|تحریر: صبغت وائیں|
یہ بات اکثر دیکھنے میں آئی ہے کہ ہمارے ’دوستوں‘ کو خاتمے، ناکامی یا محرومی اور بے مائیگی وغیرہ سے کچھ زیادہ ہی محبت رہی ہے۔ اکثر کو تو اس بات پر جھگڑتے بھی پایا گیا ہے کہ سوشلزم میں مزدور کی تنخواہ ایک ڈاکٹر، انجینئر یا پروفیسر کے برابر کیوں ہو گی۔ یاد رہے کہ اس میں نزاع طلب بات یہ نہیں کہ پروفیسر یا ڈاکٹر کی تنخواہ زیادہ ہو، بلکہ یہ ہے کہ مزدور کو کم ملنا چاہیے۔ اسی طرح سائنس کے پروفیسروں کو بھی گلہ کرتے سُنا گیا ہے کہ آرٹس والوں کی تنخواہیں بھی انہی کے برابر ہوتی ہیں، یہاں تک کہ اردو اور پنجابی پڑھانے والوں کی بھی۔ وہ تو بھلا ہو ٹیوشن کا جو کہ ان میں اس مالی مساوات کو عدم مساوات میں بدل دیتی ہے ورنہ نظامِ تعلیم تو بہت ہی برا ہے۔ ۔ وغیرہ۔ ۔ ۔ بالکل اسی طرح کے رویے تب دیکھنے میں آتے ہیں جب ہم کسی سے سائنس کی حاصلات پر بات کر رہے ہوں۔ یہ بات کہیں بھی ہو ایک فقرہ سننے کو مل ہی جاتا ہے کہ سائنس نے تو ابھی تک فلاں کام نہیں کیا۔ یا یہاں سائنس ناکام رہی ہے۔ یا یہ کہ سائنس کی تحصیلات غلط ہیں۔ ان پڑھ لوگوں کی بات نہیں وہ تو سائنس کو مان بھی لیتے ہیں، میں پڑھے لکھوں کی بات کر رہا ہوں۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں جو سائنس کو محض اس لیے راہنما قرار دینے کے لیے تیار نہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہے کہ اس سے ان کے مذہبی عقیدوں کو زک پہنچ سکتی ہے۔یہ ایک مخصوص طریقہ کار ہے جس میں کسی ایک چیز کا مقابلہ اس سے ملتی جلتی کسی دوسری چیز سے کروا کے پہلی چیز کو ’’جانا جاتا‘‘ ہے۔اس کے علاوہ ایک دوسرا طریق کار بھی ہے، جس میں کسی چیز کو اسی کے اندر سے، اندرونی تضادات سے اور ان کی حرکت سے جانا جاتاہے۔ پہلے طریق کار کو ہم مابعدالطبیعیاتی اور دوسرے کو جدلیاتی کے نام سے جانتے ہیں۔ یہاں ہم جن لوگوں کے رویوں کا ذکر کر رہے ہیں، وہ سائنس کی بات ہوتے ہی اس کو مذہب کے مدمقابل رکھ کر سوچنے لگ جاتے ہیں اور ایسا کسی الوہی وجہ سے ہرگز نہیں ہوتا، بلکہ اس کا ذمہ دار ہمارے ارد گرد کا سماج اور لوگ ہیں جو کہ اس مابعدالطبیعیاتی سوچ کو پھیلانے میں ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں کہ جہاں پر سائنس کا ذکر آئے مذہب کو مدِ مقابل رکھ لو اور یہ سوچ خود پر حاوی کر لو کہ سائنس کی سامنے نظر آنے والی بات کو اگر مان لیا تو یہ کفر نہ بھی ٹھہرا تو بھی گناہ تو لازم ہو جائے گا۔ اس لیے پہلے سے ہی اس کی روک تھام کر لی جائے تو بہتر ہے۔
بلاشبہ بہت سے ایسے علما بھی ملیں گے جو کہ سائنس کی باتیں بڑے شوق سے کرتے ہیں۔ لیکن اسی حد تک کہ ا نہیں سُنا جائے۔ وہ مذہب کو سائنس کے مطابق بتا رہے ہوتے ہیں۔ لیکن چوں کہ ہم طریق کار دیکھ رہے تھے، اس لیے یہ بھی وہی طریقہ ہے جس میں دو چیزوں کو آمنے سامنے رکھ کر ان کا موازنہ کروانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگرچے یہ بھی فلسفے ہی کا طریقہ کار ہے اور اس کو ہم قطعی طور پر رد کر بھی نہیں رہے لیکن ہم اس پر آگے جا کر بات ضرور کریں گے کہ اس طریقے میں کیا مسائل ہیں۔ کیوں کہ اس بات کا جاننا ضروری ہے، کہ وہ کیا وجوہات ہیں، جو اچھا خاصا سائنسی اور فلسفیانہ علم رکھنے والے بندے بھی دو چیزوں میں اپنی مرضی کا ایک ایک ملتا جلتا پہلو الگ کرتے ہیں اور ان کو ایک جیسا قرار دیتے ہوئے بھی ایک کو اس لیے رد کر دیتے ہیں کہ اس کو رد نہ کیا تو دوسرا رد ہو جائے گا۔
اس معاملے میں ان کا اتنا قصور ہے بھی نہیں۔ کیوں کہ ہماری تعلیم میں استعمال ہونے والا طریق کار ہی مابعدالطبیعیاتی ہے۔ ہمیں موازنے پڑھائے ہی اسی طرح سے جاتے ہیں۔ایک کے مقابلے میں دوسرا۔ علم التعلیم میں علم کے ماخذوں کا پڑھایا جاتا ہے۔ لیکن ایک دوسرے کے مد مقابل رکھ کر۔ تھوڑا سا غور کریں تو بات سمجھ میں آ جاتی ہے کہ مسئلہ کیسے پیدا ہوا، یا کس طرح سے پیدا کیا جاتا ہے۔علم التعلیم؛ جو کہ ہر معلم پڑھ کے آتا ہے جس نے (سکول کے) بچوں کو پڑھانا ہے۔ یہ بطور الگ مضمون بھی پڑھایا جاتا ہے اور بی ایڈ کرنے والے بھی پڑھ کر آتے ہیں۔اس میں علم کے ماخذاس طرح سے بیان کیے جاتے ہیں۔ حسیات، عقل، وجدان، اسناد، الہام یا وحی وغیرہ۔ ۔ ۔ یہ پڑھا نے کے دوران اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ متعلم (طالب علم) کو یہ بات اچھی طرح سے ذہن نشین کروا دی جائے کہ حسیات اور عقل تو یقینی طور پر دھوکا دیتے ہیں اور گمراہ کرتے ہیں۔ وجدان اور اسنادی علم کا بھی مکمل بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اگر کوئی سو فی صد سچا علمی ماخذ ہو سکتا ہے تو وہ الہام یا وحی ہی ہے۔
ہم نے یہ پڑھا دیا اور ہمارے مستقبل کے استادوں نے یہ سبق پڑھ لیا، ذہن نشین کر لیا، مان لیا۔یہ جانتے ہوئے مان لیا کہ الہام اور وحی کے راستے طویل مدت سے، چودہ پندرہ سو سالوں سے بند ہو چکے اور اب کسی طور یہ ممکن نہیں۔ تو اب؟ اب الہام یا وحی سے رجوع بھی کرنا ہو تو۔۔ ۔ ہم حواس سے پڑھیں گے اور عقل سے سوچیں گے؟ جو کہ ناقص ہیں؟ جو قابل بھروسہ نہیں؟ جن کی بتائی ہوئی باتیں جھوٹ کے جیسی ہیں؟ یہ وہ سوال ہیں جو کسی بھی ذہن میں آ سکتے ہیں۔۔۔ ہو سکتا ہے آتے بھی ہوں! لیکن یہ مان لینے کے بعد کہ ہمارے سامنے پڑی ہوئی ہر بات جھوٹ ہے۔ جھوٹ ہو سکتی ہے۔ دھوکا اور فریب ہو سکتی ہے۔ کیا نتیجہ فراہم کرے گی؟ کیوں کہ ہم نے جو بھی علم حاصل کرنا ہے، دیکھ کر کرنا ہے، یا پھر سُن کر۔ اور دیکھنا اور سُننا دونوں حسیات کا کام ہے۔ اب دنیا کی کوئی حقیقت بھی دیکھی یا سُنی جائے اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ اس رویے کو فلسفے میں ’لاادریت‘ agnosticism کہتے ہیں۔ کہ ہم اپنے ارد گرد کی دنیا کو جان نہیں سکتے۔ اور جو کچھ جانتے ہیں، نہیں جانتے۔ یعنی یہ سب فریبِ نظر ہے، دھوکا ہے، چھل ہے، سراب ہے، عارضی ہے۔ ۔ ۔ ہے ہی نہیں۔ لایعنی و بے معنی دنیا ہے۔ ۔ کچھ بھی نہیں ہے۔ بس بہتر یہی ہے کہ ہمیں بتانے والے بڑے جو بتاتے ہیں چُپ چاپ وہ مان لو اور وہی کچھ کرتے چلے جاؤ جوکہتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ ہم اگر اس ارد گرد کی دنیا کو جان ہی نہیں سکتے تو اس پر بات کیا کریں گے؟عجیب قسم کی ریاکاری جنم لے لیتی ہے۔ مسائل کا ذکر تو کیا جائے گا لیکن ان کے حل کے لیے نہیں سوچا جائے گا۔ یہی سوچ رہے گی، کہ جس طرح سے یہ مسائل پیدا ہوئے ہیں، ہم ایک دن صبح کو سوئے اٹھیں گے تو مسائل ختم ہو چکے ہوں گے۔ یا کوئی لیڈر، کوئی راہنما۔ ۔ ۔ کوئی نجات دہندہ کہیں سے آئے گا اور وہ اپنی جادو کی چھڑی ہلائے گا جس سے تمام مسائل ختم ہو جائیں گے۔ وہ سارے مسائل جن کے رہنے میں یقیناًایک طبقے کا مفاد موجود ہے۔ یہ وہی طبقہ ہے ؛جس کے پاس دولت ہے، دولت پیدا کرنے کے ذرائع ہیں، جو اپنی دولت کے سہارے اقتدار میں آتا ہے، حکومت کی باریاں لیتا ہے، کبھی حکومت کرنے کے مزے اڑائے جاتے ہیں، کبھی حزبِ اختلاف کے پروٹو کول کی عیاشیاں ہوتی ہیں۔ یہ وہی طبقہ ہے جواپنی ان تمام عیاشیوں کو جاری رکھنے کے لیے ہمیں سکول کالج میں وہ چیزیں پڑھاتا اور وہ طریق کار سکھاتا ہے، جس سے تنخواہ دار طبقہ جو کہ بڑی اکثریت میں ہے، جتنی زیادہ محنت کرتا ہے، پہلے والا طبقہ اتنا ہی زیادہ طاقتور اور دولتمند ہوتا چلا جاتا ہے۔ یہ وہ چیزیں ہیں، جن کو پڑھ کر ہم یہ اچھی طرح سے جان لیں، کہ ہم کچھ نہیں جانتے، کچھ نہیں جان سکتے، لہٰذا کچھ نہیں تبدیل ہو سکتا، ہم کچھ تبدیل نہیں کر سکتے۔ ہم میں سے خوش قسمت وہی ہے، جو اس مال میں سے کچھ زیادہ لے اڑے جو پہلا طبقہ ہمارے آگے ڈالتا ہے۔
یہاں سے ہم اپنی بات شروع کر سکتے ہیں۔ اب ہمیں اس بات کی سمجھ آ جائے گی کہ کیوں ایک چیز کا ذکر آتے ہی لوگ دوسری چیز کو سامنے لے آتے ہیں۔اور پھر ۔ ۔ ۔ آپ ایک مثال دیں، وہ دوسری لے آئیں گے، آپ دوسری لائیں، وہ تیسری لے آئیں گے۔ حقائق، حقائق اور حقائق سامنے لاتے جائیں اور ٹکراتے جائیں۔ جب کہ طریقہ یہ ہے کہ کسی ایک مسئلے کو پکڑ کر سنجیدگی سے اس کا جائزہ لینے کی کوشش کر لی جائے۔
