|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، کے پی کے|
پشاور یونیورسٹی رواں مالی سال کے پہلے مہینے سے ہی معاشی طور پر دیوالیہ ہونے کا اعلان کر چکی ہے۔ اطلاعات کے مطابق یونیورسٹی ایک لمبے عرصے سے خوفناک قسم کی کرپشن اور لوٹ مار کے نتیجے میں اس وقت کروڑوں روپے کے بجٹ خسارے کا سامنا کر رہی ہے۔ یہ کروڑوں روپے پچھلے ایک لمبے عرصے سے ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سے دیوہیکل فنڈ لینے اور یہاں زیرتعلیم لاکھوں طلبہ سے بھاری بھر کم فیسیں بٹورنے کے باوجود غائب ہو چکے ہیں۔ اس وقت تمام ملازمین اور طلبہ کے ذہن میں ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ آخر یہ پیسے گئے کہاں؟ یونیورسٹی کے بجٹ خسارے کا ذمہ دار کون ہے؟ طلبہ یا ادھر محنت مزدوری کر کے یونیورسٹی کا نظام چلانے والے ملازمین؟
بلاشبہ اس لوٹ مار کے ذمہ دار یونیورسٹی کے اعلی افسران ہیں لیکن یونیورسٹی انتظامیہ اور حکومت نے مل کر اس بحران کا سارا بوجھ متفقہ طور پر یہاں کے سینکڑوں ملازمین کے بچوں اور خاندانوں سے منہ کا نوالہ چھین کر ان پر ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں یونیورسٹی نے رواں ماہ یعنی جنوری سے یونیورسٹی کے تمام ملازمین کے الاؤنسز کاٹ کر صرف بنیادی تنخواہ دینے کا اعلان کیا، جس کے خلاف یونیورسٹی کے کلاس تھری اور فور، بشمول سینی ٹیشن ورکرز اور ٹیچرز نے سخت غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ یونیورسٹی کے اس طرح کے سب ملازمین دشمن اور طلبہ دشمن اقدامات صوبائی حکومت کی طرف سے صوبے بھر کی یونیورسٹیوں کی نجکاری کی پالیسی کا حصہ ہیں۔ صوبائی حکومت کے زیر دست صوبائی ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ نے 7 جنوری کو صوبے بھر کی یونیورسٹیوں کو ایک لیٹر جاری کیا جس میں ان تمام پبلک سیکٹر یونیورسٹیوں کی نجکاری سے متعلق اقدامات پر عمل درآمد کرانے کا حکم دیا گیا تھا۔
اس پالیسی کے تحت پشاور یونیورسٹی کو صوبائی حکومت سے فنڈز لینے کی بجائے اپنے اخراجات خود پورے کرنے ہوں گے، جن میں طلبہ کی فیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کرنا، ملا زمین کی تنخواہوں میں کٹوتی کرنا، نئے ملازمین کی بھرتیاں مکمل طور پر کنٹریکٹ کی بنیاد پر کرنا (جن کو جب چاہیں یونیورسٹی سے نکال کر باہر پھینکا جا سکے)، ملازمین کے گھروں کی مرمت کی سہولیات کا خاتمہ اور اس طرح کے دیگر کئی اقدامات شامل ہیں۔ سب سے بڑا حملہ صوبے بھر میں ان یونیورسٹیوں سے منسلک سکولوں پر کیا جا رہا ہے جہاں غریب ملازمین کے بچے مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان پر بھی فیس عائد کر کے ان تمام سکولوں کو مکمل پرائیویٹائز کیا جائے گا اور پھر ان غریبوں کے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے سے محروم کر دیا جائے گا۔ تمام ملازمین کا میڈیکل الاؤنس ختم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ تعلیم کی نجکاری اور یونیورسٹی کو مکمل طور پر فروخت کرنے کے منصوبے کے پیش نظر یونیورسٹی کے اندر مختلف ڈیپارٹمنٹس اور اکیڈمک بلاکس پرائیوٹ اداروں کو کرائے پر دیے جائیں گے۔ ان تمام اقدامات کے بعد پشاور یونیورسٹی کی مکمل نیلامی کے ثبوت کے طور پر صرف ایک کام کرنا باقی ہے کہ یونیورسٹی کے مین گیٹ پر ایک بڑا بورڈ آویزاں کر دیا جائے جس پر لکھا ہو ”پشاور یونیورسٹی برائے فروخت ہے“۔
