تحریر: |فریڈرک اینگلز|
یہ مقولہ انگریز مزدور تحریک گذشتہ پچاس برس سے اپنائے ہوئے ہے۔ جب رسوائے زمانہ قوانینِ اجتماع 1824ء میں منسوخ کر دیئے گئے (برطانیہ میں اس سے قبل مزدور یونین کی تشکیل اور اس کی سرگرمیوں پر پابندی تھی) اور ٹریڈ یونینیں ابھرنے لگیں تو اس وقت یہ مقولہ مفید ثابت ہوا تھا اور عظیم الشان چارٹسٹ تحریک (جو 19ویں صدی میں برطانوی مزدوروں کی عام انقلابی تحریک تھی) کے زمانے میں یہ اور بھی زیادہ مفید ثابت ہوا جب انگریز مزدور یورپ کے مزدور طبقے کے شانہ بشانہ تھے۔ لیکن وقت تبدیل ہوتا ہے۔ چنانچہ بہت سی چیزیں جو پچاس برس پہلے یا حتیٰ کہ تیس برس پہلے بھی پسندیدہ اور ضروری تھیں اب دقیانوسی ہو گئی ہیں اور بالکل بے تکی۔ کیا یہ پرانا اور قدیم اصولی قول بھی اسی زمرے میں شامل کیا جا سکتا ہے؟
ایک دن کے منصفانہ قول کے لئے ایک دن کی منصفانہ اجرت؟ لیکن ایک دن کی منصفانہ اجرت اور ایک دن کا منصفانہ کام ہے کیا؟ انہیں وہ قوانین کس طرح معین کرتے ہیں جن کے تحت جدید معاشرے کا وجود قائم ہے اور وہ ارتقا کرتا ہے؟ اسے سمجھنے کے لئے ہمیں نہ تو اخلاقیات کی سائنس سے استفادے کی ضرورت ہے، نہ قانون اور اصول عدل کی، نہ انصاف کی، نہ انسان دوستی کے جذباتی احساس کی اور نہ فیاضی کی۔ ایک چیز جو اخلاقی لحاظ سے منصفانہ ہے، قانون تک کی نظر میں منصفانہ ہے، ہو سکتا ہے کہ معاشرتی اعتبار سے منصفانہ نہ ہو۔ منصفانہ یا غیر منصفانہ ہونے کا فیصلہ صرف ایک سائنس کرتی ہے؛ وہ سائنس جس کا تعلق پیداوار اور تبادلے کے مادی حقائق سے ہے، یعنی سیاسی معاشیات کی سائنس۔
تو پھر سیاسی معاشیات کس کو ایک دن کی منصفانہ اجرت اور ایک دن کا منصفانہ کام قرار دیتی ہے؟ محض اجرت کی شرح اور دن کے کام کے اوقات اور شدت جو کھلی منڈی میں آجر اور مزدور کے درمیان مقابلے سے معین ہوتے ہیں۔ جب وہ اس طرح معین ہوتے ہیں تو وہ ہیں کیا؟
عام حالات میں ایک دن کی منصفانہ اجرت وہ رقم ہے جس سے مزدور اپنے زندہ رہنے کے ضروری ذرائع حاصل کرتا ہے تاکہ وہ اپنے آپ کو کام کرنے کے لائق رکھے اور اپنی نسل کی افزائش کرتا رہے۔ اور یہ اس کے حالات اور ملک کے معیار زندگی کے مطابق معین ہوتا ہے۔ حقیقی اجرت کے شرحِ پیداوار کے نشیب و فراز کے سبب اس شرح سے بعض اوقات زیادہ اور بعض اوقات کم بھی ہو سکتی ہے؛ لیکن واجبی حالات میں یہ شرح تمام اونچ نیچ کا اوسط رہتی ہے۔
ایک دن کا منصفانہ کام کام کے اتنے اوقات اور اصل کام کی اتنی شدت ہے جس سے مزدور کی ایک دن کے کام کی پوری قوت اسی طرح صرف ہوتی ہے، کہ آئندہ دنوں میں اسی مقدار کی کام کی استعداد کو نقصان نہ پہنچے۔
اس لئے اس لین دین کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے: مزدور سرمایہ دار کو پورے دن کی اپنی اجرت کی قوت دیتا ہے، یعنی اتنی کہ لین دین کا مسلسل تسلسل نا ممکن نہ ہو جائے۔ تبادلے میں اسے زیادہ نہیں بلکہ محض اتنی ہی ضروریاتِ زندگی ملتی ہیں جو ہر روز اسی لین دین کو دھرانے کے لئے ضروری ہیں۔ مزدور زیادہ سے زیادہ دیتا ہے، سرمایہ دار کم سے کم ادا کرتا ہے، جیسا کہ سودے کی نوعیت سے ثابت ہوتا ہے۔ یہ عجیب و غریب انصاف ہوا۔
اب ہمیں معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے۔ سیاسی معاشیات کے ماہرین کے مطابق چونکہ اجرت اور کام کے اوقات کا تعین مقابلے سے ہوتا ہے اس لئے انصاف کا تقاضا ہے کہ دونوں فریقین مساوی شرائط پر یکساں منصفانہ ابتدا کریں۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ اگر سرمایہ دار مزدور کی شرط پر راضی نہیں ہوتا تو وہ انتظار کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنے سرمائے پر زندہ رہ سکتا ہے۔ لیکن مزدور یہ نہیں کر سکتا۔ اسے صرف اجرت پر گزربسر کرنی ہوتی ہے۔ اس لئے اسے کام حاصل کرنا ضروری ہے، جب بھی، جہاں بھی اور کسی شرط پر وہ ملے۔ مزدور کے لئے منصفانہ ابتدا نہیں ہوتی۔ بھوک کا خوف اسے گھاٹے میں رکھتا ہے۔ مگر سرمایہ دار طبقے کی سیاسی معاشیات کی نظر میں یہ انصاف کی معراج ہے۔
