|تحریر: ارسلان غنی، ترجمہ: ولید خان|
پاکستان میں اگست کے مہینے میں ہونے والی بارشوں نے ہر صوبے میں کرپٹ حکومت کو بے نقاب کر دیا۔ کراچی پانی میں ڈوبا ہوا تھا اور تمام بڑے شہروں میں بھی کم وبیش یہی صورتحال تھی۔ اگست کے مہینے میں کراچی میں اوسطاً 68 ملی میٹر بارش ہوتی ہے لیکن محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال 587.5 ملی میٹر بارش ہوئی جس نے پچھلے 90 سالوں کا ریکارڈ توڑ دیا۔ موجودہ شدید موسمیاتی تبدیلیاں کوئی نیا مظہر نہیں ہیں۔۔ یہ مظہر کئی سالوں سے کارفرما ہے۔ اس کی وجہ ملک پر تباہ کن ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات ہیں۔ ایک طرف عالمی تبدیلیاں اثر انداز ہو رہی ہیں تو دوسری طرف مقامی تبا ہ کن صنعتی اخراج اور صنعتی فضلہ اپنے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے ملک پر حالیہ اثرات، ان کی وجوہات، ریاست اور نظام کی ناکامی اور ان سب مسائل کا حل پیش کریں گے۔
انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
حالیہ بارشیں اور تباہی
دیو ہیکل صنعت کاری اور بے پناہ معاشی سرگرمیوں کی وجہ سے کراچی کو پاکستان کا سب سے جدید شہر تصور کیا جاتا ہے لیکن حالیہ بارشوں نے پورا شہر برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ بارش کا پانی پورے شہر میں بھر جانے کے بعد کئی دن تک کھڑا رہا۔ اس دوران ایک ویڈیو بھی بہت مشہور ہوئی جس میں ایک آدمی نے اپنے گھر کی تیسری منزل سے نیچے سڑک پر چھلانگ لگائی اور پیراکی کا مظاہرہ کیا۔ گاڑیوں کی جگہ چھوٹی کشتیاں شہر میں پھرتی رہیں۔ ایک شخص تو نے کراچی کو وینس سے تشبیہ دی۔ اگست تین دن تک جاری رہنے والی بارشوں میں صرف کراچی میں 90 افراد ہلاک ہوئے۔ لاہور میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ اگرچہ لاہور کے غریب علاقوں میں بارش تباہی مچاتی رہتی ہے لیکن اس مرتبہ بارشوں کی شدت بہت زیادہ تھی۔ دیگر صنعتی شہروں جیسے فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور راولپنڈی پر بھی بارشوں کے تباہ کن اثرات پڑے۔
دیگر آفات کی طرح بارش بھی غریب علاقوں میں موجود محنت کش طبقے کو ہی برباد کرتی ہے جہاں سستے اور ناقص تعمیراتی سامان سے خستہ حال گھر تعمیر کیے جاتے ہیں۔ کئی شہری علاقوں میں آج بھی سیمنٹ کی بجائے گارے سے دیواریں بنائی جا تی ہیں۔ فلیٹس کی گنجان آباد اونچی عمارتوں میں مالکان ناقص سامان استعمال کرتے ہیں۔ کراچی میں بارشوں کے دوران کئی عمارتیں زمین بوس اور کئی سو افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔
اس مرتبہ ماضی کے مقابلے میں بارش کے تباہ کن اثرات معیاری طور پر مختلف تھے۔ اس مرتبہ بارش کی تبا ہ کاریوں کا دائرہ متمول مڈل کلاس کے علاقوں تک پھیل گیا اور انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج بھی کیے۔ ’برگرز‘ (پاکستان میں خوشحال متوسط طبقے یا پیٹی بورژوازی کے لئے مستعمل حقارت آمیز نام) حکومتی دفاتر کے سامنے سراپا احتجاج نظر آئے۔ ایک برگر آنٹی چیخ رہی تھی کہ ہم سرجانی ٹاؤن (کراچی کا ایک غریب علاقہ) کی عوام نہیں ہیں ہم ڈیفنس (یعنی پوش علاقے) کی عوام ہیں اور حکومت کی ہمت کیسے ہوئی کہ ہمیں نظر انداز کر ے؟ برگرز کے غصے میں بھی طبقاتی نفرت ٹپک رہی ہے لیکن معروضی صورتحال نظام کی مکمل تباہی و بربادی کی تصویر پیش کر رہی ہے۔
