(تحریر: آفتاب اشرف)

اس وقت پورے کرۂ ارض کو تباہ کن ماحولیاتی تبدیلیوں کا سامناہے۔ پچھلی دو صدیوں میں صنعت،پاور پروڈکشن اور ٹرانسپورٹ میں فاسل فیولز کے اندھا دھند استعمال کے نتیجے میں جنم لینے والی گلوبل وارمنگ کے کارن زمین کا اوسط درجہ حرارت بڑھتا جا رہا ہے جو ایک طرف پورے خطوں میں انسانی بود وباش کو مشکل تر بنا رہا ہے وہیں اس کی وجہ سے گلیشئیرز سے لیکر پولر آئس کیپ تک پگھل رہے ہیں جو سیلابوں کے ساتھ ساتھ سمندر کے بڑھتے لیول کی بدولت بہت سے ساحلی شہروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا رہے ہیں۔
فضائی آلودگی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی سطح پر پہنچ چکی ہے جو کہ پوری کی پوری آبادیوں کو مہلک بیماریوں کا شکار بنا رہی ہے۔ صنعتی فضلے سے ایک طرف دریا اور سمندر آلودگی کا گڑھ بن چکے ہیں جبکہ دوسری طرف اوزون کی تہہ کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے جو سورج کی خطرناک یو وی شعاعوں سے زمین کے باسیوں کو بچاتی ہے۔ اس فضلے میں بیشمار ایسے خطرناک کیمیکلز بھی ہوتے ہیں جن کے اثرات کے خاتمے کے لیے سینکڑوں نہیں ہزاروں سال کا عرصہ درکار ہے۔ مختلف کمرشل سرگرمیوں کے لیے کرہ ارض کے پھیپھڑوں یعنی جنگلات کی کٹائی اتنی تیزی کیساتھ جاری ہے کہ دنیا کے سب سے بڑے جنگل ایمازون کا وجود بھی خطرے میں پڑ چکا ہے۔
انہی سب عوامل کے تال میل سے دنیا بھر کے موسم میں انتہائی برق رفتار تبدیلیاں آرہی ہیں جو کروڑوں نہیں بلکہ اربوں انسانوں کی زندگیوں کو اجیرن بنا رہی ہیں۔ کہیں تباہ کن خشک سالی ہے جو خوراک کے بحران سے لیکر وائلڈ فائرز تک کا کارن بن رہی ہے تو کہیں غیر معمولی بارشیں ہیں اور فلیش فلڈ آ رہے ہیں۔ کہیں موسم گرما کا دورانیہ اور شدت بڑھ رہی ہے تو کہیں موسم سرما کی۔ اسی طرح ان تمام ماحولیاتی تبدیلیوں کا جہاں انسانی سماج پر نہایت برباد کن اثر پڑ رہا ہے وہیں یہ جنگلوں، صحراؤں، دریاؤں اور سمندروں میں موجود دیگر فطری حیات کے لیے بھی انتہائی تباہ کن ہے اور پچھلی نصف صدی میں گلوبل سطح پر وائلڈ لائف میں تقریباً 70 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔

فوجی تیاریاں بھی دنیا بھر میں آلودگی کا ایک بڑا ذریعہ ہیں جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1945 ء سے لیکر اب تک دنیا میں 2500 کے قریب ایٹمی تجربات ہو چکے ہیں جن میں سے 1100 سے زائد صرف امریکہ نے کیے ہیں۔ لیکن یہاں سب سے پریشان کن امر یہ ہے کہ کرۂ ارض کا قدرتی نظام ان ماحولیاتی تباہ کاریوں خصوصاً گلوبل وارمنگ کے سامنے تیزی سے جواب دیتا جا رہا ہے اور مختلف سائنسی تخمینوں کے مطابق اگر یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا تو موجودہ صدی کے وسط سے لیکر اس کی اختتامی دہائیوں تک کرۂ ارض کے ماحول کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا۔
