تحریر: |جارج مارٹن|
ترجمہ: |اسد پتافی|
پچھلے مہینے یورپ اورترکی کے مابین ایک معاہدے پر عملدرآمد شروع کیا گیا۔اس کے تحت یونان کے ساحلوں کو موجود مہاجرین سے صاف کر دیا گیا امدادی تنظیموں اور ان کے کارکنوں کو علاقے سے نکال دیاگیا۔مہاجرین کو کیمپوں میں محصور کر دیا گیا جن کو بعد میں ترکی کی میں جبراََ منتقل کر دیا جائے گا۔یہ ایک انتہائی شرمناک معاہد ہ ہی نہیں بلکہ عالمی قوانین کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی بھی ہے۔یہ معاہدہ یورپ کے سرمایہ دارانہ اور نسل پرستانہ طرز عمل کو عیاں کرتاہے۔ایک ایسے وقت اور کیفیت میں کہ جب مشرق وسطیٰ کا بحران انتہائی شدید ہوچکاہے،اس نوعیت کے رجعتی اقدامات سے مہاجرین کا سیلاب کسی طور نہیں رکے گا۔
اس معاہدہ کا اعلان یورپی یونین نے اپنے ایک اعلامیے میں کیا ہے، جس کی تفصیلات چھپائی جا رہی ہیں۔اعلامیے میں اس کے کچھ اہم نکات بیان کیے گئے ہیں ، جس کے مطابق یورپ ، ترکی کو2018ء تک دو اقساط میں چھ بلین یوروز کی ادائیگی کرے گا اور 20مارچ 2016ء سے ترکی کے راستے یونانی علاقوں میں آجانے والے ’’بے قاعدہ‘‘ مہاجروں کودوبارہ ترکی بھیج دیا جائے گا۔چند یورپی ممالک کے احتجاج کے پیش نظراعلامیے میں قراردیا گیاہے کہ یونانی جزائر پر پہنچنے والے مہاجرین کو باقاعدہ طور پر رجسٹر کیا جائے گا۔جبکہ سیاسی پناہ کی حامل درخواستوں کو انفرادی طور پرنمٹایا جائے گا۔اس طرح کوئی اجتماعی بے دخلی نہیں ہوگی۔ یہ سراسر قانونی موشگافی اور دھوکہ بازی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس معاہدے اوراقدام سے عالمی قوانین کی واضح نفی کی گئی ہے۔
اس پر سب سے زیادہ نکتہ چینی سپین کی رجوئے حکومت کی طرف سے سامنے آئی ہے۔ جس نے خود بھی سیوٹا اور ملیلا کی سرحدوں پر ہزاروں بے گھر مہاجروں کو بے دخل کیا ہے۔رجوئے کی اس معاہدے پر نکتہ چینی درحقیقت سپین کے عوام میں پیدا ہونے والے غم و غصے کو قابو میں رکھنے اورروکنے کیلئے تھی، جو اپنی حکومت کے بے گھر مہاجرین کے ساتھ سلوک پر سخت اضطراب میں تھے اور اس نئے معاہدے نے ان میں اشتعال اور غم و غصے کو بھڑکا دیا ہے۔یورپ کیلئے ’’غیر قانونی‘‘ مہاجرین کو جبراََ بیدخل کرتے ہوئے ان کے اپنے’’محفوظ‘‘ ملکوں کی طرف بھیجنا اب ایک معمول بن چکاہے جو پچھلے کئی سالوں سے جاری ہے۔
مہاجرین کی بیدخلی کے اس نئے معاہدے کے بدلے میں ترکی کو اپنے شہریوں کیلئے جولائی 2016ء سے یورپ کیلئے ویزے کے معاملے میں کچھ رعایتیں دینے اور اس کے ساتھ ہی ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کے مسئلے پر از سرنوہمدردانہ غور کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
معاہدے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ ’’یونانی جزائر سے ترکی کی طرف جو ایک شامی مہاجر بھی واپس بھیجا جائے گا، اس کے بدلے میں ایک اور شامی شہری کو یورپ میں آباد کرادیا جائے گا۔‘‘اس کیلئے زیادہ سے زیادہ 72ہزار افرادکی حد مقرر کی گئی ہے۔اس قسم کے وعدوں اور ایسی یقین دہانیوں پرکسی سطح پرعملدرآمد ہونا مشکل امر ہے۔یورپی یونین کے مہاجرین بارے معاہدوں کی حالیہ پچھلی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ یورپی یونین کے معزز ارکان وعدوں میں جتنے بیتاب ہوتے ، عملدرآمد میں اتنے ہی بیزارہوتے ہیں۔
