|تحریر: ماہ بلوص اسد|
عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس وقت دنیا میں واضح طور پر دو طبقات موجود ہیں، ایک طرف امیر طبقہ ہے جو کہ سماجی دولت کے ایک بڑے حصے کا مالک ہے اور دوسری طرف غریب طبقہ ہے جو زندگی گزارنے کے لیے بنیادی ضروریات مثلاً خوراک، رہائش، علاج اور تعلیم سے بھی محروم ہے۔سرمائے کی بنیاد پر قائم اس طبقاتی نظام میں دولت کی بنیاد پر طبقاتی تفریق سیاسی، ثقافتی اور حتیٰ کہ علمی تفریق کو بھی جنم دیتی ہے جہاں اعلیٰ اقدار، جدید رہائش، بہترین علاج اور بہترین تعلیم پر مٹھی بھر امیر افراد کا قبضہ ہے جو کہ غریبوں سے لوٹی ہوئی دولت کے ذریعے انسانی ضرورت کی تمام چیزوں پر قابض ہو جاتے ہیں۔ دوسری طرف غریب اور درمیانے طبقے کے لیے بنیادی انسانی ضروریات کو پورا کرنے میں زندگی بھر کی کمائی ہوئی جمع پونجی بھی کم ہی ہوتی ہے۔
یہی صورتحال مملکت خداداد پاکستان کی ہے جہاں علم کو واقعی دولت اور زیور بنا دیا گیا ہے جو کہ اتنا قیمتی ہو چکا ہے کہ معاشرے کے عام انسانوں کی پہنچ سے ہی باہر ہو چکا ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق استحصال کی تمام تر شکلوں کا خاتمہ کرتے ہوئے ہر شہری کے لئے بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ریاست کی ذمہ داری ہے، یعنی ہر شہری کے لیے تعلیم اور علاج کی فراہمی ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن اس کا اطلاق پاکستان میں کہیں نظر نہیں آتا۔ اس وقت بھی جو غیر معیاری سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہیں، حالیہ معاشی بحران سے نکلنے کے لیے انکا بھی سودا کیا جائے رہا ہے۔
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی اس ملک میں تعلیم کے دو مختلف نظام موجود رہے ہیں۔ایک طرف سرکاری تعلیمی ادارے موجود تھے اور دوسری طرف نجی تعلیمی ادارے تھے جن میں دینی مدارس، مشنری سکول و کالج اور نجی ادارے موجود تھے۔ 1968ء کے انقلاب کی حاصلات کے نتیجے میں بیشتر نجی تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ تعلیم اور صحت کے لیے 43فیصد بجٹ مختص کیا گیا۔ یہ دور پاکستان کے غریب طلبہ کے لیے سنہری دور تھا جو کہ انہوں نے اپنی انقلابی جدوجہد کے نتیجے میں حاصل کیا تھا اس دور میں تعلیم تقریباً مفت ہو گئی تھی جبکہ طلبہ کے لیے ٹرانسپورٹ کی سستی ترین سہولت بھی موجود تھی۔ طلبہ یونین مضبوط ہوئی تھی اور طلبہ کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے منظم ہونے کا بھرپور موقع ملا تھا ۔ لیکن اس انقلاب میں حقیقی مارکسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے اس انقلاب کی حاصلات دیر پا ثابت نہ ہوئیں اور ضیا آمریت کی صورت میں طلبہ سے نہ صرف تمام مراعات واپس چھین لی گئیں بلکہ خونی انتقام بھی لیا گیا۔ یہ پاکستان کے غریب عوام کے لیے رجعت اور پسپائی کا دور تھا۔ اسی دور میں طلبہ سے انکا بنیادی سیاسی حق تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین بھی غصب کر لیا گیا۔ اسی دوران امریکی سامراج کے احکامات پر تعلیم کو مخصوص رجعتی مذہبی سانچے میں مقید کیا گیا اور تخلیقی و تنقیدی سوچ پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اس عہد کے اثرات پاکستان کے تعلیمی نظام پر آج تک موجود ہیں جن کے مکمل خاتمے کے لیے ایک نئی انقلابی تحریک کی سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر کامیابی آج کے وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
