|تحریر: جورج مارٹن، ترجمہ: ولید خان|
کورونا وباء کی دوسری لہر اس وقت یورپ کو تخت و تاراج کر رہی ہے۔ یہ صورتحال ناگزیر ہونے کے بجائے حکومتوں کی خوفناک پالیسی کا نتیجہ ہے جس کے تحت سرمایہ داروں کی دولت کو عوامی صحت پر فوقیت حاصل ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مالکان زندگیوں اور روزگار کے تحفظ کی قیمت ادا کریں! وباء سے لڑنے کے لئے سرمایہ داری کا خاتمہ کر ڈالو!
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اس وقت جان لیوا کورونا وباء یورپ میں ایک سرے سے دوسرے تک تباہی و بربادی مچا رہی ہے۔ مرض کی اس دوسری لہر میں روزانہ پوری دنیا میں ہونے والی اموات میں سے نصف یورپ میں ہو رہی ہیں اور یہ اعدادوشمار موسمِ بہار میں پھیلنے والی پہلی لہر سے بڑھ چکے ہیں (اپریل میں 6 ہزار 825 کے مقابلے میں 10 نومبر تک 7 ہزار 842 اموات)۔ یکے بعد دیگرے ممالک لاک ڈاؤن، کرفیو، شراب خانوں اور ریستوران کی بندش، سرکٹ بریکرز (غیر معینہ مدت کے برعکس ایک محدود مدت لاک ڈاؤن تاکہ مریضوں کی تعداد کو مخصوص شرح سے نیچے لایا جا سکے۔ مترجم)، مقامی نقل و حرکت کی بندش جیسے شدید سے شدید تر اقدامات لاگو کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں تاکہ بے قابو وباء کو کنٹرول کیا جا سکے جبکہ کئی ممالک میں وباء بے لگام ہو چکی ہے اور انتہائی نگہداشت وارڈز بھر چکے ہیں۔ لیکن اس دوسری لہر سے بچا جا سکتا تھا یا کم از کم اس کی تباہ کاریوں کو کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ کئی عوامل کے نتیجے میں آج ہم ان حالات کا شکار ہیں اور ان کی صرف ایک بنیادی وجہ ہے یعنی سرمایہ داروں کے منافعوں کی انسانی جانوں پر فوقیت۔
یورپ میں پہلی لہر کے خلاف سرمایہ دار حکومتوں کا ردِ عمل تاخیر زدہ اور ناکافی تھا۔ یہاں تک کہ پورے یورپ کے لئے اٹلی دو ہفتہ ایڈوانس میں پہلے ہی مستقبل کے حوالے سے انتباہ بنا ہوا تھا لیکن اسپین، برطانیہ، فرانس اور دیگر ممالک کی حکومتوں نے لازمی اقدامات کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ لاک ڈاؤن اس لئے لاگو نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ اس کا معیشت پر تباہ کن اثر پڑتا یعنی سرمایہ داروں کے منافعے شدید متاثر ہو جاتے۔ اس فیصلے سے کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ ہزاروں اموات سے بچا جا سکتا تھا اگر سائنسی بنیادوں پر بروقت اقدامات کر لئے جاتے۔ صحت کا شعبہ (کئی ممالک میں دہائیوں کی بجٹ کٹوتیوں کی وجہ سے برباد) وباء کے خوفناک پھیلاؤ کی وجہ سے ہسپتالوں میں مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اور بالخصوص انتہائی نگہداشت وارڈز میں ونٹی لیٹرز کی ضرورت کے سیلاب کے سامنے ڈھیر ہو گیا۔
جون تک یورپی ممالک کی اکثریت وباء کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ جس میں شعبہ صحت کے ملازمین اور دیگر نے حقیقی معنوں میں جان لڑا دی تھی۔ شہریوں نے لاک ڈاؤن کی پاسداری کی حالانکہ وباء کو کنٹرول کرنے کے لئے درکار مکمل معاشی بندش کبھی بھی نہیں کی گئی۔ عوام کو گھروں میں رہنے کی تنبیہ کی گئی جبکہ ساتھ ہی انہیں معیشت کے غیر ضروری سیکٹر، خاص طور پر مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کو چلانے اور کھچا کھچ بھری ٹرانسپورٹ استعمال کرنے پر مجبور کیا جاتا رہا۔ یہ سب کچھ سرمایہ داروں کے منافعوں کے لئے کیا گیا۔ بہرحال سماجی رابطوں میں خاطر خواہ کمی ہوئی اور وباء کو کنٹرول کر لیا گیا۔
اس دوران ہر جگہ حکومتوں نے پانی کی طرح پیسہ بہاتے ہوئے مختلف اسکیموں کے ذریعے نجی سیکٹر میں چھوٹی بڑی تمام کمپنیوں کو اجرتیں ادا کیں اور بیل آؤٹ پیکج دیئے۔ حکومتیں شدید خوفزدہ تھیں اور اس کام کا مقصد یہ تھا کہ معاشی بحران کی سختی کو نرم کرتے ہوئے خوفناک سماجی انتشار سے بچا جائے کیونکہ امید کی جا رہی تھی کہ یہ صورتحال عارضی ہے۔