کراچی کی غریب و محنت کش عوام تو احتجاج بھی نہیں کر سکتی۔ انہیں پتہ ہے کہ حکومت کبھی ان کی آہ و پکار نہیں سنے گی۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کی قیادتیں دہائیوں سے مسلسل غداریاں اور وعدہ خلافیاں کر رہی ہیں اور سر سے پاؤں تک کرپشن میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ عوامی انفراسٹرکچر کے لئے مختص کردہ تمام فنڈز جس میں سڑکیں، نہریں، نکاسی آب ا ور ماحولیات کے فنڈز شامل ہیں، سب سیاست دانوں اور سول و فوجی ریاستی اشرافیہ کی جیبوں میں جا رہے ہیں۔
ریاست کا ردِ عمل
ہمیشہ کی طرح ریاست نے بارش کی تباہ کاریوں کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا۔ سیاست دان اور بیوروکریٹ اپنے دفاتر چھوڑ کر منظرِ عام سے ہی غائب ہو گئے تاکہ عوامی غیض و غضب سے بچا جا سکے۔ انہیں معلوم ہے کہ موجودہ معاشی بحران اور بھیانک کرپشن میں عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں دیا جا سکتا۔
حالیہ بارشوں کے بعد عمران خان نے کراچی میں ترقیاتی منصوبوں کے لئے 1100 ارب روپے (تقریباً6 ارب ڈالر) کا اعلان کیا۔ کرپٹ سیاست دانوں اور ریاستی اشرافیہ کی تو چاندی ہو گئی ہے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ نے فوراً ہی اپنا حصہ محفوظ کرنے کے لئے اعلان کر دیا کہ فوج کراچی کو از سرِ نو تعمیر کرے گی۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اتنا پیسہ تو وفاق کے پاس موجود ہی نہیں اور یہ محض ایک کھوکھلا وعدہ تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن ان حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے آرمی چیف نے کراچی کے بڑے کاروباریوں سے ملاقات کرتے ہوئے ان کے نقصان پورے کرنے کے لئے مذاکرات کئے۔ مگر غریبوں کے لئے اعلان کیا گیا کہ ندی نالوں کو چوڑا کرنے کے لئے ان کے گھر مسمار کئے جائیں گے۔۔ یاد رہے کہ سستی زمین کی وجہ سے غرباء کے علاقے اکثر ان کے پاس ہوتے ہیں۔
شدید موسمیاتی سانحات
کراچی اور لاہور میں سیلاب، شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں پہاڑی تودوں کی تباہی، سندھ کے علاقوں میں قحط اور پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں شدید گرمی ایک مسلسل حقیقت بنتے جا رہے ہیں۔ ہر سال بڑھتی شدید موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کا خاصہ بن چکی ہیں۔
بیسویں صدی کے آغاز سے لے کر اب تک دنیا میں سب سے زیادہ درجہ حرارت تربت میں 53.5 ڈگری سیلسیئس ریکارڈ کیا گیا۔ مئی 2019ء کی بدنامِ زمانہ ہیٹ ویو، جس نے پورے برِ صغیر کو اپنی گرفت میں لے لیا تھا، نے کراچی میں بھی ہزاروں افراد کو نگل لیا۔ زیادہ تر اموات غریب محنت کشوں کی تھیں۔ مزدوروں کو شدید گرمی کے باوجود کوئی چھٹی نہیں دی جاتی اور نہ ہی پینے کے لیے مناسب مقدار میں پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ اس وجہ سے کئی مزدور جسم میں پانی کی کمی ہوجانے کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور کئی بدقسمت موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
حالیہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں شدید گرمی کی وجہ سے مرنے والے مزدوروں کی شرح بڑھ کر 200 فی 1 لاکھ آبادی تک پہنچ جائے گی ہے جبکہ عالمی سطح پر ہونے والا اضافہ 73 ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے ایک محقق کے مطابق ”اعدادوشمار کے مطابق غریب عوام کے پاس وہ وسائل ہی موجود نہیں کہ وہ بدلتے حالات کے ساتھ مطابقت اختیار کر سکیں اور نتیجتاً گرمی کی وجہ سے ان میں اموات کی شرح زیادہ ہے“۔یہ بات سو فیصد درست ہے۔ یہ صرف امراء ہی ہیں جو کہ شدید ہوتے موسمی حالات سے مطابقت اختیار کرسکتے ہیں۔ جبکہ غرباء ماحولیاتی تبدیلیوں کے ہاتھوں مر رہے ہیں۔
فضائی آلودگی کے خطرات
عالمی ادارہئ صحت کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ہوا کا معیار(Air Quality) انتہائی ناموافق ہو چکی ہے۔ پاکستان میں ائیر کوالٹی کی سالانہ اوسط یعنیPM2.5 کی شرح(ہوا میں معلق 2.5مائیکرو میٹر سے کم قطر کے ذرات) 58 مائیکرو گرام فی مربع میٹر ہے جو عالمی ایجنسی کی مقرر کردہ 10 مائیکرو گرام فی مربع میٹر حد سے بہت زیادہ ہے۔ دنیا کے پانچ سب سے زیادہ آلودہ شہروں کی فہرست میں پاکستان کے دو شہر ہیں۔۔۔ صنعتی شہر گوجرانوالہ اور فیصل آباد۔ دوسرا بڑا اہم شہر اور صنعتی مرکز لاہور بھی 12 ویں نمبر پر ہے۔
سی پیک پراجیکٹ کے آغاز کے بعد سے گاڑیوں سے نکلنے والے میں دھوئیں میں دس گنا اضافہ ہوا ہے۔مزید برآں، پورے ملک کے بڑے صنعتی شہروں اور علاقوں میں نئی مینوفیکچرنگ صنعتیں قائم کی جا رہی ہیں، جس سے فضائی آلودگی میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں صنعتیں ڈی ریگولیٹڈ ہیں یعنی وہ کھلے عام فضا ء اور پانی میں آلودگی پھیلا سکتی ہیں اور ان پر کسی حکومتی ایجنسی کی نگرانی موجود نہیں۔ ایک طرف عوامی سفری سہولیات میں ریاستی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے تو دوسری جانب حکومت کی جانب سے متعارف کروائی جانے والی گاڑیوں کی فنانسنگ اسکیموں کی وجہ سے سڑکوں پر دوڑتی گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ تقریباً تمام گاڑیاں شدید فضائی آلودگی پھیلاتی ہیں کیونکہ پورے ملک میں کہیں بھی گاڑیوں کی معیاری سرکاری چیکنگ اور نگرانی کا نظام موجود نہیں ہے۔
سموگ کا مسئلہ پورے ملک بالخصوص پنجاب میں شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ کھیتوں کی صفائی کے لیے کوئی جدید طریقہ یا آلات دستیاب نہ ہونے کے باعث کسان اگلی فصل کی کاشت سے پیشترپچھلی فصل کے مڈھوں کو جلا ڈالتے ہیں۔ نتیجتاًمتصل دیہاتوں اور شہروں میں سموگ کا ایک بڑا کارن بنتے ہیں۔ سموگ سے آلودہ فضا میں ایک دن سانس لینادو سو سے تین سو سگریٹ پھونکنے کے مترادف ہے۔ پچھلے سال لاہور، گوجرانوالہ اور فیصل آباد میں سموگ کی وجہ سے کئی اموات واقع ہوئیں اور متعدد افراد ہسپتالوں میں داخل رہے۔
فوسل فیول پر انحصار
اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے پاکستان کا فوسل فیول پر شدید انحصار ہے۔ پاکستا ن کی تقریباً 30 فیصد سالانہ درآمدات فوسل فیول پر مشتمل ہیں۔ فوسل فیول پر انحصار ختم کرنے کی تمام تر حکومتی کوششوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ اگر کوئی حکومت ماحول دوست توانائی کے منصوبے شروع بھی کرتی ہے تو فوراً خوفناک کرپشن اسے کھوکھلا کر کے ختم کر دیتی ہے۔ پاکستان میں پیدا ہونے والی بجلی کا ایک بڑا حصہ فاسل فیولز (تیل، گیس، کوئلہ) سے آتا ہے۔ تمام لاجسٹکس اور ٹرانسپورٹ، جس میں ٹرینیں، بسیں اور ٹرک شامل ہیں، ایسے ایندھن پر چل رہی ہیں جو شدید آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔
پورے ملک کے پٹرول پمپوں پر بکنے والے پٹرول اور دیگر ایندھن میں سستے کیروسین کی ملاوٹ کی جاتی ہے۔ پٹرول پمپوں کو مقامی سرمایہ داروں کو ٹھیکوں پر دے دیا جاتا ہے۔ منافعے بڑھانے کے لئے وہ پٹرول اور ڈیزل میں غیر معیاری کیروسین کی ملاوٹ کرتے ہیں۔ اس وجہ سے ایک طرف ایندھن کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور دوسری طرف گاڑیوں کے انجن کی ٹوٹ پھوٹ کے ساتھ ساتھ گاڑیوں کے دھویں میں انتہائی زہریلے مادوں کا اخراج ہوتا ہے۔ کبھی کبھی پٹرول پمپوں پر ریاستی ایجنسیوں اور ملٹی نیشنل آئل کمپنیوں کی جانب سے اچانک چیکنگ کی جاتی ہے۔ لیکن شدید کرپشن میں غرق اہلکار کبھی بھی ملاوٹ رپورٹ نہیں کرتے۔ صرف وہی کیس رپورٹ ہوتے ہیں جہاں رشوت یا تو کم ملتی ہے یا ملتی ہی نہیں۔
کئی دہائیوں میں کبھی اس غرض سے سرمایہ کاری ہی نہیں کی گئی کہ ٹرین انجنوں اور ریلوے انفرسٹرکچر کا فوسل فیول پر انحصار ختم کیا جائے جس کی وجہ سے شدید آلودگی پھیل رہی ہے۔ ملکی رسد اور لاجسٹکس کا سارا انحصار ٹرکوں اور ٹینکروں پر ہے۔ کئی رپورٹوں کے مطابق ملک کے 90 فیصد ٹرک اور ٹینکرز شدید بدحال ہیں جن کی مینٹیننس پر زیادہ اخراجات نہیں کئے جاتے اور اس وجہ سے وہ شدید فضائی آلودگی پھیلا رہے ہیں۔ یہی صورتحال سڑکوں پر چلنے والی زیادہ تر دیگر بڑی گاڑیوں کی بھی ہے۔
شہروں میں کثیر تعداد میں استعمال ہونے والے والے رکشے نہ صرف فضائی آلودگی پھیلا رہے ہیں بلکہ شدید صوتی آلودگی کا سبب بھی بنتے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے پٹرول یا گیس پر چلنے والے رکشوں کی جگہ الیکٹرک رکشوں کو متعارف کروایا ہے لیکن بھاری اکثریت ابھی بھی پٹرول پر ہی چل رہی ہے۔ اوبر جیس سروسز ملک کے طول و عرض میں متعارف ہونے کے بعد سڑکیں زہریلا دھواں چھوڑتی گاڑیوں سے کھچا کھچ بھر چکی ہیں اور جو تھوڑی بہت الیکٹرک رکشوں کے حوالے سے کاوش کی گئی تھی وہ بھی اس عرصے میں زائل ہو چکی ہے۔
صنعتی فضلہ اور دریاؤں میں بہتا زہر
فضائی آلودگی کے ساتھ پاکستان پوری دنیا میں اپنے دریاؤں کو آلودہ کرنے میں بھی بدنامِ ہے۔ تقریباً تمام فیکٹریاں اپنا مائع فضلہ بغیرکسی ٹریٹمنٹ کے نہروں اور دریاؤں میں بہا رہی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق عوامی فضلے کا 8 فیصد اور صنعتی فضلے کا 1 فیصد ہی ٹریٹمنٹ کے بعد دریاؤں میں بہایا جاتا ہے۔