اس کے بعد کے ادوار کی معاشی لبرلائزشن کی پالیسیوں کے نتیجے میں پہلے سے موجود طبقاتی نظام تعلیم ایک منافع بخش کاروبار کی صورت اختیار کر گیا۔ آج جہاں ہمیں ایک طرف سرکاری تعلیمی اداروں کی زبوں حالی نظرآتی ہے وہیں دوسری طرف ملک کے ہر دوسرے گلی کوچے میں نجی تعلیمی اداروں خصوصاً سکولوں اور اکیڈمیوں کا جال نظر آتا ہے جو منہ ما نگی قیمت پر تعلیم کا کاروبار کرتے ہیں۔ ان اداروں میں تعلیمی معیار کا تعین بھی انکی فیس کی رقم سے ہوتا ہے۔پاکستان بیوروآف سٹیٹسٹکس کے مطابق 2002ء سے 2008ء تک پاکستان میں نجی تعلیمی اداروں کی تعداد میں 105 فیصد اضافہ ہوا جبکہ سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد میں محض 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ گو کہ یہ شماریات ایک دہائی پہلے کے ہیں لیکن گزشتہ دہائی میں اگر حکومتوں کی تعلیمی پالیسیوں کو دیکھا جائے توان میں مزید کمی ہوئی ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں کو خودکفیل یا اٹانومس کرنے کے نام پہ جو نجکاری کی گئی ہے اس سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔ ماضی میں جو تعلیمی ادارے حکومتی اخراجات پہ عوام کو سستی تعلیم فراہم کرتے تھے اآج وہ خود کفیل ہونے کے بعد طلبہ سے وصول کی گئی بھاری فیسوں کی رقم سے اپنے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ ان میں خاص طور پر سرکاری کالج اور یونیورسٹیاں شامل ہیں جن کی اگر پچھلے پانچ سال کی فیسوں میں اضافے کا موازنہ کیا جائے توبہت بڑا فرق نظر آتا ہے اور آج ان خودکفیل سرکاری تعلیمی اداروں کی فیسیں نجی تعلیمی اداروں کی فیسوں سے تھوڑی ہی کم ہیں۔ غریب عوام کی خون پسینے کی کمائی لوٹنے والے یہ سرکاری تعلیمی ادارے تعداد میں اتنے کم ہیں کہ یہ پاکستان کی آبادی جسکا 60 فیصد نوجوانوں پہ مشتمل ہے، انکی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے نا کافی ہیں۔ اسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے نجی تعلیمی اداروں کے کاروباری جال پورے پاکستان میں پھیلے نظر آتے ہیں۔ پاکستان بیورو آف سٹیٹسٹکس کی 2017-18ء کی رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں150,129 پرائمری سکول موجود ہیں جن میں سے 69 فیصد سکول سرکاری جبکہ 39 فیصد پرائمری سکول نجی ہیں۔ مڈل سکولوں کی کل تعداد49,020 ہے جن میں سے صرف 34 فیصد سکول سرکاری اور 66 فیصد نجی سکول ہیں۔ ہائی سکولوں کی کل تعداد 31,551 ہے جس میں سے 42 فیصد سکول سرکاری ہیں اور 58 فیصد سکول نجی مالکان کے ہیں۔ ہائر سیکنڈری یا انٹر کالجز کی کل تعداد5,130 ہے جن میں 39 فیصد پبلک ادارے ہیں اور 61 فیصد پرائیویٹ ادارے ہیں۔ ان میں 88 فیصد طلبہ نجی اداروں میں اینرولڈ ہیں اور صرف 12 فیصد طلبہ سرکاری تعلیمی اداروں میں موجود ہیں۔ ڈگری کالجوں کی کل تعداد 1431 ہے جن میں سے 1271 سرکاری اور 160 غیرسرکاری ادارے ہیں۔ پاکستان جو کہ نوجوان آبادی کے لحاظ سے سرفہرست ممالک میں سے ایک ہے یہاں ان نوجوانوں کی اعلیٰ تعلیم کے لیے صرف 185 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 59 فیصد سرکاری جبکہ 41 فیصد یونیورسٹیاں پرائیویٹ ہیں۔ ان تعلیمی اداروں کے علاوہ دینی مدارس کی کل تعداد 32,100 ہے جس میں سرکاری مدارس محض 3 فیصد ہیں اور 97 فیصد مدارس نجی ہیں جو کہ مذہبی بنیاد پرستی کے لیے سماجی بارود تیار کرتے ہیں۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں پرائمری سکولوں کی تعداد میں 6 فیصد کمی آئی ہے۔
یہ تمام اعدادوشمار اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں تعلیم بطور ایک کاروبار اسٹیبلش ہو چکا ہے جہاں نصف سے زیادہ تعلیمی ادارے نجی مالکان کے ہاتھ میں ہیں۔اگر ان نجی تعلیمی اداروں کی فیس کی بات کی جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ جو فیس ایک سرکاری یونیورسٹی میں ایک پورے سمسٹر میں ادا کی جاتی ہے وہی رقم ایک نجی سکول میں پرائمری جماعت کے طالبعلم سے ماہانہ وصول کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان نجی سکولوں میں پڑھنے والے طلبہ سے غیرنصابی سرگرمیوں کے نام پہ مختلف طریقوں سے ہر ہفتے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ ایک غریب خاندان کے طالبعلم کے لیے ان نجی اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن ہی نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان میں دو مختلف اور متضاد تعلیمی نظام موجود ہیں۔ ایک امیر طبقے کے لیے جبکہ دوسرا غریب طبقے کے لیے ہے۔ درج بالا اعداد وشمار یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ جہاں اس ملک کی اکثریتی آبادی کا تعلق غریب اور متوسط طبقے سے ہے وہاں ان کے لیے تعلیمی ادارے آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور مٹھی بھر امیروں کے لیے نصف سے زیادہ تعلیمی ادارے موجود ہیں جن میں دی جانے والی مہنگی تعلیم یہی امرا افورڈ کر سکتے ہیں۔
تعلیمی معیار کا بیوپار
نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں میں دی جانے والی تعلیم صرف قیمت میں تفرق نہیں رکھتی بلکہ جیسا کہ ایک طبقاتی نظام میں ہر شے یا جنس کے معیار کا تعین اسکی قیمت کرتی ہے اسی طرح علم کے کاوبار میں بھی اعلیٰ تعلیمی معیار کا تعین بھاری بھرکم فیسوں سے ہوتا ہے۔ ایک طرف مہنگے داموں تعلیم بیچنے والے ادارے ہیں جو کہ مغربی طرز تعلیم کے تحت اے اور او لیول سسٹم کے تحت تعلیم دیتے ہیں۔ان میں طلبہ کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو کسی حد تک بروئے کار لانے کا موقع ملتا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے انٹر اور میٹرک تعلیمی بورڈز کی کتب اور نصاب کا جائزہ لیں تو یہ نصف صدی پرانے علوم پہ مشتمل ہے جس میں رٹے بازی کی دوڑ میں آگے رہنے والے طلبہ ہی کامیاب ہو سکتے ہیں۔ ان بورڈز میں بھی پچھلے کئی سالوں سے ان نجی سکولوں اور کالجوں کی ہی ٹاپ پوزیشنز آرہی ہیں اور ان اداروں کا کاروبار مزید چمکتا ہے۔ تقریباً ہر دوسرے شہر میں دو تین ہی نجی سکول و کالج ہیں جن کی ہر سال باری باری بورڈز میں پوزیشن آتی ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایک غریب طالبعلم اپنی تمام تر محنت کے باوجود بھی اس بوسیدہ معیار کی تعلیم تک بھی رسائی حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے لیے اسے نجی سکول یا کالج میں داخلے کی ضرورت ہوگی جس کی فیس وہ افورڈ نہیں کر سکتا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے والا معیاری تعلیمی نظام محض امیر طبقے کی اولادوں کے لیے ہے جو کہ غریبوں سے لوٹی ہوئی دولت سے اپنی تجوریاں بھر کے اپنے بچوں کے لیے معیاری تعلیم سمیت زندگی کی ہر آسائش خرید سکتے ہیں۔ دوسری طرف ایک غریب طالبعلم کے لیے غیر معیاری تعلیمی نظام میں بھی آگے بڑھنا ممکن نہیں رہا۔
میرٹ کی دوڑ اور سیلف فنانس کا چور دروازہ
آج پاکستان میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طالبعلم کے لیے یونیورسٹیوں میں تعلیمی عمل جاری رکھنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔ ہر سال جہاں سرکاری یونیورسٹیوں کی فیسوں میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد آبادی کے تناسب سے پہلے ہی کم ہے۔ غریب خاندان کے لیے تو پہلے ہی ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں تھا اور آج مہنگائی میں اضافے اور آمدن میں کوئی اضافہ نہ ہونے کے باعث متوسط طبقے کے لیے بھی اعلیٰ تعلیم ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود جو چند ایک لوگ افورڈ کر بھی سکتے ہیں ان کے لیے میرٹ کی دوڑ اتنی تیز ہو چکی ہے کہ بیشتر شعبوں خصوصاً نیچرل سائنسز میں 90 فیصد سے کم نمبر لینے والے طلبہ سیٹ ہی نہیں لے سکتے۔ دوسری طرف انہی یونیورسٹیوں میں سیلف فنانس کے نام پہ امیروں کے بچوں کے لیے چور دروازے کھلے ہیں جو کہ عام طالبعلم سے دوگنی فیس ادا کر کہ بآسانی سیٹ حاصل کر سکتے ہیں چاہے انکے نمبر کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں۔ اس کا مطلب کہ ان نام نہاد سرکاری تعلیمی اداروں میں جہاں ایک عام طالبعلم سخت محنت کے بعد میرٹ کی بنیاد پہ داخلہ لیتا ہے وہیں ایک امیر طالبعلم بغیر کسی محنت کے باآسانی داخلہ لے سکتا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ میرٹ اورسیلف فنانس کے نام پہ تعلیمی نظام کو طبقاتی بنیادوں پہ تقسیم کیا گیا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں کٹوتیوں کے باعث ایچ ای سی کی سرکاری یونیورسٹوں کو فنڈنگ بند کی جا رہی ہے وہیں ان سرکاری یونیورسٹیوں کو آٹانومس کا درجہ دیا جائے گا۔ یعنی کہ یہ سرکاری یونیورسٹیاں بھی اب طلبہ سے وصول شدہ کئی گنا بڑھی ہوئی فیسوں سے اپنے اخراجات پورے کیا کریں گی۔ اس سے اب اعلیٰ تعلیم ، اعلیٰ داموں پہ صرف امیروں تک ہی اپنی رسد بنا سکے گی۔
بیروزگاری یا روزگار کی خریداری!