سرمایہ داروں کے دباؤ میں کاروبار کھول دیئے گئے
مریضوں سے کھچا کھچ بھرے ہسپتالوں کی تصاویر ذرائع ابلاغ پر کم ہونے کے ساتھ سرمایہ داروں نے اپنی حکومتوں پر پورا دباؤ ڈالا، جبکہ حکومتیں خود بھی معاشی ریلیف ختم کرنا چاہتی تھیں۔ سیاحت کی صنعت نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اسپین، یونان اور اٹلی جیسے ممالک کو معمول کے مطابق سیاحت کے لئے سرحدیں کھولنے کی بہت جلدی تھی۔ قدم با قدم لاک ڈاؤن اقدامات ختم کرنے اور سماجی روابط کو محدود کرنے کے بجائے ہم نے دیکھا کہ ہیجانی تیزی کے ساتھ معیشت کھول دی گئی۔ اسپین، یونان، فرانس، سلوینیا اور دیگر نے برطانیہ پر دباؤ ڈالا کہ سفری پابندیاں ختم کرتے ہوئے انہیں قرنطینہ فہرست سے نکالا جائے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا تھا جب برطانیہ میں 200 فی یومیہ سے زائد اموات واقع ہو رہی تھیں جو سیاحتی مقامات سے کہیں زیادہ تھیں۔
سماجی تفاصل اقدامات، بغیر کسی سنجیدہ ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور علیحدگی نظام منظم کیے ختم کر دیئے گئے۔ وباء کو کنٹرول کرنے کے بعد ضروری تھا کہ وباء کے مقامی سطح پر پھیلاؤ کو محدود کیا جائے۔ اس کا مطلب سنجیدہ عوامی ٹیسٹنگ اور متاثرین کے روابط کا ٹریسنگ نظام تھا۔ آخر کار تمام ممالک نے ٹیسٹنگ کی تعداد بڑھا تو دی لیکن پورا نظام کوتاہیوں اور کمزوریوں سے لبریز تھا اور کہیں پر بھی روابط کی جانکاری کے حوالے سے حکمتِ عملی نہیں بنائی گئی۔
اس حوالے سے برطانیہ کی مثال بہت ہی بری ہے۔ ”عالمی معیاری“ نظام کے وعدے کے بعد ہمیں ایک ایسا نظام ملا جس میں 24 گھنٹوں میں ہونے والے ٹیسٹوں میں سے صرف 60 فیصد افراد کے نتائج ممکن ہیں جبکہ متاثرین کے ساتھ رابطے میں آنے والے افراد میں سے 60 فیصد سے کم ہی ٹریس ہو پاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ مقامی صحت انتظامیہ کے بجائے ٹیسٹ اور ٹریس نظام ایک نجی کمپنی کو دے دیا گیا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ برطانوی سرمایہ داری کا عمومی بحران اس مرحلے پر پہنچ چکا ہے کہ بریگزٹ سے 8 ہفتے پہلے کمپنیوں کو یہی نہیں معلوم کہ یکم جنوری کو صورتحال کیا ہو گی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ وباء کے مقامی سطح پر پھیلاؤ پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ اس حوالے سے دو مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ سائنسدان اب اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ یورپ میں دوسری لہر کی ایک بڑی وجہ وائرس کی ایک مخصوص قسم (20A.EU1) ہے، جو موسمِ گرما کے آغاز میں اسپین میں تغیر کے ذریعے پیدا ہوئی۔ تحقیق کے مطابق متاثرین میں اس نئی قسم کی شرح برطانیہ اور اسپین میں 80 فیصد سے زیادہ، آئرلینڈ میں 60 فیصد اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس میں 40 فیصد ہے، لیکن اس کی شناخت لیٹویا اور ناروے جیسے دوردراز ممالک میں بھی ہوئی ہے۔ یورپی ممالک کی اکثریت میں پہلے بھی اور اب بھی ائرپورٹ پر مسافروں کی باقاعدہ سکریننگ اور ٹیسٹنگ کا نظام موجود نہیں ہے۔ ان اقدامات کو بہت زیادہ مہنگا اور سیاحت اور ائرلائن صنعت کے لئے بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔
تحقیق ایک قدم آگے بڑھ کر یہ مفروضہ پیش کر رہی ہے کہ وائرس کی یہ قسم اسپین کے لیڈا اور اراگون علاقوں میں زراعت میں کام کرنے والے عارضی مہاجر مزدور وں میں تغیر پذیر ہوئی۔ کیوں؟ زرعی مہاجر مزدور موسمِ گرما میں ان علاقوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں ان کا بطور سستے مزدور شدید استحصال کیا جاتا ہے اور انہیں انتہائی غلیظ حالات اور گنجان رہائش میں رکھا جاتا ہے یا پھر انہیں کھلی فضا یا کھیت شیڈ میں سُلایا جاتا ہے۔ اگر عوامی صحت کے لئے سنجیدہ اقدامات کئے جاتے تو ان سب کی ٹیسٹنگ کرتے ہوئے انہیں معقول رہائش فراہم کی جاتی۔ مگر منافع کے حریص سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا نہیں ہوتا۔ جن علاقوں میں عارضی زرعی مہاجر مزدور کورونا وباء کا شکار ہوئے ہیں انہی علاقوں میں گوشت کی صنعت میں بھی وباء پھوٹنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ وباء کے پورے عرصے میں ساری دنیا میں گوشت پلانٹس میں مسلسل وباء پھوٹنے کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ فیکٹریوں میں بھیڑ، کم درجہ حرارت اور شور شرابا (جس وجہ سے ملازمین کو ایک دوسرے سے چیخ چیخ کر رابطہ کرنا پڑتا ہے) وباء کو پھیلانے میں مددگار وجوہات ہیں۔
اگر یہ سمجھا جا رہا ہے کہ گوشت پراسیسنگ پلانٹس معیشت کا اہم سیکٹر ہیں تو پھر درکار صحت اور حفاظتی اقدامات کو لاگو کیا جانا چاہیئے تھا۔ مزدوروں کو باقاعدہ ٹیسٹنگ کے ساتھ پی پی ای حفاظتی سامان فراہم کرنا چاہیئے تھا۔ وہ مزدور جو بیمار ہو تے اور انہیں علیحدگی اختیار کرنی پڑتی، انہیں پوری تنخواہ فراہم کی جاتی۔ تشخیص زدہ افراد کے ساتھ رابطے میں آنے والوں کو بھی علیحدہ کر دیا جاتا۔ لیکن سرمایہ داری میں ان میں سے کوئی ایک درکار قدم نہیں اٹھایا گیا۔ اس لئے وائرس اسپین میں لیڈا اور ہویسکا کے کھیتوں سے پورے یورپ میں پھیل کر دوسری لہر کی شکل اختیار کر گیا۔
موسمِ گرما کے آغاز میں برطانیہ کے لائسیسٹر شہر میں ایک اور واقعہ رونما ہوا جس میں مقامی وباء کو کنٹرو ل کیا جا سکتا تھا یا بچا جا سکتا تھا۔ نئے کیسوں کی ایک بڑی تعداد کا پتہ لگا اور اس موقع پر ایک دوسرا لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ ذریعہ؟ لائسیسٹر کی کئی سو ٹیکسٹائل فیکٹریاں جہاں مزدوروں کی ایک بھاری اکثریت، جن میں سے کئی برطانیہ سے باہر پیدا ہوئے، بھیڑ زدہ حالات میں کوڑیوں کے مول (اکثر اوقات کم از کم اجرت سے بھی کم) کام کرنے پر مجبور ہیں اور کوئی حفاظتی اقدامات بھی موجود نہیں۔ ان میں سے کچھ فیکٹریاں مہنگے برانڈز کے لئے پیداوار کرتی ہیں اور ان میں پہلے لاک ڈاؤن کے دوران بھی کام جاری رہا، کوئی حفاظتی اقدامات نہیں کئے گئے اور اجرت کے ضرورت مند مجبور مزدوروں کا شدید استحصال کیا جاتا رہا۔ اس کے ساتھ مزدوروں کی ایک بھاری اکثریت گنجان رہائشوں میں رہنے پر مجبور ہیں جہاں علیحدگی اختیار کرنا نا ممکن ہے اور پھر غربت کی وجہ سے پہلے سے موجود صحت کے مسائل صورتحال اور بھی گھمبیر کر دیتے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر اس کی وجہ سرمایہ داروں کے منافعے، مزدوروں کا استحصال، غربت وغیرہ کا مجموعہ ہے جو ایسے خوفناک حالات پیدا کر دیتا ہے جن میں وائرس کی بھرپور نشونما ہوتی ہے۔ کیا اس سے بچا جا سکتا تھا؟ بالکل۔
یہ ناکامیاں۔۔درست ٹیسٹنگ، ٹریسنگ اور علیحدگی نظام کے بغیر، عجلت میں پابندیاں ختم کرنا۔۔ستمبر میں پرائمری، سیکنڈری اور یونیورسٹی کے طلبہ کی تدریسی سرگرمیوں کی بحالی سے اور زیادہ گھمبیر ہو گئیں۔ اس فیصلے کی توجیہہ یہ پیش کی گئی کہ طلبہ کے لئے تعلیم اورہم عمروں کے ساتھ سماجی تعلق اہم ہے اور پھر یہ بھی تو حقیقت ہے کہ غریب طلبہ کو آن لائن تعلیم حاصل کرنے میں شدید دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔ یہ سب درست ہے اور ہم متفق ہیں۔ لیکن اصل وجہ یہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ ہر صورت کلاسیں دوبارہ شروع کرانا چاہتا تھا تاکہ والدین سے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری کم ہو اور وہ واپس کام پر آئیں۔ یونیورسٹیوں کے حوالے سے تو ایک اور وجہ بھی اہم تھی کہ کئی ممالک میں طلبہ کی رہائش اور ٹیوشن فیسوں سے کئی ادارے کافی پیسہ کماتے ہیں۔
