور اوقات کار اتنے طویل ہیں کہ شائد ہی کسی مزدور کی کبھی نیند پوری ہوتی ہو۔ چوری اور محنت کشوں کے وحشیانہ استحصال کے بل بوتے پر ہی پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت اپنا وجود قائم رکھے ہوئے ہے اور یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کی طرف سے اجرتوں میں معمولی اضافے کا مطالبہ بھی مالکان کیلئے خطرے کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے۔ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ محنت کشوں کے شدید ترین استحصال کے بغیر نہ تو وہ اپنی پیداواری لاگت کو قابو میں رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی شرح منافع میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ اسی لئے تمام مالکان اجرتوں میں اضافے کیلئے چلنے والی کسی بھی تحریک کا متحد ہو کر مقابلہ کرتے ہیں اور اسے ناکام کرنے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں۔ حالیہ عرصے میں اجرتوں میں اضافے کے خلاف مالکان کی طرف سے متحد ہو کر کی جانے والی شدید مخالفت اسی تمام صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اجرتوں میں اضافہ ناممکن ہے اور محنت کشوں کو صبر شکر کرکے گزارا کرنا چاہیے؟ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ مالکان نے عالمی معاشی بحران اور اپنی تکنیکی پسماندگی کا تمام تر بوجھ محنت کشوں کے کندھوں پر منتقل کیا ہوا ہے اور خود اپنی تجوریاں بھر رہے ہیں۔ محنت کشوں کا اپنی اجرتوں میں اضافے کا مطالبہ بالکل حق بجانب ہے۔ آخر معاشی گراوٹ کا تمام تر بوجھ صرف محنت کش ہی کیوں اٹھائیں؟ سرمایہ داروں کی جیبوں میں جانے والا تمام منافع درحقیقت مزدوروں سے لوٹی ہوئی محنت (قدر زائد) ہی ہے اور مزدور اس منافع میں زیادہ حصہ طلب کرنے کی جدوجہد میں بالکل برحق ہیں۔ لیکن عالمی معاشی بحران اور ملکی معیشت کی تباہی کے پس منظرمیں مالکان مزدوروں کے معمولی مطالبات کو بھی آسانی سے تسلیم نہیں کریں گے اور تحریک کو سرمایہ داروں کی طرف سے سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بلاشبہ تحریک مالکان کی مزاحمت کو توڑتے ہوئے اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو سکتی ہے لیکن اس کیلئے تحریک کی قیادت کا ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہونا ضروری ہے جو نڈر، جرات مند اور بے باک ہونے کے ساتھ ساتھ درست نظریات و پروگرام، حکمت عملی اور طریقہ کار سے بھی مسلح ہوں۔
پچھلی تمام تحریکوں اور حالیہ تحریک کی ناکامی کی فیصلہ کن وجہ قیادت کی فاش غلطیاں ہیں۔ تحریک سے قبل نہ تو قیادت نے محنت کشوں پر ملکی اور عالمی معاشی صورتحال واضح کرتے ہوئے انہیں ایک لمبی لڑائی کیلئے تیار کیا اور نہ ہی تحریک کے آغاز کیلئے مناسب وقت کا چناؤ کیا۔ جہاں ایک طرف اپنی وقتی مقبولیت بڑھانے کیلئے قیادت کی جانب سے محنت کشوں کو ’’چند دنوں میں کامیابی‘‘ کی میٹھی گولیاں دی گئیں وہیں دوسری طرف منڈی میں طلب و رسد کی صورتحال کے حوالے سے تحریک شروع کرنے کیلئے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جب مالکان مزدوروں کو تھکانے کیلئے ایک طویل لاک آؤٹ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ تحریک کے دوران قیادت کی جانب سے پاور لومز کے علاوہ ٹیکسٹائل صنعت کے دوسرے شعبوں کے محنت کشوں، دیگر صنعتوں اور اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جڑت قائم کرنے کیلئے کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا۔ نتیجتاً پاور لومز ورکرز کی تحریک باقی تمام محنت کشوں کی حمایت اور یکجہتی حاصل کرنے میں ناکام رہی اور تنہائی کا شکار ہو کر بکھر گئی۔ طریقہ کار کے حوالے سے بھی قیادت سے بے شمار غلطیاں سرزد ہوئیں۔ قیادت نے ڈپٹی کمشنر کو سرمایہ دارانہ ریاست، حکمران طبقے اور مالکان کے جانبدار نمائندے کے طور پر دیکھنے کے بجائے اسے مزدوروں کے سامنے ایک غیر جانبدار انتظامی اتھارٹی بنا کر پیش کیاجس کے نتیجے میں ڈپٹی کمشنر مالکان کے ایما پر مذاکرات کو طول دیتا رہا اور مزدور ڈپٹی کمشنر دفتر کے سامنے کھلے آسمان تلے دن رات خوار ہوتے رہے۔ بے فائدہ مذاکرات کی طوالت سے اکتا کر جب تحریک تھکنے لگی تو قیادت نے دیگر شعبوں کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کرتے ہوئے پورے شہر میں احتجاجی جلسے، ریلیاں اور تمام بڑی سڑکوں پر دھرنوں کے بجائے فیصل آباد سے لاہور تک ’’لانگ مارچ‘‘ کرنے کا احمقانہ فیصلہ کیا۔ اس نام نہاد لانگ مارچ کے نتیجے میں مالکان اور انتظامیہ کی صحت پر تو کیا ہی فرق پڑنا تھا، الٹا مزدور مزید مایوسی اور تھکن کا شکار ہو گئے۔ لانگ مارچ کی متوقع ناکامی کے بعد محنت کشوں کے شدید دباؤ پر جب قیادت نے بالآخر بادل نخواستہ پورا شہر بند کرنے کا اعلان کیاتو واضح پتہ لگ رہا تھا کہ انہوں نے ایسا صرف مجبوراً کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو انہوں نے اس مقصد کیلئے بھرپور رابطہ کاری مہم چلائی اور نہ ہی کوئی ٹھوس حکمت عملی ترتیب دی۔ صرف ایک دن شہر کی صرف ایک بڑی سڑک پر چند گھنٹوں کا احتجاجی دھرنا دیا گیا جو کہ شہر کے نظم و نسق میں کوئی خلل نہ ڈال سکا۔ واضح نظر آ رہا تھا کہ قیادت تحریک میں مزید شدت نہیں لانا چاہتی بلکہ مزدوروں کے تھک ہار کے اپنے گھروں کو واپس چلے جانے کی منتظر ہے۔ ان تمام غلطیوں کے نتیجے میں یہ الفاظ تحریر کئے جانے تک تحریک تقریباً ٹوٹ کر بکھر چکی ہے اور حسب روایت یونین قیادتیں اپنی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے تحریک کی ناکامی کا تمام تر ذمہ دار محنت کشوں کو ٹھہرا رہی ہیں یا پھر بعض مالکان کی طرف سے اگلے سال جنوری میں اجرتوں میں معمولی اضافہ کرنے کے وعدے کو ہی بہت بڑی کامیابی بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ حالانکہ محنت کشوں کے جوش و جذبے کو دیکھتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ایک نڈر، جرات مند اور معاملات کی درست سمجھ بوجھ رکھنے والی قیادت کی موجودگی میں یہ تحریک اپنے مطالبات منوانے میں کامیاب ہو سکتی تھی۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان پوری تحریک میں نہ صرف محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑے رہے بلکہ تحریک کے ہر مرحلے پر انہوں نے پروگرام، حکمت عملی اور طریقہ کار کے معاملے پر قیادت کی غلطیوں اور کمزوریوں سے محنت کشوں کو آگاہ کرتے ہوئے ان کے سامنے درست متبادل بھی پیش کیا۔اس کے نتیجے میں وہ بڑے پیمانے پر محنت کشوں کی پسندیدگی اور توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس تحریک کی ناکامی سے ضروری نتائج اخذ کرنے میں محنت کشوں کی مدد کی جائے اور مختلف شعبوں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی جڑت بناتے ہوئے پاور لوم ورکرز کی لڑاکا پرتوں کو مستقبل کی لڑائیوں کیلئے درست نظریات، پروگرام، نعروں اور حکمت عملی کے ساتھ مسلح و منظم کیا جائے۔