مینوفیکچرنگ صنعت شاید ہی کسی ماحولیاتی قانون کی پاسداری کرتی ہے۔ یہ زہریلے دریا دیہی علاقوں میں رہنے والی عوام کی زندگیوں میں زہر گھول رہے ہیں جو نہروں اور دریاؤں سے پینے سمیت روزمرہ ضروریات کے لئے پانی حاصل کرتے ہیں۔ دریا کینسر کا سبب بننے والے مادوں (Carcinogens) سے بھرے پڑے ہیں اور آرسینک، سیسہ، کیڈمیم، کرومیم وغیرہ محفوظ حدود سے بے تحاشا تجاوز کر چکے ہیں۔ دریاؤں میں موجود کم وبیش تمام مچھلیاں زہریلے مادوں سے آلود ہو چکی ہیں اور پھر یہی زہر کھانے کے راستے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔
ٹیکسٹائل پاکستان کی سب سے بڑی صنعت ہے اور اس سیکٹر کی فیکٹریوں بالخصوص رنگائی اور چھپائی کے دوران بے پناہ مائع فضلے کا اخراج ہوتا ہے۔ کیونکہ فضلے کے ٹریٹمنٹ کے لئے درکار وسائل مہنگے ہیں اس وجہ سے ان پر کام کیا ہی نہیں جاتا۔ اگر کہیں ٹریٹمنٹ پلانٹ نصب بھی کیے گئے ہیں تو عام طور پر انہیں استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ اس کا مقصد عالمی خریداروں کو بس یہ باور کرانا ہوتا ہے کہ اس حوالے سے صنعتکار کتنے سنجیدہ ہیں۔
چمڑے کی صنعت بھی پاکستان میں شدید آلودگی کا باعث بننے والی صنعتوں میں شامل ہے۔ چمڑا بنانے میں استعمال ہونے والے کیمیکل یورپ میں بنتے ہیں لیکن ان کا استعمال ترقی پذیر ممالک میں ہوتا ہے۔ یہ شدید زہریلے کیمیکل ہوتے ہیں جن کی وجہ سے ناصرف چمڑے کی صنعتوں میں کام کرنے والے مزدور بلکہ ملحقہ علاقوں میں بسنے والے علاقوں کے مکین بھی کینسر سے متاثر ہوتے ہیں۔
زراعت میں استعمال ہونے والے زہریلے سپرے ایک اور مصیبت ہیں۔ پنجاب اور سندھ کے زرعی علاقوں میں کئی اقسام کے کینسر، پھیپھڑوں اور جگر کی بیماریاں عام ہیں۔ حکومت ان کرم کش کیمیکلز کے استعمال کو کنٹرول کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ لگ بھگ زراعت میں استعمال ہونے والی تمام کرم کش ادویات بائیر، سینڈوز،بی اے ایس ایف، کلیئرنٹ، آئی سی آئی اور سنجینٹا جیسے ملٹی نیشنل کمپنیاں بناتی ہیں۔
سی پیک کے نتیجے میں بڑے شہروں کے قریب بڑی تعداد میں فیکٹریاں لگائی جا رہی ہیں اور اس عمل میں تمام ماحولیاتی اصولوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ اس کے نتیجے میں تمام بڑے شہروں میں پانی اور ہوا کی آلودگی پیدا ہو چکی ہے جو اب خطرناک حدود میں داخل ہو چکی ہے۔ کھمبیوں کی طرح اگتی فیکٹریوں پر حکومت آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔
پاکستان میں خشک سالی اور پانی کی کمی۔۔ پانی مافیا کی شدید لوٹ مار
پاکستان کے جنوبی علاقے خاص طور پر سندھ اور بلوچستان کے علاقے شدید خشک سالی کا شکار ہیں۔ ہر سال خشک سالی کی وجہ سے کئی سو اموات ہو رہی ہیں اور ہزاروں پانی اور غذا کی کمی سے بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ حکومت ان علاقوں میں پانی کے ذخیرے بنانے میں مکمل طور پر ناکام رہی ہے جس کی وجہ سے خشک سالی کے شکار ان علاقوں میں عوام نجی ٹینکر مافیا کے رحم و کرم پر ہیں جو بغیر کسی خوف و خطر لوٹ مار جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہ ان قصبوں اور شہری علاقوں میں انتہائی مہنگے داموں پانی بیچ رہے ہیں۔ صرف خوشحال متوسط طبقہ اور امراء ہی روز مرہ استعمال کے لئے اس مافیا سے فیض یاب ہو سکتے ہیں۔ غرباء کو میلوں کا سفر طے کر کے پانی حاصل کرنا پڑتا ہے۔
