|منجانب:مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|
عالمی معیشت کی سست روی کے باعث پاکستان کی پسماندہ معیشت بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ اس امر کا ایک واضح اظہارہمیں پاکستان کی مسلسل گرتی ہوئی برآمدات کی صورت میں نظر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برآمدات سے منسلک زیادہ تر صنعتی شعبے اس وقت شدید دباؤ کا شکار ہیں، لیکن چونکہ پاکستان کی صنعتی برآمدات کا بڑا حصہ ٹیکسٹائل مصنوعات پر مبنی ہے لہٰذا یہ ٹیکسٹائل سیکٹر ہے جہاں پر اس دباؤ اور بحران کا سب سے واضح اظہار ہو رہا ہے۔
عالمی معاشی بحران کی وجہ سے جہاں ایک طرف یورپ اور امریکہ کی منڈیوں میں ٹیکسٹائل مصنوعات کی کھپت مسلسل کم ہو رہی ہے وہیں سکڑتی ہوئی عالمی منڈی میں پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کو امریکہ، چین، بھارت، ویت نام اور بنگلہ دیش کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی جانب سے شدید مقابلے بازی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ملکی منڈی میں بھی اب چینی ٹیکسٹائل مصنوعات کی وجہ سے پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری مقابلے سے باہر ہوتی جارہی ہے۔ پاکستان کی زیادہ تر ٹیکسٹائل صنعت تکنیک کے معاملے میں اپنے مد مقابل ممالک سے کوسوں پیچھے ہے اور نتیجتاً پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت میں محنت کی پیدا واریت اپنے مد مقابلوں سے کہیں کم ہے۔ یہ ساری صورتحال پاکستانی صنعتکاروں کی نااہلی اور خصی پن کا منہ بو لتا ثبوت ہے۔ رہی سہی کسر عالمی منڈی کے مقابلے میں مہنگے خام مال (کپاس)، مہنگی بجلی، لوڈشیڈنگ، حکومت کی طرف سے ٹیکسٹائل مصنوعات پر عائد کردہ بالواسطہ ٹیکسوں اور روپے کی مصنوعی طور پر برقرار رکھی گئی بلند شرح تبادلہ نے پوری کر دی ہے۔ اپنے مد مقابلوں کا سامنا کرنے کے لئے پاکستانی ٹیکسٹائل انڈسٹری کو جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے محنت کی پیداواریت میں اضافہ کرنے کی ضرورت ہے لیکن پاکستان کے زیادہ تر صنعتی سرمایہ دار یہ سب کرنے کے لئے درکار تکنیکی اور مالیاتی اہلیت نہیں رکھتے۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کا پسماندہ سرمایہ دار طبقہ جہاں ایک طرف بجلی چوری، گیس چوری، ٹیکس چوری کا سہارا لیتا ہے اور اس سب کے باوجود ہر وقت حکومت سے سبسڈیز اور تحفظاتی پالیسیوں کا طلبگار نظر آتا ہے وہیں دوسری طرف یہ محنت کشوں کا بھی وحشیانہ استحصال کرتا ہے۔ اجرتیں اتنی کم ہیں کہ دو وقت کی روٹی بھی پوری نہیں ہوتی اور اوقات کار اتنے طویل ہیں کہ شائد ہی کبھی کسی مزدور کی نیند پوری ہوتی ہو۔ لیکن یہ سب کرنے کے باوجود بھی پاکستان کی ٹیکسٹائل صنعت کا ایک قابل ذکر حصہ شدید گھاٹے کا شکار ہو کر بند ہو چکا ہے اور نتیجتاً لاکھوں مزدور بیروزگار ہو چکے ہیں مگر اس سے بھی زیادہ دھماکہ خیز صورتحال ٹیکسٹائل سیکٹر کے ان حصوں میں بنی ہوئی ہے جو ابھی تک بحیثیت مجموعی منافعے میں جانے کی وجہ سے چل تو رہے ہیں لیکن مالکان کے لئے اپنی شرح منافع کو برقرار رکھنا یا اسے بڑھانا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سیدھی سادھی ہے۔ محنت کشوں کے بد ترین استحصال اور چوری کے باوجود پہلے بیان کی گئی وجوہات کی بدولت پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات اپنے مدمقابل ممالک سے مہنگی ہیں اور نتیجتاً مقابلے سے باہر ہو رہی ہیں۔ ایسی صورتحال میں اگر پاکستانی ٹیکسٹائل صنعتکار دیگر ممالک کی سستی ٹیکسٹائل مصنوعات کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں توان کے پاس ایک آپشن تو یہ ہے کہ وہ مہنگی صنعتی پیداوار کے باوجود اپنی مصنوعات کے ریٹ گھٹا دیں لیکن ایسا کرنے سے ان کی شرح منافع میں کمی واقع ہو گی جو کہ ان کے لئے ناقابل قبول ہے۔ اپنی شرح منافع کو قائم رکھتے ہوئے تیار مال کا ریٹ گھٹانا صرف سستی پیداوار کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس مقصد کے لئے ایک طریقہ تو یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری کرتے ہوئے محنت کی پیداواریت کو بڑھایا جائے لیکن ایسا کرنا زیادہ تر پاکستانی صنعتکاروں کی اوقات سے باہر ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ لاگت پیداوار کوگھٹانے کی خاطر حکومت سے سبسڈیز (خصوصاً بجلی کے رعایتی نرخ)حاصل کی جائیں اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر بالواسطہ ٹیکسوں(GST) میں کمی کرائی جائے۔ اسی طرح حکومت ملکی منڈی میں آنے والی ٹیکسٹائل درآمدات پر تحفظاتی ڈیوٹی لگائے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت سرمایہ داروں کی نمائندہ اور ہمدرد ہونے کے باوجود کمزور ملکی معیشت، عالمی مالیاتی اداروں کے اثرورسوخ اور آزاد تجارت کے معاہدوں کے باعث یہ سب کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ ایسی کیفیت میں اپنی لاگت پیداوار کم کرنے کی خاطر ٹیکسٹائل کے صنعتکاروں کے پاس صرف ایک ہی آپشن بچتا ہے اور وہ یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرتوں میں خوفناک کٹوتیاں کی جائیں، اوقات کار میں مزید اضافہ کیا جائے اور کم سے کم لیبر سے زیادہ سے زیادہ کام لیا جائے۔ لیکن محنت کشوں کی متوقع مزاحمت کے پیش نظر ایسا کرنا اتنا آسان نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹیکسٹائل سیکٹرکے صنعتکار اس وقت محنت کشوں پر حملہ کرنے کے لئے بھر پور منصوبہ بندی کرنے میں مصروف ہیں۔ پاکستان میں ٹیکسٹائل صنعت کے گڑھ فیصل آباد میں پاور لومز مالکان کی جانب سے بڑے پیمانے پر لومز کی بندش اسی منصوبہ بندی کا ایک حصہ ہے۔
8نومبر کو فیصل آباد میں ہونے والے ایک مشترکہ اجلاس میں پاور لومز اونرز ایسوسی ایشن کے نمائندوں نے لیبر قومی موومنٹ، انجمن تاجران اور پتن فاؤنڈیشن(لیبر این جی او) کے ساتھ مل کر حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ پاور لومز کو بجلی رعایتی نرخوں پر دی جائے اور ٹیکسٹائل مصنوعات پر جی ایس ٹی میں کمی کی جائے۔ اپنے مطالبات منوانے کے لئے انہوں نے لیبر قومی موومنٹ اور دیگر شرکا کے ’’تعاون‘‘ سے ایک احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔ مالکان کا کہنا تھا کہ زائد لاگت پیداوار ہونے کی وجہ سے وہ ’’نقصان‘‘ میں جا رہے ہیں اور لومز کو بند کرنے پر ’’مجبور‘‘ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو پورا پاور لومز سیکٹر بند ہو جائے گا، بڑے پیمانے پر بیروزگاری پھیلے گی، لاکھوں گھروں کے چولہے بجھ جائیں گے اور ’’لا اینڈ آرڈر‘‘ کی صورتحال پیدا ہو جائے گی۔ مالکان کی ہاں میں ہاں ملانے میں لیبر قومی موومنٹ کے عہدیدار پیش پیش تھے بلکہ اس اجلاس کی میزبانی کے فرائض بھی انہی کے سپرد تھے۔ یہ اجلاس مالکان کی دروغ گوئی، منافقت اور نام نہاد مزدور قیادت کی ٹاؤٹی کی ایک شاندار مثال تھا۔ آئیں، مالکان کی منافقت کا پردہ چاک کرتے ہوئے ان کی اصل منصوبہ بندی کو آشکار کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ فیصل آباد کی زیادہ تر پاور لومز بحیثیت مجموعی نقصان میں جا رہی ہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو پاور لومز سیکٹر کب کا بند ہو چکا ہوتا اور مالکان اپنے آپ کو دیوالیہ قرار دے کر رفو چکر ہو چکے ہوتے۔ اصل مسئلہ سخت مقابلے بازی کی فضا میں اپنی گرتی ہوئی شرح منافع کو برقرار رکھنے اور اس میں اضافہ کرنے کا ہے۔ اس مقصد کے لئے پیداواری لاگت کم کرنا ضروری ہے اور مالکان کے پاس اس سلسلے میں واحد قابلِ عمل آپشن محنت کشوں پرشدید معاشی حملے(خصوصاً اجرتوں میں کٹوتی) کا ہے۔ لیکن مالکان براہ راست ایسا کرنے سے خوفزدہ ہیں۔ محنت کشوں کی اجرتیں پہلے ہی نہایت کم ہیں اور اگست میں پاور لومز ورکرز کی ہڑتال اور احتجاجی تحریک کے نتیجے میں کئی مالکان نے اگلے سال جنوری سے اجرتوں میں معمولی اضافے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ ایسی صورتحال میں مالکان کی طرف سے اجرتوں میں کٹوتی کا اعلان ایک دھماکہ خیز بغاوت کو جنم دے سکتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے پہلے ’’نقصان میں جانے‘‘ کا واویلہ کرتے ہوئے ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت لومز کو بند کرنا شروع کیا تاکہ محنت کشوں پر بیروزگاری کے خوف کو مسلط کیا جا سکے اور ساتھ میں ٹوڈی مزدور قیادتوں کی مدد سے محنت کشوں کا ’’روزگار بچانے کی خاطر‘‘ ایک احتجاجی تحریک کا اعلان بھی کردیا۔ لومز بند کر کے مزدوروں پر بیروزگاری کا خوف طاری کرنا اس لئے ضروری تھا کہ ایک تو وہ مالکان کی طرف سے کئے گئے اجرتوں میں اضافے کے وعدے کو بھول جائیں اور دوسرا انہیں ٹوڈی مزدور قیادتوں کے ذریعے مالکان کی احتجاجی تحریک میں بطور ’’اسٹریٹ پاور‘‘ استعمال کیا سکے۔ دوسرے الفاظ میں مالکان حکومت سے مطالبات منوانے کے لئے مزدوروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ نہایت کمزور ملکی معیشت کے پیش نظر حکومت کے لئے ان مطالبات کو تسلیم کرنا خاصا مشکل ہے لیکن اگر بالفرض حکومت دباؤ میں آ کر کسی حد تک ان مطالبات کو تسلیم کر لیتی ہے تو مالکان اجرتوں میں فوری کٹوتی کی وجہ سے ایک مزدور بغاوت کا خطرہ مول لئے بغیر ہی وقتی طور پر اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہوتا، جس کے امکانات زیادہ ہیں، تو مالکان کے پاس جان بوجھ کر مسلط کی گئی بیروز گاری کا شکار مزدوروں کو پہلے سے بھی کم اجرتوں پر رکھ کر لومز چلانے کے لئے حکومتی ہٹ دھرمی اور اپنی ’’بیچارگی‘‘ کا بہانہ ہو گا اور مزدور بھی اجرتوں میں کمی پر کسی احتجاج کو بھول کر محض روزگار واپس ملنے کو ہی غنیمت جانیں گے۔
اس پورے معاملے میں مالکان نے اپنی طرف سے منصوبہ بندی تو بہت سوچ سمجھ کر کی ہے لیکن اپنی تمام تر ہوشیاری کے باوجود غالب امکان یہ ہے کہ ان کا پلان ناکام ہو جائے گا۔ ماضی میں بھی کئی بار مالکان نے مفاد پرست مزدور قیادتوں کا سہارا لیتے ہوئے مزدوروں کو حکومت سے اپنے مختلف مطالبات منوانے کے لئے استعمال کیا ہے۔ مفادات مالکان کے ہوتے تھے لیکن بیروزگاری سے ڈرا کر سڑکوں پر احتجاج مزدوروں سے کروائے جاتے تھے۔ اصل معاملہ مالکان کی شرح منافع میں اضافے کا ہوتا تھا لیکن تحریک مزدوروں کا ’’روزگار بچانے‘‘ کے نعرے پر چلائی جاتی تھی۔ جب کبھی حکومت مطالبات مان جاتی تھی تو مالکان کے وارے نیارے ہو جاتے تھے اور غدار یونین قیادتیں مزدوروں کو روزگار بچ جانے پر شکر ادا کرنے کا درس دیتے ہوئے انہیں واپس پرانی اجرتوں پر کام کرنے پر مجبور کر دیتی تھیں۔ یعنی منافعے مالکان کی جیبوں میں جاتے تھے اور خواری مزدوروں کے حصے میں آتی تھی۔ لیکن اس مرتبہ صورتحال خاصی مختلف نظر آ رہی ہے۔ محنت کشوں نے ماضی کے ان تمام تلخ تجربات سے سبق سیکھا ہے۔ عام مزدوروں کی ایک بھاری اکثریت ایک مرتبہ پھر مالکان اور ٹوڈی قیادتوں کے ہاتھوں استعمال ہونے کو تیار نہیں ہے۔ انہیں خاصی حد تک یہ ادراک بھی ہے کہ مالکان صرف ان پر دباؤ ڈالنے کے لئے لومز کو جان بوجھ کر بند کر رہے ہیں۔ محنت کشوں کی سب سے شعور یافتہ پرتیں تو مالکان کے پورے منصوبے کو سمجھتے ہوئے یہ بھی محسوس کر رہی ہیں کہ اس بار مالکان کی اصل نیت حکومت سے مطالبات منوانے کی بجائے مزدوروں کی اجرتوں میں کٹوتی کرنے کی ہے اور یہ ’’احتجاجی تحریک‘‘ تو محض کٹوتیوں کی راہ ہموار کرنے کا ایک بہانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مزدوروں کی بھاری اکثریت فی الحال اس تحریک سے لا تعلق نظر آ رہی ہے۔ اگرچہ ہم اس امکان کو مکمل طور پر رد نہیں کر سکتے کہ اس پورے عمل میں کسی مرحلے پر محنت کشوں کے کچھ حصے بیروزگاری کی لٹکتی تلوار سے خوفزدہ ہو کر نہ چاہتے ہوئے بھی اس تحریک کا حصہ بن سکتے ہیں۔
اس پوری صورتحال میں ریڈورکرز فرنٹ کے کارکنوں کو واضح پوزیشن کے ساتھ مداخلت کرنے کی ضرورت ہے۔ ہماری اولین ترجیح تو یہ ہونی چاہیے کہ ہم محنت کشوں کو واضح اور آسان الفاظ میں پوری صورتحال سمجھاتے ہوئے پاور لومز ورکرز کی ایک آزادانہ احتجاجی تحریک کا موقف پیش کریں جو حکومت سے بیروزگار ہونے والے مزدوروں کو روزگار مہیا کرنے یا بیروزگاری الاؤنس دینے کا مطالبہ کرے۔ یہ تحریک حکومت سے اجرتوں میں کسی کٹوتی کے بغیر مالکان کا لاک آؤٹ ختم کروانے کا بھی مطالبہ کرے اور اگر مالکان ایسا کرنے سے انکار کریں تو حکومت مزدوروں کو بند لومز کا کنٹرول سنبھالنے اور پیداوار شروع کرنے کی اجازت دے۔ اسی طرح اگر محنت کشوں کے کچھ حصے بادل نخواستہ مالکان کی احتجاجی تحریک کا حصہ بنتے بھی ہیں تو انہیں مالکان اور غدار مزدور قیادتوں کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ ایسا کرنا ان مزدوروں کے ساتھ ساتھ پاور لومز سیکٹر کے تمام مزدوروں میں ابہام پھیلانے کا موجب بنے گا۔ اس صورتحال میں ہمارا یہ واضح موقف ہونا چاہیے کہ مزدوروں کو مالکان کے بینر اور مطالبات کے پیچھے چلتے ہوئے تحریک میں شامل ہونے کی بجائے اپنے آزادانہ بینر اور اجرتوں میں اضافے کے مطالبے کے ساتھ تحریک کا حصہ بننا چاہیے۔
اس پوری صورتحال میں ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنوں کو ہر قدم پر محنت کشوں کی طبقاتی جڑت پر زور دیتے ہوئے پاور لومز کے محنت کشوں پر ٹیکسٹائل سیکٹر کے دیگر ورکرز اور دوسرے اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی اتحاد بنانے کی ضرورت و اہمیت کو واضح کرنا چاہیے۔ حتمی تجزئیے میں محنت کشوں کی طبقاتی جڑت ہی ان کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے اور انقلابی کارکنوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہر احتجاج، ہر تحریک اور ہر ہڑتال میں اپنی مداخلت کو محنت کشوں کی طبقاتی جڑت بڑھانے کے لئے استعمال کریں تا کہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پرولتاریہ کی حتمی نجات کا سفر تیز تر کیا جا سکے۔