کیا تعلیمی اداروں کو بند رہنا چاہیئے تھا؟ ضروری نہیں۔ تمام ممالک میں سکولوں کو محفوظ ترین بنانے کے لئے اقدامات کا اعلان کیا گیا جن میں مخصوص حجم میں چھوٹی کلاسیں، زیادہ اساتذہ، طلبہ کو چھوٹے گروہوں میں بانٹنا وغیرہ شامل تھے۔ لیکن ان تمام اقدامات کے لئے وسائل درکار ہوتے ہیں جبکہ پورے یورپ میں پچھلے دس سالوں کی جبری کٹوتیوں سے تعلیمی نظام برباد ہو چکا ہے۔ عملی طور پر ان میں سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے یا پھر ناکافی رہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ سکول وائرس کی نشوونما کا گڑھ بن گئے جن میں بیماری کی خاندانوں سے خاندانوں تک منتقلی ہوتی رہی۔
بیان کئے گئے اقدامات کے ساتھ اساتذہ کی باقاعدہ ٹیسٹنگ ہونی چاہیئے تھی۔ جب بھی کسی ایک کلاس یا گروہ کو کسی ایک بچے میں وائرس کی تشخیص کے بعد گھر بھیجا جاتا تو اس کے ساتھ ہی پورے گروہ اور ان کے خاندانوں کے تمام ممبران کی فوری ٹیسٹنگ بھی کرنی چاہیئے تھی۔ ان میں سے کوئی بھی اقدامات نہیں کئے گئے کیونکہ اس کے لئے پیسے چاہئیں۔
ایک حد تک یہ بحث کی جا سکتی ہے کہ یورپی حکومتوں کے لئے وباء کی پہلی لہر بالکل انہونی تھی۔ ویسے تو یہ بات مکمل طور پر درست نہیں ہے کیونکہ یورپ میں وباء کے داخل ہونے سے پہلے ہی چین سخت لاک ڈاؤن لگا چکا تھا اور دیگر ایشیائی ممالک بھی وباء سے مقابلے کے لئے سخت اقدامات کر رہے تھے۔ اگرچہ یہ نکتہ اٹھایا جا سکتا ہے کہ ان ممالک کے پاس ماضی میں پھیپھڑوں کی وباؤں کا تجربہ موجود تھا۔ لیکن یورپ میں وباء کا آغاز اٹلی سے ہوا اور باقی یورپ کو تیاری کے لئے دو سے تین ہفتے میسر تھے۔ اقدامات کرنے میں سُستی کی وجہ سے پورے یورپ میں ہزاروں اموات ہوئیں۔ اگر حکومت ”معیشت“ (سرمایہ داروں کے منافعے) کو عوامی صحت پر ترجیح نہ دیتی تو قیمتی جانیں بچائی جا سکتی تھیں۔
یہ درست ہے کہ پہلی لہر کے وقت ہمیں وائرس، اس کے پھیلاؤ، اس سے تحفظ اورمنتقلی کی روک تھام سے متعلق ضروری اقدامات کے حوالے سے زیادہ سمجھ بوجھ نہیں تھی۔ اب ہمیں معلوم ہے کہ وائرس کے پھیلاؤ کا ایک اہم ذریعہ ایروسول ذرات ہیں جو بند اور کم ہوادار جگہ پر دیر تک موجود رہتے ہیں۔ ہمیں کلسٹرز اور تیز تر پھیلاؤ کے واقعات کا بھی ادراک ہو چکا ہے (10 فیصد مریض 80 فیصد پھیلاؤ کا سبب بنتے ہیں) اور اس لئے رابطہ ٹریسنگ کی خاص اہمیت ہے۔
کورونا وائرس کی دوسری لہر بے قابو ہو چکی ہے
اس لئے وائرس کی دوسری بے قابو لہر بھیانک ترین جرم ہے۔ تمام ماہرین کو پتہ تھا کہ موسمِ خزاں میں دوسری لہر کے لئے حالات سازگار ہوں گے۔ حکومتوں کو بھی اچھی طرح معلوم تھا۔ اس وقت ہمارے پاس سنجیدہ مثالیں موجود ہیں کہ وباء کو کن موثر اقدامات کے ذریعے قابو کیا جا سکتا ہے۔ لیکن یورپی حکومتوں نے غیر موثر اقدامات کئے، سُستی کا مظاہرہ کیا اور دوسری لہر کو پھیلنے دیا جس کا نتیجہ اب پورے برِ اعظم میں ہزاروں اموات کی شکل میں نکل رہا ہے۔ ان اموات کو روکا جا سکتا تھا یا کم از کم ان کی مقدار کم کی جا سکتی تھی۔ نہ ہو سکنے کی پھر بنیادی وجہ سرمایہ داروں کے منافعے ہیں۔
اس کی سب سے واضح اور شرمناک مثال بورس جانسن کی برطانوی حکومت ہے۔ پہلے ہی 21 ستمبر کو حکومتی ادارے سائینٹیفک ایڈوائزری گروپ فار ایمرجنسیز (SAGE) نے خبردار کیا تھا کہ وائرس کا پھیلاؤ تیزی سے بڑھے گا اور خاص طور پر ہسپتالوں میں داخلے بڑھیں گے۔ فوری اقدامات کے لئے تجاویز بھی دی گئیں۔
بورس جانسن نے کیا کیا؟ اپنے ماہرین کا ہر مشورہ نظر انداز کر دیا۔ لاک ڈاؤن مخالف ٹوری پارٹی کے بریگزٹ پسند دائیں بازو اور سرمایہ داروں کے دباؤ میں وہ تذبذب کا شکار رہا۔ اس کی حکومت نے چھ ہفتوں بعد وہ اقدامات کئے جن کی تجویز SAGE نے ستمبر میں دی تھی۔ اس لئے 4 نومبر کو جا کر محدود لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ 21 ستمبر کو 32 اموات اور 368 مریض ہسپتالوں میں داخل ہوئے اور 4 نومبر تک 300 اموات اور 1500 مریض ہسپتالوں میں داخلے ہو چکے تھے۔