یاد رہے کہ ابھی یہ تخمینے پورے کرۂ ارض کے حوالے سے ہیں لیکن دنیا کے کئی خطے ایسے بھی ہیں جہاں ماحولیاتی تباہی کے ناقابل تلافی نقصانات اس سے بھی کہیں قبل ظاہر ہونے لگیں گے اور ان خطوں میں سرفہرست جنوبی ایشیا ہے۔ اسی حوالے سے اگر ہم پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان کی صورتحال دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے کہ صنعتی طور پر پسماندہ ہونے کے باوجود پاکستان ماحولیاتی تباہی سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ ہمارے موسم تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ موسم گرما کی مقداری و معیاری شدت بڑھتی جا رہی ہے اور ہر سال گرمی کا پچھلا ریکارڈ ٹوٹ جاتا ہے۔
پچھلے سال جون اور جولائی میں پنجاب اور سندھ کے بیشمار علاقوں میں (فیل لائک) درجہ حرارت مسلسل 50 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر رہا ہے۔ ہر دوسرے سال پہلے شدید گرمی کے کارن خشک سالی ہوتی ہے اور پھر اسی بڑھتے درجہ حرارت کے سبب گلیشئیرز کے پگھلاؤ کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں۔

اسموگ کا مسئلہ صرف لاہور تک محدود نہیں رہ گیا بلکہ اب اس نے پنجاب کے وسیع تر علاقوں کے ساتھ ساتھ پختونخواہ کو بھی اپنی لپیٹ میں لینا شروع کر دیا ہے۔یہاں تک کہ 2024 ء کے موسم خزاں میں لاہور اور ملتان میں فضائی آلودگی عالمی طور پر تسلیم شدہ ائر کوالٹی انڈیکس کے بلند ترین لیول سے بھی پانچ گنا زیادہ رہی ہے۔ یاد رہے کہ لاہور تو پچھلے کئی سالوں سے دنیا کا آلودہ ترین شہر بن چکا ہے اور پچھلی ایک دہائی میں اس کارن یہاں کے باسیوں کی اوسط معیاد زندگی میں سات سال کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
ہمارے دریاؤں، خاص کر انڈس ریور سسٹم، میں بغیر ٹریٹمنٹ صنعتی اور شہری فضلے کے اندھا دھند ڈسپوزل نے انہیں خطرناک حد تک زہر آلود کر دیا ہے۔ دریائے راوی تو مکمل طور پر ایک سیورج نالہ بن چکا ہے۔ مزید کئی نہروں اور برساتی نالوں کی بھی اب یہی صورتحال ہے۔ کراچی اور اس کے آس پاس کی ساحلی پٹی کا شمار دنیا کی آلودہ ترین کوسٹ لائنز میں ہوتا ہے۔ جنگلات کی کٹائی اس تیزی کیساتھ جاری ہے کہ یہ ملک کے 4.8 فیصد رقبے سے بھی کم ہو چکے ہیں حالانکہ پڑوسی ملک انڈیا میں بھی جنگلات کل ملکی رقبے کا 22فیصد ہیں۔

یاد رہے کہ پاکستان دنیا بھر میں جنگلات کی کٹائی کی شرح کے حوالے سے سرفہرست ممالک میں آتا ہے۔ ملک کے ہر شہر کے گرد کھمبیوں کی طرح اگنے والی نجی ہاؤسنگ اسکیمیں پھیلتی جا رہی ہیں اور زرخیز ترین زرعی زمینوں کو نگلتی جا رہی ہیں جس سے ایک طرف خوراک کا بحران جنم لے رہا ہے تو دوسری طرف سبزے کی جگہ کنکریٹ لے رہی ہے۔ مگر اس سب کا کارن کیا ہے؟ کیا نوع انسان کی سائنسی، تکنیکی اور صنعتی ترقی اس سب کی ذمہ دار ہے؟کیا تمام نوع انسان اس تباہی کی مجرم ہے؟ کیا اس کا کوئی حل ہے؟ یہ ہیں وہ سوال جن کا واضح جواب دینا کمیونسٹوں کا فریضہ ہے۔
