|تحریر: ایرن مانیاتوپولو، ترجمہ: عرشہ صنوبر|
فروری 2018ء کے آغاز میں آکسفیم نے دولت کی عدم مساوات پر تازہ اعدادو شمار شائع کیے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ’’ ہم99 فیصد ہیں ‘‘ کا نعرہ واقعی درست ہے۔ایک فیصد طبقے کے پاس عالمی طور پر ہم سب سے زیادہ اجتماعی دولت ہے۔ بیالیس ارب پتیوں کے پاس دنیا کی غریب ترین 3.6 ارب عوام کے برابر دولت ہے۔
آکسفیم کے اندازے کے مطابق آج دنیا میں 2043 ارب پتی موجود ہیں۔ اور ستم ظریفی یہ ہے کہ ان افراد میں سے دو تہائی نے یہ مکروہ دولت وراثت، سٹے بازی اور اقربا پروری سے ’’کمائی‘‘ گئی ہے۔
پچھلی ایک دہائی میں 2008ء کے دھماکہ خیز بحران کے بعد ہونے والی معمولی گراوٹ کے بعد سے اشرافیہ کی دولت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے سال پوری دنیا میں پیدا ہونے والی دولت کا82 فیصد اوپر ی ایک فیصد اشرافیہ کی جیبوں میں گیا۔ جبکہ فلاحی ادارے کے مطابق غریب ترین نصف آبادی نے اپنے پیسوں میں کوئی اضافہ نہیں دیکھا۔
آکسفیم برطانیہ کے چیف ایگزیکٹو مارک گولڈرنگ کا بیان تھا کہ:
’’اس سال عدم مساوات کی تصویر پہلے سے زیادہ واضح، درست اور چونکا دینے والی ہے۔ یہ بات انتہائی مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہے کہ ایک گروہ، جو کہ ایک گالف بگھی میں پورا آ سکتا ہے، کے پاس نصف انسانیت سے زیادہ دولت ہے۔
آج جب روئے زمین پر ہر نو میں سے ایک انسان بھوکا سوئے گا، ان مٹھی بھر لوگوں کے پاس اتنی دولت ہے کہ اسے خرچ کرنے کے لئے انہیں کئی زندگیاں درکار ہیں۔ یہ حقیقت کہ ا میر ترین طبقہ اپنے ممالک اور بیرون ملک رہنے والے ہم جیسے لوگوں کی قیمت پر خوشحال ہے، یہ ظاہر کرتی ہے کہ ہماری معیشت کتنی غلیظ اور مسخ ہو گئی ہے۔‘‘
#oxfamreport
?richest 1% owns more wealth than 99%
?they evade $200 bn a year of tax
?2/3 of billionaire wealth is inheritance, monopoly and cronyism according to Oxfam (the rest is unpaid labour of the working class say I)
time to abolish capitalism #ForTheMany pic.twitter.com/VsP4Mmj5s0— Jorge Martin (@marxistJorge) January 22, 2018
مجرمانہ اعتراف
آکسفیم کی یہ رپورٹ سوئٹزرلینڈ کے شہر ڈیووس میں ہونے والی عالمی معاشی فارم کے انعقاد کے ساتھ ہی منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ایک ایسا اجلاس ہے (تعلقات بنانے کے زمرے میں دیکھا جائے)جس میں دنیاکی معاشی اورسیاسی اشرافیہ ہر سال ملاقات کرتی ہے۔ حالیہ عدم مساوات سے متعلق اعداد وشمار نے عالمی اشرافیہ کو دولت کے غیر متناسب ارتکاز کے مسئلہ پر توجہ دینے پر مجبور کر دیا۔
اس سال جشنِ ڈیووس میں، آئی ایم ایف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹین لیگارڈ نے اعلان کیا کہ: معاشی امکانات میں بہتری ہونے کے باوجود، ابھی بھی لوگوں کی اکثریت محروم ہے، ابھی بھی بہت زیادہ عدم مساوات ہے اور مستقبل بھی شدید غیر یقینی کا شکار ہے۔‘‘
لیکن یہ مجرمانہ اعتراف بھی عام لوگوں کے حالات زندگی کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ ’’معاشی امکانات میں بہتری‘‘ کا خیال سرمایہ دار طبقے کے علاوہ سب کے لیے ایک مفروضہ ہے۔ نام نہاد معاشی بحالی کئی سالوں کی کمزور ترین بحالی ہے اور اس کے زیادہ عرصہ چلنے کے کوئی امکانات موجود نہیں۔
مثال کے طور پر دی گارڈین اخبار برطانیہ کے بارے میں لکھتا ہے:
’’2018ء کے ابتدائی چند مہینوں میں برطانیہ میں معاشی ترقی سست روی کا شکار ہونے کی توقع کی جا رہی ہے کیونکہ بلند شرحِ افراط زر، صارفین کا عدم اعتماد اور بریگزٹ سے متعلق غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے اشیائے صرف کی خریداری اور سرمایہ کاری نہیں ہو رہی ۔‘‘