ہر جگہ ایک ہی کہانی چل رہی ہے۔۔فرانس، اسپین، یونان، اٹلی۔ زیادہ تر یورپی حکومتوں نے دوسری لہر پر سُست ردِ عمل دیا۔ پہلے بددلی میں بہت کم اقدامات اٹھائے گئے جو بالکل ناکافی تھے (جیسے شراب خانوں اور ریستوران کی جلد بندش) اور علاقائی سطح پر تو نہ ہونے کے برابر اقدامات کئے گئے۔ نتائج سب کے سامنے ہیں۔
اس حد تک نااہلی، ذومعنی پیغامات اور متضاد اقدامات کے بعد یہ حیران کن نہیں کہ حکومتی اقدامات کی طرف عوام میں بہت زیادہ شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ کچھ تو لاک ڈاؤن کی افادیت پر ہی سوال کر رہے ہیں کہ ”علاقائی اقدامات بے اثر رہے“، ”موسمِ بہار میں ایک لاک ڈاؤن ہو چکا ہے لیکن وائرس پھر سے پھیل رہا ہے“، ”ہمیں اس کے ساتھ ہی جینا پڑے گا“۔ درحقیقت یہ لاک ڈاؤن نہیں جو ناکام ہوئے ہیں بلکہ وہ غیر سنجیدہ طریقہ کار ہے جس کے ذریعے ان کو بیان اور لاگو کیا گیا، جبکہ حکومتیں اکثر اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لئے عوام کو موردِ الزام ٹھہراتی رہیں۔ عوام سے یہ مطالبہ کرنا کہ گھر رہیں اور اس کے ساتھ ہی مطالبہ کرنا کہ صنعتی اور مینوفیکچرنگ مزدوروں کو کام پر جانا پڑے گا، ویسے ہی کوئی لاک ڈاؤن نہیں ہے۔ اس وجہ سے عوام میں شدید بداعتمادی پھیل چکی ہے۔
اس کے ساتھ ہی یہ سوال بھی موجود ہے کہ قیمت کون ادا کرے گا۔ شراب خانے، ریستوران، ثقافتی ادارے، نائی، جم اور ہر طرح کے چھوٹے کاروباروں کو بند ش کا کہا جا رہا ہے، جس وجہ سے وہ دیوالیہ ہو رہے ہیں جبکہ مزدوروں کو بغیر اجرت اور اکثر کو بغیر نوکریوں کے بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس مرتبہ حکومتیں موسمِ بہار میں پہلے لاک ڈاؤن کی طرح فنانشل امداد نہیں کر رہیں اور اگر کرر ہی ہیں تو بددلی اور دیر سے۔ اس کی واضح وجہ ہے۔ وباء کی پہلی لہر میں حکومتوں نے بے پناہ فنڈنگ کی جس سے عوامی قرضوں اور بجٹ خساروں میں دیو ہیکل اضافہ ہوا۔ VoxEU کی ایک رپورٹ کے مطابق ”یورو زون میں اندازاً قرضوں کا تناسب اوسطاً 15 فیصد سے زیادہ بڑھا ہے جس سے واجب الادا قرضے 100 فیصد (GDP کا۔ مترجم) سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ فرانس میں یہ شرح 20 فیصد اور اٹلی اور اسپین میں 30 فیصد بڑھ جائے گی“۔ کئی ممالک میں مرکز اور علاقائی انتظامیہ کے درمیان اقدامات کو لاگو کرنے پر اختلافات نے مسائل کو اور بھی زیادہ پیچیدہ کر دیاہے۔
احتجاج اور اضطراب
لہٰذا اب ہم کئی ممالک میں مختلف قسم کے احتجاج دیکھ رہے ہیں اور انتہائی دائیں بازو اور دائیں بازو کی اشتعال انگیز تنظیمیں اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کی کوششیں کر رہی ہیں۔ ان احتجاجوں کا دائرہ کار گمنام سازشی تھیوریوں سے لے کر، جن کا تعلق انتہائی دائیں بازو کی تنظیموں سے ہے، متاثرہ شعبوں کے چھوٹے کاروباریوں اور مزدوروں تک ہے جو معاشی امداد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ ان اقدامات سے شراب خانوں، ریستوران، نائی وغیرہ پیٹی بورژوا چھوٹے کاروباری بھی متاثر ہو رہے ہیں جو دائیں بازو کے اشتعال انگیزوں کے لئے ذرخیز مواد ہیں۔ یہ کوئی حادثہ نہیں کہ برطانیہ میں رجعتی اشتعال انگیز نائجل فراج اپنی بریگزٹ پارٹی کا نام تبدیل کر کے لاک ڈاؤن مخالف ’ریفارم یو کے‘ پارٹی رکھ رہا ہے۔ لیکن تمام احتجاجوں کو ایک ہی رنگ میں رنگنا غلطی ہو گی۔
ہم نے میڈرڈ کے جنوب میں دائیں بازو کی علاقائی حکومت کے خلاف محنت کش علاقوں میں غیر موثر علیحدگی کے اقدامات لاگو کرنے اور عوامی صحت کی سہولیات میں کٹوتیوں کے خلاف احتجاج دیکھے۔ اٹلی میں مزدور اور چھوٹے کاروباریوں نے کئی شہروں میں احتجاج کرتے ہوئے واضح نعرہ لگایا ”ہمیں بند کرو گے تو ہمیں تنخواہ بھی دو گے“۔ اور شمالی برطانیہ میں حکومتی فنانشل امداد کے بغیر علاقائی اقدامات کو قبول کروانے میں خاصی دشواری پیش آئی جس کا اظہار مانچیسٹر میئر اور بورس جانسن کے درمیان تلخ کلامی میں ہوا۔