ساحلی شہر ہونے کے باوجود کراچی پانی کی قلت کا شکار ہے اور اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں ٹینکر مافیا سالانہ اربوں روپیہ لوٹ رہا ہے۔ ریاستی اہلکار اور سیاست دان بھی اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں جس کی وجہ سے یہاں پانی کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنے کی زحمت ہی نہیں کی جاتی۔
پچھلی دو دہائیوں میں پاکستان میں ایک نیا پانی مافیا ابھرا ہے۔۔۔ بوتلوں میں پانی بیچنے والا مافیا۔ عالمی اجارہ داریوں نے اس سیکٹر میں کثیر سرمایہ کاری کر رکھی ہے اور عام پانی سے دیو ہیکل منافعے لوٹ رہے ہیں۔ وزراتِ سائنس و ٹیکنالوجی کی ایک رپورٹ کے مطابق بوتلوں میں پانی بیچنے والی 12 کمپنیوں کا پانی مضر صحت ہے۔ ان میں خطرناک اور زہریلے کیمیکل موجود ہیں جو جگر اور گردوں کی بیماریاں پھیلا رہے ہیں۔ ایسی کئی کمپنیاں غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔ عوام ان کمپنیوں سے زہر آلود پانی خرید کر پینے پر مجبور ہیں۔ پورے ملک میں واٹر فلٹریشن پلانٹ لگا کر شہرشہر اور گھر گھر صاف پانی پہنچانے کی بجائے حکومت نے (ان کمپنیوں کے مقابلے میں) اپنی منرل واٹر کی کمپنی بناکر عوام کو یہ پانی بیچنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ناکام ریاست
پاکستان میں صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک ماحول فراہم کرنے کے حوالے سے ریاست مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ موجودہ وزیرِ اعظم نے اقتدار سنبھالتے وقت اعلان کیا تھا کہ پورے ملک میں 10 ارب درخت لگائے جائیں گے۔ لیکن صرف دو سالوں میں یہ پراجیکٹ کرپشن کی بھینٹ چڑھ چکا ہے۔ شمالی علاقہ جات میں درختوں کی غیر قانونی کٹائی معمول ہے۔ دہائیوں پہلے جو علاقے جنگلات تھے آج بنجر ہو چکے ہیں۔ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (WWF) نے پاکستان کو ان ممالک کی فہرست میں شامل میں جہاں جنگلات میں کمی ہو رہی ہے یعنی جنگلات پورے ملک کے رقبے کے 6 فیصد سے بھی کم ہیں۔ غیر قانونی ”ٹمبر مافیا“ مقامی پولیس، فوج اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر بے خوف و خطر کام کر رہا ہے جس وجہ سے وسیع پیمانے پر جنگلات ختم ہو رہے ہیں۔ ورلڈ بینک کی 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستا ن میں ہر سال 27 ہزار ایکڑ پر کھڑے جنگلات صاف کر دیئے جاتے ہیں۔ ایک ایسی کرپٹ ریاست میں جنگلات کو دوبارہ آباد کرنے کی امید کرناجو پہلے ہی اپنی حفاظت میں جنگلات صاف کروا رہی ہے ایک گھناؤنا مذاق ہے۔ ٹمبر مافیا اپنے منافعوں کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔ مزید برآں، ریاست اکثر گھروں کو ماحول دوست توانائی فراہم کرنے سے قاصر ہے اور اس وجہ سے اکیسویں صدی میں آج بھی لوگ کھانا پکانے کے لئے لکڑی استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق خیبر پختونخوا کے جنگلات میں آگ لگنے کی وجہ سے بارہ لاکھ درخت خاکستر ہو گئے۔ یہ آگ اکثر خود لگائی جاتی ہے تاکہ غیر قانونی درخت کٹائی کو چھپایا جا سکے۔ یہ آگ نہ صرف عوام کو قتل کرتی ہے اور گھر اجاڑ دیتی ہیں بلکہ ماحول اور وائلڈ لائف کو بھی بڑے پیمانے پر تباہ و برباد کر دیتی ہیں۔