یہاں ہم بالکل دو ٹوک انداز میں بتائے دیتے ہیں کہ اس تمام ماحولیاتی تباہی کا اصل کارن سرمایہ دارانہ نظام، اس کی منافعوں کی ہوس اور منڈی کا انتشار ہے جو کہ ماحول دوست سائنسی و تکنیکی متبادل یا حل میسر ہونے کے باوجود صرف منافعوں کے حصول کی خاطر نیچرل ایکو سسٹم کو مکمل طور پر تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ فاسل فیولز کے ماحولیاتی نقصانات کے بارے میں تمام جانکاری ہونے کے باوجود ان کے استعمال کا خاتمہ صرف اس لئے نہیں کیا جا رہاکہ اس سے تیل، گیس اور کوئلے کی صنعت سے وابستہ بڑی بڑی کمپنیوں اور ان کے مالکان کے مفادات کو نقصان پہنچے گا حالانکہ مصدقہ ڈیٹا کے مطابق دنیا کی 20 بڑی فاسل فیول کمپنیاں 1965ء سے لیکر اب تک ہونے والے گرین ہاؤس گیس امیشن کے 35 فیصد کی براہ راست طور پر ذمہ دار ہیں۔ ماحول دوست متبادل ذرائع میسر ہونے کے باوجود آج بھی دنیا کی 60 فیصد سے زائد بجلی صرف اس لیے فاسل فیولز سے پیدا کی جاتی ہے کہ اس میں منافع گرین انرجی سے کہیں زیادہ ہے۔

نجی ٹر انسپورٹ جیسے انتہائی آلودگی پھیلانے والے اور ضیاع والے طریقے کا استعمال صرف اس لیے جاری ہے کہ آٹو موبائل انڈسٹری (خصوصاً کار سازی) اور اس سے وابستہ دیگر صنعتوں کے ماکان کے منافعوں کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ صنعتی فضلے کو بغیر ٹریٹمنٹ کے دریاؤں اور سمندروں میں اس لیے بہادیا جاتا ہے کہ اس کی ٹریٹمنٹ پر سرمایہ داروں کا خرچہ آئے گا اور ان کی شرح منافع کم ہو گی۔ سرمایہ دار طبقے کو نوازنے اور عوامی سہولیات پر زبردست کٹوتیاں لگانے والی سرمایہ دارانہ ریاستیں ایسی ہی’بچت‘ شہری سیوریج کی ٹریٹمنٹ کے حوالے سے بھی کرتی ہیں۔
جنگلات کے کٹاؤ کی وجہ کوئی مجرد انسانی ہوس نہیں بلکہ ٹمبر مافیا، کارپوریٹ فارمنگ اور مائننگ سے منسلک سرمایہ دار طبقے کی منافعوں کی ہوس ہے۔ اسی طرح زمین کی تہوں کو صدیوں تک زہر آلود کر دینے والے کیمیکلز اور گلنے سڑنے کے لیے ہزاروں سال لینے والے پلاسٹک میٹیریل کا اندھا دھند استعمال بھی جاری وساری ہے کیونکہ اس پر پابندی سے اس تمام صنعت کے مالکان کے معاشی مفادات متاثر ہوں گے۔ بھاری منافعوں کی ہوس اور سٹے بازی کے کارن رئیل اسٹیٹ سیکٹر کا بے ہنگم پھیلاؤ بھی پوری دنیا میں ماحول کو تباہ کر رہا ہے جبکہ عام آدمی کے لیے سادہ سی رہائش کا حصول بھی خواب بن گیا ہے اور پوری دنیا میں بے گھری بڑھ رہی ہے۔ یہاں تک کہ اگر انفرادی سطح پر بھی دیکھا جائے تو نجی کاروں کے پورے فلیٹ اور پرائیویٹ جیٹ، ہیلی کاپٹر اور لگژری بحری جہاز رکھنے والے کسی سرمایہ دار کا کاربن فٹ پرنٹ (آلودگی کا پیمانہ) پبلک ٹرانسپورٹ یا موٹر سائیکل پر سواری کرنے والے کسی محنت کش سے سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں گنا زیادہ بنتا ہے۔

