|تحریر: جارج مارٹن، ترجمہ: عرفان منصور|
اسرائیلی ڈیفنس فورسز (IDF) نے 31 اگست کو غزہ میں حماس کے قبضے میں موجود چھ یرغمالیوں کی لاشیں برآمد کیں، جس کے نتیجے میں وزیر اعظم بنیامین نتن یاہو کے خلاف اسرائیل میں غصے کی لہر دوڑ گئی۔ یکم ستمبر کو ہزاروں لوگ اسرائیل بھر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
2 ستمبر، سوموار کی صبح اسرائیل کی جنرل آرگنائزیشن آف ورکرز (Histadrut) کی طرف سے اعلان کردہ ایک عام ہڑتال نے پورے ملک کو مفلوج کر دیا۔ مظاہرین نے نتن یاہو کو یرغمالیوں کی موت کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے، کیونکہ اس نے حماس کے ساتھ مذاکرات کو واضح طور پر بار بار ناکام بنایا۔ یہ ایک انتہائی سنگین سیاسی بحران ہے، جو اسرائیلی وزیر اعظم کی برطرفی کا باعث بن سکتا ہے۔
IDF نے 31 اگست کے روز، رفاہ کی ایک سرنگ میں حماس کے زیر قبضہ چھ یرغمالیوں (ہرش گولڈ برگ پولین، عدن یروشلمی اوری دانینو، الیکس لوبانوف، کارمل گیٹ، اور الموگ سروسسی) کی لاشیں برآمد کیں، جو 7 اکتوبر 2023ء کے اچانک حملے کے دوران اغوا کر لیے گئے تھے۔ یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ ان میں سے تمام 48 سے 72 گھنٹے پہلے تک زندہ تھے۔ اسرائیلی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انہیں قریب سے کئی بار گولی ماری گئی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں اس وقت قتل کیا گیا جب IDF فورسز ان کی لوکیشن کے قریب پہنچ رہی تھیں۔ یہ قیاس کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ ہفتے IDF کی جانب سے دوسرے یرغمالی، فرحان القاضی کو بچانے کی کارروائی نے اسرائیلی سیکورٹی فورسز کو ان چھ یرغمالیوں کے مقام تک پہنچنے میں مدد دی۔
حماس کے سینئر عہدیدار اور چیف مذاکرات کار خلیل الحیہ نے اسرائیلی دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ”ان قیدیوں میں سے بعض کو براہ راست اسرائیلی فورسز نے مارا، یا تو فضائی حملوں کے ذریعے یا براہ راست فائرنگ سے“۔ الجزیرہ کو دیے گئے ایک بیان میں مذاکرات میں رکاوٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے، خلیل الحیہ نے وضاحت کی کہ: ”نیتن یاہو کا رد عمل بائیڈن کی پیش کردہ دستاویز کو قبول کرنے پر غیر واضح تھا، جس کے بعد کئی نئی شرائط عائد کی گئیں۔ نیتن یاہو نے فلاڈلفی اور نیتزاریم میں رہنے پر اصرار کیا اور ہمارے عمر قید کاٹنے والے بزرگ قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کیا۔ ہم نیتن یاہو کی نئی شرائط پر مذاکرات میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ تحریک نے 2 جولائی کی پیشکش پر کوئی سمجھوتہ نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔“
موردِ الزام نیتن یاہو ہے!