ہر کسی کو گزشتہ موسم گرما میں یورپی یونین کی جانب سے طے ہونے والانقل مکانی کا معاہدہ یاد ہے جب ’’پناہ گزینوں کا بحران‘‘ عروج پر تھا۔پناہ گزینوں کے لیے مختص اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کے مطابقُ ’’اُس وقت یورپی ممالک نے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کے نقل مکانی کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس میں سے 66,400 یونان سے اور39,600 اٹلی میں سے تھے۔21 مارچ 2016 ء کی تاریخ تک اس پروگرام کے تحت بائیس ممالک نے صرف 7015 پناہ گزینوں کے لیے جگہ مہیا کی ہے اور کل 953 پناہ گزینوں کوحقیقت میں جگہ دی گئی ہے جس میں 384 کو اٹلی میں اور 569 یونان میں ہیں ۔‘‘ہم ایک بار پھر دہرا رہے ہیں کہ جہاں ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو جگہ مہیا کی جانی تھی وہاں پر محض سات ہزار جگہیں مہیا کی گئی ہیں اور حقیقت میں بس 950 افراد کو پناہ دی گئی ہے!! اور یورپی یونین کے کسی بھی ملک کو کوئی سروکار ہی نہیں ہے!
اس کے علاوہ معاہدے کے اطلاق کے پہلے دو دنوں نے ہی واضح کر دیاہے کہ حقیقت میں اس معنی کیا ہیں یعنی جب یورپی یونین کی سربراہی میں تیار ہونے والی کاغذی کاروائی ایک باریونان کے جزیرے کی تلخ حقیقت سے جا ملتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔مارچ میں اتوار کے دن لیسوس سے بیس پناہ گزینوں کو جبراً منتقل کیا گیا، کوئی نہیں جانتا تھا کہ انہیں کہاں بھیجا جا رہا ہے۔امدادی ایجنسیوں اور پناہ گزینوں سے یکجہتی کے لیے موجود رضاکاروں کو موریاکیمپ سے ہٹا دیا گیا جو کہ اب ’’ بندحراست گاہ ‘‘ دوسرے لفظوں میں ایک جیل کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
24مارچ 2016ء کو موریاکے پناہ گزین کیمپ سے جاویر ٹریانا،نامی لڑکی نے ٹویٹ کیا ’’ آزادی ! آزادی!‘‘
اب اس مقام پر امدادی ایجنسیوں نے اس نئی حکومتی طرز کے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کر دیا ہے۔’’سرحدوں سے ماورا ڈاکٹرز‘‘ نامی تنظیم نے اپنے سخت الفاظ پر مشتمل بیان میں کہا ہے کہ ’’ہم نے موریا کیمپ میں کام نہ کرنے کاایک سخت فیصلہ لیا ہے کیونکہ کام جاری رکھنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم وہاں کے حالات سے سمجھوتا کر رہے ہیں جو کہ ہمارے نزدیک سراسر غلط اور غیر انسانی ہیں۔ہم اپنی مدد کو بڑے انخلا کا اوزار نہیں بننے دیں گے اور ہم ایسے نظام کا حصہ بننے سے انکار کرتے ہیں جس کے نزدیک انسانیت اور تحفظ کے طلبگار مہاجرین اور پناہ گزینوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔‘‘
یہی صورتحال اقوام متحدہ کے پناہ گزین ہائی کمیشن ادارے کی بھی ہے جو کہتا ہے کہ ’’یہ علاقے اب حراست گاہوں میں بدل چکے ہیں،حراست کی ہر صورت مخالفت کرنے کی ہماری پالیسی کے تحت ان جزیروں پربند کیے گئے مراکز پر ہم نے اپنی کچھ امدادی کاروائیاں معطل کر دی ہیں۔‘‘