حکومت نے لاتعداد وزارتیں، محکمے، سپیشل سیل اور نہ جانے کیا کیا بنا رکھا ہے تاکہ ماحولیاتی تبدیلی کا مقابلہ کیا جائے لیکن ماحولیاتی تبدیلیاں ہر سال شدید سے شدید تر ہو رہی ہیں۔ گرین ہاؤس گیسوں کی سطح ہر سال بڑھ رہی ہے۔
سرمایہ داروں کو ماحولیاتی تحفظ سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ کسی بھی شدید موسمی سانحے میں وہ اور ان کے کاروبار محفوظ رہتے ہیں۔ ان کے آفس، گھر اور گاڑیاں ائر کنڈیشنڈ ہیں۔ شدید گرمیوں میں اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے اے سی، صاف ٹھنڈا پانی، انواع اقسام کے پھلوں کے جوس اور سردیوں میں اپنے آپ کو گرم رکھنے کے لئے بہترین انتظامات ایک اشارے کی دوری پر موجود ہیں۔
شدید بارشوں میں ان کے گھر اور علاقے محفوظ ہیں۔ پنجاب اور سندھ میں بڑے زمیندار حکومت کے ساتھ ملی بھگت کر کے نہروں اور دریاؤں کے بند توڑ کر پانی کا رخ دیہات کی طرف کر دیتے ہیں۔ غرباء کے گھر تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور خود وہ مکھیوں کی طرح مر جاتے ہیں لیکن ز مینداروں کے گھر اور فصلیں محفوظ رہتی ہیں۔
لا تعداد این جی اوز اور عالمی ترقیاتی تنظیمیں کروڑوں ڈالر نچھاور کر رہی ہیں کہ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس پیسے کا زیادہ تر حصہ لایعنی اور بیکار رپورٹوں کی تیاری میں صرف ہو جاتا ہے جن میں مسائل کو کوئی حل موجود نہیں ہوتا۔
کچھ این جی اوز کا ماننا ہے کہ منافعوں کے حریص سرمایہ داروں اور کرپٹ ریاست کو اپیلیں کر کے ماحولیاتی چیلنجوں سے نمٹا جا سکتا ہے۔ این جی او مافیا کے ایک حصے کا یہ خیال ہے کہ ہمیں انفرادی عمل پر اپنی توجہ دینی چاہیے تاکہ ان”شاندار اقدامات“ کی عوام پیروی کریں۔ ”وِیگن ہو جاؤ“، ”اپنے باغوں میں پودے لگاؤ“، ”لال بتی پر انجن بند کر دو“، ”پانی کا نلکا جلدی بند کرو“ وغیرہ جیسے بے معنی اور عقل سے عاری نعرے لگائے جاتے ہیں۔ بے شرم سرمایہ داروں اور سیاست دانوں کو اپیلیں کر کے یا انفرادی کوششوں سے ملک کو ماحولیاتی بربادی سے بچایا نہیں جا سکتا۔ ایک بڑی اجارہ داری کا ایک چھوٹا سا قدم لوگوں کی انفرادی کوششوں کو پل بھر میں تہس نہس کر کے رکھ دیتا ہے۔
سرمایہ داری، سامراجیت اور آگے کا راستہ
پاکستان میں اس وقت ماحولیاتی بربادی کورونا وائرس سے زیادہ بربادی پھیلا رہی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر سال ماحولیاتی تبدیلیو ں کی وجہ سے 1 لاکھ 28 ہزار افراد موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ درحقیقت یہ اعدادوشمار بھی درست نہیں ہیں۔ سرمایہ داری میں بڑے کاروباری اور ریاست میں ان کے کٹھ پتلی فیصلے کرتے ہیں کہ پاکستان میں کیا اقدامات ہونے چاہئیں۔ کمپنی مالکان فیصلہ کرتے ہیں کہ کیا پیداوار کرنی ہے اور کتنی کرنی ہے۔ اشیاء کی پیداوار خالصتاً منافعوں کے لئے کی جاتی ہے اور ماحولیاتی تباہی و بربادی کی کوئی فکر نہیں کی جاتی۔ مصنوعات کو منصوبہ بندی کے تحت اس طرح بنایا جاتا ہے کہ ایک مخصوص عرصے کے بعد وہ ناکارہ ہو جائیں، دوبارہ خریدنی پڑیں اور اس طرح منافع کا گھن چکر جاری رہے۔