اسی سال مارچ کے مہینے میں دنیا کے سب سے معروف سائنسدان سٹیفن ہاکنگ انتقال کر گئے۔ ویسے تو ان کی زندگی میں بھی اکثر ان کا ایک جملہ سننے میں ملا کرتا تھا لیکن ان کی وفات کے ساتھ ہی لوگوں نے فیس بُک پر ان کا فلسفے کے متعلق یہ قول خوب نقل کیا: ’’فلسفہ مر چکا ہے‘‘ اب اس بات پر فلسفے کے چاہنے والوں اور فلسفے کی بجائے سائنس کو چاہنے والوں میں خوب خوب بحث و مباحثے ہوئے۔ کیوں کہ پروفیسر موصوف کا قول سراہنے والے سائنس کو عصرِ حاضر میں واحد راہنما علم قرار دیتے ہیں۔
یہاں ہم پروفیسر صاحب کے قول کا جائزہ لینے سے پہلے فلسفے اور سائنس کی موضوع سے متعلقہ باتوں پرایک طائرانہ سی نظر ڈال لیں۔
ہم ایک ایسی دنیا میں رہتے ہیں جس میں بہت سی چیزیں ہیں۔ جن کو ہم دیکھتے ہیں۔ جن سے کام لیتے ہیں۔ ان کو تبدیل کرتے ہیں اور اپنے استعمال میں لاتے ہیں۔ ہم غور سے دیکھیں تو ان میں سے بہت سی چیزیں جاندار اور بہت سی بے جان ہیں اور سبھی ہمہ وقت تبدیل ہوتی رہتی ہیں، لیکن اس کے تبدیلی کے عمل میں وہ اپنی شکل برقرار بھی رکھتی ہیں، مطلب یہ کہ پہلے کچھ اور شکل ہو گی بعد میں کچھ اور ہو سکتی ہے، لیکن کوئی شکل بہر حال رہے گی۔ بعض اوقات یہ تبدیلی ہوتے رہنے کے باوجود وہی چیز رہتی ہے جو کہ یہ تھی، اور بعض اوقات ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایسی چیز بن جاتی ہے جس کو ہم کچھ اور کہتے ہیں، اور اس قسم کے مظہرات یا عوامل کو دیکھنے کے لیے کوئی لکھوکھا سال کی عمر بھی درکار نہیں ہے، ہم ایسا ہر روز دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ فلسفے میں اس کو بنتر اور مافیہا کے مقولے (form and content category)کہتے ہیں۔ مافیہا مجبور کرتا ہے کہ چیز وہ نہ رہے جو کہ وہ ہے، اور بنتر خود کو وہی روک کر رکھنا چاہتی ہے، جو کہ وہ ہے۔ وغیرہ۔ ۔( مثال کے لیے سرمایہ دارانہ سماج)۔
اس تبدیلی پر مزید غور کریں جو ہمیں نظر آتی ہے، تو اس تبدیلی کا دو طرح کا عمل نظر آتا ہے۔ ایک تو چیزیں اپنے اندر سے تبدیل ہو رہی ہوتی ہیں، اور دوسرا یہ کہ ان پر بیرونی عوامل اثر انداز ہو رہے ہوتے ہیں۔اگر ہم اسی تبدیلی کو مزید نزدیک سے دیکھنا چاہیں تو اس چیز کے مختلف اجزا کو دیکھ لیں۔ ہم دیکھیں گے کہ چیز کا ہر جزو تبدیلی کی زد میں ہے۔ اور ہر جزو کے ساتھ بعینہٖ وہی معاملہ درپیش ہے جو کہ اس شئے کے ساتھ تھا جس کو ہم نے اپنے جائزے کے لیے منتخب کیا ہے۔ یعنی اس کا ہر جزو تبدیل ہو رہا ہے، اور یہ تبدیلی اس کے بیرون سے، یعنی چیز کے دیگر اجزا کی جانب سے، جو کہ اس کو بیرون یا پھر اس کے ’’دوسرے‘‘ (other) ہیں، ہو رہی ہے، یا پھر اس کے اپنے اندر سے۔ یعنی ہر شئے کو ہم ان پہلوؤں کے ساتھ دیکھ سکتے ہیں۔ ایک چیز بطور ایک چیز۔ ایک چیز بطور اس کے اجزا اور وہ چیزبجائے خود۔ یعنی بطور اجزا کے اور بطور اجزا کے مجموعے کے، اور بطور ایک کلیت کے، جو کہ اجزا پر مشتمل ہے۔ ان اجزا کو ہم بہت سے طریقوں سے دیکھ سکتے ہیں، جیسے کہ ان میں سے ایک طریقہ میں نے اختیار کیا ہے، بطور اس کا اندرون اور بیرون۔ تھوڑا سا مزید غور کر لیتے ہیں۔
کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ چیز تو محض اندرونے کا نام ہے، بیرونے میں تو دیگر اشیا ہوتی ہیں۔ لیکن اس بات کو ہماری مرضی ہے کہ ہم مانیں یا نہ مانیں، کیوں کہ دونوں باتیں درست ہیں۔ ایک مثلث کا اندرونہ اس کا حصہ ہے، اور بیرونہ اس کا حصہ نہیں۔ لیکن جیومیٹری کی مثلث پر غور کرنے سے ہمیں نظر آ جاتا ہے کہ اس کے بیرونے میں اگر کچھ نہیں ہے، تو اس کے اندرونے میں بھی کچھ نہیں ہے۔ لیکن یہ ہمارا فرض ہے کہ اس کا اندرونہ مثلث کا حصہ ہے۔ لیکن ہم اس کو ایک اور طرح سے بھی دیکھ سکتے ہیں کہ مثلث کی لکیر (یا تین لکیریں) کا ایک اندرونہ اور ایک بیرونہ بن رہا ہے۔جو کہ اس کے اجزا کہے جا سکتے ہیں۔
تو ہم اس طرح سے چیزوں کو دیکھتے وقت ان کے خاطر خواہ (اپنی مرضی کے) پہلو دیکھتے چلے جاتے ہیں، یا اجزا کرتے چلے جاتے ہیں۔جیسے کہ ہم نے کسی ایک چیز کو لیا ہے(بہت سی چیزوں میں سے، جو ہمارے سامنے یا ہمارے خیال میں ’موجود‘ ہیں) اور اس کے خاطرخواہ حصے کیے ہیں، جن میں ابھی تک ہمارے سامنے یہ آیا ہے کہ اس میں تبدیلی اندر سے اور باہر سے، دونوں جانب سے ہو رہی ہے، اور اس چیز کو حقیقت میں یا خیال میں ٹکڑے ٹکڑے کرتے چلے جائیں تو ہر ٹکڑے میں تبدیلی ہورہی ہوتی ہے اور یہ تبدیلی اندر اور باہر دونوں جانب سے ہوتی ہے۔
یہاں یہ یاد رہے کہ کیوں کہ یہ تحریر فلسفے کے ساتھ ساتھ سائنس کے متعلق بھی ہے، اسی لیے ہم مادے کو، مادی دنیا کو ، معروض کو یا اپنے ارد گرد کی چیزوں کو مان کر چل رہے ہیں، کہ ان کا وجود ہماری نظر کا یا خیال کا دھوکا نہیں ہے، بلکہ ان کا وجود حقیقی ہے۔ کیوں کہ سائنس ان کو مان کر ہی اپنے مفروضات اور مشاہدات کا آغاز کرتی ہے، اگر وہ اس کونہ مانے تو کام کا آغاز ہی ناممکن ہے۔
اوپر کی مثال میں ہم نے ایک کام کیا ہے جو کہ غور طلب ہے۔ وہ یہ کہ ہم نے ایک چیز کو اپنے خیال میں لیا ہے اور خیال میں اس کے ٹکڑے کر ڈالے ہیں، پھر خیال ہی میں اس کے ہر ٹکڑے کو بطور ایک کُل کے، بطور ایک مکمل چیز کے لیا ہے، اور پھر اس کے ٹکڑے کر دیے ہیں، اور اس طریقے سے ہم جان سکتے ہیں، کہ یہ عمل ہم مسلسل کر دینے کے قابل ہیں اوراس کو صرف مسلسل کہہ کر اس قابل بھی ہیں، کہ اس کے تسلسل کو مسلسل ہوتا ہوا فرض کر سکیں۔مثال کے لیے وہی جیومیٹری کی مثلث ہی کو دوبارہ لیا جا سکتا ہے۔ ایک مثلث۔ اس کا اندرونہ اور بیرونہ۔ اس کے تین زاویے یا تین ضلعے۔ اس کا ایک ضلع جو کہ اپنے آپ میں ایک قطعہ خط ہے۔ قطعہ خط کا ایک نقطہ آغاز اور ایک انجام۔ ایک اس کا درمیان۔ اور اس کے درمیان اور آغاز، اور درمیان اور انجام کے بیچ کے لاتعداد قطعہ خطوط۔ ان خطوط کے اندر بھی اسی طرح سے۔ یا پھر ہم نقطوں کے متعلق سوچ لیتے ہیں، جو کہ ان خطوط کی تشکیل کرتے معلوم پڑتے ہیں۔ اب ان تمام نقطوں کا اپنا آپ۔ ان کا بیرون اور اگر بیرون ہے تو اندرون بھی ہو گا ہی، اگر چہ جیومیٹری کی تعریف اس کی اجازت نہیں بھی دیتی، تو بھی۔مطلب یہ ہے کہ اگر ہم نکتے کی آوٹ لائن کو سوچ سکنے کے قابل ہوں تو اس کا اندرون بھی مل ہی جائے گا۔اس طرح سے ہم سوچ میں ان چیزوں کو بھی حصوں میں بانٹ سکتے ہیں جو کہ بظاہر ناقابل تقسیم لگتی ہیں۔
اب ہم واپس شے کی طرف آتے ہیں جس کو ہم نے سوچ میں اجزا میں بانٹا تھا۔ ہم دیکھیں گے کہ شے وہیں کی وہیں ہے ہمارے اس کو سوچ میں تقسیم در تقسیم کر دینے سے اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔اس بات کو کسی مادی چیز کی مثال لے کر سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً ہم ایک سیب کو لیتے ہیں۔ سیب ہمارے سامنے ہے۔ جب ہم سیب پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں اس کا رنگ نظر آتا ہے، پھر اس کی شکل نظر آتی ہے جو کہ ایک مخصوص شکل کی گولائی میں ہے۔ پھر ہم اس کو سونگھ کر اور چکھ کر بھی دیکھ لیتے ہیں۔اب ہم دیکھیں گے کہ سیب کا رنگ، ذائقہ، خوشبو اور اس کی شکل ہم نے چار حصے کر دیے سیب کے۔ یعنی انسانی ذہن نے جب چیز کو جاننے کی کوشش کی تو اس کوشش میں پہلے اس کو ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر اس کو ’’پہچانا‘‘ کہ یہ ایک مخصوص پھل ہے، جو کہ سیب ہے۔ یاد رہے کہ میں انسانی ذہن میں چیز کو جاننے یا پہچاننے کے بہت سے ایک ساتھ چلنے والے عوامل میں سے صرف ایک کی بات کر رہا ہوں، یعنی چیز کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے اس کو ذہن ہی میں دوبارہ سے جوڑتے ہوئے اس کو کُلیت میں شناخت کرنے کی۔
لیکن جب ہم سیب کی طرف دیکھتے ہیں، تو سیب اپنی جگہ پر موجود ہے۔ اس کا رنگ، اس کی شکل سے یا اس کا ذائقہ اس کی خوشبو سے یا اس کے گودے والے حصے سے یا کسی اور حصے سے جدا نہیں ہوا۔ وہ جوں کا توں، ایک ہی کُل کی شکل میں ہمارے سامنے پڑا ہے۔ ہم نے جو جو عوامل کیے وہ صرف سوچ میں کیے۔ صرف اس کو جاننے یا پہچاننے کے لیے۔جو کہ ناگزیر تھے۔