2023 ء میں شائع ہونے والی آکسفیم کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی امیر ترین 1 فیصدآبادی صرف اپنے عیاشانہ طرز زندگی کی بدولت دنیا کی غریب ترین 66 فیصد آبادی کے برابر آلودگی پیدا کرتی ہے اور یہ آلودگی گلوبل کاربن امیشن کا 16 فیصد بناتی ہے جس کے کارن ہر سال 13 لاکھ اموات ہوتی ہیں۔ مزید ظلم یہ ہے کہ اپنے منافعوں اور عیاشیوں کے لیے سیارے کے قدرتی ماحول کو تباہ کرنے والے یہ سرمایہ دار اپنی مالی طاقت کے بلبوتے پر خود تو آلودگی کے اثرات سے بچے رہتے ہیں اور اس کا سارا خمیازہ بے ہنگم شہروں کی زہر آلود فضا میں تنگ کواٹروں کے باسی محنت کشوں کو بھگتنا پڑتا ہے جو اگر فضائی آلودگی کے کارن پھیپھڑوں کے کینسر یا ہارٹ اٹیک سے نہیں مرتے تو سرکاری نلکے کے آلودہ پانی سے یرقان کا شکار ہو کر مر جاتے ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ماحولیاتی مسئلے کے جو نام نہاد حل بتائے جاتے ہیں، ان سب کا مقصد بھی اس نظام کی باقی تمام پالیسیوں کی طرح سرمایہ داروں کے منافعوں کو محفوظ بنانا اور محنت کشوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا ہوتا ہے۔ کبھی موٹر سائیکل یا بس پر سفر کرنے والے مزدور کو کہا جاتا ہے کہ وہ آلودگی کے خاتمے کے لیے ’انفرادی‘ کوششیں کرے،پانی کی بچت کرے،ڈیری اور میٹ فارمنگ کی ضرورت کم کرنے کے لیے گوشت اور دودھ کا کم استعمال کرے وغیرہ وغیرہ۔
کبھی پرائیویٹ الیکٹرک گاڑیوں کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے جس کے پیچھے بھی ان وہیکلز کو بنانے والے کمپنیوں کے مفادات ہیں جوآٹوموبائیل مارکیٹ میں فاسل فیول انجن والے وہیکلز بنانے والے کمپنیوں کی جگہ لینا چاہتی ہیں حالانکہ الیکٹرک گاڑیوں کا ٹوٹل کاربن فٹ پرنٹ (پروڈکشن اور استعمال ملا کر) فاسل فیول گاڑیوں سے کم ہونے کے باوجود بھی ٹھیک ٹھاک ہوتا ہے (خاص کر جب تک بجلی کی پیداوار میں فاسل فیولز کا استعما ل جاری ہے) اور یہ مسئلے کا مکمل حل نہیں ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ بڑھتی آبادی آلودگی کی وجہ ہے حالانکہ یہ نرا جھوٹ ہے جس پر آگے چل کر ہم کچھ اعداد و شمار دیں گے۔

دنیا کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کاربن امیشن پر ٹیکس لگانے کی جانب بھی گئے ہیں لیکن ایک تو تجارتی جنگوں کے دور میں یہ عالمی معاہدے ویسے ہی بیکار ہو تے جا رہے ہیں، مزید برآں پہلے بھی ان کا استعمال اپنے عوام پر ٹیکس بوجھ میں اضافہ کرنے اور کم ترقی یافتہ ممالک کی صنعتوں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہی ہوا ہے۔ پوری دنیا میں اپنے یہ نام نہاد حل’بیچنے‘ کی خاطر عالمی، خصوصاً مغربی بورژوازی نے کلائیمیٹ این جی اوز کی فوج بھی پال رکھی ہے جو دن رات’کلائیمیٹ جسٹس‘ کے نام پر عوام کو بیوقوف بنانے کی خاطر بے سرو سراپا ایکٹیویزم میں لگی رہتی ہے۔
اگر پاکستان جیسے ملکوں کی بات کی جائے تو یہاں پر نام نہاد بلین ٹری سونامی سمیت ایسے تمام منصوبوں کا واحد مقصد حکمرانوں کے باقی تمام اقدامات کی طرح لوٹ مار اور کرپشن کے نئے مواقع پیدا کرنا ہوتا ہے۔ مزید برآں یہاں کے حکمران ماحولیاتی مسئلے کو بھی عالمی مالیاتی اداروں اور امیر سرمایہ دارانہ ممالک سے بھیک مانگنے اور نئے قرضے اٹھانے کی خاطر ایک جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ تو پھر مسئلے کا حل کیا ہے؟
سوشلزم یا بربریت؟ بات اب بڑھ چکی ہے!