یہ ایک قابل مذمت اصولی موقف ہے، لیکن اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ لیسوس کے ساحلوں سے پہنچنے والے پناہ گزین، جن میں سے زیادہ تر ہائیپو تھرمیا یعنی خطرناک حد تک گھٹتے ہوئے جسمانی درجہ حرارت کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں،کہیں اور نہیں جا سکتے،کیونکہ امدادی اداروں نے انہیں موریاکیمپ بھیجنا بند کردیا ہے جو اب جیل کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
کیوص جزیرے پر پہنچنے والے سینکڑوں نئے مہاجروں کوویال نامی حراست گاہ میں داخل کیا گیا جہاں ضرورت کے مطابق خوراک ہے اور نہ پانی،جہاں انہیں ڈربوں میں گتے بچھا کر سلایا جاتا ہے اور جہاں وہ فون سم تک نہیں خرید سکتے کہ جس سے وہ اپنے خاندان اوردوستوں سے کوئی رابطہ کر پائیں۔نہ صرف انہیں قید کیا گیا ہے بلکہ انہیں تنہا کردیا گیا ہے۔ بینجمن جولیان کی ایک ویڈیو ان لوگوں کے جذبات کو آواز مہیا کرتی ہے۔(اس کے علاوہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر آنے والی رپورٹس ایسی ہیں کہ جنہیں پڑھ کر خون کھول اٹھتا ہے۔ )
اور سب سے بھیانک بات یہ ہے کہ حراست گاہوں کے تحفظ پر معمور پولیس کو یہ علم ہی نہیں ہے کہ پناہ گزینوں کو کیسے سنبھالا جائے۔ نہ ہی انہیں مترجم یا وکیلوں جیسی کوئی سہولت مہیا کی جارہی ہے۔معاہدہ میں درج ہے کہ ’’ تمام مہاجرین کو متعلقہ عالمی پیمانے کے مطابق ہی تحفظ فراہم کیا جائے گا اورعالمی قانون ’’Non-Refoulement‘‘ کی رو سے ہی کاروائی کی جائے گی۔‘‘لیکن حقیقت بہت ہی تلخ ہے۔ یورپی یونین کا معاہدہ مزید یہ کہتا ہے کہ ’’ یہ ایک عارضی لیکن اہم اقدام ہے جو کہ انسانی دکھوں کے خاتمے اور نظم و ضبط بحال کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘اتنی منافقت تشویش آمیز ہے، کیونکہ انہیں صرف اور صرف ’’نظم و ضبط‘‘ کی فکر ہے، انسانی دکھوں کی نہیں!اور آپ جانتے ہیں جب سرمایہ دار یورپی یونین نظم و ضبط کی بات کیا کرتا ہے تو اس کا مطلب کانٹے دار تاریں، آنسو گیس، برقی باڑیں،غیر انسانی حراست گاہیں اور مسلح ساحلی محافظ ہوتے ہیں۔
یہ بالکل واضح بات ہے کہ یونان جیسا ملک جو پچھلے سات سال سے گہرے معاشی بحران میں دھنسا ہوا ہے،جس کے عوامی خدمات کے اخراجات پر ٹرائیکا جیسے خون پینے والے وحشی درندے حملہ آور ہوں (اگر ہم مان بھی لیں کہ یہ ایک انسانی طرز ہے)تووہ ملک ایسی صورتحال میں کچھ بھی نہیں کر سکتا ،جس کے پاس روزانہ کی بنیاد پر آنے والے ہزاروں مہاجرین کو انفرادی طور پر سہولیات مہیا کرنے کے ذرائع ہی موجود نہیں ہیں۔ در حقیقت یورپی یونین اپنی کمزور ترین کڑی پرجو یہ پنا ہ گزینوں کے بحران کا بوجھ ڈال رہا ہے،یہ وہ آخری تنکا ثابت ہوگا جو یونان کے قرضوں کے بحران کودیوالیہ ہونے کی طرف لے جائے گا۔ کچھ یورپی سیاستدان تو کہہ رہے ہیں کہ معاہدے کی شرائط پر عمل در آمد کرنے کی خاطر یونان کو دی جانے والی رقم کو قرضوں کی دوبارہ ادائیگی کی مد میں کاٹ لینا چاہیے جو کہ زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے!