محنت کش طبقے کے نقطۂ نظر سے کورونا وباء سے کیسے لڑا جائے
اب کورونا وباء سے لڑائی اور یورپ میں دوسری لہر کے حوالے سے انقلابی سوشلسٹوں کا کیا موقف ہونا چاہیئے؟ سب سے پہلے ہمیں یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ موجودہ صورتحال وباء کے ارتقاء کا ناگزیر نتیجہ نہیں تھی جس کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا تھا۔ دوسری لہر کا سدِ باب کیا جا سکتا تھا یا کم از کم اس کے اثرات سے بہت حد تک بچا جا سکتا تھا اگر عوامی صحت کے حوالے سے درست فیصلے کئے جاتے۔ اور یہ فیصلے صرف اس لئے نہیں کئے گئے تاکہ سرمایہ داروں کے منافعوں کو ہر صورت یقینی بنایا جا سکے۔
ہمیں پوری دنیا کا جائزہ لینا پڑے گا کہ کون سے اقدامات موثر رہے اور کون سے نہیں۔ موسمِ گرما میں ”سویڈش ماڈل“ پر کافی بحث مباحثہ رہا۔ ریاستی ماہرِ وبائیات اینڈرس ٹیگنیل نے ملک میں اقدامات کا منصوبہ بنایا تھا اور اس نے مئی میں بحث کی تھی کہ اس کی منصوبہ بندی کے مطابق سٹاک ہوم کی 40 فیصد آبادی مئی کے اختتام تک قوتِ مدافعت حاصل کر لے گی جس سے ملک کو بہت زیادہ فائدہ ہو گا۔ لاک ڈاؤن لاگو کرنے والے دوسرے ممالک کے برعکس ”موسمِ خزاں میں ایک دوسری لہر آئے گی۔ سویڈن میں قوتِ مدافعت بہت زیادہ ہو چکی ہو گی اور غالب امکانات ہیں کہ کیس کافی کم ہوں گے“۔
اب موسمِ خزاں شروع ہو چکا ہے اور سویڈن میں ہر آٹھ دن بعد دگنے کیس ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے اس وقت یورپ میں سب سے تیز ترین ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے سویڈن میں ہو رہے ہیں۔ اس لئے اس وقت تمام نارڈک ہمسایوں کے مقابلے میں پہلی لہر میں سویڈن میں شرح اموات سب سے زیادہ تھی اور اب دوسری لہر کو بھی روکا نہیں جا سکا۔
درحقیقت نام نہاد ”ہرڈ امیونٹی“ کی تھیوری عمل میں رد ہو چکی ہے۔ حال ہی میں دی اکانومسٹ نے شمالی اٹلی کے اعدادوشمار کا حوالہ دیا جن سے لگتا تھا کہ پہلی لہر میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والی میونسپیلٹیوں میں پھیلاؤ زیادہ سُست ہے جس سے لگ رہا ہے کہ عوام میں ایک حد تک قوتِ مدافعت پیدا ہو چکی ہے۔ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں تقریباً 24 فیصد عوام میں قوتِ مدافعت موجود ہے۔ ان اعدادوشمار کے حوالے سے دی اکانومسٹ کی گرمجوشی کے باوجود تصویر وہ نہیں ہے جو وہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور یہ کوئی ایسے اعدادوشمار نہیں جن کی بنیاد پر کوئی پالیسی مرتب کی جائے۔ پہلی بات تو یہ کہ ہو سکتا ہے سب سے زیادہ متاثرہ میونسپلیٹیوں میں وباء کی دوسری لہر اس لئے سست روی سے پھیل رہی ہے کیونکہ ان علاقوں میں عوام نے اپنے رشتہ داروں، دوستوں اور ہمسائیوں کو بڑی تعداد میں مرتے دیکھا ہے اور وہ سماجی تفاصل پر زیادہ سختی سے کاربند ہیں۔ دوسرا یہ کہ برگامو کی صورت حال سے آپ حکمت عملی کے کیا نتائج حاصل کرنا چاہ رہے ہیں؟ کہ آپ لوگوں کو بیمار ہو کر بڑی تعداد میں مرنے دیں تاکہ ایک دوسری لہر میں وائرس کا پھیلاؤ سُست وہ سکے؟ یہ پاگل پن ہے۔
وبائیات اور عوامی صحت کے حوالے سے جائز بحث مباحثہ کیا جا سکتا ہے کہ سب سے بہترین لائحہ عمل کیا ہو لیکن حقیقت میں حکومتوں اور سیاست دانوں کی بھاری اکثریت ”ہرڈ امیونٹی“ کی سوچ کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ سرمایہ داروں کے منافعوں کا تحفظ کیا جائے چاہے ساری دنیاجہنم بن جائے۔ درحقیقت جن حکومتوں نے آغاز میں ہی سخت اقدامات کرتے ہوئے لاک ڈاؤن کئے اور وباء کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی، اس کی بنیاد بھی منافعے ہی تھے۔ انہوں نے اندازہ لگایا کہ اگر وہ وباء کو فوری طور پر قابو میں کر لیں گے تو انہیں معاشی سرگرمیوں کو دوبارہ شروع کرنے میں دیگر ممالک پر سبقت حاصل ہو گی۔ یہ IMF کا نکتہ نظر ہے جس نے اپنی پچھلے ماہ کی رپورٹ ”ورلڈ اکنامک آؤٹ لُک“ میں تجویز دی ہے کہ تیز تر اور سخت ترین اقدامات کے ذریعے وباء کو کنٹرول کیا جائے۔