ہم اسی مثال کو دوسرے طریقے سے دیکھ لیتے ہیں، ہم میں سے کسی کو یہ بتانا پڑ جائے کہ سیب کیا ہوتا ہے، تو ہم ایک دم سے نہیں بتا پائیں گے۔ ہم فوراً اس کے ٹکڑے کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ یہ ایک پھل ہے، جس کا ایک مخصوص حجم ہے (ظاہر ہے، انگور کے یا تربوز کے حجم میں سیب کو بطور سیب کہنا بعید از قیاس ہے)، اس اس طرح کا رنگ ہو سکتا ہے، اس طرح کا ذائقہ اور اس طرح کی خوشبو۔ ۔ ۔ وغیرہ یعنی ہم اس کی جتنی بھی خصوصیات بتانا چاہیں گے، وہ اس ایک چیز کے ٹکڑے ہی ہوں گے، جو کہ ہم صرف اپنے تصور کی مدد سے الگ الگ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اب یہ مخاطب کا تصور ہے جو کہ ان ٹکڑوں کو اپنے اندر کے ڈاٹا سے جوڑ کر سیب بنا لے۔ لیکن ان تمام صورتوں میں اس سیب پر، جو کہ ہم سے باہر موجود ہے، ہماری سوچ کی وجہ سے کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ وہیں کا وہیں اور ویسا ہی رہتا ہے۔
بات آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یونیورسل اور مخصوص یا پرٹیکیولر کے مقولے کا ذکر بھی کر لیں۔ یعنی انسانی ذہن کسی بھی چیز کو جاننے یا پہچاننے کے لیے یونیورسل اور پرٹیکیولر کی کیٹگری یا مقولا بھی استعمال کرتا ہے۔ اس کا جائزہ لے لیں۔
جس طرح سے ہم نے چیز کے حصے کیے ہیں اسی طرح سے ہم کسی بھی ایک چیز کی مثال لے کر اس کو یونیورسل یا پرٹیکیولر فرض کر لیتے ہیں اور اس کے آگے اپنی جان یا پہچان کا سفر شروع کر دیتے ہیں۔ مثلاً سیب کی مثال لیتے ہیں۔ اگر ہم سیب کے تصور کی بات کریں جس سے ہم بازار میں یا ٹوکری میں پڑے سیبوں کو جانتے یا پہچانتے ہیں، تو یہ تصور ایک یونیورسل ہے۔ جو ہم نے بچپنے سے لے کر جوان ہوتے تک اپنے ذہن میں تشکیل کیا ہے۔ ہم نے جتنے زیادہ قسم کے سیب دیکھے ہوں گے یہ تصور اتنا ہی وسیع ہو گا۔ ایک سیب پرٹیکیولر ہے اور سیب یونیورسل۔ لیکن ہم ہر یونیورسل کو پرٹیکیولر اور پرٹیکیولر کو یونیورسل کے ذریعے سے جانتے ہیں۔ یعنی سیب کے تصور کو سیبوں سے تشکیل دیا گیا ہے اورسب سیبوں کو ہم سیب کے تصور سے ’’سیب‘‘ کے طو ر پر شناخت کرتے ہیں۔
یہ یونیورسل، مخصوص اور انفرادی آخر ہیں کیا، ان کو جاننے کے لیے تھوڑی سی بات مزید کرنی پڑے گی۔ ہم کوئی بھی ایک جیسی دو اشیا پکڑ لیں۔ جو کہ ہو بہو ایک جیسی لگتی ہوں۔ ۔ ۔ ہم غور کریں گے تو ہر لحاظ سے ایک جیسی لگنے والی اشیا بھی مطلق طور پر ایک جیسی نہیں ہوں گی۔ اس کے لیے کسی خوردبین کی ضرورت نہیں ہے، ایک چیز دائیں پڑی ہو گی دوسری بائیں جانب ہو گی، اس لحاظ سے وہ سیدھے ہی مکانی طور پر مختلف ہو جائیں گی۔ دوسرے یہ کہ ان میں اور بھی بہت سے امتیازات ہوں گے جن کے باعث وہ ہمیں مختلف نظر آنا شروع ہو جائیں گی۔ لیکن اسی کے ساتھ ساتھ ان میں بہت سے وہ خاصے بھی نظر آنے لگیں گے جو کہ ایک سے یا مماثل ہیں۔
اب ہم دنیا کی بہت سی چیزوں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ سب سے پہلے ہم سیب ہی کو لیتے ہیں۔بازار جائیں اور جا کر سیبوں کو دیکھیں۔ ہمیں سیبوں کی کئی قسمیں نظر آئیں گی۔ بہت قیمتی سیب بھی ملیں گے، اور شاید کوئی وہ سیب بھی دیکھ لے جو ہم نے کشمیر میں دیکھے تھے، جن کے متعلق ان کے باغ کی مالکن نے ہمیں بتایا تھا کہ یہ سیب وہ اپنی بھینسوں کو ڈالتے ہیں۔
ان میں سے کئی سیب بڑے ہوں گے کئی چھوٹے۔ ان کی شکلیں بھی کچھ مماثلت کے ساتھ کچھ امتیاز بھی رکھتی ہوں گی اور رنگ تو جدا جدا ہوں گے ہی۔ ہلکے سبز، گاڑھے سبز، زرد پیلے، گلابی، سرخ، سبز و سرخ اور کبوتر کے خون کی مانند گاڑھا قرمزی سرخ وغیرہ۔ ۔ ۔ لیکن ان کا ایک تصور ہے جو کہ ان سب کو سیب دکھا رہا ہے۔
ہم تھوڑا مزید غور کریں تو ہمیں سمجھ میں آنے لگ جاتا ہے کہ ان میں سے ہر سیب اپنے اس اختلاف کی وجہ سے مخصوص ہے، جو کہ اس کا دیگر کے ساتھ ہے۔ مثلاً سبز سیب باقیوں میں مخصوص ہیں اور ان سبز سیبوں میں سے ہر ایک اس اختلاف کی وجہ سے منفرد یا انفرادی ہے جو کہ اس کو اپنے باقی سبز سیبوں میں سے حاصل ہے۔اسی طرح بازار میں پڑا ہر سیب ایک انفرادی حیثیت رکھ رہا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ایک مخصوص ڈھیر میں پڑا بھی ہے، اور اگر نہ بھی پڑا ہو تو بھی پہچانا جائے گا کہ وہ کس ذات کا مخصوص ہے۔تو اس طرح ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی شے اپنی ان توصیفات کی بنا پر جو کہ دوسروں میں نہیں ہیں، مخصوص یا انفرادی ہوتی چلی جاتی ہے، اور ان اوصاف کی بنا پر جو کہ اس کو دوسروں جیسا کرتی ہیں، یا دوسروں میں بھی ہیں، وہ اس کو عمومی یا آفاقی (جنرل یا یونیورسل) کرتی چلی جاتی ہیں۔تو اب ہم اگر تمام سیبوں کو دیکھیں تو ان میں کئی اوصاف ایسے ملیں گے جو کہ تمام سیبوں میں موجود ہوں گے، یہ یونیورسل ہو گا، اور بہت سے اوصاف ایسے ملیں گے جو کہ ہر ایک سیب کو دوسروں سے علیحدہ کریں گے، اور کرتے ہی چلے جائیں گے، یہ مخصوص اور بعد ازاں انفرادی ہو گا۔
اسی مثال کو تھوڑا سا اور باریک بینی سے دیکھ لیتے ہیں تاکہ باقی باتیں کرنا آسان ہو جائے۔ہم تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہو جائے گا کہ جب ہم سیب دیکھتے ہیں، اور ہمیں وہ بیک وقت ایک جیسے اور مختلف نظر آ رہے ہیں۔ہم اختلاف دیکھنا چاہیں تو ان کو غور سے دیکھنا پڑتا ہے، نظر آنے لگ جائے گا، مماثلات دیکھنا چاہیں، تو تھوڑا سا سوچنا پڑے گا۔یعنی ہم دو کام کر رہے ہیں: پہلا یہ کہ ہم ان کو حواس سے جاننے کی کوشش کر رہے ہیں، یعنی دیکھ رہے ہیں(سونگھ سکتے ہیں، چکھ سکتے ہیں، چھو بھی سکتے ہیں) اور ان کے متعلق سوچ رہے ہیں۔ غور کریں تو ان میں سے ایک پراسس اگر ہم چھوڑ دیتے ہیں، یعنی اگر ہم حواس سے کام نہ لینا چاہیں، صرف عقل استعمال کرنا چاہیں، تو ہمیں سیبوں کا ڈاٹا کہاں سے نصیب ہو گا؟ دوسرے اگر کوئی صرف سیبوں کے ڈھیر سامنے لگا لے، تو اس کو ہر سیب الگ تو نظر آ جائے گا، یہ کیسے معلوم ہو گا کہ ان سب میں ایک چیز مشترک بھی ہے، جو کہ ہمیں سیب کا تصور بتا رہا ہے، جو کہ یونیورسل ہے؟
سیبوں کی مثال تک رہیں تو ہمیں شاید عقل کے استعمال کا اتنا پتہ نہ چل پائے لیکن ہم اس سے ذرا آگے کا ایک بیان دیتے ہیں۔ کہ تصور کی آنکھ سے دیکھیں گے تو آپ کو ہر سیب میں ایک قدرِ مشترک نظر آئے گی۔ اس کے بعد ہم سیب کو بطور ایک درخت کے حصے کے لیتے ہیں، تو ہمیں درخت کے مختلف حصے بھی ایک جیسے معلوم ہونا شروع ہو جائیں گے، ہمیں جلد ہی معلوم ہو جائے گا کہ سیب کے اندر جو ننھے سے بیج ہیں، یہ خود اپنے اندر سیبوں کے درخت چھپائے بیٹھے ہیں۔ اور یہ سیب اسی طرح سے درخت کا حصہ بھی ہے جیسے کہ درخت کے پتے، پھول، چھال، جڑیں، شاخیں اور تنا وغیرہ۔اب ہم مزید غور کریں تو درخت، جس کی مثال لینے سے سیب کا یونیورسل پرٹیکیولر بن گیا تھا، اور درخت جنرل یا عمومی، خود ایک پرٹیکیولر درخت ہو جائے گا، یعنی سیب کا درخت، باقی بہت سے پھلدار درختوں میں سے۔ اب اگر ہم پھلدار درخت کے یونیورسل کو باقی درختوں کے بیچ رکھیں تو یہ پرٹیکیولر بن جاتے ہیں، اور درخت ایک یونیورسل تصور۔ اسی طرح درخت کا یونیورسل پودے کے ایک عمومی تصور کے سامنے پرٹیکیولر یا مخصوص ہو جائے گا۔پودا جو اب ایک یونیورسل ہے اس کو ہم جاندار چیزوں میں بطور ایک پرٹیکیولر کے لے سکتے ہیں، اور جاندار پھر نامیاتی چیزیں اس کے بعد چیزیں، یا زمین کی چیزیں، نظام شمسی کی چیزیں یا کائناتی اشیا اور پھر کائنات۔۔۔ یعنی ہم بطور مسند الیہ یا سبجیکٹ کے ان کی حیثیت کو متعین کر رہے ہیں کہ ان کو ہم نے کیا کہنا ہے۔ اور یہ سب اس لیے ہے کہ ہم ان پر بات کر سکیں۔ ان کو جان سکیں۔ ۔ ۔ ان کی پہچان کر سکیں اور دوسروں کو ان کے بارے میں بتا سکیں۔
اس طرح ہم ایک جھگڑے سے اپنی جان چھڑوانے کی کوشش میں تھے کہ حسیات کا علم اصلی علم ہے، یا تعقل کا۔ حسیات کو علم کا اصلی ماخذ کہنے والے برکلے، ہیوم، لاک وغیرہ ہیں، یہاں تک کہ رسل بھی ان میں پیش پیش ہے؛اور وہ فلسفی جو کہ حسیات کو بالکل چھوڑ کرنری عقل کو تمام علم کا ماخذ قرار دیتے ہیں ان میں ڈیکارٹ، روسو اور کئی اور شامل ہیں۔ مگر ہمیں اپنی دنیا کو دیکھ کر یہ سمجھ آئی ہے کہ انسان ان دو کے علم کو جدا جدا صرف سوچ میں، جاننے کے لیے، یا تحصیل علم میں تو کر سکتا ہے، جیسا کہ سیب کے معاملے میں ہم نے اس کی توصیفات کو الگ الگ کیا تھا، لیکن عملی طور پر حسیات کے علم اور تعقل کے علم کو جدا کر کے کسی چیز کو جاننا یا پہچاننا ممکن نہیں۔