یرغمالیوں کے خاندانوں اور اسرائیلی عوام کے بڑے حصے کے لیے یہ اہم نہیں کہ انہیں موت کی عین تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ان کے رشتہ دار چند دن پہلے تک زندہ تھے اور اب وہ مر چکے ہیں۔ وہ نیتن یاہو کو ان اموات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، کیونکہ وہ حماس کے ساتھ مذاکرات میں مسلسل اپنے مطالبات بدلتا رہتا ہے، جو کہ ان کے نزدیک صرف اقتدار میں رہنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جس نے وزیر اعظم کے خلاف بے مثال غم و غصے کو جنم دیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اسرائیل میں سب جانتے تھے کہ نیتن یاہو کے لاپرواہ اقدامات یرغمالیوں کے قتل کی وجہ بن سکتے ہیں۔ فوجی اور سکیورٹی ماہرین نے بار بار اسے خبردار کیا تھا، اور آخری وارننگ جمعرات 29 اگست کو سیکورٹی کابینہ کے اجلاس میں دی گئی تھی۔ نیتن یاہو اس اجلاس میں ایک اور تجویز کے ساتھ آیا، جس میں اس نے یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے نئے مطالبات پیش کر دیے، اور وہ یہ کئی مہینوں سے کر رہا ہے۔ اس نے مطالبہ کیا کہ یرغمالیوں کے تبادلے کے لیے جنگ بندی کے دوران، IDF غزہ کی پٹی اور مصر کی سرحد کے درمیان زمین کے ایک تنگ ٹکڑے یعنی فلاڈلفی راہداری پر کنٹرول برقرار رکھے گی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق، اس سے وزیر دفاع یوآو گالانٹ کے ساتھ تلخ کلامی شروع ہو گئی، جو کہ نتن یاہو کی اپنی جماعت لیکوڈ پارٹی سے تعلق رکھتا ہے۔ گالانٹ نے نیتن یاہو کے اس دعوے کی تردید کی کہ فلاڈلفی راہداری پر IDF کے کنٹرول کے نقشے فوج اور امریکہ کی طرف سے منظور شدہ ہیں، اور نیتن یاہو پر الزام لگایا کہ وہ فوج کو اس فیصلے پر مجبور کر رہا ہے۔
اکسیوس کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر ”نیتن یاہو غصے میں آ گیا، میز پر مکا مارا، گالانٹ پر جھوٹ بولنے کا الزام لگایا اور اعلان کیا کہ وہ یہ نقشے کابینہ میں ووٹنگ کے لیے پیش کر رہے ہیں“۔ گالانٹ کا جواب قابل ذکر ہے:
”وزیر اعظم کے طور پر آپ کو کسی بھی فیصلے کو ووٹنگ کے لیے پیش کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ بشمول یرغمالیوں کو قتل کرنے کے۔“
اکسیوس کی اسی رپورٹ کے مطابق وزیر دفاع نے کابینہ کو بتایا کہ اس قرارداد کی منظوری سے حماس کے رہنما یحییٰ سنوار کو مذاکرات میں مزید فائدہ ملے گا۔ ”ہمیں فلاڈلفی اور یرغمالیوں کے درمیان انتخاب کرنا ہو گا۔ دونوں چیزیں ایک ساتھ نہیں ہو سکتیں۔ اگر ہم ووٹ کرتے ہیں، تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یا تو یرغمالی مر جائیں گے یا ہمیں انہیں رہا کرنے کے لیے اپنے قدم پیچھے ہٹانے ہوں گے“ یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ وزیر دفاع گالانٹ کوئی امن پسند فلسطینی حقوق کا حامی نہیں ہے۔ بالکل اس کے برعکس، اس نے کابینہ اجلاس میں جو مؤقف اپنایا وہ اسرائیلی قومی سلامتی کے مفادات کے دفاع کے حوالے سے تھا۔