چین، نیوزی لینڈ، تائیوان، جنوبی کوریا وغیرہ جیسے ممالک نے کم و بیش عوامی لاک ڈاؤن، بے تحاشہ ٹیسٹنگ اور انتہائی موثر ٹیسٹ اور ٹریکنگ نظام منظم کئے۔ اکتوبر میں چینی شہر چنگ داؤ کے ایک ہسپتال میں 12 نئے کیس سامنے آئے جو بیرونِ ملک سے آئے تھے۔ انہوں نے پانچ دنوں میں پورے شہر کی 90 لاکھ آبادی کی ٹیسٹنگ کا فیصلہ کیا۔ جنوبی کوریا کا ٹیسٹ اور ٹریسنگ نظام انتہائی موثر ہے۔ ان ممالک نے سخت اقدامات کئے ہوئے ہیں کہ بیرونِ ملک سے آنے والے ہر فرد کی ٹیسٹنگ ہو گی اور جس کی تشخیص ہو گئی اسے مخصوص ہسپتالوں یا ہوٹلوں میں قرنطینہ کر دیا جائے گا۔ وسیع تر ٹیسٹنگ کو اب سلواکیہ میں بھی موثر طریقے سے استعمال کیا جا رہا ہے جہاں پوری بالغ آبادی کو ہفتے کے آخری دنوں میں دو بار ٹیسٹ کیے گئے۔ اس قسم کے اقدامات کے ذریعے ہی وباء کو پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔
بے شک چین ایک سرمایہ دار ملک ہے اور اس پر ایک مطلق العنان حکومت قابض ہے۔ تیز تر اور موثر منصوبہ بندی (آغاز میں وباء کی پردہ پوشی کرنے کی کوششوں کے بعد) کی ایک وجہ یہ ہے کہ حکمران پارٹی کا اقتدار میں قائم رہنے کا ایک بڑی حد تک دارومداراس بات پر ہے کہ عوام اسے فعال اور معاشی بڑھوتری اور صحتِ عامہ کی ضامن کے طور پر دیکھے۔ اس حقیقت کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ چینی معیشت میں ریاست کی دیو ہیکل مداخلت (ایک وجہ ماضی کی منصوبہ بند معیشت ہے) اسے وسائل کو زیادہ بہتر انداز میں بروئے کار لانے کی آزادی فراہم کرتی ہے۔
یہ برطانیہ اور یورپ میں موجودہ سرمایہ داری کی برباد حالت پر کڑی تنقید ہے جہاں اس قسم کے اقدامات نہیں کئے گئے یا پھر تاخیر سے کئے گئے۔ دوسری عالمی جنگ کے وقت ملکی سطح پر ایمرجنسی لگائی گئی تھی، اس وقت برطانیہ اور امریکہ کے حکمران طبقات نے معیشت میں ریاستی مداخلت کے حوالے سے کئی اقدامات کئے تھے اور نجی ملکیت کے حقوق کو نظر انداز کرتے ہوئے پیداوار کو جنگ لڑنے کے لئے منظم کیا تھا۔ حتمی تجزیئے میں بحرانی حالات میں ”آزاد منڈی“ کا انتشار پوری دنیا کے سامنے ننگا ہو جاتا ہے۔
اس لئے انقلابی سوشلسٹوں کا پروگرام واضح ہے:
1۔ ایک ذمہ دار اور مالی معاونت سے بھرپور ریاستی ٹیسٹ اور ٹریکنگ سسٹم کا قیام۔ ایسے اقدامات کئے جائیں کہ مثبت افراد کو علیحدہ کیا جا سکے جس کا مطلب مکمل اجرت کے ساتھ ان افراد کو مناسب رہائش فراہم کرنا جن کی موجودہ گنجان آباد رہائش انہیں علیحدہ ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ کام خالی ہوٹلوں، گھروں اور فلیٹس کو قومی تحویل میں لے کر کیا جا سکتا ہے۔
2۔ اگر وباء وسیع و عریض عوامی منتقلی کے ساتھ بے قابو ہو جاتی ہے تو لاک ڈاؤن کرنا ناگزیر ہے۔ مگر ہر لاک ڈاؤن کو حقیقی معنی میں لاک ڈاؤن بنانا پڑے گا۔ صرف معیشت میں اُن سیکٹر کے مزدوروں کو کام کرنے کی اجازت ہو گی جو براہِ راست زندگی کی دیکھ بھال اور صحت سے منسلک ہوں گے۔ باقی سب کو پوری تنخواہ کے ساتھ چھٹی دے دی جائے۔ اگر معیشت کے اہم سیکٹر سے منسلک نہیں ہیں تو مینوفیکچرنگ اور تعمیرات کو بند کر دینا چاہیئے۔ جن سیکٹرز کو کھلا رکھا جائے ان کی برسرِ روزگار مزدور ہیلتھ اینڈ سیفٹی کمیٹیوں کے تحت نگرانی کی جائے اور ان کے پاس پیداوار کو از سرِ نو منظم کرنے اور روکنے کا اختیار حاصل ہو۔ لوگوں کو گھروں میں بند کرنا ضروری نہیں ہے لیکن مختلف خاندانوں کے آپس میں میل ملاپ کو کم سے کم کرنا چاہیئے۔
3۔ جن چھوٹے کاروباروں کو بند کیا جائے انہیں کرایہ، ٹیکس چھوٹ اور مالی امداد فراہم کی جانی چاہیئے۔ بڑی کمپنیوں کو کسی قسم کی امداد نہیں دینی چاہیئے بلکہ انہیں اپنے ذخیرہ کردہ منافعوں پر انحصار کرنا چاہیئے۔ اگر کسی بھی بڑی کمپنی کو ریاستی مدد کی ضرورت ہے تو اسے بغیر معاوضے کے قومی تحویل میں لے لینا چاہیئے۔