مارکسزم لینن ازم، سائنسی سوشلزم یا کمیونزم کے سطحی پوسٹ ماڈرنسٹ ناقدین یہ کہتے نہیں تھکتے کہ’’مارکسزم تو پرانا ہو چکا ہے، اب ہمیں کچھ نیا چاہئے!“۔ یہاں ہمارے پاس جگہ نہیں کہ ہم اس سطحی و غیر منطقی دعوے کے تفصیلاً بخیے ادھیڑ سکیں لہٰذا ہم اتنا ہی کہیں گے کہ آج عالمی سرمایہ داری کا تاریخی نامیاتی بحران اور اس کی پھیلائی ہوئی بربادی ہر لحاظ سے یہ ثابت کرتی ہے کہ آج مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے نظریات یعنی کلاسیکی مارکسزم اپنے جنم کے عہد سے بھی کہیں زیادہ درست ہے، متعلقہ ہے اور عہد حاضر کا واحد سچ ہے۔
لیکن ہم ان پوسٹ ماڈرنسٹ اور لبرل خواتین و حضرات کو بالکل ہی مایوس نہیں کرنا چاہتے لہٰذا ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ کلاسیکی مارکسزم کا ایک نعرہ ایسا ضرور ہے جو آج واقعی پرانا ہو چکا ہے۔ آج سے 110 برس قبل جرمنی کی مشہور کمیونسٹ راہنما روزا لکسمبرگ نے کہا تھا کہ بنی نوع انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں:سوشلزم یا بربریت۔ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نعرہ اب اپنی درستگی کھو کر پرانا ہو چکا ہے کیونکہ آج 21 ویں صدی میں بنی نوع انسان کے سامنے صرف دو راستے ہیں: سوشلزم یا معدومیت۔۔ سوشلزم یا نابودگی۔

آسان الفاظ میں اگر سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمی سوشلسٹ سماج قائم نہ کیا گیا تو پھر صرف تہذیب وتمدن کی ہی بربادی نہیں ہو گی بلکہ نوع انسان ہی فنا کے گھاٹ اتر جائے گی اور اس کا سب سے بڑا ذریعہ بنے گی سرمایہ دارانہ نظام کی طرف سے مسلسل پھیلائی جانے والی ماحولیاتی تباہی۔ لہٰذا ہمارا دو ٹوک دعویٰ ہے کہ ماحولیاتی مسئلے کا واحد مستقل اور قابل عمل حل سوشلزم یا کمیونزم میں ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کیسے؟
واحد حل۔۔ سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت!
یہاں سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جب بھی انسان کو ئی پیداواری سرگرمی کرے گا،نئے شہر یا آبادیاں بسائے گا، فزیکل انفراسٹرکچر تعمیر کرے گا تو قدرتی ماحول یا نیچرل ایکو سسٹم کو کچھ نہ کچھ نقصان تو لازمی ہو گا۔ اس کے برعکس سوچنا نرا یوٹوپیا ہے اور فطرت پسندوں کی طرح یہ ناممکن تقاضا کرنا ہے کہ نوع انسان واپس غاروں کے عہد میں چلی جائے۔ اصل بات یہ ہے انسانی سرگرمی کے نتیجے میں قدرتی ماحول کو پہنچنے والا یہ نقصان انتہائی کم ہو اور ایسا ہو کہ ایکو سسٹم اپنا توازن بآسانی بحال رکھ سکے۔
یہ مقصد صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں ہی حاصل کیا جا سکتا ہے جس میں دولت پیدا کرنے کے تمام ذرائع یعنی ذرائع پیداوار (فیکٹریاں، آلات پیداوار، ٹیکنالوجی، بنک، بڑی زرعی ملکیت، قدرتی وسائل وغیرہ) محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں ہوں اور پیداوار کا مقصد انسانی سماج کی ضروریات پوری کرنا ہوں نا کہ سرمایہ داری کی طرح مٹھی بھر سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنا۔ مثال کے طور پر ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں فضائی آلودگی، کاربن فٹ پرنٹ اور گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم سے کم کرنے کے لئے اس کے ایک بڑے کارن یعنی نجی ٹرانسپورٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر اجتماعی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا جائے گا۔
