تحریر: |فرانسسکو مرلی|
ترجمہ: |انعم خان|
ترکی نے پہلی مرتبہ شام کے حزب مخالف جنگجوؤں کے ساتھ مشترکہ مہم جوئی کرتے ہوئے ، براہ راست فوجی مداخلت کے ذریعے سرحد پار شام میں ٹینک اور جنگی طیارے بھیجے ہیں، جس کا ہدف داعش کے قبضے میں موجود علاقوں اور خاص کر طرابلس جیسے اہم شہر کو نشانہ بنانا ہے۔
To read this article in English, click here
یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ترک زمینی فوجوں نے شام کی سرحد پر اتنے بڑے فوجی آپریشن کا آغاز کیا ہے۔ گزشتہ سال کے شروع میں، بظاہر سلطنتِ عثمانیہ کے ایک بانی کے مقبرے کو ’’ آزاد ‘‘ کروانے کے لئے کی گئی مختصر مداخلت، کسی طور بھی شام کے تنازعے میں براہ راست ترک فوجی مداخلت نہیں تھی بلکہ وہ خود کو ایک مضبوط انسان کے طور پر منوانے کے لیے اردگان کی چال تھی۔
سرکاری طور پرتو اس ’’ تحفظِ فرات ‘‘ نامی آپریشن کا مقصد، ترکی میں حالیہ عرصے میں داعش کی جانب سے کیے گئے حملوں اور دھماکوں کے خلاف، ان سے انتقام لینا بتایا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ کاؤسوگلو کی جانب سے سرکاری طور پر تو یہی کہا گیا کہ ترکی کا ہدف اپنی سرحد سے داعش کا صفایا کرنا ہے جس سے داعش کے جنگجو ؤں کو ترکی میں مداخلت کرنے سے روکا جا سکے گا۔
داعش کے قبضے میں موجود پانچ سو میل کی سرحد پر واقع آخری اہم علاقے طرابلس شہر پر کنٹرول حاصل کرنے کا یہ اقدام بظاہرتو اس بات کی تصدیق کرتا ہے۔ لیکن اس سے یہ وضاحت نہیں ہوتی کہ آخر کیوں ترکی نے داعش کو اتنے سال اپنی زمین استعمال کرنے دی، جس کے دوران خود ترک حکومت نے داعش کے دہشت گردوں کو، ترکی کے اندر ہی کردوں اور حزب مخالف پر حملوں کے لیے بھی استعمال کیا۔ یہ بالکل عیاں ہوچکا ہے کہ شام میں براہ راست فوجی مداخلت کرنے کے فیصلے کا مقصد، شام کے شمالی علاقے میں کرد وائی پی جی(YPG) کے کنٹرول میں موجود وسیع علاقے کو مستحکم ہونے سے روکنا ہے، جو ترک سرمایہ داری کے مفادات کے لیے شدید خطرہ ہے۔
شمال مشرقی شام میںYPG کا لگ بھگ مکمل کنٹرول ہے۔ امریکہ کی مدد سے بننے والے ’شام کی جمہوری طاقتوں کا اتحاد‘(Syria Democratic Forces Alliance-SDF) ،جسے کرد YPGکنٹرول کرتی ہے اور جس نے اس ماہ کے آغاز میں طرابلس کے جنوب میں واقع منبج شہر کو بھی داعش کے قبضے سے آزاد کرایا تھا، اس اتحاد کے بننے کے بعد مغربی فرات کے علاقوں کا کنٹرول، ممکنہ طور پر YPG کے پاس آ جانا، ترک حکومت کے نقطہِ نظر سے زیادہ تشویش کا باعث ہے۔
امریکی سرکا ری اہلکاروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ترکی منبج کے آپریشن سے خوش نہیں ہے لیکن انہوں نے وعدہ کیا کہ ایک بار شہر کو کلئیر کرنے کے بعد کرد اس سے دستبردار ہو جائیں گے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ SDF میںYPG کو واضح اکثریت حاصل ہے اورامریکی دباؤ کے باوجود انہیں منبج سے نکلنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔شام میں براہ راست ترک فوجی مداخلت کے آغاز کے فوراً بعد ترکی کا دورہ کرنے والے امریکی نائب صدر جو بائیڈن نے بھی اس بات کو دہرایا ہے۔