ابھی تک ہم نے جو کچھ دیکھا ہے اس میں چیز کے (سوچ میں) ٹکڑے کرنا اور ان کو ایک دوسرے کے جیسا دیکھنا اور ایک دوسرے سے مختلف دیکھنے کے عوامل پر بات رکھی ہے۔اس کے بعد ہم نے یونیورسل، مخصوص اور انفرادی کی بات کی ہے۔ اب تھوڑی سی بات دو اور مقولوں پر کر لی جائے تو بہتر ہے۔ جیسا کہ ہم نے سیب کی مثال میں دیکھا تھا کہ پہلے ہم سیب کے رنگ کو اور شکل کو دیکھتے ہیں بعد میں اس کے سیب ہونے کی سوچ سے اس کے سیب ہونے کا پتا چلاتے ہیں۔ اور اس سے ہم نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ حسی ادراک، یا حسیات سے حاصل ہونے والا علم اور تعقل یا تصوراتی علم دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ لیکن ہمیں کسی چیز کو حسی ادراک سے جاننے کے بعد تصور کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اپنے ارد گرد سے ایک اور مثال لیتے ہیں۔
فرض کرتے ہیں کہ ہم کسی چائے والی دوکان پر چائے پی رہے ہیں۔ قریب ہی سے ایک زور دار دھماکے کی آواز آتی ہے۔فوراً لوگ چوکنے، ہوشیار، اور ہو سکتا ہے کہ خوفزدہ بھی ہو جائیں۔اب یہ دھماکے کی نوعیت پر منحصر ہے کہ لوگ کس طرح کے اندازے لگائیں، لیکن اندازے لگانے کی کوشش کی جائے گی۔ تقریباً اسی طرح کا عمل ہمارے ذہن میں بھی چل رہا ہو گا۔ اگر تو یہ آواز کسی رکشے کے سائلنسر سے آئی ہے تو ادھر اُدھر دیکھ کر معلوم ہو جائے گا کہ یہ کسی پستول کا فائر نہیں ہے بلکہ کسی رکشے کا بیک فائر ہے۔ یا پھر اگر آواز زیادہ زور دار ہے تو اس کو بم دھماکہ، کسی گیس سلنڈر کے پھٹنے کی آواز یا کسی ٹائر کے پھٹنے کی آواز، ان آوازوں کی مماثلت کی وجہ سے سمجھا جا سکتا ہے۔لیکن ذہن اس گتھی کو سلجھانے میں لگ جائے گا کہ یہ کس چیز کی آواز تھی۔اور اپنا اندازہ لگا بھی لے گا، پھر ہمیں مجبور کرے گا کہ ہم معلوم کریں کہ یہ کیا آواز تھی۔ اصل میں اس معاملے کے ساتھ ہماری بقا جڑی ہوئی ہے کہ ہم اندازے لگائیں۔ تاریخ کو یا موجوداشیا، مظاہر یاعوامل کو ان کے ماضی کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے مستقبل کا اندازہ لگائیں کہ اس تناظر میں ہمارا اگلا قدم کیا ہونا چاہیے۔ لیکن حسی ادراک کے ساتھ ہی ہمیں سوچنا بھی پڑتا ہے اور مزید شواہد بھی اکٹھے کرنے پڑتے ہیں۔ ایسا ہر بار ہی ہوتا ہے۔ تقریباً ہر بار۔ تقریباً اس لیے کہ اگر ہمارے ملک میں شب برات وغیرہ کا تہوار ہو، تو دھماکوں اور پٹاخوں کی آواز کو معمول سمجھا جا سکتا ہے، ہو سکتا ہے کہ دور کوئی بم دھماکہ بھی ہو جائے تو بھی اس پر زیادہ غور نہ کیا جائے۔ لیکن یہ بھی اسی بات کا نتیجہ ہے کہ ہمارا ذہن بھی سوچنے اور تناظر قائم کرنے میں حسیات کی مدد کر رہا ہے۔
ہمیں سوچنا اس لیے پڑتا ہے کیوں کہ اشیا، مظاہر اور عوامل جو ہوتے ہیں ویسے ہی سامنے نہیں آتے کہ ہم حسیات سے ان کا سامنا کریں اور کرتے ہی ان کی تہہ تک پہنچ جائیں۔بلکہ ہمارے تجربے میں ہمیشہ یہی آیا ہے کہ اشیا(مظاہر اور عوامل بھی) ہوتی کچھ ہیں اورسامنے کسی اور ڈھنگ سے آتی ہیں۔ سامنے بالکل اصلی ڈھنگ میں بھی آئیں تو بھی ان کی اصلیت تک سیدھے سبھاؤ اس لیے بھی فوراً نہیں پہنچا جا سکتا کیوں کہ اسی طرح کے بہت سے اور بھی مظاہر یا عوامل ہمارے ارد گرد موجود رہتے ہیں۔ جیسا کہ ہم نے دھماکے کی آواز میں دیکھا۔ اس سے ہم ظاہر اور ماہیت کی، ظاہر اور حقیقت کی یا ظاہر اور جوھر کی کیٹگری پر بات کر سکتے ہیں۔
ظاہر تمام بیرونی خاصیتوں، توصیفات اور ان تعلقات کے مجموعے کا نام ہے جن کے ذریعے سے ماہیت یا جوھر خود کو سامنے لاتا ہے۔ پچھلی مثالوں سے ملا کر دیکھیں تو ظاہر انفرادی سے یونیورسل کی طرف جاتا ہے اور حسیات سے تعقل کی طرف۔ لینن لکھتا ہے کہ، ’’یہاں بھی ہم ایک تبدیلی کو، ایک بہاؤ کو ایک سے دوسرے کی طرف جاتا دیکھ سکتے ہیں: جوھر ظاہر ہوتا ہے اورظاہر جوھری ہوتا ہے۔‘‘ یہ دونوں بھی صرف تعقل سے، صرف تصور میں یا سوچ میں جدا جدا کر کے دیکھیجا سکتے ہیں، شے میں، مظاہر میں یا عوامل میں یہ ایک ہی ہیں۔ اپنے آپ میں یہ ایک ہیں۔ یعنی شے میں ظاہر اور ماہیت الگ الگ سے نہیں ہے۔ نہ ہی ایسا کیا جا سکتا ہے۔ ہر شے (مظاہر، عوامل) ظاہر اور ماہیت کا مجموعہ ہے اور یہ دونوں ایک ساتھ وجود پذیر رہتے ہیں۔
فلسفے میں، خاص طور پر جدلیاتی فلسفے میں ہم بہت سی کیٹگریوں یا مقولوں کے متعلق پڑھتے ہیں جو کہ انسان کی سوچ کو اور سماج کو دیکھ کر اخذ کی گئی ہیں۔ جس سے ہمیں سوچ کے اصولوں کا پتا چلتا ہے۔کسی دوسرے مضمون میں ہم ان تمام مقولوں (زمروں، رمزیوں یا کیٹگریوں) کو ایک ایک کر کے تفصیل سے پڑھنے کی کوشش کر یں گے یہاں صرف ان کے متعلق تھوڑا تھوڑا تعارف ہی مقصود ہے۔ جس سے ہمیں صر ف یہ اندازہ ہو جائے کہ انسان کی سوچ کیسے کام کرتی ہے۔یقیناًیہ کیٹگریاں اور تصورات انسان کی سوچ کو جانور سے ممتاز کرتے ہیں۔جدلیاتی مادیت کی کیٹگریاں کافی ساری ہیں جو کہ ہمیں سوچ کے طریق کار کا سمجھاتی ہیں۔ ان میں عمومی اور آفاقی (General and Universal)مخصوص یا تخصیصی (Specific or Particular)، انفرادی (Individual)، بنتر و مافیہا (Form and Content)، جوھر اور مظہر(Essence and Phenomenon) یا ماہیت اور ظاہر(Essence and Appearance)، امکان اور حقیقت، علیتCausality: علت و معلول(وجہ اور نتیجہCause and Effect)، حقیقی اور حقیقت(Actual and Actuality)، معیار اور مقدار یا کیفیت اور کمیت(Quality and Quantity)، اور لازمیت اور اتفاق (Necessity and Chance )،جبر اور آزادی (Necessity and Freedom)، زمان اور مکان(Time and Space)، آفاقی تعلق اور ارتقا(Universal Connection and Development)، کارِ منصبی اور ڈھانچہ (Function and Structure)، نظام اور ڈھانچہ(System and Structure)، نفی اور تسلسل(Negation and Continuity)، تضاد اور ہم آہنگی (Contradiction and Harmony)وغیرہ شامل ہیں۔
بلاشبہ فلسفی انہی فلسفیانہ کیٹگریوں کی مدد سے سوچتے ہیں۔ لیکن سائنسدانوں کی کیٹگریاں الگ نہیں ہیں۔ وہ بھی انہی کی مدد سے سوچتے ہیں۔ اور تو اور، دنیا کا ہر انسان جب سوچتا ہے، کوئی کام کرتا ہے، کچھ جاننے کی کوشش کرتا ہے، یا کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا یا سیکھتا ہے تو وہ ان میں سے چندیا ان سب کو استعمال کر رہا ہوتا ہے۔ہم ان کو جب بھی بتانے کی کوشش کریں گے، تفصیل بڑھتی جائے گی۔ الگ الگ بتائیں گے اور اسی طرح سے سادہ چیز کو بتانے میں پیچیدہ عمل درکار ہوتا چلا جائے گا۔ لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہو جاتا کہ ’’سادی‘‘ سوچ کا عمل پیچیدہ نہیں ہے۔ سادہ سوچ اپنے آپ میں جو کام کر رہی ہے، اس کو ’’ہم سادہ عمل کہہ سکتے ہیں‘‘ لیکن اس کو بتانا کبھی بھی سادہ نہیں ہو سکتا۔
دنیا کا ہر انسان اسی طرح سے سوچتا ہے جیسے ایک فلسفی، ایک آرٹسٹ، ادیب، شاعر یا ایک سائنسدان۔البتہ سوچ اپنی تجرید (abstraction)میں کیسے کام کرتی ہے، ہمیں فلسفے نے بتایا ہے۔ ہمیں فلسفہ (جدلیاتی) ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ دنیا کی ہرایک شے کا تعلق دنیا کی ہر چیز سے ہے۔ اور یہ بھی فلسفہ ہی بتاتا ہے کہ دنیا کی کوئی بھی چیز تنہا یا کٹی ہوئی نہیں ہے۔ اور یہ بھی کہ دنیا کہ تمام چیزیں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ہم ان پر عمل کر کے ان کے متعلق تجریدی سوچ بناتے ہیں، اوراپنے احساسات یا حسیات سے ان کا ڈاٹا لے کر ان کو سوچ میں الگ الگ کر کے دیکھتے ہیں تا کہ ان پر کام کر کے ان کو اپنے استعمال کے لیے تبدیل کیا جا سکے۔
یہاں تک ہم نے جانا ہے کہ ہم نے عمل کر کے چیزوں کو جانا ہے۔ اور جو جانا ہے اس کے طریق کار کو اکٹھا کیا ہے اور آگے منتقل کرنے کے لیے اس کو اصولوں، ضابطوں، طریق ہا ئے کار اور قوانین میں درجہ بندی کرتے ہوئے بتایا ہے۔ لیکن شے کو یا مادی دنیا کو ہم یہ عمل کرتے ہوئے سوچ میں تو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے ہیں حالاں کہ حقیقت میں وہ ویسی کی ویسی ہے۔