شہروں کو اس طرح سے تعمیر کیا جائے گا کہ یہ پیدل چلنے والوں اور سائیکل چلانے والوں کے لیے فرینڈلی ہوں۔شہروں کے اندر ٹرانسپورٹ کا ذریعہ کاریں نہیں بلکہ بسیں، ٹرامز اور میٹرو لائنز ہوں گی جبکہ شہروں سے باہر ریلوے کا استعمال کیا جائے گا۔ بین الاقوامی سفر کے لئے بھی ہائیپر لوپ جیسی جدید ترین ریلوے ٹیکنالوجی کو استعمال میں لایاجائے گا جس سے آلودگی پھیلانے والے ہوائی سفر پر انحصار انتہائی کم ہو جائے گا۔ واضح رہے کہ ان تمام ذرائع نقل وحمل کو حرکت میں لانے کے لیے بجلی کا استعمال کیا جائے گا نہ کہ فاسل فیولز کا۔
جبکہ دوسری طرف پاور پروڈکشن کے شعبے میں فاسل فیولز کے استعمال کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا۔ اس مقصد کے لیے ونڈ پاور اورسولر پاور کو فروغ دیا جائے گا۔ ہائیڈل پاور کے معاملے میں جہاں ممکن ہو وہاں ماحول دوست رن آف دی ریور ہائیڈل پاور یا چھوٹے ڈیموں کو استعمال میں لایا جائے گا لیکن بڑے ڈیموں کو متعلقہ آبادی کی پوری رضامندی کیساتھ صرف تب ہی تعمیر کیا جائے گا جب پانی ذخیرہ کرنے کے لیے ان کی اشد ضرورت ہو۔ عمومی غلط فہمی کے برعکس آج نیوکلیئر پاور کی ٹیکنالوجی میچور ہو کر نہ صرف انتہائی محفوظ ہو چکی ہے بلکہ یہ آلودگی بھی بہت کم پھیلاتی ہے۔ اس کے تابکار فضلے کو بھی انتہائی محفوظ طریقے سے زمین کی گہرائیوں میں ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے جہاں یہ تابکار عناصر قدرتی طور پر بھی موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذا گرین انرجی اور ہائیڈل پاور کیساتھ بیک اپ کے طور پر نیوکلیئر پاور کو بھی استعمال کیا جائے گا۔
ٹرانسپورٹ کے ساتھ ساتھ صنعتوں کو بھی مکمل طور پر اس کلین و گرین انرجی پر شفٹ کیا جائے گا اور پیداواری شعبے میں بھی فاسل فیولز کے استعمال کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ صنعتی فضلے اور سیورج کو مکمل ٹریٹمنٹ کے بعد ڈسپوز آف کیا جائے گا۔ایسے تمام کیمیکلز اور میٹیریلز، جو کہ ماحول کو نقصان پہنچاتے ہیں،کے استعمال کو ختم یا کم سے کم کیا جائے گا اور ان کے بہت سے قابل عمل متبادل پہلے ہی سے موجود ہیں۔ مثال کے طور پر اگر پوری دنیا میں پولی تھین بیگ کے استعمال کا ہی خاتمہ کر دیا جائے تو اس سے نیچرل ایکو سسٹم کا بہت بھلا ہو گا۔ سرمایہ دارانہ نظام اور اس سے وابستہ کنزیومرازم کے خاتمے کے نتیجے میں ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود ناپائیدار اشیاء بنانے کے رجحان (planned obsolescence) کا بھی خاتمہ ہو جائے گا اور سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت میں بننے والی صنعتی اشیا نہایت دیرپا ہوں گی۔ یوں قدرتی وسائل کے بے تحاشہ ضیاع کا خاتمہ ہو جائے گا۔
مزید برآں کسی بھی پراڈکٹ کی لائف ختم ہونے کے بعد اسے ری سائیکل کیا جائے گا تا کہ اس میں موجود تمام قابل استعمال مواد کو واپس پیداوار میں استعمال کیا جا سکے۔یہ تمام عوامل صنعتی پیداوار سے نیچرل ایکو سسٹم کو پہنچنے والے نقصان کو نہایت کم کر دیں گے۔ کسی انتہائی سماجی ضرورت کے علاوہ جنگلات کے کٹاؤ پر سخت پابندی ہو گی اور ایک منصوبہ بند طریقے سے بڑے پیمانے پر شجر کاری کا آغاز کرتے ہوئے کرۂ ارض (یعنی لینڈ ماس) کے کم از کم نصف رقبے کو جنگلات سے بھر دینے کا ٹارگٹ حاصل کیا جائے گا۔ مزید برآں جنگلات کے کٹاؤ کا خاتمہ کرنے کیلیے جدید بنیادوں پر اجتماعی کاشت کاری کو فروغ دیا جائے گاتا کہ زرعی پیداوار کو بڑھاتے ہوئے نئے رقبوں کو زیر کاشت لانے کی ضرورت کا خاتمہ کیا جا سکے۔