ہمیں یادد رکھنا چاہیے کہ یہ سب مرد،عورتیں اور بچے انسان ہیں،جن میں بزرگ اور چھوٹے بچے بھی ہیں،ان میں کئی بیمار اور زخمی ہیں،جنہوں نے ترکی اور یونان کے بیچ موجود وسیع سمندر کو ایسی کشتیوں میں پار کرنے کا خطرہ مول لیا جو بمشکل ہی تیر سکتی تھیں۔یہ لوگ جنگ، دہشت گردی اور تشدد سے اپنی جان بچانے کی خاطر بھاگ رہے ہیں۔مہاجرین کے دوسرے ریلے میں زیادہ تر لوگ ایسے ہیں جو جرمنی، سویڈن اور دیگر ممالک میں پہلے سے منتقل ہوچکے اپنے رشتہ داروں سے دوبارہ جڑنے کی کوششوں میں ہیں۔ اب وہ یورپ پہنچ چکے ہیں اور تحفظ ملنے کی امیدمیں ہیں۔اس کی بجائے انہیں حراست گاہیں اور جبری بے دخلیاں مل رہی ہیں۔ یورپی یونین جب ’’انسانی عذابوں کو ختم‘‘ کرنے کی بات کرتا ہے تو اس کا یہی مطلب ہوتا ہے۔
اس معاہدے کا سب سے بیہودہ پہلو وہاں سامنے آتا ہے کہ جب یہ ترکی کو ’’تیسرا محفوظ ملک ‘‘ گردانتا ہے جہاں مہاجرین کو جبراََمنتقل کیاجا سکتا ہے۔یہ وہ ملک ہے جس کا ماضی انسانی حقوق اور اظہارِ رائے کی پامالی کا تسلسل ہے،کہ جہاں مہاجرین کو انتہائی غیر انسانی حالات میں کیمپوں میں رکھا جاتا ہے۔ ترکی میں انسانی حقوق کی فاؤنڈیشن کی ایک حالیہ رپورٹ ہی مثال کے لیے کافی ہے جو بتا تی ہے کہ کس طرح اگست 2015ء سے مارچ2016ء کے بیچ ایک لاکھ ساٹھ ہزار آبادی پر مشتمل کُرد علاقوں میں حکومت کی جانب سے لگائے گئے کرفیو کی بھگدڑ میں دو سو سے زائد عام شہری مارے گئے ہیں۔یہ وہ ملک ہے جس کے ساحلی محافظوں کی مہاجرین سے بھری کشتیوں پر حملے کرنے کی ویڈیوز موجود ہیں۔ یقیناًوہ یہ سب کچھ یورپی یونین کے احکامات پر ہی کرتے ہیں۔یونان کے ساحلی محافظ بھی پہلے ہی یہ سب کچھ کر چکے ہیں اور تو اور نیٹو نے بھی یہی سب کرنے کے لیے اپنے جنگی بیڑے ترکی اور یونان کے بیچ موجودایجین سمندر پر بھیجے تھے۔
یقیناًاس سب سے یورپی یونین میں شامل حکومتوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ترکی مہاجرین لینے کے بدلے میں پیسے جو لے رہا ہے۔یہ وہی یورپی یونین ہی توہے جس نے لیبیا میں قذافی کو پیسے دئیے تھے تاکہ وہ سب صحارن مہاجرین کو حراست گاہوں میں ہی رکھے۔ در حقیقت یورپی یونین اپنے ہمسایہ مطلق العنان حکومتوں سے سرحدوں پر تعاون کرنے کے معاہدے کر رہا ہے۔مہاجرین کو اجناس کی طرح منڈیوں میں خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔
اسی دوران 12 ہزار مہاجرین جن میں آدھے بچے شامل ہیں مقدونیا کی سرحد پر واقع ایڈومنی ’’کیمپ ‘‘ میں پھنسے ہوئے ہیں، جسے اب بند کیا جا رہا ہے، جس کی سرحدی باڑ کے گرد فوجی جتھے گردش کر رہے ہیں۔ شدید بارشوں کے بعد ہزاروں لوگ کیچڑ کے تالاب میں دھنسے خطرناک ٹینٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں، تین مہاجر وں نے سرحد کے قریب محفوظ مقام پر پہنچنے کی جستجو میں دریا پار کرنے کی کوشش میں اپنی جان گنوا دی۔
یونان کے وزیر صحت اینڈریاس سانتھوز نے کہا ہے کہ ’’یہاں کی صورتحال انسانیت کے بحران کی وضاحت کرتی دکھائی دیتی ہے۔‘‘وہاں موجودایم ایس ایف کی نمائندہ اسپاسیا کاکری کا کہنا ہے کہ’’ امدادی اداروں کو بھی یہاں سے ہٹا دیا گیا ہے، کچھ کو اس شرمناک معاہدے کو رد کرنے کی وجہ سے اور کچھ کو خود ان کے اپنے سٹاف کے تحفظ کی پیشِ نظر ہٹایا گیا ہے کیونکہ مہاجرین میں اشیا کی قلت کی وجہ سے ہونے والے جھگڑے بڑھتے جا رہے ہیں۔’’یہاں ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں یہاں رہتے ہوئے ایک مہینے سے اوپر ہوچکا ہے اور یہ اب یہاں کے حالات سے عاجز آ چکے ہیں،طبی ضروریات بہت زیادہ ہیں۔‘‘یونان میں موجود اس سمیت دیگر کیمپوں میں پہلے ہی احتجاج بھی ہو چکے ہیں اور حالات انتہائی غیر یقینی ہیں۔