عالمی اعدادوشمار کے مطابق دنیا کے اوپری 10 فیصد امیر ترین افراد پچاس فیصد گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے ذمہ دار ہیں جبکہ دنیا کی 50فیصد غریب ترین آبادی محض 10 فیصد اخراج کی ذمہ دار ہے۔ سرمایہ داری میں طبقاتی عدم مساوات کے ساتھازہریلے اخراج کے حوالے سے بھی عدم مساوات موجود ہے۔ عالمی اجارہ داریوں نے پاکستان میں سب سے زیادہ آلودگی پھیلانے والی فیکٹریاں اور کارخانے لگارکھے ہیں۔ ان میں کیمیائی، اشیائے خوردونوش کی پرسیسنگ، توانائی، ٹرانسپورٹ اور تعمیرات کی صنعتیں شامل ہیں۔ یہ اجارہ داریاں ریاستی اہلکاروں اور سیاست دانوں کو موٹی رشوتیں کھلاتی ہیں تاکہ وہ ہر قانون اور ہر قدغن سے آزاد ہو کر ہوشرباء منافع لوٹ سکیں۔
زہریلے اخراج کے ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے اور کئی اسکینڈل سامنے آچکے ہیں۔ فروری 2020ء میں کراچی کی ایک فیکٹری میں زہریلی گیس کے لیک ہونے کی وجہ سے 14 افراد کی موت ہوگئی جبکہ کئی سو افراد شدید بیمار ہو گئے جن کے لئے بقیہ عمر ایک صحت مند زندگی گزارنا خواب بن گیا ہے۔ ایک ماہ بعد، اسی شہر میں اینگرو پولیمر و کیمیکلز کی فیکٹری میں زہریلی کلورین گیس لیک ہوئی جس کی وجہ سے ستر افراد ہسپتال جا پہنچے۔ اکثر ایسے واقعات کی خبریں میڈیا کی زینت نہیں بن پاتیں کیونکہ ریاستی اہلکاروں سمیت ان کی جیبوں کو نوٹوں سے بھر کر منہ کو تالے لگا دیئے جاتے ہیں۔
پاکستان میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ توانائی سیکٹر کو مکمل طور پر فوسل فیول سے پاک کر دیا جائے۔ ملک میں بے شمار پانی کے ذخائر اور وسائل موجود ہیں جن پر پن بجلی کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں۔ سال کا بیشتر حصہ سورج کی چمک دمک میں گزر جاتا ہے جس کا مطلب ہے کہ توانائی کی ضروریات سولر ٹیکنالوجی سے پوری کی جا سکتی ہے۔ توانائی کے سیکٹر میں فاسل فیول ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ماحول دوست توانائی فراہم کرتے ہوئے دیگر سیکٹروں کو بھی اس ایندھن سے آزاد کیا جا سکتا ہے جن میں ٹرانسپورٹ، گھریلو توانائی، صنعتیں اور زراعت شامل ہیں۔ لیکن ملک مسلسل بے پناہ فوسل فیول درآمد کر رہا ہے اور اسے گھریلو ضروریات، ٹرانسپورٹ، صنعت، بجلی پیداوار، لوکو موٹیوز، تعمیراتی مشینری وغیرہ میں غیر موثر انداز میں بے دریغ استعمال کرتے ہوئے قدرتی ماحول تباہ و برباد کیا جا رہا ہے۔
مندرجہ بالا تمام مسائل کے حل کے لیے بے پناہ وسائل، تکنیک اور مہارت موجود ہے۔ لیکن سرمایہ دارانہ نظام اس رستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آلودگی کا سبب بننے والے ذرائع پیداوار نجی ملکیت میں ہیں اور عوام کا اس پیداواری عمل میں کوئی عمل دخل موجود نہیں۔
جب تک پاکستان میں سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اس وقت تک ماحولیاتی بربادی کا مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ہو گا اور ایک سوشلسٹ منصوبہ بندی کے ذریعے پیداوار منظم کرنی ہو گی جس میں محنت کش عوام کو حقیقی جمہوری حق حاصل ہو گا کہ پیداوار،تقسیم اور ترسیل کا نظام اس طرح چلایا جائے کہ ماحول کو نقصان نہ پہنچے۔