لیکن ہم انسان سارا عمل صرف سوچ میں تو نہیں کرتے۔ ہم اشیا پر براہ راست عمل کرتے ہیں۔ان کو تبدیل کرنے کے لیے اوزار بناتے ہیں۔ اوزار بھی اپنے عمل کے سابقہ تجربوں کی مدد سے فطرت کو استعمال کرتے ہوئے بناتے ہیں۔ اوزاروں کی مدد سے فطرت میں موجود اشیا کی شکل کو تبدیل کر کے ان کو اس قابل بنا لیتے ہیں کہ وہ اب ہمارے لیے ہو جائیں۔ یا ہمارے کام آ سکیں۔ اس سارے عمل کو آرٹ کہا جاتا ہے۔آرٹ، یعنی مفید آرٹ۔ یاد رہے کہ یہاں ہم تخلیقی فنون یا فنونِ لطیفہ کی بات نہیں کر رہے۔ یہاں اس آرٹ کی بات ہو رہی ہے، جس کو استعمال کرکے فطرت؛ جو کہ اپنے آپ میں مکمل، لیکن ہمارے لیے نامکمل ہے، اس کو کوئی مفید فن استعمال کر کے اپنے لیے کارآمد بنا لیتے ہیں۔ یہ فن بڑھئی، لوہار، جفت ساز، پارچہ باف، معمار اور ٹیلر ماسٹر کا بھی ہو سکتا ہے اور گھر میں روٹی پکانے یا پلاؤ پکانے سے لے کر دہی جمانے اور مکھن نکالنے کا بھی ہو سکتا ہے۔ یہ سب مفید یا کارآمد آرٹ ہیں۔
اب یہ سارے مفید آرٹ جن کا ہم نے ذکر کیا ہے، ہم دیکھ سکتے ہیں، کہ ان میں ارتقاء ہوا ہے اور ان کے طریقوں میں تبدیلی آئی ہے۔ کام کرنے کے طریق کار بھی بدلے ہیں، اور ان میں کام آنے والے اوزار بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ہم ایک بات اور بھی دیکھ سکتے ہیں کہ ان میں تبدیلی بہتری کی جانب ہی ہوئی ہے۔ یعنی انسان کم وقت میں زیادہ اکائیاں تیار کر سکے، یا ایک چیز بنانے میں اس کو کم وقت درکار ہو، یا پھر یہ کہ تھوڑی قوت لگا کر زیادہ کام ہو۔ دوسری یہ بات بھی روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان طریقِ کاروں میں اور اوزاروں میں تبدیلی کی ضرورت ہمیشہ اسی نے محسوس کی ہے جو کہ براہ راست پیداکار ہے، یا جو کام کرنے والا یا محنت کش ہے۔اس لیے یہ ایک مغالطہ ہے کہ کچھ ذہین لوگ اپنی سوچ یا ذہانت کی مدد سے کوئی نئی ایجاد کر کے محنت کش پر احسان کر کے اس کو تھما دیتے ہیں، کہ اب اس سے کام کرو۔ تمام کی تمام ابتدائی ایجادیں تو براہ راست محنت کشوں نے ہی کی ہیں، اور آج کی ان تمام ایجادوں، جن کا تعلق محنت کش سے ہے، کی ضرورت سب سے پہلے کام کرنے والے ہی کو پیداوار کرتے ہوئے محسوس ہوتی ہے۔ اور یہ بات ہمیں تاریخی اور سماجی طور پر درست نظر آتی ہے کہ تمام کی تمام ایجادیں پیداوار کرواتی ہے۔جو کہ بظاہر عام فہم بات سے الٹ لگتی ہے کہ ایجادات سے پیداوار ہوتی ہے۔
دنیا کی سب سے بڑی ایجاد پہیے کو کہا جاتا ہے۔ پہیے کے متعلق جو مفروضہ بھی قائم کیا جائے اس کی بنیاد یہی ہو گی کہ محنت کش، پیداوار کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہوئے محسوس کیا کرتے تھے کہ بوجھ کو گھسیٹتے ہوئے اگر اس کے نیچے کوئی گول پتھر وغیرہ آ جاتے تو منتقلی آسان ہو جاتی ہے۔ کسی بھی ایجاد کا سوچنا شروع کیا جائے اس کے ساتھ جڑے پیداوار کے تعلق کو سمجھا جا سکتا ہے۔ اور پیداوار کے ساتھ پیدا کار کا تعلق تو ناگزیر ہے۔ یعنی پیداوار، پیداکار کے بغیر ناممکن ہے۔
تو اس طرح سے انسان کی ابتدا اگر محنت اور پیداوار سے جڑی ہے تو تمام آرٹ اسی پیداوار کا نتیجہ قرار پاتے ہیں۔مارکس کی یہ دریافت کہ انسان پہلے کھاتا پیتا ہے آرٹ، فلسفے اس کے بعد ہیں، ہمیں یہی بتاتی ہے کہ جانوروں سے ممتاز کرنے والے تمام آرٹ ہمیں کھانا کھانے کی احتیاج نے سیکھنے پر مجبور کیا۔ کہ ہم اتنی پیداوار کریں، کہ ہم اور ہمارے ساتھ والے بھوک سے نجات پا جائیں۔
اب اگر ہم دیکھیں کہ سائنس کیا ہے۔ تو ان تمام فنون کو آگے سکھانا انسان کی بقا کے لیے ناگزیر تھا۔ انسان نے دیکھا ہو گا کہ ہم کوئی کام کرنے کے لیے کیا کیا کرتے ہیں۔ اور اس نے ان میں سے تمام فالتولگنے والے عوامل کو جھاڑتے ہوئے ضروری ترین کو علیحدہ کرنے کا کام شروع کرنا اور اصول بنانے شروع کیے ہوں گے۔ ہو سکتا ہے کہ یہی سائنس کی ابتدا رہی ہو کہ ان اصولوں کے مطابق کام کر کے خاطر خواہ نتائج ہر بار حاصل کیے جائیں۔ویسے تو سائنس سے پہلے انسان نے مذہب اور اس سے پہلے جادو سے کام لینے کی کوششیں کیں، جن کی شہادتوں سے تاریخ اور بشریات کے علوم ہمیں بہرہ ور کرتے ہیں۔
’’شاخِ زریں‘‘ جیمز جارج فریزر کی تحقیق پر مبنی کتاب ہے۔ اس کے مطالعے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان نے ان قوتوں کو محسوس کیا جو کہ اس کے من چاہے کاموں میں مدد گار بھی ہو سکتی ہیں اور اس کے کیے کرائے پر پانی بھی پھیر سکتی ہیں۔ تو ان سے کام لینے کے لیے اس نے سب سے پہلے ان قوتوں کو اپنے بس میں کرنے کے لیے جادو یا سحر کا سہارا لیا۔یعنی ان قوتوں (فطرت) کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہمارے کام آئیں۔ اس سے کام نہ چلا تو انسان نے ان قوتوں سے اپنے کام نکلوانے کے لیے ان قوتوں کو خوش کرنے کا سوچا۔ خوش کرنے کے لیے ان کے آگے خود کو حقیر بنایا۔ ان قوتوں کو بڑائی بخشی۔ ان کے آگے چڑھاوے چڑھائے اور قربانیاں کیں، گیت گائے، رقص کیے اور طرح طرح کے حربے آزمائے کہ کسی طور یہ قوتیں خوش ہو جائیں اور انسان کو؛ انعام و اکرام سے نوازیں، عتاب نہ کریں، اور دیگر قوتوں کے عذاب سے محفوظ کریں وغیرہ۔ لیکن آخر میں انسان نے اپنے عمل سے اصول بنا کر ان اصولوں کی مدد سے دوبارہ وہی کام کرنے کو سب سے زیادہ سود مند پایا۔اسے ہم سائنس کہہ سکتے ہیں۔
فلسفے اور سائنس کے اس مقابلے میں جس میں آج کے بعض لوگ دیوانہ وار شامل ہیں، بہت سے ’’دلائل‘‘ میں سے ایک یہ بھی سامنے لایا جاتا ہے کہ فلسفہ تو صدیوں پرانا ہے اور سائنس آج کی جیسے کوئی نئی دریافت ہے۔ اور ’’پرانے کا جانا اور نئے کا آنا ہی لازم ہے‘‘، تو فلسفے کو اب سائنس کے لیے میدان چھوڑ کر الگ ہو جانا چاہیے۔اور یہ ’’دلیل‘‘ یہ جانے بنا دی جاتی ہے، کہ سائنس کیاہے اور فلسفہ کیا ہے۔
ابتدائی فلسفے کو دیکھیں تو ہم سائنس اور فلسفے کو ایک ساتھ ابھرتا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔قدیم فلسفی وہی ہیں جو قدیم سائنسدان ہیں۔ رومن عہد کی آخری فلسفی ہائپیشیا، قدیم دور کی آخری سائنسدان بھی تھی۔ عرب سائنسدان،عرب فلسفی بھی تھے۔ اس بات پر ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ اس لیے اتنا کافی ہے کہ سائنس کو فلسفے سے الگ ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ اور دوسرے یہ کہ چودہویں صدی عیسوی سے اگر سائنس کا احیا ہو رہا ہے تو ساتھ ہی یہ مغربی فلسفے کی نئی زندگی کی نوید بھی لاتی ہے۔یعنی چودہویں سے اٹھارہویں صدی جدید سائنسی انقلاب اور جدید فلسفے کی پیدائش کا دور مانا جاتا ہے۔
آج ہم جس دور میں رہ رہے ہیں اس میں تخصیص کاری اور Compartmentalization (یا Departmentalization) انتہا کی ہے۔ جو جو علم الگ ہو سکتا تھا ہم نے کر چھوڑا ہے تاکہ علوم میں زیادہ تحقیق ہو سکے۔فلسفے کے ایک مطالعے نفسیات کو علیحدہ علم ہی نہیں بنایا گیا بلکہ اس کی تیس سے زیادہ شاخیں کر دی گئی ہیں۔ آگے شاخوں کی بھی شاخیں ہیں۔ اسی طرح اور علوم میں بھی ہوا ہے۔ علوم یا سائنسیں الگ ہونے کے بعد مسلسل تقسیم در تقسیم کی زد میں ہیں۔ ماہرین اپنی تحقیق کو لامحدودیت سے بچانے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔ تاکہ آگے تحقیق کرنے میں آسانی ہو۔ تو اس طرح سے صاف نظر آتا ہے کہ آج کے دور میں یہ تمام علوم صرف فلسفے سے ہی الگ نہیں ہوئے بلکہ اپنے اندر خود سے بھی تیزی سے الگ ہوتے ایک دوسرے سے اس قدر دور جا رہے ہیں، کہ ایک ہی شعبے، ایک ہی علم کی، ایک شاخ کے ماہر کو دوسری شاخ کا علم نہیں ہوتا۔لیکن کسی کو نہ بھی بتایا جائے تو بھی غور کرنے والے انسان کے لیے اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں کہ ایک دوسرے سے دور جاتے، پھیلتے، پھٹتے علوم کچھ عرصہ قبل قریب تھے، اور اُس سے پہلے ان کا منبع و ماخذ کوئی ایک ہی علم تھا۔ بالکل بگ بینگ کے نظریے کی طرح۔
بِگ بینگ کا ذکر آتے ہی ذہن میں سٹیفن ہاکنگ آ جاتا ہے۔ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا کہ پروفیسر صاحب نے ایک بیان دیا تھا کہ فلسفہ مر چکا ہے۔ان کے اس بیان کا متعلقہ حصہ کچھ یوں تھا:
