|تحریر: زین العابدین|
سال نو کے پہلے چند ہفتوں میں ملکی و عالمی سطح پر ہونے والے واقعات نے آئندہ سال کی تمہید باندھ دی ہے اور یہ واضح کردیا ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں ایسے ایسے امکانات مضمر ہیں کہ پچھلا آسیب زدہ سال بھی اس کے آگے گہنا جائے گا۔ کورونا وبا کی تباہ کاریوں اور ہر لحظہ گہرے ہوتے عالمی معاشی بحران کے پس منظر میں عالمی سطح پر سیاسی، معاشی، سماجی، معاشرتی اور ثقافتی حوالے سے ہونے والی تیز تر تبدیلیوں کے زیر اثر مملکت خداداد میں ہر آنے والا دن یہاں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کے لیے زندگی کی ڈور کو جاری رکھنا مشکل سے مشکل تر بناتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان کی نحیف و نزار اور جاں بلب سرمایہ داری کو زندہ رکھنے کی خاطر مہنگائی، بجلی و تیل کی قیمتوں میں اضافے، عوامی اداروں کی نجکاری، محنت کشوں کی جبری بے دخلیوں، بیروزگاری کے طوفان، نت نئے ٹیکسوں کی شکل میں آئی ایم ایف اور عالمی سامراجی اداروں کے گماشتہ حکمران طبقے اور دلال ریاست کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کے جواب میں یہاں کا محنت کش طبقہ بھی صف آرا ہو رہا ہے۔ داخلی لڑائیوں میں ایک دوسرے کو ننگا کرتی حکمران طبقے کی تعفن زدہ سیاست عوامی شعور پر فیصلہ کن اثرات مرتب کر رہی ہے۔ کرپشن کے خاتمے کے نعرے پر اقتدار پر براجمان حکومت کے دور میں کرپشن کے نت نئے ریکارڈ عوام کی ایک بھاری اکثریت پر اس نظام معیشت کی حقیقت کو عیاں کررہے ہیں۔ آنے والے عرصے میں اپنی عیاشیوں اور لوٹ مار کو دوام دینے کی خاطر اور اس بیمار سرمایہ دارانہ نظام کو دوام بخشنے کے لیے عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم انقلابی دھماکوں کو جنم دینے کا باعث بنیں گے۔ اس نظام زر کو قبر میں اتارنے کے لیے درکار اوزار کی تعمیر کی خاطرانقلابیوں کو اپنی حرکت تیز کرنا ہوگی۔
روز اول سے مملکتِ خداداد کے حکمرانوں کے لیے امریکہ بہادر کی خوشنودی اور قربت سب سے مقدم رہی ہے۔ چاہے جمہوری دور ہو یا آمریت، امریکی سامراج کی گڈ بکس میں رہنا اقتدار کے دوام کے لیے شرط اول سمجھی جاتی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ امریکی سامراج ہی تھا جس نے جنم سے لے کر اب تک اس مصنوعی ریاست کی پرورش اور آبیاری کی۔ گو کہ ٹرمپ کے اقتدار میں آنے سے اس معمول میں کچھ تبدیلی ضرور واقع ہوئی مگر اس کی وجہ ہرگز یہ نہیں تھی کہ یہاں کے حکمران طبقے کی قومی غیرت اور ملی حمیت جاگ اٹھی تھی بلکہ اس کی وجہ بھی امریکہ کے داخلی تضادات تھے جس کی بنیاد امریکی سرمایہ داری کا زوال تھا، جس نے ٹرمپ جیسے شخص کے صدر بننے کی راہ ہموار کی۔ یہ عرصہ یہاں کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھا۔ امدادی ڈالر بند ہونے سے لے کر قرض کے لیے آئی ایم ایف کی چوکھٹ پر ناک رگڑنے تک اور کبھی ناامید ہوکر چین اور سعودی حکمرانوں کی کاسہ لیسی اور ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ کی لٹکتی تلوار تک، داخلی محاذ میں لوٹ کے مال پر مختلف ریاستی دھڑوں کی لڑائی بے قابو ہو جانے سے بننے والے سیاسی بحران سے لے کر امریکی سامراج کی ناراضگی مول لے کر تبدیلی سرکار کے تباہ کن تجربے تک، غرض ہر حوالے سے حکمران طبقے کے نقطہ نظر سے پچھلے چار سال کسی آزمائش سے کم نہ تھے۔