ترک حکومت کے نقطہ نظر سے یہ انتہائی ناقابل قبول عمل ہے جو کہ فرات کو کرد فوجوں کے لئے سرخ لکیر مانتی ہے جسے کبھی پار نہیں کیا جانا چاہئے۔
فوجی بغاوت کے خلاف اردگان کا ردعمل
جیسا کہ ہم نے اپنی گزشتہ تحریروں میں بھی واضح کیا ہے کہ اردگان حکومت اور ترک فوج کے مابین تعلقات کبھی بھی خوشگوار نہیں رہے، جس میں ترک فوج کی طاقت کا مرکز، اناطولیہ (ایشیائی ترکی ) کی بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کی حمایت پر مبنی اردگان کیAKP پارٹی سے مختلف ہے۔ گزشتہ سالوں میں اردگان نے فوج کو مزید اپنے تسلط میں لانے کے لیے اس میں کئی چھانٹیاں کی ہیں۔
15 جولائی کی ناکام فوجی بغاوت کی کاوش، اردگان کے لیے ’’ خدا کی رحمت ‘‘ ثابت ہوئی ہے۔ جس نے اس کو فوج میں اوپر سے نیچے تک صفائی کرنے کا سب سے بڑا موقع فراہم کیا، جسے اس نے دونوں ہاتھوں سے بھرپور استعمال کیا ہے۔ اوپری، درمیانے اور نچلے درجے کے ہزاروں افسران اور فوجیوں کو معطل اور قید کرتے ہوئے، اردگان کے فوجی بغاوت کے خلاف ہونے والے ردعمل نے کچھ ہی دنوں میں اپنا کام کر دکھایا۔
فوجی بغاوت کے دوران امریکی حکومت کی سرد مہری پر مبنی غیر جانبدارانہ پالیسی پر الزام لگاتے ہوئے، فوجی بغاوت کی کوشش نے ،اردگان کو اپنے پرانے دشمن روس کیساتھ عالمی پیمانے پر قریبی تعلقات کی طرف دھکیل دیا ہے۔ در حقیقت، اردگان نے امریکہ پر الزامات لگائے ہیں کہ فوجی بغاوت میں اس کی نہ صرف مداخلت اور نگہبانی شامل ہے بلکہ امریکہ نے فوجی بغاوت کو منظم کرنے والے شخص، فتح اللہ گولن کو بھی اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے۔
فوجی بغاوت میں امریکی مداخلت ہونے کے الزامات سچ ہیں یا نہیں، یہ بات غیر اہم ہے۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ فوجی بغاوت منظم کرنے والے کئی افراد کی نیٹو کے ڈھانچوں میں گہری مداخلت موجود تھی۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد نیٹو نے انہیں کھلا چھوڑ دیا۔ ترک حکومت اور وائٹ ہاؤس کے مابین گھمبیر تعلقات کے حوالے سے دبا ہوا تناؤ کھل کر سامنے آ گیا ہے۔
کچھ عرصہ امریکی سامراجیوں نے اردگان کی خارجہ پالیسی پر شدید تنقید کی۔ نومبر میں لتاکیہ کے علاقے میں، ترک فضائیہ کی جانب سے روسی طیارے کو مار گرانے کے بعد، روس کے خلاف فوجی محاذ آرائی کے دوران نیٹو کی مدد کے حصول کے ترک مطالبے سے امریکہ کا انکار کرنا ،اس بات کا اظہار ہے کہ اپنے ہی اتحادی کے لیے اس کا صبر جواب دے رہا ہے۔ اردگان نے اس تمام معاملے کو تضحیک آمیز تھپڑ کے طور پر لیا۔
خاص کر شام کے معاملے پر، دو حکمران طبقوں کے متضاد مفادات، سب کے سامنے کھل گئے ہیں۔ ترکی کی خواہش تھی کہ امریکہ براہ راست مداخلت کرتے ہوئے اسد کو اکھاڑ پھینکے، جبکہ امریکی؛عراق اور افغانستان کی طرح اپنی ناکامی کو دہرانے کے لیے تیار نہیں تھے۔ در حقیقت، پورے خطے میں ایران، حزب اللہ اور کر د YPG پران کا انحصار زیادہ سے زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے ناقابل فہم حدود تک پہنچتے ہوئے تناؤ نے گزشتہ سال شمالی حلب کے علاقے میں ترک اور امریکی حمایت یافتہ گرہوں کے مابین براہ راست تصادم کو بھی جنم دیاتھا۔