4۔ وسیع تر عوامی ٹیسٹنگ کے ذریعے وباء کے پھیلاؤ کو کنٹرول کرنا چاہیئے۔
5۔ اگر سکولوں اور یونیورسٹیوں کو کھلا رکھنا ہے تو کلاسوں کا حجم چھوٹا کیا جائے، نئے اساتذہ بھرتی کئے جائیں اور درکار عمارتوں کو قومی تحویل میں لیا جائے۔ اگر کسی سکول میں وباء کی تشخیص ہوتی ہے تو گروہ میں موجود تمام بچوں اور اسٹاف کی خاندانوں سمیت 24 گھنٹوں کے اندر ٹیسٹنگ ہو جانی چاہیئے۔
6۔ خاندانوں کوبے گھر کرنے، رہائش پر قبضے کرنے، کرایوں اور بلوں کی ادائیگی پر ہر صورت پابندی ہونی چاہیئے۔ تمام اخراجات بڑی توانائی کمپنیاں اور پراپرٹی مالکان برداشت کریں۔
7۔ ہم صحتِ عامہ کے شعبے میں دیو ہیکل سرمایہ کاری کا پروگرام متعارف کرانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
اب جبکہ نظر آ رہا ہے کہ وائرس کش ویکسین جلد متعارف ہو جائے گی تو اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ یہ ایک مرتبہ پھر سرمایہ داروں کے لئے منافع خوری کا ذریعہ نہ بن جائے۔ بڑی دواساز کمپنیوں کو بغیر معاوضے کے قومی تحویل میں لیتے ہوئے ان پر مزدوروں کا جمہوری کنٹرول قائم کیا جائے تاکہ عوام کی عمومی ضرورتوں کو پورا کیا جا سکے۔ ان کمپنیوں کا کنٹرول نجی ملکیت میں قائم نہیں رہنے دیا جا سکتا جس کا مقصد ہی منافعوں اور اپنے سرمایہ کاروں کے مفادات کا تحفظ ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کی پیداوار کی زیادہ تر تحقیقی بنیاد پہلے ہی ریاستی اداروں کی فنڈنگ ہے۔ ویکسین کی تقسیم کاری کی بنیاد خریدنے کی اہلیت کے بجائے ضرورت ہونی چاہیئے۔ دواساز کمپنیوں کو قومی تحویل میں لینے سے ویکسین ڈوز کے لئے تھر تھلی مچنے کے بجائے، جس میں یقینی طور پر ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک کو برتری حاصل ہو گی، پوری دنیا میں ویکسین کی ترسیل یقینی بنائی جا سکتی ہے۔
اس طرح کا پروگرام نہ صرف وباء کو کنٹرول کرتے ہوئے کورونا وائرس کو ختم کرنے کے سفر کا آغاز کر سکتا ہے بلکہ عوام کو بھی یقین دہانی کرائی جا سکتی ہے کہ جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ موثرر ہیں اور نہ صرف ان کی زندگیوں بلکہ ان کے روزگار کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے کئے جا رہے ہیں۔ ایسے پروگرام کے ذریعے پیٹی بورژوازی کی پرتوں کو بھی محنت کش طبقے کی حمایت میں جیتا جا سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ ایسے پروگرام کے حوالے سے فوری طور پر پہلا سوال یہ اٹھے گا کہ قیمت کون ادا کرے گا؟ یہ تو سادہ سا معاملہ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ سرمایہ دار اس کی قیمت ادا کریں۔ سوئس بینک یو بی ایس کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے ارب پتیوں کی کل دولت جولائی 2020ء میں 10.2 ٹریلین ڈالر (7.8 ٹریلین پاؤنڈ) تک جا پہنچی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ ”ایک نئی بلند تر سطح ہے جو 2017ء میں 8.9 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے“۔ ارب پتیوں میں شعبہ صحت سے منسلک ارب پتیوں کی کل دولت 50.3 فیصد بڑھ کر 658.6 بلین ڈالر ہو چکی ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ وباء کا مقابلہ کرنے کے لئے درکار رقم موجود نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ دولت مٹھی بھر افراد میں مرتکز ہو چکی ہے جبکہ پوری دولت کو پیدا کرنے والی اکثریت، محنت کش طبقہ، اپنی بقاء کی جنگ لڑنے پر مجبور ہے۔ اگر ہر ملک کی سب سے بڑی 250 کمپنیوں کو مزدوروں کی اجتماعی ملکیت میں لے لیا جائے تو ہم نہ صرف کورونا وباء کے خلاف لڑ سکتے ہیں بلکہ پوری دنیا کی عوام کو اچھا روزگار، رہائش اورمعیارِ زندگی فراہم کر سکتے ہیں۔
وائرس سے لڑنے کے لئے سرمایہ داری کو ختم کر ڈالو!