اکسیوس کے مطابق، گالانٹ نے کہا کہ ”ایک معاہدہ ایران اور حزب اللہ کے ساتھ علاقائی کشیدگی کو کم کرے گا“،جس سے IDF کو ”از سر نو منظم ہونے، ہتھیار جمع کرنے، اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنے اور غزہ سے ہٹ کر دیگر علاقائی خطرات پر توجہ مرکوز کرنے کا موقع ملے گا“۔ اگر معاہدہ نہ ہوا تو”IDF غزہ میں پھنسی رہے گی اور مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا، جس سے ایک علاقائی جنگ ہو سکتی ہے جبکہ IDF کی توجہ کہیں اور ہو گی“۔
یہ بات قابل غور ہے کہ گالانٹ نے معاہدے پر دستخط کرنے یا نہ کرنے کی تمام ذمہ داری اسرائیلی فریق پر ڈال دی۔ یہی اصل حقیقت ہے۔ حماس نے بارہا زور دیا ہے، اور دوبارہ دہرا رہی ہے، کہ انہوں نے پہلے ہی 2 جولائی کو یرغمالیوں کے تبادلے کے معاہدے پر رضامندی ظاہر کر دی تھی۔ یہ معاہدہ امریکہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا اور اسرائیل نے اس سے اتفاق کیا تھا۔ لیکن جیسے ہی حماس نے اپنی منظوری کا اعلان کیا، نیتن یاہو نے اپنی پوزیشن بدلنا شروع کر دی اور معاہدے پر دستخط روکنے کے لیے دیگر مطالبات اور شرائط کا ایک سلسلہ شامل کیا۔
سڑکوں پر احتجاج
یہ حیران کن نہیں تھا کہ جیسے ہی چھ مردہ یرغمالیوں کی دریافت کی خبر سامنے آئی، یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے نیتن یاہو کے خلاف غصے کا اظہار کیا اور بڑے پیمانے پر احتجاج کی کال دی۔ یرغمالی خاندان فورم کے ہیڈ کوارٹر نے اعلان کیا:
”اگر تاخیر،تخریب کاری اور بہانے نہ ہوتے تو جن کی موت کی خبر ہمیں آج صبح ملی ہے وہ ممکنہ طور پر ابھی تک زندہ ہوتے۔ نیتن یاہو نے یرغمالیوں کو تنہا چھوڑ دیا۔یہ اب ایک حقیقت ہے۔ کل سے ملک کا کونا کونا لرزے گا۔ ہم عوام سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ تیاری کریں۔ ہم ملک کو جام کر دیں گے۔ یہ تنہا چھوڑ دینے کی روایت اب ختم ہو چکی ہے۔“
اتوار کو نیتن یاہو کے خلاف ہونے والے احتجاج بہت بڑے پیمانے پر تھے، جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ صرف تل ابیب میں شاید تین لاکھتک مظاہرین تھے، جبکہ ملک کے باقی حصوں میں مزید دو لاکھ لوگ سڑکوں پر نکل آئے۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو مرکزی شاہراہوں سے ہٹانے کے لیے آنسو گیس اور سٹن گرینیڈ کا استعمال کیا۔تل ابیب میں احتجاج کا آغاز IDF ہیڈ کوارٹر کی جانب ایک مارچ سے ہوا، جس میں شرکاء نے 6 علامتی تابوت اٹھائے، جو ہفتہ کی رات بازیاب کیے گئے 6 یرغمالیوں کی لاشوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔ مظاہرین اسرائیلی جھنڈے لہراتے ہوئے نعرے لگا رہے تھے”ابھی ابھی“ اور فوری یرغمالیوں کی بازیابی کے نئے معاہدے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ”ہم انہیں زندہ واپس چاہتے ہیں“۔