ایسے میں جب چار سالہ طوفانی مدت پوری کرنے کے بعد ٹرمپ کی انتخابات میں شکست کے نتیجے میں جو بائیڈن چھیالیسویں امریکی صدر کا حلف اٹھا چکا ہے تو پوری دنیا میں حکمران اور خاص کر جمہوریت پسند پر امید ہیں کہ صورتحال ”معمول“ پر واپس آجائے گی۔ پاکستان کے حکمران اور ریاستی اشرافیہ بھی پر امید ہے کہ مصیبتوں کے بادل چھٹ گئے ہیں اور ایک بار پھر وہی ماضی کی رونقیں بحال ہونے کو ہیں۔ وہ ڈالروں کی ریل پیل پھر سے ہونے لگے گی۔ مگر مارکس وادیوں کے نزدیک یہ سراسر ایک دیوانے کا خواب ہے۔ کسی لق و دق صحرا میں پیاس سے بد حال کسی مسافر کی مانند جس کو ہر چند قدم پر سراب دکھائی دیتا ہے مگر جونہی اس جگہ پہنچتا ہے تو وہ پھر مایوس ہوجاتا ہے۔ وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ جو بائیڈن کے امریکی صدارت سنبھالنے سے وہ پہلے سا استحکام لوٹ آئے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں اور ایسے دانشوروں کی دانش پر ماتم بھی کرنا بیوقوفی ہوگی۔
پاکستان کے حوالے سے بھی یہ بات عین درست ہے۔ رسمی نوعیت کی تبدیلیوں سے قطع نظر پاکستان اور خطے کے حوالے سے امریکی سامراج کی پالیسیوں میں کسی بنیادی تبدیلی کا کوئی امکان نہیں۔ چاہے وہ افغان پالیسی ہو یا پھر چین کے ساتھ امریکی تعلقات۔ افغانستان میں جنگ کو مزید جاری رکھنا یا امریکی افواج کے انخلا کو رول بیک کرنا کسی طور امریکی حکمران طبقے کے مفادات میں نہیں اور ٹرمپ کے برعکس جو بائیڈن امریکی حکمران طبقے کا ایک وفادار غلام ہے۔ اسی طرح، چین کے ساتھ جاری تجارتی جنگ، صرف ٹرمپ کی جنگ ہر گز نہیں تھی جو کہ ٹرمپ کے چلے جانے سے ختم ہوجائے گی بلکہ یہ امریکی سرمایہ داروں کی اپنے بقا کی لڑائی تھی جس میں ٹرمپ سے اختلافات کے باوجود اس معاملے پر پوراامریکی حکمران طبقہ ٹرمپ کے پیچھے جا کھڑا ہوتا تھا۔ مزید برآں، سٹریٹجک حوالے سے بھی دیکھا جائے تو خطے میں طاقتوں کے بدلتے توازن اور امریکی سامراج کی نسبتی کمزوری کے سبب امریکی سامراج کے اس خطے میں ماضی کی طرح کوئی لانگ ٹرم مفادات وابستہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خطے میں بھارت کی بطور امریکی فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت میں کوئی تبدیلی آنے کاامکان نہیں۔ چین کے مقابلے میں بھارت اور امریکہ کی سٹریٹجک پارٹنرشپ نے بھارت کو اس خطے میں ایک فیصلہ کن حیثیت دی ہے جس کے مقابل پاکستان کی چین سے قربت میں کمی آنے کے بجائے اضافہ ہوا ہے اور پاکستان کا چین کی جانب جھکاؤ مسلسل بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ مگر یہ عمل تضادات سے بھرپور ہے۔ یوں بائیڈن کے اقتدار میں آنے سے بھی خطے میں جاری چین امریکی رسہ کشی کسی طور تھمنے والی نہیں بلکہ اس کی وجہ سے بننے والے تضادات پہلے سے بڑھ کر پاکستان کے سیاسی اور معاشی بحران میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