یہ شرمناک معاہدہ جلد یا بدیر ٹوٹ جانا ہے۔وہ لوگ جو جنگ سے بچنے کی شدیدخواہش میں بھاگ رہے ہیں،جبراً بے دخل ہونے کے خوف سے نہیں رکیں گے۔ وہ نئے راستے تلاش کریں گے جو یقیناًزیادہ خطرناک ہوں گے۔ ’’سمگلنگ کرنے والے لوگ ‘‘تباہ ہونے کے برعکس اس سے خوب منافع کمائیں گے۔
ہجرت کرنے والوں میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق شام ،عراق اور افغانستان سے ہے۔ان سب ممالک میں ہونے والی خانہ جنگیوں کا ذمہ دار مغربی سامراج ہی ہے۔ سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں لوگ اپنے ممالک سے بھاگ رہے ہیں اوران کی اکثریت لبنان، ترکی اور دیگر ہمسایہ ممالک کے مہاجر ین کیمپوں میں پناہ گزین ہو رہی ہے۔یہ انجیلا مرکل ہی تھی جس نے گزشتہ گرمیوں میں کہا تھا کہ ہم شام سے آنے والے تمام مہاجرین کوجرمنی میں خوش آمدید کہیں گے اور یقیناًلاکھوں لوگ آئے بھی۔یہ شینگن معاہدے کے تابوت کا آخری کیل تھا،پناہ طلب کرنے والوں کے لیے ،یورپ میں مہاجرین کی آزادانہ نقل و حمل کے لیے ڈبلین کے یہ آخری احکامات تھے،پھر ایک کے بعد دوسرے ملک نے مہاجرین کواپنے ملک کی سرحد پار کرنے سے روکنے کے لیے اقدامات اٹھانا شروع کر دئیے تھے۔ یورپین پالیسی اس حوالے سے انتشار کا شکار ہے کیونکہ مختلف سرمایہ دار حکومتیں آپس میں لڑ رہی ہیں کہ کون اس کا معاشی اور سیاسی ہرجانہ ادا کرے گا۔انتہائی دائیں بازو کی پارٹیAfDکی مہاجرین مخالفت تلوار کی وجہ سے مرکل کچھ سکھ کا سانس لے رہی ہے اور اب مرکل کو ’’مہاجرین کے حوالے سے سخت ‘‘ ہونا پڑے گا۔ یہ کوئی اتفاق کی بات نہیں ہے کہ مرکل کوجرمنی میںآنے والے علاقائی الیکشنز سے پہلے ہی ترکی سے معاہدہ کرنے کی جلدی تھی۔ آخر میں اس سے فرق تو کوئی نہیں پڑا لیکن اس سے بورژوا سیاست دانوں کے مکروہ حساب کتاب کا پتہ چلتا ہے جن کے لیے انسانی تکالیف محض چھوٹی موٹی تبدیلیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں۔
یہ رد عمل یورپ کے عام انسانوں کے درعمل سے بالکل متضاد ہے۔ خود یونان کے اندر بھی بہت بڑی تعداد میں لوگ مہاجرین کی یکجہتی میں امڈ آئے۔ایک حالیہ سروے کے مطابق 85 فیصد افراد نے کہا ہے کہ مہاجرین کی مدد کرنی چاہئے اور 55 فیصد کا کہنا تھا کہ انہوں نے مہاجرین کی مدد کے لیے ذاتی طور پر پیسے دئیے ہیں۔یونان کے مزدوروں نے تنخواہوں، پنشنوں وغیرہ میں30سے40فیصد کمی کی صورت میں معیار زندگی میں شدید کٹوتیوں کا سامنا کیا ہے جو کہ وحشی ٹرائیکا کی لاگو کردہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔اس کے باوجود بھی وہ اپنے انسانی بھائیوں اور ساتھیوں کی مدداور ان سے یکجہتی کر رہے ہیں۔ایڈومنی کیمپ کے پاس رہنے والے ایک بوڑھے پنشنر جوڑے نے اپنی صلاحیت سے بڑھ کر سرحد پار کرنے والے مہاجرین کے لیے صاف پانی اور دھلائی کی سہولیات مہیا کی ہیں۔یہ سب یورپی یونین کے بوسیدہ سرمایہ دارسیاست دانوں سے کتنا متضاد ہے!