یرغمالیوں کے رشتہ داروں نے بھی ہجوم سے خطاب کیا۔ ان میں سے ایک نے نتن یاہو کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے کہا: ”اگر تم نے بار بار معاہدے کو سبوتاژ نہ کیا ہوتا تو وہ 26 یرغمالی جو قید میں قتل کر دیے گئے، آج ہمارے ساتھ زندہ ہوتے۔ ان میں سے چھ افراد پچھلے ہفتے تک زندہ تھے، ایسے جہنم میں جسے تم میں سے زیادہ تر اراکین پارلیمنٹ ایک دن بھی برداشت نہ کر پاتے۔“
ایک یرغمالی کی ماں ایناو زنگاکر نے وزیر اعظم پر الزام لگایا کہ وہ یرغمالیوں کی زندگیوں سے رولیٹ کا جوا کھیل رہا ہے،”جب تک کہ سب مر نہیں جاتے۔“ اور کہا کہ چھ یرغمالی فلاڈلفی کی سازش کے لیے قربانی کے بکرے بنائے گئے ہیں۔ اس نے اپنی تقریر کو ایک اپیل کے ساتھ ختم کیا: ”یہ عمل کرنے کا وقت ہے۔ قوم کو جھنجھوڑنے کا وقت ہے جب تک کہ معاہدہ نہ ہو جائے۔ اسرائیل کے لوگو! سڑکوں پر نکل آؤ، سڑکوں پر نکل آؤ۔“ یروشلم میں ہزاروں افراد نے وزیر اعظم کے دفتر کے باہر احتجاج کیا، تاکہ سکیورٹی کابینہ کے ہنگامی اجلاس میں خلل ڈالا جا سکے۔
اسی انتہائی اشتعال انگیز ماحول میں، Histadrut کے جنرل سیکرٹری بار ڈیوڈ نے اعلان کیا کہ اسرائیلی ٹریڈیونین پیر کو عام ہڑتال کا اعلان کر رہی ہے اور یہ عہد کیا کہ:”کل پورا ملک جام ہو جائے گا“۔ میڈیکل یونین نے بھی ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا۔ احتجاج اور عام ہڑتال کی اپیلوں میں حزب اختلاف کے لیبر سیاستدان اور بورژوا حزب اختلاف کے رہنما بینی گینٹز اور یائر لاپیڈ بھی شامل ہوئے۔
انتہائی دائیں بازو کی حکومت کے وزیر بزیلیل اسموٹریچ نے عدالتوں سے ہڑتال روکنے کے لیے ایک حکم امتناع کی درخواست کی، استدلال کرتے ہوئے کہ یہ ہڑتال نہ تو اجتماعی سودے بازی یا مزدوروں کے اقتصادی مطالبات پر مبنی ہے بلکہ یہ ایک ”سیاسی ہڑتال“ ہے جس کا مقصد حکومت کے اہم قومی سلامتی کے مسائل پر فیصلوں پر اثر انداز ہونا ہے۔ وہ غلط نہیں تھا۔
یہ ہڑتال بہت ہی خاص اہمیت رکھتی ہے۔ یہ مزدوروں کو اپنی صنعتی طاقت استعمال کرنے کی اپیل ہے تاکہ سیاسی مقاصد حاصل کیے جا سکیں اور یرغمالیوں کے معاملے کا حل نکالا جا سکے۔ یہ مقاصد اپنی وجوہات کی بنا پر حکومتی طبقے کے بڑے حصے کی جانب سے بھی حمایت حاصل کر رہے ہیں۔ درحقیقت، بزنس فورم اور مینوفیکچررز ایسوسی ایشن، جو سرمایہ داروں، خاص طور پر ہائی ٹیک کے شعبے کی نمائندگی کرتی ہے، نے اعلانیہ طور پر ہڑتال کی حمایت کی۔
الجزیرہ کے مطابق:
”اسرائیل کی مینوفیکچررز ایسوسی ایشن نے ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا اور حکومت پر الزام لگایا کہ اس نے یرغمالیوں کو زندہ واپس لانے میں اپنی’اخلاقی ذمہ داری‘ کو پورا نہیں کیا۔ ایسوسی ایشن کے سربراہ رون ٹومر نے کہا،”اگر یرغمالیوں کی واپسی نہیں ہوتی، تو ہم جنگ کو ختم نہیں کر سکیں گے، ہم بطور سماج خود کو بحال نہیں کر سکیں گے اور ہم اسرائیلی معیشت کی بحالی کا آغاز بھی نہیں کر سکیں گے۔“