15جولائی کو ہونے والی فوجی بغاوت کی کوشش کے متعلق امریکی رویے نے اس بات کو عیاں کر دیا ہے کہ امریکی اہلکار وں نے فوجی بغاوت کے نتائج پر محتاط انداز میں جوا لگا یا ہوا تھا تاکہ اس کے ذریعے وہ ترک فوج کے اس اہم حصے کو بھی خود سے بیگانہ نہ کریں جوکہ روایتی طور پر، اردگان اور اس کیAK پارٹی کی نسبت، امریکہ سے زیادہ تعاون کر سکتا ہے۔ بحرحال، اس کا حتمی نتیجہ خود اردگان کے مزید بیگانہ ہونے کی صورت میں نکلا ہے۔
ایران اور روس کے ساتھ ترکی کا معاہدہ
فوجی بغاوت کے معاملے میں ترک حکومت اور امریکہ کے درمیان پڑنے والی دراڑوں نے ترکی کو شام کے متعلق اپنی پالیسی تبدیل کرنے کے لیے قدرتی بنیاد فراہم کر دی ہے۔ شام کے مسئلے پرامریکہ کے کردار کو کم کرتے ہوئے؛ روس، ایران اور ترکی کے جڑتے ہوئے مفادات نے ان تین طاقتوں کے مابین ایک معاہدے کی بنیاد ڈالی ہے جس کے عالمی تعلقات پر دور رس اثرات مرتب ہوں گے۔ ترک فوج نیٹو کی دوسری بڑی فوج موجود ہے جو کہ اس کی جنوب مشرق کی اہم سرحد کے بڑے حصے کا تحفظ کرتی ہے۔ اس صورتحال میں خود نیٹو کے اندر ایک بڑا بحران موجود ہے اور امریکی حکمران طبقہ اس سے بخوبی واقف ہے۔
جس طرح یہ سعودی عرب کی طرف سے یمن پر جنگ کرنے کے وقت مجبور تھے، اسی طرح اب ایک بار پھر یہ ان نتائج کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں جوکہ خطے میں ان کی حکمت عملی اور مفادت کے خلاف ہیں ۔ امریکہ ؛ شام میں کرد فوجی دستوں، جو امریکی حمایت یافتہ SDF اتحاد میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں، کی حمایت کرنے اور ساتھ ہی ساتھ ترک حکمران طبقے کو مزید بیگانہ ہونے سے روکنے کی ضرورتوں کے درمیان پھنس چکا ہے۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ ترک فوج اورYPG کے مابین براہ راست تصادم کی صورتحال میں امریکہ کو کسی ایک کا ساتھ دینا پڑے گا اور کرد اتحادیوں سے منہ پھیرنا پڑے گا۔
کرد بغاوت
فوجی بغاوت کے بعد فوج میں چھانٹیوں اور اندرونی حزب مخالف کو بے رحمی سے کچلنے کے بعد اردگان حکومت کو عبوری استحکام حاصل ہوا ہے، جسے وہ شام کے تنازعے اور کرد آزدی کی تحریک کی جانب زیادہ جارحانہ رویہ اپناتے ہوئے، مزید مستحکم کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔
شام کے اندر اس براہ راست ترک فوجی مداخلت کا مقصد، ترک سرحد کے ساتھ شام کے شمال مشرق پر واقع، YPG کے زیر انتظام ایک آزادانہ کرد علاقے کو مستحکم ہونے سے روکنا ہے۔ اس کا مقصد خود ترکی کے اندر کرد عسکریت پسندی کو مزید ہوا دینا بھی ہے۔ کردوں کے خلاف تنازعے کو مصنوعی طور پر مسلح تنازعے کے طور پر ابھار کر اپنی حکومت کے خلاف بڑھتی ہوئی مخالفت کو کمزور کرنا اور ترکی میں طبقاتی جدوجہد کے دھماکے کے امکانات کو محدود کرنا اردگان کے پاگل پن کا اظہار ہے۔ اردگان کی طاقت سے چمٹے رہنے کی شدید خواہش، ترکی اور پورے خطے کو مزید گہرے ہوتے بحران کی طرف دھکیل رہی ہے۔