ڈیری اور میٹ فارمنگ، جو کہ عالمی سطح پر جنگلات کی کٹائی کا سب سے بڑا کارن ہونے کے ساتھ ساتھ گرین ہاؤس گیس امیشن کا بھی فاسل فیولز کے بعد دوسرا بڑا کارن ہے، کو ریشنالائیز کیا جائے گا تا کہ کرۂ ارض کی تمام آبادی کی گوشت اور دودھ کی ضروریات بھی مناسب انداز میں پوری ہوں اور ماحول وجنگلات کو بھی نقصان نہ پہنچے۔ مزید برآں پروٹین کی ضرورت پوری کرنے کے لیے صحت مند سنتھیٹک طریقوں کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جائے گا۔ عمودی تعمیرات اور جدید ٹاؤن پلاننگ کے ذریعے ایک منصوبہ بند انداز میں شہروں کے بے ہنگم پھیلاؤ کا بھی خاتمہ کیا جائے گا تا کہ ایک طرف تمام لوگوں کو رہائش بھی میسر ہو جبکہ دوسری طرف قدرتی ماحول بھی محفوظ رہے۔
بات کو سمیٹتے ہوئے ہم صرف یہ کہیں گے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی نے آج ہمارے سامنے بے تحاشہ امکانات پیدا کر دیے ہیں جنہیں بروئے کار لاتے ہوئے نہ صرف کرۂ ارض کی تمام آبادی کو بہترین اور جدید طرز زندگی فراہم کیا جا سکتا ہے بلکہ قدرتی ماحول کا بھی بھرپور تحفظ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ اس کے لیے سائنس،ٹیکنالوجی اور ذرائع پیداوار کو سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کے پنجوں سے نکال کر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت و جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کو رائج کرنا ہو گا۔
یہ سب کچھ خود بخود نہیں ہو گا اور نہ ہی سرمایہ دار طبقہ کبھی رضاکارانہ طور پر اپنی نجی ملکیت اور منافعوں سے دستبردار ہو گا۔ یہ سب کرنے کے لیے محنت کش طبقے کی طاقت کے بلبوتے پر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنا ہو گا۔مزید برآں کسی ایک ملک، جیسے کہ پاکستان، میں سوشلسٹ انقلاب ہو جانے سے بھی وہاں ماحولیاتی مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہو جائے گا۔ اگرچہ کسی بھی ملک میں سوشلسٹ انقلاب کے بعد اس حوالے سے بہت سے اقدامات کیے جا سکتے ہیں اور قابل ذکر بہتری لائی جا سکتی لیکن یہ مسئلہ اپنے جوہر میں عالمی ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا صرف 4 فیصد ہے لیکن امریکہ(بنیادی طور پر امریکہ کا سرمایہ دار طبقہ) گلوبل گرین ہاؤس امیشن کا 11 فیصد پیدا کرتا ہے جبکہ انڈیا کی آبادی عالمی آبادی کا 18 فیصد ہے لیکن اس کا گرین ہاؤس امیشن میں حصہ 7 فیصد ہے۔ اسی طرح دنیا کی 14 فیصد آبادی رکھنے والے پسماندہ ترین 100 ممالک کا گلوبل گرین ہاؤس امیشن میں حصہ صرف 3 فیصد ہے۔
لہٰذا ماحولیاتی مسئلے کا مکمل اور مستقل حل تب ہی ممکن ہے جب کسی بھی ایک ملک سے شروع ہونے والا سوشلسٹ انقلاب آگے بڑھتے ہوئے عالمی سوشلسٹ انقلاب کے سلسلے کو جنم دے اور پوری دنیا سے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے ایک عالمی سوشلسٹ سماج قائم کیا جائے۔ لیکن ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرنے کے لیے نہ صرف ملکی سطح پر انقلابی کمیونسٹ پارٹیاں تعمیر کرنا ہوں گی جو محنت کشوں،طلبہ و نوجوانوں اور غریب کسانوں کو مارکسزم لینن ازم کے نظریات سے مسلح کرتے ہوئے منظم کریں بلکہ عالمی سطح پر انقلابی کمیونسٹ انٹر نیشنل کی صورت میں محنت کش طبقے کی ایک عالمی انقلابی پارٹی بھی تعمیر کرنا ہو گی۔
اگر آپ کمیونسٹ نظریات سے متفق ہیں اور ماحولیاتی مسئلے کے خاتمے کے لیے اس کے تجویز کردہ حل پر قائل ہیں تو دیر نہ کیجئے اور انقلابی کمیونسٹ پارٹی اور انٹر نیشنل کے ممبر بن کر نوع انسان کی بقا کی اس عظیم جدوجہد میں اپنا حصہ ڈالیے۔