یہاں ہم وہی بین الطبقاتی اتحاد دیکھ رہے ہیں جو 2023ء کے شروع میں عدالتی اصلاحات کے خلاف نیتن یاہو کے خلاف احتجاج میں کارفرما تھا۔ ہم ایک بڑے عوامی تحرک کے ملغوبے کا مشاہدہ کر رہے ہیں، جس کی قیادت ایک طرف یرغمالیوں کے رشتہ داروں کے ہاتھ میں ہے، اور ساتھ ہی حکمران طبقے اور ریاستی نظام بھی شدید بحران سے گزر رہا ہے۔ نیتن یاہو کے اقدامات بنیادی طور پر اس کی اقتدار پر قبضہ برقرار رکھ کر اپنے خلاف قانونی کارروائی سے بچنے کی خواہش کا نتیجہ ہیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ پورے علاقے کو خونریز جنگ میں دھکیلنے کے لیے تیار ہے، جس میں وہ امریکہ کو بھی دھکیلنا چاہتا ہے۔
حکمران طبقے میں اختلافات
نیتن یاہو کے حسیات سے عاری حساب کتاب میں یرغمالیوں کی زندگیاں محض سیاسی فائدے کے لیے استعمال ہونے والی ریزگاری کی طرح ہیں۔ اس کی بے وقوفانہ چالاکیوں نے اسے نہ صرف اپنے انتخابی حلقے سے، بلکہ اسرائیلی حکومتی طبقے کے بڑے حصے اور حتیٰ کہ اس کی اپنی کابینہ کے کئی ارکان سے بھی الگ کر دیا ہے، جس کی مثال گالانٹ کے ساتھ جھگڑے سے ملتی ہے۔
صہیونی لبرل اخبار حارتز میں ایک مضمون، اقتباس کرتا ہے جس میں نیتن یاہو کی کابینہ کے ایک سینئر رکن نے یرغمالیوں کی موت کا الزام ان پر لگایا:
”وہ جانتا تھا کہ یرغمالی عارضی طور پر زندہ ہیں کہ ان کی زندگی کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ اگر انہیں بچانے کی کوشش کی جائے گی تو ان کو مارنے کے احکام ہیں۔ اس نے اپنے احکام کی اہمیت کو سمجھا اور سرد پڑ چکے خون اور ظلم کا راستہ چنا۔ سب جانتے تھے کہ وہ بدعنوان، خودپسند، بزدل ہے لیکن اس میں انسانیت کی کمی حالیہ مہینوں میں اپنی تمام بدصورتی کے ساتھ بے نقاب ہوئی۔ حماس کو کسی بھی ذمہ داری سے مستثنیٰ قرار دیے بغیر اس کے ہاتھ خون میں رنگے ہوئے ہیں۔“
لبرل صہیونی اخبار حارتز نے مضمون کا اختتام نیتن یاہو کو اقتدار سے ہٹانے کی کال کے ساتھ کیا: ”اگر کسی کو اب تک شک تھا، تو یرغمالیوں کے قتل نے کوئی شبہ باقی نہیں چھوڑا۔ یہ سانحہ اسرائیل پر قابض خطرناک اور انتہا پسند گروپ کو گھر بھیجنے کی ناختم ہونے والی کوشش میں ایک اہم موڑ بننا چاہیے۔“ حاکم طبقے اور ریاستی مشینری کا ایک بڑا حصہ نیتن یاہو کو ہٹانا چاہتا ہے، نہ تو یرغمالیوں کی تقدیر کی فکر کی وجہ سے، اور نہ ہی فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف، جس میں اب تک 40,000 سے زیادہ زندگیاں جا چکی ہیں۔ بلکہ وہ نیتن یاہو کی مخالفت اس لیے کرتے ہیں کیونکہ وہ اسے سرمایہ دار طبقے کے مفادات اور صہیونی ریاست کی موجودگی کے لیے ایک خطرہ سمجھتے ہیں۔