’’کائنات کے متعلق بنیادی سوالوں کا جواب مادی ڈاٹا (Hard Data) کے بغیر نہیں دیا جا سکتا تھا۔جیسے کہ اب ہم خلائی تحقیق اور ’’لارج ہیڈران کولائیڈر‘‘ سے حاصل کر رہے ہیں۔ہم میں سے زیادہ تر لوگ عموماً اس جیسے سوالوں سے پریشان نہیں ہوا کرتے لیکن پھر بھی کبھی کبھی ہم میں سے ہر ایک کو کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور تنگ کرتے ہیں کہ: ’’ہم یہاں کیوں ہیں؟ ہم کہاں سے آئے؟اب روایتی طورپر تو یہ سوالات فلسفے ہی کے لیے ہیں، لیکن فلسفی سائنس کی جدید ترقی کے اور خاص طور پر طبعیات کے ساتھ نہیں چل سکے اور ان کا یہ آرٹ مر چکا ہے۔ ۔ ۔ اور اب علم کی اس دوڑ میں دریافت کی یہ مشعل سائنسدانوں کے ہاتھ آ چکی ہے۔ ۔ ۔ نئے نظریات ہمیں کائنات کی ایک بالکل نئی تصویر، اور اس[کائنات] میں ھمارا مقام دکھائیں گے۔‘‘
اس میں سٹیفن ہاکنگ نے مانا ہے کہ سوال جو انسان کو تنگ کرتے ہیں ان کے جواب روایتی طور پر فلسفہ ہی دیتا آیا ہے۔ آخر انسان کے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب فلسفہ کیسے دیتا آیا ہے؟ یہ بات ہمیں فلسفے کے منہاجات یا طریقہائے کار (Methods) کی طرف غور کرنے کو لے جائے گی۔
فلسفے میں کام کرنے کے بہت سے طریق کار ہیں۔ جن میں سے ہم نے مابعدالطبیعیات اور جدلیات کا تھوڑا سا ذکر کیا ہے۔ مابعدالطبیعیات بطور فلسفے کی شاخ کے کسی شے کی حقیقت کو جاننے کا نام ہے۔ کیوں کہ شے(مادی شے) کو حواس کی مدد سے (بظاہر) جانا جا سکتا ہے۔ عام خیال یہی ہے۔ لیکن ہمارے سامنے شے کا صرف ظاہر یا مظہر ہے۔ اس کی حقیقت یا اس کا جوھر نہیں۔تو فلسفہ یہ کہتا تھا کہ ظاہر کو ہم حواس کے ذریعے جانتے ہیں تو جوھر کو ذہن، تعقل یا روح سے جانا جاتا ہے۔جدید فلسفہ یہ کہتا ہے کہ ہم حواس کی مدد سے ظاہر کو دیکھتے ہوئے تعقل سے اس کے جوھر کو جانتے ہیں، لیکن یہ سب ہمارے سرگرم ہونے یا فعالیت کی وجہ سے ہے۔لیکن یہاں پر ہم میتھڈ کی بات کر رہے ہیں۔ مابعدالطبیعیات نے چیز کی اندرونی حقیقت، ماہیت یا جوھر جاننے کی خاطر اپنے لیے میتھڈ دریافت کیے۔ جن میں سے یقیناًایک جدلیات بھی دریافت ہوا۔ اینگلز خود لکھتا ہے کہ مابعدالطبیعیات اپنے وقت کی ضرورت تھی۔ کہ چیزوں کو تبدیلی کے اور باقی اشیا اور دنیا کے ساتھ تعلق کے زیر اثر دیکھنے سے پہلے ان کو روک کر اور تنہا کر کے دیکھنا ضروری تھا۔ (مفہوم۔ لڈوگ فیورباخ اورکلاسیکی جرمن فلسفے کا خاتمہ)۔ یہ بالکل اسی طرح سے ہے جیسے ہم نے اپنی بحث میں بتایا ہے کہ ہم چیزوں کو اپنی سوچ میں جاننے کے لیے ان کو باقی اشیا سے کاٹ کر اور روک کر دیکھتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بحث کی ہے کہ چیز علیحدہ صرف سوچ میں ہوتی ہے اور وہ صرف سوچ ہی میں ساکت و جامد ہو سکتی ہے ۔
فلسفے میں کام کرنے کے لیے جو میتھڈ استعمال ہوتے ہیں ان میں سے کچھ یہ ہیں: مابعدالطبعیاتی و جدلیاتیMetaphysical and Dialectical تاریخی اور منطقیHistorical and Logical، تجریدی و مقرونیAbstract and Concrete، کُل سے جزو کی طرفFrom Part to Whole، تحلیلی(تجزیاتی) و ترکیبیAnalytical and Synthetical، استقرائی و استخراجیInductive and Deductive، آفاقیUniversal، تجرباتی(مشاہدہ، پیمائش، تجربہ)Empirical(، نظریاتی(تجرید سے مقرون کی طرف) اور تجزیاتی ترکیبی (Analytico-Synthetical) وغیرہ۔
ان طریق ہائے کار یا Methodsپر الگ سے لکھ دیا جائے گا۔ لیکن مختصراً اتنا کہنا کافی ہے کہ یہ وہ طریق ہائے کار ہیں جن کے ذریعے فلسفہ چیزوں پر غور و فکر کر کے سوالوں کے جواب دیتا ہے۔ یقیناًچیزوں کا، مظہرات اور عوامل کا ڈاٹا حواس ہی سے آتا ہے، لیکن ان سے عمومی اصول بنانا فلسفیانہ کام ہی ہے۔ انسان کو جب سے انسان مانا جا سکتا ہے، وہ انسان جس کی ہم بات کرتے ہیں، تجریدی سوچ اس کا امتیازی خاصہ ہے۔ اوپر بیان کیے گئے طریق ہائے کار کو دریافت بلاشبہ فلسفیوں نے ہی کیا ہے۔ ان کو نام دیے ہیں۔ آج فلسفہ ان کو استعمال کرتا ہے۔ لیکن یہ میتھڈ کوئی ایسی چیزنہیں ہیں جن پر فلسفیوں کی کوئی اجارہ داری ہے۔ ان کو سارے کے سارے فطرتی اور سماجی سائنسدان استعمال کرتے ہیں اور یہیں پر بس نہیں، بلکہ ان کو ہر انسان اپنی روزمرہ زندگی میں استعمال کرتا ہے۔ ہمارے ادراک کی بنیاد ہی ان منہاجات میں سوچنا ہے۔ہر انسان تجرید میں سوچنے کا اہل ہے۔انسان کو ان سے جدا کر کے دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا۔
تجریدپر بات کرتے ہوئے ہم پروفیسر ہاکنگ صاحب کو ایک مثال اور دے دیتے ہیں جو وقت کو تلاش کرنے نکلے تھے۔ مجھے ابھی محلے میں سے کوئی آ کر پلاؤ دے کر گیا ہے۔ میں اس پلاؤ کے متعلق بتانے کی کوشش کروں تو اس میں چاول، گوشت، گھی، مصالحے، پانی اور حرارت وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب اجزاکو بتانے میں میں نے پلاؤ کے ٹکڑے کر دیے ہیں۔ لیکن پلاؤ اپنے آپ میں اپنی وحدت میں ویسے ہی پڑا ہے۔ تجرباتی یا مادی ڈاٹا (Hard Data)کی ضرورت سے زیادہ مانگ کی وجہ سے ہم ایک مثال اور دیتے ہیں۔ ایک انسان کی مثال لیں۔ کوئی اس کو باپ کہے گا، کوئی بیٹا، کوئی بھائی بولے گا تو کوئی دوست، کوئی اس کو شوہر کہتا ہو گا، تو کوئی ہم زلف، کوئی سمدھی کہے گا تو کوئی داماد، کسی کا ماما ہو گا، کسی کا چچا ، کسی کا بہنوئی کسی کا سالا، کسی کا استاد اور کسی کا شاگرد۔ ۔ ۔ وغیرہ لیکن وہ انسان صرف ایک ہے۔اس کے اپنی مرضی کے حصے بخرے ہم اپنی سوچ میں کرتے ہیں۔ لیکن اب کوئی آ کر ہمیں اسی طرح سے ’’ ہارڈ ڈاٹا‘‘ میں انسانی دریافتوں کا ثبوت مانگے کہ ڈی این اے سے اس کو دوست، شاگرد، استاد یا ہمسفر ثابت کرو۔ ۔ ۔ تو ناممکن ہو جائے گا۔ ان باتوں کو تعقل ہی کی مدد سے سوچا جا سکتا ہے۔ پوری کائنات میں کسی مستوی کا، کسی خط مستقیم کا، کسی شعاع کا یا کسی نقطے کا جیومیٹری کی تعریف کے مطابق وجود نہیں ہے۔ یہ چیزیں اصل میں وہ تجریدیں ہیں جو ہم نے مادی کائنات سے حسی مطالعے میں تعقل کو استعمال کرتے ہوئے علیحدہ کر کے بنا لی ہیں۔ اب ان کو جاننے کے لیے محض تعقل (reason)استعمال ہو گا۔ اینگلز لکھتا ہے: ’’پہلے تو یہ لوگ حسیاتی دنیا کی چیزوں کی تجرید (سوچ میں ٹکڑے کر کے اپنی مرضی کے ٹکڑے کا انتخاب کر لینا)کر لیتے ہیں۔ اس کے بعد زمان(Time) کو دیکھنا اور مکان(Space) کو سونگھنا چاہتے ہیں۔(Dialectics of Nature)۔‘‘
یعنی پروفیسر صاحب کو اب خیال آیا کہ اصل چیز تو حسیاتی ڈاٹا ہے۔ لہٰذا علم کی فلسفے سے کیوں نہ طلاق کروا لی جائے اور علم کی مشعل لے کر اکیلے ہی دوڑ لگاتے ہیں۔ سائنس پرانی دیکھیں یا نئی۔ اس میں تجربہ اور غور و فکر دونوں ہی استعمال ہوتے ہیں۔ اب یہ بات کہ سائنس والوں کو سوچنے کے میتھڈ پتہ چل گئے ہیں تو فلسفے کی ضرورت نہیں رہی، عجیب سی بات لگتی ہے۔ اگر ان باتوں پر غور کریں تو ہمیں معلوم پڑے گا کہ جس چیز کو یہ سائنس کہہ رہے ہیں وہ سائنس کیسے رہ جاتی ہے؟ سائنس نے حسیاتی ڈاٹا لینے کے بعد وہی کام کرنا ہوتا ہے جو کہ فلسفے کا طرۂ امتیاز ہے۔ یعنی اس کے بارے میں عمومی اصول بنانا۔ اب اگر فلسفی سائنس کو جاننے میں پیچھے رہ جائیں، تو اس میں سائنس کا قصور بھی تو ہو سکتا ہے۔ کسی بھی سماجی سائنس دان نے یا فلسفی (بلکہ کسی بھی دوسری فطرتی سائنس یا اس کی کسی دیگر شاخ) نے کسی بھی سائنس کو اسی قدر جان پانا ہے جتنا کہ اس کے اپنے سائنسدانوں نے، اپنی سائنس کے عمومی اصول بنا کر ان کے حوالے کرنے ہیں۔فطرتی سائنس کے دیے گئے اصول نہ صرف ان کے بعد والوں کے کام آتے ہیں بلکہ یہ تمام سماجی سائنسوں کے بھی کام آتے ہیں۔ اور پھر تمام فطرتی سائنسوں کے ساتھ ساتھ سماجی سائنسوں کے اپنے علوم میں کی گئی تحقیق سے اخذ کردہ عمومی اصول فلسفے کے کام آتے ہیں۔ اس طرح ہر سائنس کی تحقیق کے بعد فلسفہ خود بخود ارتقاء پا جاتا ہے۔
اب یہی کام ہر فطرتی سائنس والا اور سماجی سائنس والا کرتا ہے۔ سماجی سائنسوں والے فطرتی سائنسوں کے ڈاٹا، عمومی اصولوں اور نتیجوں کو بقدرِ ضرورت لیتے ہیں۔ اور فلسفے والے ان دونوں سائنسوں کے تمام عمومی اصولوں کو لے کر اپنا قدم آگے بڑھاتے ہیں۔یعنی انسان کی دنیا میں دونوں کام ہوتے ہیں۔ استخراج بھی اور استقراء بھی۔ اور اسی طرح سے انسان کے علم کا ارتقاء مسلسل ہو رہا ہے۔