پاکستان کے طبقاتی تعلیمی نظام کے گھن چکروں سے گزرنے کے بعد اگر کوئی عام طالبعلم ڈگری حاصل کر بھی لیتا ہے تو اسکے بعد اب اسے روزگار کے حصول کے لیے نئے گھن چکر سے گزرنا پڑتا ہے۔ کسی چھوٹی سی نوکری کے لیے صرف اپلائی کرنے کے لیے بھی اسکے پاس فیس ہونا ضروری ہے۔ اسکے بعد ٹیسٹ اور انٹرویو پاس ہو جانے کے بعد بھی رشوت کے طور پہ دینے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں ادا کر نے کے بعد ایک عام طالبعلم روزگار کے حصول کی دوڑمیں بھی ایک دولتمند سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ ان امرا کے لیے جعلی ڈگریاں، رشوت اور سفارش کے ذریعے اچھا روزگار حاصل کرنا بہت آسان ہوتا ہے دوسری طرف غریب نوجوان روزگار کی تلاش میں مایوس ہو کر خودکشیاں کرنے پہ مجبور ہیں۔ اس طبقاتی نظام کے اندر تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار کے مواقع پر بھی دولتمند طبقے کا ہی قبضہ ہے۔
طبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ
دنیا میں موجود تمام علم کسی ایک طبقے کے لیے پیداکردہ نہیں ہیں۔ تمام تر علم و دانش انسان نے تاریخ کے لاکھوں سالوں میں اپنی اجتماعی محنت سے حاصل کی ہے۔ گو کہ مختلف علوم کی ترقی میں مختلف شخصیات نے اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ان شخصیات نے بھی کوئی بھی نئی تحقیق و تخلیق انفرادی ضرورت یا کسی طبقے کی ضروریات کو پورا کرنے کیلیے نہیں کی۔ ان کا مقصد تمام نسل انسانی کی زندگیوں میں بہتری پیدا کرنا تھا۔ لیکن آج ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تمام تر علوم اور مزید علم و تحقیق کے مواقع آبادی کی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں، چند دولتمند افراد ہی ان تک رسائی رکھتے ہیں۔ یہ مظہر نہ صرف پوری نسل انسانی کی تذلیل ہے بلکہ اس علم کی بھی تذلیل ہے جو کہ سماجی پیداواری عمل کے نتیجے میں حاصل ہوا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس علم پہ تمام انسانیت کا حق ہے۔ لیکن یہ حق حاصل کرنے کے لیے ہمیں اس طبقاتی نظام کی بُنت کو سمجھنا ہوگا۔ یہ نظام سرمایہ دارانہ معاشی نظام ہے جوکہ مٹھی بھر سرمایہ داروں کے ہاتھوں اکثریتی محنت کش طبقے کے استحصال پہ مبنی ہے۔ پاکستان سمیت پوری دنیا میں علم و دانش کو چند امیروں کے قبضہ سے آزاد کروا کہ تمام انسانوں کی اس علم تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف سیاسی جدوجہد کی جائے۔ سرمایہ داری کے خاتمے کے بعد ہی ایک مزدور ریاست کا قیام ممکن ہے جو کہ سماج کے اکثریتی طبقے کی منتخب شدہ نمائندہ ریاست ہوگی۔ جو حکمرانوں اور سرمایہ داروں کی تمام دولت کو ضبط کر کے اور ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لے کہ تمام وسائل اور دولت کو عام عوام کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے میں صرف کرے گی۔ معاشرے کے ہر فرد کیلیے معیاری اور مفت تعلیم کی فراہمی مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔تمام نجی تعلیمی اداروں کو ریاستی تحویل میں لیتے ہوئے تعلیم کو ہر سطح پہ مفت قرار دیا جائے گا۔ تعلیم کا کاروبار کسی بھی سطح پہ جرم ہوگا۔ ہر علاقے میں جدید اور یکساں نظام تعلیم رائج کیا جائے گا جس کی بنیاد تخلیق اور جدید تحقیق پہ ہو گی۔ آبادی کے تناسب سے نئے تعلیمی ادارے بنائے جائیں گے اور میرٹ کی دوڑ میں طلبہ کو ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہونا پڑے گا۔ صرف اسی سوشلسٹ مزدور ریاست میں ہی تعلیم کو ایک جنس سے بدل کر انسانی ضروریات کی تکمیل کیلیے عام کیا جا سکتا ہے۔