عام ہڑتال کی کال دیتے ہوئے، Histadrut کے سکریٹری بار ڈیوڈ نے اس طرح کہا: ”ہم اب ایک قوم نہیں رہے۔ ہم ایک دوسرے کے خلاف camps ہیں۔ ہمیں اسرائیل کی ریاست کو واپس لانا ہے۔“ اس طرح انہوں نے صہیونی حکومتی طبقے کے مفادات کے وفادار خادم کی حیثیت سے خود کو ظاہر کیا۔ یہ خیال کہ، محنت کش اور سرمایہ دار اسرائیل کے دفاع میں ”غیر ملکی دشمن“ کے خلاف متحد ہیں، اسرائیل میں حکمران طبقے کو حقیقی طبقاتی تقسیم کو چھپانے اور اقتدار میں رہنے کے لیے ایک قومی صہیونی ہم آہنگی پیدا کرنے کی اجازت دے رہا ہے۔
بار۔ ڈیوڈ اور اسرائیلی بڑے کاروبار کے اہم حصے، جیسے کہ بورژوا سیاسی نمائندوں کے خیال میں، نیتن یاہو اسرائیل کی ریاست کی قانونی حیثیت کو تباہ کر رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ خطرناک ہے۔ اس نے ایک بے مثال سیاسی بحران پیدا کر دیا ہے، جو اسرائیلی ریاست کی اعلیٰ سطح تک پہنچ چکا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا وہ اسے واقعی گرا پائیں گے یا نہیں۔
اگر کوئی چیز ہے جس سے اسرائیلی سرمایہ داروں کو نیتن یاہو سے زیادہ خوف ہے تو وہ ہے محنت کشوں کے آزادانہ عمل کی ممکنہ صورت حال۔ اس معاملے میں وہ Histadrut کے رہنماؤں کے ساتھ بھی متحد ہیں۔ 2 ستمبر کی عام ہڑتال، جس کا ایک 24 گھنٹے کی ہڑتال کے طور پر اعلان کیا گیا تھا اور منگل 3 ستمبر کو صبح 6 بجے ختم ہونا تھی، ٹریڈ یونین کے رہنماؤں کی جانب سے مختصر کر دی گئی اور اسی شام 6 بجے ختم ہونے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک لیبر کورٹ نے حکم دیا کہ یہ ڈھائی بجے تک ختم ہونی چاہیے، اور Histadrut کے رہنما اس عدالتی حکم کی پیروی کرنے پر راضی ہو گئے۔
یروشلم پوسٹ کے مطابق، ”Histadrut کے صدر آرنون بار ڈیوڈ نے فیصلے کے بعد بیان دیا،’ہم قانون کا احترام کرتے ہیں۔“ Histadrut کے ایک نمائندے نے ریڈیو 103FM کو بتایا، ”ہم قانون کے پابند لوگ ہیں۔ اگر عدالت ہڑتال روکنے کا حکم دیتی ہے، تو ہم ایسا کریں گے۔“ یہ دیکھا جا سکتا ہے، یہ نام نہاد ٹریڈ یونین کے رہنما صہیونی ریاست کے سامنے کھڑے ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس سب میں یقیناً، امریکہ کا کردار بھی اہم ہے۔ نیتن یاہو کی پالیسیاں، اس کا غزہ پر بے رحم، بلا تفریق، نسل کش حملہ اور اس کی لبنان اور ایران میں مستقل اشتعال انگیزیاں جو تنازع کو وسیع کرنے اور امریکی سامراج کو ملوث کرنے کے لیے ہیں، اس کا مقصد امریکی سامراج کے علاقے میں مقاصد کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہ خلیج اور اردن میں رجعت کا گڑھ بادشاہتوں، ترکی اور مصر و دیگر حکومتوں کے عدم استحکام کو بڑھا رہا ہے، جن پر امریکہ انحصار کرنا چاہتا ہے۔
تاہم، جیسے کہ ہم نے ابتدا سے ہی دیکھا، امریکی سامراج نیتن یاہو کو سنجید گی سے چیلنج کرنے کو تیار نہیں۔ اگر بائیڈن اور امریکی سامراج واقعی اسے روکنا چاہتے تو وہ بہت سادگی سے ایسا کر سکتے تھے: فوجی اور مالی امداد کو روک کر، مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ انتباہ تو کیا گیا۔ بائیڈن نے نجی اور عوامی طور پر سرزنش کی۔ لیکن اس نے اپنی نرم پھس پھسی دھمکیوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔ امریکی سامراج غزہ کے فلسطینیوں کے قتلِ عام میں پوری طرح ذمہ دار اور شریک ہے۔
بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو اپنے انتخابی حلقوں کے کچھ حصے کی طرف سے فلسطینیوں کی حالتِ زار سے ہمدردی کے سبب کافی دباؤ کا سامنا ہے۔ کمالا حارث نے پہلے ہی اسرائیل کے حق میں واضح مؤقف اختیار کیا ہے۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ ڈیموکریٹس امریکی سامراجی حکمران طبقے کی دو جماعتوں میں سے ایک ہیں اور اس طرح اسرائیل کا ایک اہم اتحادی کے طور پر دفاع کرنے کے پابند ہیں۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ صدارتی انتخابات سے صرف چند ہفتے قبل کسی نہ کسی طرح کے معاہدے کا حصول ان کے لیے انتخابات میں سود مند ہو گا۔
اب بائیڈن کیا کہہ رہا ہے؟ نتن یاہو کی مسلسل مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے جواب میں بائیڈن نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ میز پر ایک ”قبول کرو یا چھوڑ دو“ پیشکش رکھے گا۔ بائیڈن کہتا ہے کہ پھر یہ اسرائیل اور حماس پر منحصر ہو گا کہ وہ اسے قبول کریں یا امریکہ مذاکرات سے پیچھے ہٹ جائے۔ اس سے کچھ نہیں بدلے گا۔ جولائی میں پہلے ہی ایک معاہدہ موجود تھا جو امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی رضامندی کی بنیاد پر تیار کیا گیا تھا۔ جب حماس نے اس پر رضامندی کا اعلان کیا، نیتن یاہو نے فوراً دوسرے مطالبات شامل کر دیے تاکہ معاہدے کو سبوتاژ کیا جا سکے۔ پھر انہوں نے حماس کے رہنما اور چیف مذاکرات کار کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت واضح ہے۔ حماس معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار تھی۔ لیکن نیتن یاہو نے ہر کوشش کو ناکام بنانے کے لیے منظم انداز میں کام کیاہے۔
مغربی کنارے میں اشتعال انگیزی
دوسری جانب، غزہ میں جاری خونریزی کے دوران، مغربی کنارے میں دائیں بازو کے آبادکاروں کی اشتعال انگیزیاں بڑھتی جا رہی ہیں (جو اسرائیلی فوج، سیکیورٹی فورسز اور کابینہ کی نگرانی میں ہیں) اور اسرائیلی حملے بھی جاری ہیں۔ شہر جنین پچھلے پانچ دنوں سے اسرائیلی فوج کا قبضہ ہے۔ جنین کی میونسپلٹی کے مطابق، اسرائیلی فوج نے 28 اگست بروز بدھ کو کارروائیوں کا آغاز کرنے کے بعد شہر کی 70 فیصد سڑکوں اور 20 کلومیٹر پانی اور سیوریج کی لائنوں کو تباہ کر دیا ہے۔ ہزاروں افراد، پانی بجلی یا خوراک کے بغیر رہ گئے ہیں اور انسانی امداد تک رسائی سے روک دیا گیا ہے۔