سائنس جس کی بات کی جا رہی ہے (تمام سائنسیں)۔ اس کو دنیا کا کوئی سائنس دان جانتا ہے؟ جواب ہے نہیں۔ اگر کوئی کسی سائنس کو جانتا ہے تو وہ سائنس عمومیت میں ہے۔ کیوں کہ ہم اپنے ہی نصاب میں دیکھیں تو آٹھویں جماعت کے بعد ’’سائنس‘‘ کا مضمون کہیں نظر نہیں آتا۔ سائنس ختم ہو چکی ہے۔ یہ بھی اسی طرح سے پھیل چکی ہے جیسے فلسفہ پھیلا تھا۔ اب اس علم کا وجود کسی کتاب میں بھی نہیں ملے گا۔ ہم اس کا ذکر بس عمومی طور پر کرتے ہیں۔ ورنہ ایمبریالوجی یا میٹلرجی اپنے طور پر مختلف میدانوں کی حامل ہیں۔ آگے اس کی بہت سی شاخیں ہیں، جو کہ اس کے اجزاء ہی ہیں۔ اگر یہ تمام اجزا سائنس ہی کی طرح کُل ہونے کا دعویٰ کر دیں، تو کیا ہمیں اس بات پر ہنسی نہیں آئے گی؟ ہم یہ نہیں کہیں گے، کہ یہ درست ہے۔ کیوں کہ یہ سب الگ الگ ہوتے ہوئے بھی سائنس ہی ہیں۔ خواہ ان میں سے کوئی بھی اپنے پڑوسی کے بارے میں نام سے زیادہ نہ جانتا ہو۔ دوسرے لفظوں میں بات کریں تو ایسے ہو گی کہ اگر تمام سائنسوں کی کُلیت میں سے ان کی غیر لازمی جزیات کو نکال دیا جائے اور ان سب میں سے مشترک خواص کو لیا جائے تو ہمارے ہاتھ فلسفیانہ اور سائنسی استخراجی طریقے سے سائنس کا جوھر لگے گا، جو کہ ہر سائنس کی ہر قسم سے کشید کردہ ہو گا۔ اب ہم پوچھیں گے کہ ایسی سائنس کسی ’’ایک سائنسدان‘‘ (جزیات اور تفاصیل سے عملی طور پر نمٹنے والے) کے کام کی ہے، یا ’’سائنس‘‘ یعنی فلسفے کے؟ اگر اس قسم میں کوئی بھی کام ہو گا، تو وہ فلسفے ہی میں کام تصور کیا جائے گا۔
انسانی ذہن بیک وقت دو طرح سے کام کر رہا ہوتا ہے۔ سیریبرل بھی اورریشنل بھی۔ یعنی جسمانی بھی اور منطقی بھی۔ ایک پر بات کرنا سائنس کا کام ہے دوسرے پر فلسفے کا۔اس طرح فلسفہ اپنے اندر سائنس اور سائنس اپنے اندر فلسفہ لیے ہے۔ اور یہ بندھن صرف سوچ میں جد اکیے جا سکتے ہیں۔ عملی طور پر یہ ایک ہی ہیں۔ جیسے سیریبرل اور ریشنل بجائے خود۔ یہ بڑی عجیب بات لگتی ہے کہ کیوں کہ اب سائنس کام کر رہی ہے اس لیے فلسفے کو پکڑ کر روک دو۔ اسے کام نہ کرنے دو۔ ورنہ جانے کیا ہو جائے گا۔ بعض تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اب اخلاقیات کے مسئلوں پر بھی فطرتی سائنس ہی بات کرے گی۔ یعنی اب آگے جا کر میرؔ و غالبؔ کے شعروں پر تنقید فزکس میں یا کیمسٹری میں ہوا کرے گی؟ سیاست میں ہمیں بائیالوجی بتائے گی کہ کس کو ووٹ ڈالیں؟ کیوں کہ جمالیات اور سیاسیات کی سائنسیں تو ہنوز فلسفے کی شاخیں ہیں۔
ایسا ہی مسئلہ فلسفے اور سائنس کے متعلق بنایا جا رہا ہے۔ یعنی فلسفے اور عمل کو دو مخالف انتہائیں سمجھنے کا۔ یہ بات جدلیاتی طور پر دیکھیں تو درست ہے بھی کہ جدلیاتی انداز میں دنیا کی ہر چیز، ہر مظہر اور ہر عمل میں تضاد پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ تضاد ’’مانع الجمع‘‘ (Mutually Exclusive) [اگر ایک ہے، تو دوسرا ممکن نہیں]نہیں، بلکہ دو متضاد ایک ساتھ رہتے ہیں۔لیکن ہمارے ’’دوست‘‘ہمارے شروع میں بیان کردہ دقیانوسی مابعدالطبیعیاتی میتھڈ کو بروئے کار لاتے ہوئے کسی اصول کو یا عوامل کو اس کے اندر سے دیکھنے اور بتانے کے بجائے کہ یہ غلط ہے یا درست ،اس کو کسی اور علم جس کا دائرہ کار ہی مختلف ہے، کے مقابلے میں لا کر، اس کو غلط قرار دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ’’سیریبرل اور ریشنل‘‘ والی مثال پر غور کر لینا ہی کافی ہے کہ ذہن کا کام ریشنل نہیں، محض سیریبرل ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ اگر نیلی وہیل کی ہاتھی سے لڑائی ہو جائے تو کون جیتے گا؟ نہ تو ہاتھی نے پانی میں اترنا ہے اور نہ ہی وہیل خشکی پر آئے گی۔ یہ وہی موازنے کا طریقہ ہے جس کا ذکر شروع میں کیا جا چکا ہے۔
دوسرا یہ سارے فلسفے ہی کو ایک آدھ مثال لے کر غلط قرار دینے کی کوشش میں ہیں۔ جس کو ’’ترکیب و تجزیے‘‘ کے میتھڈ کے غلط استعمال سے پیدا ہونے والے منطقی مغالطے کے مطالعے سے سمجھا جا سکتا ہے۔ جس میں ایک مثال کو سارے گروپ پر یا ایک گروپ کی مثال لے کر اس کو فرداً فرداً لاگو کرنے سے دھوکا دیا جاتا ہے۔ یا پھر کسی مشہور شخصیت کے کسی قول کی بنیاد پر فلسفے کا خاتمہ کر دینا چاہا جا رہا ہے۔ جیسے کہ پروفیسر سٹیفن کی مثال میں ہو رہا ہے کہ :سائنسدان جو باتیں کرتے ہیں وہ سچی ہوتی ہیں۔ یہ بات سٹیفن ہاکنگ نے کہی ہے، جو سائنسدان ہے، لہٰذا سچی ہے (مغالطہ دلیل احترام)۔ بعض لوگ کارل مارکس کے فیورباخ پر گیارہویں تھیسس کو بھی اس معاملے میں سمجھے بغیر، اور اس کے باقی دس تھیسسوں کو پڑھے بغیر فلسفے کے خاتمے پر مہر لگانے کے لیے استعمال کرتے ہیں کہ ’’ فلسفیوں نے اب تک دنیا کی تشریح کر دی ہے۔ اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے‘‘ کا مطلب ہے کہ فلسفیوں نے گویا کوئی غلط کام کر دیا ہے، اصل کام تودنیا کو تبدیل کرنا تھا۔ اس کا بھی سادہ سا جواب ہی ہے، کہ مارکس بھی وہی بات کہہ رہا ہے، جس پر ہم بحث کر رہے ہیں، کہ نظریہ اور عمل الگ نہیں ہیں۔ نری تشریحیں اور نری موُشگافیاں بے معنی ہیں۔ تشریح ہو چکی۔ اب کام کی باری ہے۔ لیکن کام تشریح کو جانے بغیر ہو گا، ایسا کس نے کہا؟
لیننؔ کہہ رہا ہے کہ ’’مراقبے کے دن لَد گئے اور عمل کی زبردست اہمیت واضح ہو گئی‘‘ تو کیا لیننؔ نے اپنی جدوجہد میں فلسفہ پڑھا، لکھا یا کام میں استعمال نہیں کیا تھا۔ ایسا تو نہیں ہوا۔ لینن کی فلسفیانہ نوٹ بُک اس کے آخری دور کی کتابوں میں سے ایک ہے۔ اس میں وہ پیچیدہ ترین فلسفے کا مطالعہ کر رہا ہے یعنی ہیگل کی ’’سائنس آف لاجک‘‘ کا۔ لیکن اس کی ساری زندگی عملی جدوجہد کی دلیل بھی ہے۔
لیکن ہمارے ’’دوستوں‘‘ کو یہ چیزیں نظر نہیں آتیں۔ اپنے میتھڈ کی وجہ سے۔ وہ خوردبین کی مدد سے بھینس دیکھنے کے خواہاں ہیں۔مارکس کے قول کو لے کر صرف ایک لفظ تبدیل کرتے ہیں اور پھر قول ان کی من پسند ’’صداقت‘‘ بیان کر رہا ہوتا ہے کہ ’’اب تک فلسفیوں نے تو کائنات کی تشریح کی ہے۔ اصل کام اس کو تبدیل کرنا ہے‘‘ ۔ یعنی فلسفیوں کا کام کائنات کی تشریح کرنا یا کائنات پر بات کرنا ہے لیکن مارکس کو اس بات کی سمجھ نہیں آئی اور وہ ان کو کائنات کو تبدیل کرنے پر اُکسا رہا ہے کہ سورج کو ذرا کم گرم ہونا چاہیے یا پھر چاند کو ذرا زیادہ روشن کر لیں یا اسی طرح سے کچھ اور۔ ۔ ۔
پروفیسر ہاکنگ بھی کائنات کی تشریح ہی کو فلسفے کا کام بتا رہے ہیں اور اس کے بعد انہوں نے اس میں انسان کے مقام (انسان کے ہونے کی مقصدیت ) پر بات کی ہے۔ اور اس کو یوں باور کروا دیا ہے گویا یہ فلسفے کا بنیادی کام تھا، جس میں کہ فلسفہ ناکام ٹھہرا اور اس کام کو سرانجام دینے میں سائنس شادکام رہے گی۔پروفیسر صاحب نے اپنی مرضی سے گھاس پھونس اکٹھا کر کے فلسفے کا ایک بڑا سا بھوت بنایا ہے اور پھر اس کو آگ لگا دی ہے۔ اور اعلان فرما دیا کہ فلسفے کا خاتمہ ہو گیا۔ اب سائنس کو دیکھو اور صرف کائنات کی گہرائیوں پر غور کرو۔ اور یہ بات پروفیسرصاحب بھی بخوبی جانتے ہیں اور ان کے وہ پروموٹر بھی کہ کائنات پر غور کر کے اس کو سمجھنا اور جاننا ایک اکیلے انسان کے لیے کیا سود مند ہو سکتا ہے۔ کب کائنات کے گنجلک رازوں کی سمجھ آئے گی، کب یہ بھید کھلیں گے۔ یعنی انسان، طالبعلم، نوجوان کائنات پر غور کریں۔ اور ارد گرد موجود عام دنیا کو اور سماج کو حقیر جانتے ہوئے سٹیفن کے آقاؤں یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے کرتا دھرتاؤں کی فتوحات کے لیے چھوڑ کر ستاروں پر، سدائم Nebulas پر اور بلیک ہولز پر غور کریں۔ اس بات کا ثبوت ان کی اسی بات کے اگلے فقرے میں ملتا ہے جس کا حوالہ ہم نے اوپر دیا ہے۔ وہ کچھ یوں ہے:’’ ایم تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے زیادہ ڈاٹا درکار ہے۔ جس کے لیے ایک نئے، بڑے سائز کے ہیڈران کولائیڈر کی ضرورت ہے جو کہ ’’ملکی وے‘‘ جتنا بڑا ہو۔‘‘