لیکن یہ اہم بات نہیں ہے۔ نئی صنعتوں میں میکانکی قوت اور مشینوں کا کام میں لانا اور ان صنعتوں میں، جہاں ان کا پہلے سے استعمال کیا جاتا ہے، مشینوں کی توسیع اور بہتری سے ہر نئے دن مزدور کام سے الگ کئے جاتے ہیں۔ اِس کی شرح اُس شرح سے کہیں زیادہ تیز ہوتی ہے جس کے مطابق نکالے ہوئے مزدور ملک کی دوسری صنعتوں میں جذب کئے جا سکتے ہیں اور ملازمت حاصل کر سکتے ہیں۔ ان نکالے ہوئے مزدوروں سے اصلی زائد صنعتی فوج بنتی ہے جو سرمائے کے کام آتی ہے۔ جب کاروبار مندا ہوتا ہے تو وہ بھوکے مرتے ہیں، بھیک مانگتے ہیں، چوری کرتے ہیں یا پھر محتاج خانے کی راہ لیتے ہیں؛ جب کاروبار تیز ہوتا ہے تو پیداوار بڑھانے کے لئے وہ فوراً حاصل کئے جا سکتے ہیں؛ اس وقت تک جب تک کہ اس زائد صنعتی فوج کا آخری مرد، عورت اور بچہ کام حاصل نہیں کر لیتا۔۔۔ جو صرف انتہائی زیادہ پیداوار کے دنوں میں ہوتا ہے۔۔۔ اس زائد صنعتی فوج کے مقابلے کی وجہ سے اجرتیں کم رہتی ہیں اور اس کے وجود کے سبب محنت کے خلاف سرمائے کی طاقت بڑھتی ہے۔ سرمائے کے ساتھ مقابلے کی دوڑ میں محنت کے سامنے صرف رکاوٹ ہی نہیں ہوتی بلکہ اسے توپ کا وہ گولہ بھی گھسیٹنا پڑتا ہے جو اس کے پیر سے بندھا ہوتا ہے۔ اور سرمایہ داروں کی سیاسی معاشیات کے مطابق یہ منصفانہ ہے۔
اب ہم یہ تفتیش کریں گے کہ سرمایہ دار کس فنڈ سے یہ ’’بے حدمنصفانہ‘‘ اجرت ادا کرتا ہے؟ بلاشبہ سرمائے سے۔ لیکن بذات خود سرمایہ (کسی شے کی) قدر پیدا نہیں کرتا۔ زمین کے علاوہ محنت ہی دولت کا ذریعہ ہے؛ اور خود سرمایہ محنت کی ذخیرہ شدہ حاصلِ پیداوار کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ چنانچہ محنت کی اجرت محنت میں سے ادا کی جاتی ہے اور مزدور کو اس کی حاصلِ پیداوار میں سے ادا کیا جاتا ہے۔ عام انصاف کے مطابق مزدور کی اجرت کو اس کی محنت کی حاصل پیداوار پر مشتمل ہونا چاہئے۔ لیکن سیاسی معاشیات کے مطابق یہ منصفانہ نہیں ہے۔ اس کے برعکس مزدور کی محنت کی حاصل پیداوار سرمایہ دار کو ملتی ہے اور اس میں سے مزدور ضروریات زندگی سے زیادہ حاصل نہیں کر پاتا۔ چنانچہ اس غیر معمولی ’’منصفانہ‘‘ مقابلے کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کام کرنے والوں کی محنت کی حاصل پیداوار ناگزیر طور پر ان لوگوں کے ہاتھ میں جمع ہو جاتی ہے جو کام نہیں کرتے، اور یہ ان کے ہاتھ میں ان لوگوں کو غلام بنانے کے لئے طاقتور ذریعہ بن جاتی ہے جنہوں نے اسے پیدا کیا ہے۔
ایک دن کے منصفانہ کام کے لئے ایک دن کی منصفانہ اجرت! ایک دن کے منصفانہ کام کے متعلق بھی بہت کچھ کہا جا سکتا ہے جس کا انصاف اجرت کے انصاف کے جیسا ہی ہے۔ لیکن یہ ہم آئندہ کے لئے چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ جو کچھ بیان کیا جا چکا ہے اس سے بخوبی واضح ہو جاتا ہے کہ یہ پرانا اصولی قول فرسودہ ہو چکا ہے اور وقت کے مطابق نہیں ہے۔ سیاسی معاشیات جس انصاف سے ایسے قوانین ترتیب دیتی ہے جو موجودہ معاشرے پر حکمرانی کرتے ہیں وہ انصاف صرف ایک فریق کے لئے ہے۔۔۔ سرمائے کے لئے۔ اس لئے اس پرانے نعرے کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دینا چاہئے اور اس کی جگہ یہ نعرہ ہونا چاہئے:
’’کام کے ذرائع، خام مال، فیکٹریوں، مشینوں پر خود محنت کشوں کی ملکیت۔۔۔!‘‘
(’’دی لیبر اسٹینڈرڈ‘‘ میں 7مئی 1881ء کو شائع ہوا)