عالمی معاشی بحران کے آغاز کے بعد، افراط زر کی موجودہ شرح 3.2فیصد ہے جس کی وجہ سے بینک آف انگلینڈ کو دس سالوں میں پہلی مرتبہ شرح سود بڑھانی پڑ رہی ہے۔ اس کے باوجود شرح سود 0.5 فیصد کے ساتھ تین سو سالوں میں سب سے کم ترین ہے۔
بورژوا تبصرہ نگاروں نے بادل نخواستہ اعتراف کیا ہے کہ اگلے بحران کے رونما ہونے پر(جو کہ یقینی ہے) سرمایہ داروں کے ہاتھ بندھے ہوں گے۔ عوامی قرضے پہلے ہی آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ اور وہ شرح سود کو مزید کم بھی نہیں کر سکیں گے۔۔ جب تک وہ صفر سے نیچے نہ چلے جائیں جو کہ ایک نہایت سنجیدہ تجویز ہے۔
پر شکوہ لفاظی اور خوش کلامی
لیگارڈ نے ڈیووس میں حقیقت کو خوشنما لفاظی میں چھپانے کی کوشش کی: ’’مصیبت سے پہلے کا قیمتی وقت معاملات درست کرنے کا ہوتا ہے ‘، آئی ایم ایف کی سربراہ نے پرشکوہ لفاظی سے کام لیتے ہوئے اس جانب اشارہ کیا کہ عالمی معیشت میں یہ قلیل مدتی ’بحالی‘ سیاست دانوں کو وقت دے گی تاکہ وہ نظام کو’’ درست‘‘ کر سکیں۔ لیکن مصیبت پہلے ہی ہمارے سروں پر آن کھڑی ہے۔
حکومتیں اور کاروبار کس طرح سے سماجی اور اجرتی عدم مساوات کو کو حل کر سکتی ہیں، اس پر لیگارڈ نے یہ تجویز دی کہ تحقیق اور تعلیم میں سرمایہ کاری کی جائے اور کام کی جگہوں پر خواتین کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
سرمایہ داری میں دوسری تجویز کا واضح مطلب سستی محنت کی فراہمی ہے جس کا اور بھی زیادہ استحصال کیا جا سکتا ہے۔یہ وہ مرکزی طریقہ کار ہے جس کے ذریعہ انڈیا اور جاپان جیسے ممالک GDP میں سے کچھ نہ کچھ شرح نمو نچوڑ رہے ہیں۔
جہاں تک سائنسی تحقیق اور تعلیم میں سرمایہ کاری کی بات ہے تو نجی ملکیت اور منافع پر مبنی پیداواری نظام میں یہ صرف ایک یوٹوپیا ہی ہے۔ ایک تو یہ ہے کہ سرمایہ دار پہلے ہی ٹیکنالوجی اور جدت میں سرمایہ کاری کرنے سے انکاری ہیں: پہلی وجہ تو یہ ہے کہ منڈیاں لبالب بھر چکی ہیں، دوسرا وافر مقدار میں موجود کم اجرتی اور غیر محفوظ محنت کشوں کا استحصال ان کے لیے زیادہ منافع بخش ہے۔
اسی اثنامیں ہر جگہ حکومتیں جبری کفایت شعاری کے نتیجے میں کٹوتیاں کر رہی ہیں۔ ریاست کا پیسہ کہیں سے تو آنا ہے اور وہ ان ہاتھوں کو تو نہیں کاٹ سکتے جو خود ان کو کھلاتے ہیں۔اگر وہ سرمایہ دار طبقے پر ٹیکس لگانے کی طرف جاتے ہیں تو یہ ان کے منافع پر ضرب ہوگی جس سے سرمایہ کاری میں مزید گراوٹ آئے گی۔اور پھر یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ مزدور طبقے کی پہلے ہی موجودہ تحقیق اور تعلیمی ثمرات تک رسائی ممکن نہیں ۔
دھاندلی زدہ نظام کو اکھاڑ پھینکو!
ڈیووس میں جان میکڈونل کے الفاظ میں سرمایہ داری ایک ’’دھاندلی زدہ نظام‘‘ ہے۔ ایک طرف دولت کا انبار اور دوسری طرف بدحالی اس نظا م کی فطری خصوصیت ہے۔ سرمایہ داری کی حدود میں رہ کر اس بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ ہوشربا عدم مساوات اس بیمار نظام کی ایک علامت ہے۔ واحد حل بیماری کا علاج ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چند ہاتھوں میں مرتکز دولت پر قبضہ کر لیا جائے۔ اور یہ کام کوئی سرمایہ دار حکومت نہیں کرے گی۔
ہمیں ایک سوشلسٹ سماج کی ضرورت ہے جو منافع کے بجائے ضرورت پر مبنی ہوتاکہ ٹیکنالوجی اور پیداوار کے ثمرات سے تمام افراد مستفید ہو سکیں۔ اور اس کا مطلب ایسی انقلابی تحریک کی تعمیر ہے جو امیر طبقے سے اقتدار چھین کر سرمایہ داری اور اس کی تمام بے انصافیوں اور بیماریوں کو جڑ سے اکھاڑکر پھینک دے۔