مغربی استعماری طاقتیں جو قواعد پر مبنی نظام کی بات کرتی ہیں، منافقانہ طور پر آنکھیں بند کر لیتی ہیں۔ یا زیادہ درست الفاظ میں اپنا مکروہ دوہرا معیار اپناتے ہوئے، وہ فلسطینیوں کے قتل عام کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ اسرائیل کو خود کو دفاع کرنے کا حق دیا جاتا ہے، لیکن یہ حق فلسطینیوں کو نہیں ملتا۔ اسرائیل کو اربوں ڈالر کے ہتھیاروں اور امداد دی جاتی ہے، جبکہ فلسطینیوں کا قتل عام جاری رہتا ہے۔ اور اگر بین الاقوامی عدالت اس پر سوال اٹھاتی ہے تو انہیں خاموش کرنے کے لیے شدید دباؤ ڈالا جاتا ہے۔ فلسطینیوں کے حامی مظاہرین کو بدنام کیا جاتا ہے۔ یکجہتی کیمپوں کو بے دردی سے ختم کیا جاتاہے، اور فلسطینی وکلا کو دہشت گردی کے قوانین کے ذریعے ہراساں کیا جاتا ہے۔
اس ڈیڈ لاک کو توڑنے کا واحد طریقہ انقلابی عمل ہے۔ سب سے پہلے، مغرب کی جنگ پسند اور جنگی جرائم میں لتھڑی ہوئی حکومتوں کے خلاف عمل، جن کی حمایت کے بغیر غزہ میں قتل عام نہیں ہو سکتا تھا؛ دوسرا، خطے میں انقلابی عمل کے ذریعے سعودی عرب، خلیج کے ممالک، اردن، مصر، ترکی اور دیگر ممالک کی رجعت پرست حکومتوں کو گرا کر جو فلسطینیوں پر ظلم میں مکمل طور پر شریک ہیں۔
آخر میں فلسطینیوں کی آزادی کے ساتھ ایک ایسی پالیسی ہونی چاہیے جو اسرائیلی معاشرے کو طبقاتی بنیادوں پر تقسیم کر سکے۔ اس کے لیے طبقاتی خود مختاری کی پالیسی کی ضرورت ہے، جہاں اسرائیل میں یہودی اور عرب مزدوروں کے مفادات کو اسرائیلی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے خلاف اجاگر کیا جائے۔ موجودہ لیبر اور ٹریڈ یونین رہنماؤں کی طبقاتی تعاون کی پالیسی کو مکمل طور پر رد کرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے محنت کش طبقے کو سمجھنا ہو گا کہ جو قوم دوسرے لوگوں کو ظلم کا شکار بناتی ہے، وہ کبھی بھی خود آزاد نہیں ہو سکتی۔
یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ ہونے کے بجائے، اسرائیل ایک ایسا ملک بن گیا ہے جو اپنے ہمسایوں کے ساتھ مسلسل جنگ میں مصروف ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل، فلسطینیوں کی قوم کو مکمل طور پر ان کے تاریخی وطن سے زبردستی نکال کر بنایا گیا تھا۔ پچھلی کئی دہائیوں سے صہیونی حکمران طبقے نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کی تمام یہودی آبادی کو اپنے پیچھے متحد رکھا، یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ صہیونی ریاست ان کی سیکیورٹی کی ضمانت دیتی ہے۔ 7 اکتوبر کے حملے نے اس افسانے کے بخیے ادھیڑ کر رکھ دیے۔ موجودہ بحران اسرائیلی معاشرے میں طبقاتی خطوط پر دراڑ ڈالنے کا ایک چھوٹا سا موقع فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے لیے ایک انقلابی قوت تعمیر کرنی ہو گی جو نہ صرف نیتن یاہو اور اس کے مخالف سرمایہ دار طبقے کے حصے کو بے نقاب کر سکے بلکہ فلسطینی عوام کی مظلومیت کا خاتمہ کرنے کے لیے پرعزم ہو۔
جب صہیونی حکمران طبقہ گرا دیا جائے گا، اس کے تمام سامراجی منصوبوں کو آخر کار ختم کیا جائے گا اور فلسطینی عوام کو ایک وطن ملے گا، تب ہی یہ دہائیوں پر محیط تنازعہ حل ہو گا۔ اس کے لیے پورے خطے میں انقلاب کی ضرورت ہے۔