در حقیقت ’’مہاجرین کا بحران ‘‘ صرف سرمایہ داروں کے نقطہ نظر سے ہی مسئلہ ہے۔یقیناایک ایسے وقت میں جب سرمایہ داری بحران کا شکار ہے اور ہر ملک میں حکومتیں کٹوتیوں کی سخت پالیسیاں نافذ کر رہی ہیں تاکہ مزدورطبقہ اس بحران کی قیمت ادا کر ے،ایسے وقت میں یہ سوچناخام خیالی ہی ہے کہ سرمایہ دار دل کھول کر سینکڑوں انسانوں کی رہائش،خوراک اور کپڑوں کا اہتمام کرنے پر خرچ کریں گے۔اس کے برعکس وہ سرحدوں پر باڑ لگانے، ساحلوں کی حفاظت،تیسرے ملک کے ساتھ سرحدی معاہدے کرنے پر لاکھوں ڈالر خرچ کرنے کو تیار ہو جائیں گے اور اس کے ساتھ ساتھ عوامی خدمات کے شعبے میں ریاستی اخراجات میں بڑی، بے رحمانہ اور تباہ کن کٹوتیاں کر کے اس کا الزام ’’غیر قانونی مہاجرین‘‘ پر لگاتے ہوئے سیاسی سرمایہ بھی بنائیں گے۔
مہاجرین کی یکجہتی کے لیے پہلے سے موجود وسیع یورپی مہم کو امداد کے عملی تقاضوں سے آگے جانا ہو گا اور مضبوط سیاسی تحریک کے طور پر مسئلے کی جڑ کو للکارنا ہوگا،سامراجی جنگوں، سامراجی لوٹ کھسوٹ کی مخالفت کرنا ہوگی کہ جس کی تباہ کاریوں کی وجہ سے مہاجرین ان ممالک سے بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ نشاندہی بھی کرنی ہوگی کہ سماج میں اتنے وسائل موجود ہیں جن سے مہاجرین کی ضروریات پوری کی جا سکتی ہیں اور یہ وسائل خود بینکوں اور بڑی کارپوریشنز کے بینک اکاؤنٹس سے حاصل کئے جا سکتے ہیں۔
پوری قوت سے یورپی یونین اور ترکی کے مابین ہونے والے اس شرمناک معاہدے کی مخالفت کی جانی چاہیے۔ اگر کسی کو بھی یورپی یونین کے بنیادی معمے(امن، بھائی چارہ،یکجہتی، لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت) سے کوئی امیدرہ گئی ہے تویہ معاہدہ اس امید کو دور کر دے گا۔یورپی یونین ہمیشہ سے سرمایہ داروں کا کلب تھا اور ہے، ایک ایسا کلب جسے سرمایہ داروں اور بینکاروں کے مفادات کے تحت چلایا جاتا ہے اور جس پر سب سے طاقتور حکمرانی کرتے ہیں۔ اس معاہدے نے پول کھول دیا ہے کہ مہاجرین کے لیے عملاً اس کے کیا معنی ہیں۔
مہاجرین کو خوش آمدید! مالکان اس کا خرچہ اٹھائیں!
سامراجی جنگ اور لوٹ کھسوٹ ، مردہ باد!
تعفن زدہ سرمایہ دار یورپی یونین، مردہ باد!
سرمایہ داری مردہ باد! جو ہر جنگ اور کروڑوں انسانوں کی اذیت کی بنیادی جڑ ہے۔