مجھے ملکی وے کا سائز بتانے کی ضرورت نہیں جس کے ایک کنارے پر ہمارا نظامِ شمسی واقع ہے۔ہو سکتا ہے کہ میرے چھوٹے دماغ میں اتنی بڑی بات نہ آتی ہو۔ ہو سکتا ہے کہ پروفیسر صاحب کی اس بات میں آئن سٹائن پر محض طنز کیا گیا ہو۔ لیکن یہ ضرور جانتا ہوں کہ سائنس ہو یا فلسفہ لامحدود کو نہیں جان سکتا۔اور فلسفے کے متعلق ہم نے پہلے بھی بتایا تھا کہ افلاطون نے مٹی، کیچڑ، پتھر، لکڑی گرد و غبار پر بات کرنا فضول قرار دیا تھا۔ اس کے مکالمے پارمینیڈس میں، پارمینیڈس، سقراط، زینو اور دیگر حاضرین اس بات پر متفق ہوتے ہیں کہ فلسفے میں بات خیالات پر ہوتی ہے۔ ’’فیڈو‘‘ میں تو انکساغورث کی سائنسی تفہیم کو فلسفے میں لا کر مضحکہ خیز دکھایا گیا ہے۔ ہیگل مٹی، پتھر تو کُجا، جانوروں کا بھی ’’نامیاتی‘‘ ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ دوسری جگہ وہ آرٹ میں صرف ان چیزوں کو حسین مانتا ہے، جو انسان کی تخلیق ہیں۔ یعنی جمالیات میں حسن پر بحث تو ضرور ہو گی، لیکن حسن صرف اس میں دیکھا جائے گا جو انسان کی تخلیق ہے۔ ’’تخلیق‘‘ یعنی جس کا تعلق ’’تخلیقی آرٹ‘‘ سے ہے۔ فلسفے میں تو انسانوں پر بھی بطور انفرادی کے بحث نہیں ہوتی، کُجا یہ اس کو کائنات پر سوچنے کا کہا جائے۔ یہ درست ہے کہ پہلے پہلے ایسا ضرور سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب، جب کہ بہت سے علوم اپنا بوریا بستر سمیٹ کر فلسفے سے الگ ہو چکے ہیں،کہ اسی میں وہ آسانی سے اپنا کام کر سکیں گے، تو ان کا کام اب فلسفہ کیوں کرے گا؟ کیا فلسفے کے پاس اب کوئی کام نہیں رہ گیا؟
دوسری بات یہ کہ پروفیسر ہاکنگ صاحب اس کائنات میں انسان کے مقصد کی یا مقام کی بات کر رہے ہیں۔ ٹھیک ہے وہ ’’کائنات میں انسان کے مقصد‘‘ کی تلاش کریں۔ لیکن مجھے اینگلز کی بات یاد آتی ہے کہ مقصدیت پر غور کریں تو یہی سمجھ آتا ہے کہ:’’ بلیوں کو اس لیے بنایاگیا ہے کہ وہ چوہے کھائیں، اور چوہے اس لیے بنائے گئے ہیں کہ وہ بلیوں سے کھائے جائیں‘‘ ۔(فطرت کی جدلیات)
ہمارے ان ’’دوستوں‘‘ کا، جو فلسفے کا خاتمہ کرنے چلے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ ان کو خود نہیں معلوم کہ کسی ڈسپلن میں بات کیسے کرنی ہے، اور انہوں نے بات ضرور کرنی ہے۔ خود کو ریشنلسٹ کہتے ہیں، لیکن تجربے کو مانتے ہیں، اور جب یہ خود کو تجربیت پسند کہتے ہیں(حواس کے علم کو حقیقی ماننے والے) تو حواس سے بالا جا کر خیال میں مادے کے اتنے چھوٹے ٹکڑے کر کے ان کو ماننے کی بات کرتے ہیں، جن کا وجود ان کے بقول نہ ہونے کے برابر ہے۔
فلسفے کے طریق کار کے مطابق جب ہم پانی کی بات کرتے ہیں تو آکسیجن اور ہائیڈروجن پر بات کرنا حماقت ہو گا۔ سائنس بھی ان کے خواص کو پانی سے الگ بتائے گی۔ مارکس داس کیپیٹل میں ’’بیوٹرک ایسڈ‘‘ اور ’’پروپائل فارمیٹ‘‘ کی مثال دیتا ہے۔ جو کہ دونوں کیمیائی طور پر C4H8O2سے بتائے جاتے ہیں، لیکن اپنے خواص میں مختلف ہیں۔ یعنی چیزوں کی ترکیب یاسٹرکچر اس دنیا کے تناظر میں معنی رکھتا ہے۔
تمام علوم، تمام سائنسیں، تمام فلسفے انسان کے لیے ہیں اور انسان ہی ان کابراہِ راست مقصد ہے۔ اس سے بڑی مقصدیت اور کوئی نہیں ہے۔’’فطرت کی سماجی حقیقت(The Social Reality of Nature)، اور انسانی فطرتی سائنس(Human Natural Science)، یا انسان کی فطرتی سائنس (The Natural Science of Man)، ہم معنی اصطلاحیں ہیں‘‘۔ (مارکس، فلسفیانہ اور معیشتی مسودات)
انسان نے اپنی بقاء کے لیے ایک لمبا عرصہ فطرت سے نبردآزمائی میں گزارا۔ اپنے کامیاب تجربات کو اپنے بعد والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے علوم تشکیل دیے۔ ایک دنیا پر غور کیا۔ اس کو جاننے کے لیے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کیے۔ بہت سی سائنسوں کو اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے ابھی سو سال کا عرصہ نہیں ہوا۔ یہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے الگ ہوتی اور بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔سبھی اپنی اپنی جگہ کام کر رہی ہیں۔ لیکن یہ سارا انسانی علم ’’ہم‘‘ نے ہی اس دنیا سے ’’الگ‘‘ کیا ہے۔ الگ نظریاتی طور پر ہی ہے۔ اس دنیا سے الگ، اور ایک دوسرے علوم سے بھی الگ۔ ورنہ دنیا بالکل اسی طرح سے وہیں ہے جیسے پہلے تھی۔اسی طرح انسان کے مجموعی علم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ لامعلوم علم کے متعلق ہماری یہ جانکاری پہلے سے کئی گنا بڑھ گئی ہے کہ لامعلوم علم اس کی نسبت بہت زیادہ ہے جو کہ ہم پہلے جانتے تھے۔ لیکن بہرحال لامعلوم علم کم ہوتا جا رہا ہے اور معلوم علم زیادہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس تمام معلوم علم کو الگ الگ تو ہم کر ہی رہے ہیں۔ لیکن ایک کام کرنے کے لیے ہم کتنے علوم کا استعمال کرتے ہیں، اس کو گنا نہیں جا سکتا۔ ایک سیب کے پیدا ہونے سے لے کر ہمارے ہاتھ میں آنے تک کتنی سائنسیں الگ الگ کام کرتی ہیں، ہم گن نہیں سکتے۔ لیکن ہمارے لیے سیب کو کھانے کے لیے ان سائنسوں کا جاننا ضروری ہے، نہ ہی دوسری طرف سیب کو اس سے کوئی سروکار ہے۔ کیوں کہ ایسا ہم نے صرف اپنی (تجزیاتی) تفہیم کے لیے کیا ہے۔پھر بھی کیا الگ الگ کر کے دیکھنے کے بعد ان سب کو اکٹھے دیکھنے کا کوئی الگ دور آنے والا ہے؟ جیسا کہ انسان اپنی سوچ کے عمل میں کرتا ہے، جو کہ ہم سیب کی مثال میں دیکھ چکے ہیں؟
الگ الگ دیکھنے اور کائنات پر غور کرنے سے ہمیں بہت سا ڈاٹا ملے گا جو ہمیں لامحدودیت پر غور کرنا سکھائے گا۔ لیکن جب ہم سب کو اکٹھا دیکھتے ہیں۔ تو ہمیں اپنی دنیا، اپنا سماج نظر آئے گا۔ سماج میں موجود مسائل نظر آئیں گے۔ نظام شمسی سے کھرب ہا گنا بڑے ’’ہیڈرن کولائیڈر‘‘ بنانے کی بجائے ہم اس بات کے متعلق سوچیں گے کہ اتنی ترقی کے باوجود یمن میں پانچ سال سے چھوٹے پچاسی ہزار85,000 بچے قحط سے کیوں مر گئے ہیں۔ وہاں لوگ پتے پیس کر کھانے پر کیوں مجبور ہیں؟ تھر میں ہزارہا بچے اس لیے کیوں مر رہے ہیں، کہ ان کی ماؤں کے پاس کھانے کو کچھ نہیں۔یہ نہیں کہ خوراک موجود نہیں۔ دنیا کو آج بڑے بڑے بحرانوں کا سامنا ہے جو کہ وسائل کی اور پیداوار کی کمی کے نہیں، بلکہ پیداوار کی زیادتی کے بحران ہیں۔ محنت کرنے والا انسان جس قدر زیادہ محنت کرتا ہے اس کی بچی کھچی ملکیت اس سے چھنتی چلی جاتی ہے، کیوں کہ جس کے قبضے میں دولت ہے، جس کے لیے وہ محنت کر رہا ہے، وہ غریب کے محنت کرنے کی بدولت مزید دولتمند ہوتا جا رہا ہے جس سے وہ غریبوں کے پاس جو کچھ بچا ہے خرید لیتا ہے۔ ہم نے خود غریب لوگوں کو بڑے گھروں میں رہتے دیکھا ہے جن کے بڑے بڑے صحن ہوا کرتے تھے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے وہ جگہیں پیسے والوں نے خرید لیں، اور غریب محنت کرنے والے چھوٹے اور مزید چھوٹے مکانوں میں منتقل ہوتے چلے گئے۔ جو چھوٹے مکانوں میں رہتے تھے کرائے پر چلے گئے۔
یہی مسئلہ ہے۔ کائنات پر سوچنے کی بجائے جب بھی اپنے سماج پر، انسانوں پر سوچنا شروع کیا جائے تو دکھی گھرانوں کی کہانیاں سامنے آنے لگتی ہیں۔اور ’’ہر دکھی گھرانے کی اپنے طور سے الگ کہانی ہوتی ہے۔ جب کہ سکھی گھرانے تو ایک ہی جیسے ہوتے ہیں‘‘ (ٹالسٹائی) ۔جو کہ ہمارے حکمران طبقوں کو اور ہمارے نظریہ ساز اداروں کو منظور نہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم صرف ارب پتیوں کی کہانیاں دیکھیں۔ جیسے ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ میں دکھایا جا رہا ہے، ایک دردِ دِل رکھنے والا پاکستانی انیل مسرت جس نے اپنے بیٹے کی شادی پر چالیس لاکھ پونڈ لگا دیے یا پھر ستارہ کیمیکلز کا مالک، جو یہ ثابت کرنے کی کوشش میں ہے کہ اس کا سارا سرمایہ حلال ہے، کیوں کہ وہ اسلامی بینکنگ استعمال کرتا ہے۔یا پھریہ چاہتے ہیں کہ ہم وہ لمبے ڈرامے دیکھیں جن میں کھرب پتیوں کی کہانیاں سنائی جاتی ہیں۔ لوگ دیکھتے بھی ہیں۔ کیوں کہ دیکھنا تو ہے، اور دیکھنے کو مہیا یہی بکواس ہے۔ لیکن جہاں سماج پر غور کیا جائے تو سماج ایک نظر آنے لگتا ہے۔ انسان کا سماج جو کہ ایک طرف تو دکھی انسانیت پر، اوردوسری طرف ان انسانوں پر مشتمل نظر آتا ہے، جو کہ دکھ دینے والے ہیں۔ اورغور کرنے والے اس بات پر غورضرور کرتے ہیں کہ انسان کے مصائب کا کوئی حل بھی ہے یا نہیں۔ اور جو اس بات پر تفکر کرتا ہے، جلد یا بدیر ایک ہی جگہ پہنچتا ہے کہ اس سماج کے دکھوں کا واحد حل یہی ہے کہ اس کو تبدیل کر کے انسانوں کے رہنے کے قابل بنایا جائے۔ جس میں خوراک، رہائش، تعلیم، علاج اور روزگار کی ضمانت انسانوں کو ملے۔ ہم ایسے سماج کو، ایسے نظام کو، سوشلزم کے نام سے جانتے ہیں۔ ہم پڑھنے والوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر انسان کے دکھوں کے حل پر بات کریں اور ان کی نجات کی کوشش میں ہمارا ساتھ دیں۔
(21 نومبر 2018ء)