جس طرح پاکستان کے حکمران طبقے کے تناظر سے بائیڈن کے صدر بننے سے صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئے گی اسی طرح بائیڈن کا صدر بننا پوری دنیا کے محنت کشوں کی طرح پاکستان کے محنت کشوں کی زندگیوں میں بھی کوئی آسودگی لے کر نہیں آئے گا بلکہ عالمی سرمایہ دار طبقے کے ایک پالتو کی وائٹ ہاؤس آمد پوری دنیا کے محنت کشوں کے استحصال اور جبر میں اضافے کا باعث بنے گی۔ سرمایہ دارانہ نظام کو بحران سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک جیسے سامراجی اداروں کے تجویز کردہ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، رائٹ سائزنگ، غریب اور محنت کش عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافے، صحت اور تعلیم کی سستی سہولیات کی نجکاری، نجی شعبے کو کھل کر لوٹ مارکی اجازت، لیبر قوانینکے بتدریج خاتمے جیسے اقدامات یہاں کے محنت کشوں اور کسانوں کے لیے کسی قیامت سے کم نہ ہو ں گے۔ پہلے ہی پاکستان کے گماشتہ حکمران آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل کی خاطر عوامی اداروں کی فاسٹ ٹریک نجکاری کا عمل شروع کر چکے ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز سے ساڑھے چار ہزار محنت کشوں کی بیک جنبش قلم برطرفی کے بعد، اب نجکاری کی توپوں کارخ ریلوے، پی آئی اے، پوسٹ آفس اور واپڈا کی جانب ہے جس کے خلاف ان اداروں کے محنت کش میدان عمل میں اتر چکے ہیں۔ اسی طرح صحت کے شعبے کی بھی تیز تر نجکاری کی جار ہی ہے جس میں ایم ٹی آئی ایکٹ کے نام پر سرکاری ہسپتالوں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ اس سے زیادہ بے حسی اور عوام دشمنی اور کیا ہوسکتی ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب کورونا وبا کا خطرہ ٹلا نہیں اور ملک میں ایک شدید صحت کا بحران پیدا ہوچکا ہے، اس صورتحال میں یہ خون آشام حکمران اپنے سامراجی آقاؤں کے احکامات کی تکمیل کی خاطر اس دھرتی کے محنت کشوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلنے جا رہے ہیں۔ کورونا لاک ڈاؤن میں مزدوروں کے نام پر ٹسوے بہانے والا وزیر اعظم، جو کہ غریبوں کے درد میں گھلا جاتا تھا، یہاں کی عوام کو اس قاتل وائرس سے بچانے کے لیے مفت کورونا ویکسینیشن کی بجائے صاف ہاتھ کھڑا کر چکا ہے۔ چند روز قبل وفاقی وزیر اسد عمر میں ایک پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ صوبائی حکومتوں اور نجی شعبے کو ویکسین درآمد کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کامطلب یہ تھا کہ کورونا ویکسین منگوا کر منہ مانگی قیمت پر بیچ کر یہاں کے سرمایہ داروں اور تاجروں کولوٹ مار کی کھلی اجازت ہے۔ ظاہر ہے اس بہتی گنگا میں کوئی کافر ہی ہاتھ دھونا پسند نہیں کرے گا۔
اس دھرتی پر بسنے والے افتادگان خاک کے لیے مصیبتوں اور اذیتوں کا سفر یہاں ہی نہیں رک جاتا بلکہ تبدیلی سرکار آئی ایم ایف سے نئے قرض پروگرام کے لیے پیشگی شرائط پوری کرنے کی خاطر پوری تیاری کرچکی ہے جس میں پہلے مرحلے میں بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ پہلے مرحلے میں فی یونٹ قیمت میں ایک روپے نوے پیسے کا اضافہ کیا جائے گا جس کا اطلاق مالی سال 2019ء سے ہوگا۔ جس کے بعد اگلے مرحلے میں کل فی یونٹ اضافہ تین روپے تیس پیسے تک پہنچ جائے گا۔ اسی طرح ایک نئے منی بجٹ کی تیاری کی جا رہی ہے جس میں نئے ٹیکسوں کی بھرمار کی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ ٹیکس سرمایہ داروں پر تو عائد نہیں ہوں گے بلکہ اس کی لپیٹ میں محنت کش عوام ہی آئے گی۔ اسی طرح سرکاری خرانے پر ”بوجھ“ کم کرنے کے لیے سرکاری اداروں کے ملازمین کی پنشنوں پر حملے کی تیاری بھی مکمل کی جاچکی ہے جس میں پہلے مرحلے میں خیبر پختونخوا میں فیملی پنشن ختم کرنے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے جس کے نتیجے میں لاکھوں سرکاری ملازمین کی بیویاں اور بچے ماہانہ ملنے والی ناکافی پنشن سے بھی محروم کر دئیے جائیں گے۔ دوسرے مرحلے میں ستر سال یا اس سے زائد عمر کے پنشنرز کی پینشن ختم کی جائے گی۔ دوسرے الفاظ میں ان اقدامات کا واضح طور پر یہ مطلب نکلتا ہے کہ اس ملک کے حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اپنی ساری زندگیاں ان عوامی اداروں کو چلانے کے لیے صرف کرنے والوں کو اب زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ وفاقی سطح پر بھی اسی طرز کی ایک کمیٹی کام کر رہی ہے جو کہ جلد ہی یہاں کے لاکھوں سرکاری ملازمین اور ان کے خاندانوں کو موت کا پیغام سنائے گی۔
یہ سب اقدامات ایسے وقت پر کیے جا رہے ہیں جب ہر چوتھے دن وزیر اعظم کسی خطاب میں یا اپنی کسی ٹویٹ میں معاشی صورتحال بہتر ہونے یا کسی نئے معاشی ریکارڈ کی خوشخبری سناتے ہیں۔ چند روز قبل یہ دعویٰ کیا گیا کہ ملکی برآمدات تاریخ سازسطح تک جا پہنچی ہیں اور ہمسایہ ملک بھارت سمیت خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستانی معیشت کہیں بہتر پرفارم کر رہی ہے۔ مگر وزیر اعظم بہت بھولے معلوم ہوتے ہیں۔ یہ بتانا ہی بھول گئے کہ تجارتی خسارہ بھی بڑھتا چلا جا رہا ہے اور برآمدات میں بھی یہ اضافہ مہنگا خام مال امپورٹ کرکے حاصل کیا گیا ہے۔ یہ بتانا بھی بھول گئے کہ برآمدات میں اس اضافے کی وجہ کرونا لاک ڈاؤن میں دیہاڑی دار مزدوروں کے لیے ٹسوے بہاتے ہوئے صنعتکاروں خاص کر ایکسپورٹ سیکٹر کے سرمایہ داروں کو بیل آؤٹ کے نام پر سرکاری خزانے سے دئیے جانے والے ٹیکس ریلیف، سبسڈیاں، ڈیوٹیوں میں کمی یا خاتمے، قرضوں کی ادائیگی میں تاخیر، سٹیٹ بنک کی جانب سے دئیے جانے والے سپورٹ قرضے جیسے حکومتی اقدامات ہیں جن کی کل مالیت دو ہزار ارب روپے سے بھی تجاوز کر جاتی ہے۔ ایسے میں اگر برآمدات سے آنے والے زرمبادلہ اور عوامی پیسے سے دئیے جانے والے اربوں روپوں کے بیل آؤٹ کا میزان بنایا جائے تو کسی اندھے کو بھی نظر آجائے گا ملکی خزانے کو کتنا فائدہ پہنچا اور اس وبا کے دوران سرمایہ داروں نے اس لاٹری سے کتنا مال بنایا۔ یہ وہی وزیر اعظم ہے جو یہ کہتا تھا کہ ہم ہر ایک کو گھر بٹھا کر دو وقت کا کھانا بھی نہیں کھلا سکتے مگر سرمایہ داروں کو نوازنے کا خزانہ کبھی خالی نہیں ہوتا، عوام کی ہڈیوں سے گودا نچوڑکر بھی ان کی جیبیں بھرنے کے لیے پیسے موجود ہوتے ہیں۔ یہ ہے اس سرمایہ دارانہ نظام کا مکروہ اور خونی چہرہ جس کی محنت کشوں کے خون کی پیاس کبھی نہیں بجھتی۔
مہنگائی، اشیائے خورد ونوش کی گراں قدری، اجرتوں میں کمی اور بڑھتی بیروزگاری کو تو ابھی مساوات میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔ اگر ان سب کو بھی شامل حال کر لیا جائے تو زمینی حقائق کس قدر تلخ ہیں یہ واضح ہو جاتا ہے۔ صبح اٹھ کر گھر سے نکلنے والے ایک محنت کش سے بہتر تو صورتحال کی سنگینی کا اندازہ کسی اور کو نہیں ہوسکتا جس کے کام کے اوقات کار اور خرچے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور اجرتیں ہیں کہ گھٹتی چلی جا رہی ہیں۔ ابھی یہ محنت کش انتہائی خوش نصیب ہے کہ بیروزگاری کے سمندر میں روزگار کے ہر لحظہ زیر آب آتے جزیرے تک اس کی پہنچ ہے۔ تیل کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت نے غریب عوام کو سالِ نو کا تحفہ پیش کیا۔ ابھی اس کی خوشی سے عوام باہر نہیں آئی تھی کہ چینی پھر سو روپے سے اوپر پہنچ گئی۔ گیس تو سردیوں میں ویسے ہی ایک عیاشی بن چکی ہے ہاں مگر گیس کے بل باقاعدگی سے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ انڈوں کی قیمتوں میں بھی ملکی تاریخ کا ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیااور یوں معلوم ہونے لگا کہ جیسے مرغیوں نے سونے کے انڈے دینے شروع کر دئیے ہیں۔ اسی عرصے کے دوران پاکستانی زیر انتظام کشمیر میں آٹے کی فی من قیمت میں پانچ سو روپے اضافے کے خلاف ایک خودرو تحریک پھوٹ پڑی۔ پونچھ ڈویژن میں جاری یہ تحریک اپنے حجم کے حوالے سے حالیہ عرصے کی سب سے بڑی تحریک ہے جس نے جزوی طور پر کامیابی بھی حاصل کی اور حکومت نے ڈھائی سوروپے فی من اضافہ واپس لے لیا مگر اس کے باوجود تحریک کے جوش و خروش میں کمی نہ آئی اور 13 جنوری کو پوری پونچھ ڈویژن میں پہیہ جام ہڑتال ہوئی۔ اس تحریک کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کسی سیاسی پارٹی کی مداخلت موجود نہیں بلکہ عوام نے تمام سیاسی پارٹیوں کو رد کرتے ہوئے خود عوامی کمیٹیوں کو تشکیل دیا جہاں تحریک کے حوالے سے تما م فیصلے جمہوری بحث کے بعد کیے جاتے تھے۔ یہ انتہائی اہم پیش رفت ہے اور بڑھتی مہنگائی کے سبب مستقبل قریب میں ایسی ہی تحریکیں ملک کے دیگر حصوں میں بھی دیکھنے کو ملیں گی۔
جوں جوں بحران بڑھتا جا رہا ہے، محنت کش عوام کے لیے زندگی گزارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جا رہا ہے توں توں حکمران طبقے کی سیاست پہلے سے زیادہ تعفن زدہ اور حقیقی مسائل سے اور لاتعلق ہوتی چلی جا رہی ہے۔ نام نہاد اپوزیشن الائنس جس کو عرف عام میں پی ڈی ایم کے نام سے پکار ا جاتا ہے، اپنی آخری سانسیں لے رہاہے۔ پچھلے چار ماہ سے چائے کی پیالی میں اٹھنے والا طوفان اب کافی حد تک اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ تمام تر کوششوں کے باوجود اور لبرلز اور نام نہاد بائیں بازو کی تمام تر خوش فہمیوں کے باوجود عوام نے ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ وہ ان دانشوروں سے زیادہ سمجھدار اور عقل مند ہیں اور ان پارٹیوں کی حقیقت بخوبی جانتے ہیں۔ اس قدر شدید بحران اور رائج الوقت حکومت سے نفرت کے باوجود عوام نے اس نام نہاد اپوزیشن اور اس کی سیاست کو ایک بار پھر رد کر دیا ہے۔ مگر اس تمام تر عرصے میں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی جانب سے جس اندازمیں ایک دوسرے کو ننگاکیا گیا ہے اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ تین بار ملک کے وزیر اعظم رہنے والے شخص نے نام لے کر حاضر سروس جرنیلوں کو رگیدا۔ مگر ان سب اختلافات اور لڑائی کے باوجود اندر کھاتے ڈیل کی کوششیں بھی جاری رہیں۔ حکمران طبقے کے تضادات اور لوٹ مار کی کہانیاں جس طریقے سے منظر عام پر آئی ہیں اس نے عوامی شعور پر فیصلہ کن اندازمیں اثرات مرتب کیے ہیں۔ سیاست دان ہوں یا جرنیل، دونوں کی عوام دشمنی اور کرپشن کی داستانیں زبان زد عام ہوچکی ہیں۔ حال ہی میں منظر عام پر آنے والا براڈشیٹ سکینڈل کرپشن اور لوٹ مار کے اس نہ ختم ہونے ولاے سلسلے میں ایک نئی کڑی ہے جس میں کرپشن کے سدباب، تدارک اور لوٹی ہوئی دولت سامنے لانے کے لیے کرپشن کے نئے ریکارڈ قائم کیے گئے۔ ایک دھیلا تو واپس نہیں آیا مگر لگ بھگ ستر ملین ڈالر فیسوں، کمیشنوں کے چکر میں فوجی جرنیل اپنے فرنٹ مینوں کے ذریعے ہڑپ کر گئے۔ سونے پر سہاگہ، موجودہ حکومت سیاستدانوں کے بیرون ملک اثاثوں کی چھان بین اور واپسی کے لیے اسی نام نہاد لا فرم سے ایک نیا معاہدہ کرنے جا رہی تھی جب ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹ گئی۔ مگر اس حماممیں کیا سیاستدان کیا جرنیل کیا سرمایہ دار سب کے سب اس قدر ننگے ہیں کہ نام نہاد اپوزیشن اس معاملے پر بھی حکومت اور فوجی اشرافیہ کو ٹف ٹائم دینے کی بجائے منہ چھپاتے نظر آئی۔ مگر اس معاملے نے نام نہاد کرپشن کے دعووں کی قلعی بھی کھول دی ہے اور یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح کرپشن کے خاتمے کو جواز بنا کر کرپشن کے ریکارڈ بنائے گئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔
مگر یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس ملک میں بسنے والے کروڑوں محنت کشوں کا یہی مقدر ہے کہ وہ گھٹ گھٹ کر ہر لمحے مر کر اسی طرح سرمائے کی قربان گاہ پر قربان ہوتے رہیں؟ اسی طرح نجکاری کے حملے جاری رہیں اور محنت کشوں کو بیک جنبش قلم نوکریوں سے نکالا جا تا رہے؟ محنت کش عوام قابل علاج بیماریوں سے یونہی مرتی رہے؟ تعلیم ایک عیاشی بن جائے جو کہ صرف حکمران طبقے کے بچوں کے لیے ہو؟ یوں بیروزگاری سے تنگ آکر محنت کش اپنے بچوں کو قتل کرکے خود بھی موت کو گلے لگاتے رہیں؟ یوں ہی زندگی کی ڈور کو جاری رکھنے کے لیے صبح سے رات تک کسی سرمایہ دار کی فیکٹری یا دفتر میں چند ہزار روپوں کی خاطر اپنی زندگیوں کو صرف کر دیا جائے؟ اس ظلم و جبر کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیلوں میں ڈال دیا جائے یا لاپتہ کردیا جائے؟ احتجاج کی پاداش میں آنسو گیس اور لاٹھیاں برسا کرکسان راہنما ملک اشفاق لنگڑیال یا اسلام آباد کے نوجوان اسامہ ستی کی طرح ریاستی جبر کا ایندھن بن جایا جائے؟ حکمران اور ریاستی اشرافیہ کی لوٹ مار یونہی جاری رہے گی؟ امیر اور غریب کے درمیان یہ خلیج اور گہری ہوتی چلے جائے گی؟ جی ہاں! اگر سرمایہ داری کی حدود میں رہ کر بات کی جائے تو یہ سلسلہ یونہی جاری و ساری رہے گا بلکہ حکمران طبقہ اپنے دولت اور عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے لاکھوں کیا کروڑوں محنت کشوں کی بلی دینے سے بھی گریز نہیں کرے گا۔ ان سب مصیبتوں اور عذابوں سے نجات اسی وقت ممکن ہے جب اس ملک کے محنت کش اس بستر مرگ پر موجود سرمایہ دارانہ نظام کو قبر میں نہ اتار دیں۔ اور وہ وقت زیادہ دور نہیں ہے۔ ملک گیر ہونے والے محنت کشوں کے حالیہ احتجاجوں اور بڑھتی جڑت اسی جانب پیش قدمی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام زر کے گورکن کو قبر میں اتارنے کے لیے درکار اوزار یعنی انقلابی پارٹی کی تیز تر تعمیر کی جائے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی ان تمام دکھوں اور تکلیفوں کا حقیقی مداوا کرسکتا ہے۔
خزاں کی شام کہاں تک رہے گی سایہ فگن
بہت قریب ہے صبح بہار تیز چلو