اس حملے کا اعلان کرنے کے بعد یونیورسٹی میں کام کرنے والے سینکڑوں ملازمین میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی ہے اور اس ممکنہ حملے کا راستہ روکنے کے لئے کلاس فور، کلاس تھری اور سینی ٹیشن سٹاف کی متعدد یونینوں پر مشتمل پشاور یونیورسٹی ایمپلائز ایسو سی ایشن نے 26 جنوری کو ایک اجلاس منعقد کیا اور یونیورسٹی انتظامیہ کو فوری طور پر اس ممکنہ نجکاری کی پالیسی سے پیچھے ہٹنے کی چتاؤنی دے دی۔ اس اجلاس میں طے کیا گیا کہ اگر حکومت اور یونیورسٹی انتظامیہ مندرجہ بالا اقدامات اٹھانے کی کوشش کرے گی تو ملازمین اس کا بھرپور جواب دینے کا اعلان کرتے ہیں۔
ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے سے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کچھ ملازمین نے تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی کے بالا افسران کروڑوں روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں اور لمبے عرصے کے بعد یونیورسٹی کو بے حساب معاشی نقصان پہنچا کر اب اس کا سارا بوجھ ان غریب ملازمین پر لادنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ انتظامیہ کے اہلکار دعویٰ کر رہے ہیں کہ یونیورسٹی کو اس وقت صرف تنخواہیں ادا کرنے کیلئے ڈیڑھ کروڑ سے اوپر بجٹ خسارے کا سامنا ہے لیکن ملازمین یہ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ اس خسارے کے مکمل ذمہ دار انتظامیہ کے اہلکار خود ہیں۔ لیکن اب بجٹ خسارے کے بہانے جہاں ایک طرف ان غریب ملازمین کا معاشی قتل عام کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، وہیں دوسری طرف اس یونیورسٹی میں دس سال سے کام کرنے والے 400 سے زائد کنٹریکٹ ملازمین کو برطرف کیا جارہا ہے۔ کنٹریکٹ ملازمین کا پچھلے کئی سالوں سے عدالت میں بھی مقدمہ چل رہا ہے اور وہ مسلسل احتجاج کے ذریعے بھی آواز بلند کرتے رہے لیکن دس سال ان سے کام لینے کے بعد یونیورسٹی اب انہیں غربت اور بے روزگاری کے منہ میں بے یار و مددگار دھکیلنے پر تلی ہوئی ہے۔
ملازمین نے حکومت اور انتظامیہ کے اس کھلے جھوٹ کو مکمل طور پر مسترد کیا کہ یونیورسٹی میں ملازمین کی تعداد زیادہ ہے اس لئے نہ تو مزید بھرتیاں کی جائیں گی اور نہ کنٹریکٹ ملازمین کو مستقل کیا جائے گا۔ ان کے مطابق اس وقت بھی یونیورسٹی میں کلاس فور کی 300 ویکینسیاں خالی پڑی ہوئی ہیں لیکن انتظامیہ ایک ملازم سے ایک ہی وقت میں کئی کام کروارہی ہے۔ ایک ہی بندہ بیک وقت ہاسٹل کا بیرا بھی ہے، ٹیوب ویل آپریٹر کا کام بھی کرتا ہے حتی کہ اعلی افسران اکثر اپنے گھروں کی صفائیاں اور کام بھی یونیورسٹی کے مزدوروں سے کرواتے ہیں۔ مالی سے پی این کا کام بھی لیا جاتا ہے، ہاسٹل کے بیرے سے کلرک کا کام بھی لیا جاتا ہے جس کی نہ تو پروموشن ہوتی ہے نہ اوورٹائم ملتا ہے جس کی مثالیں نیو ہاسٹل بلاک B، بلاک C اور کئی دیگر ہاسٹلوں میں موجود ہیں جو کہ یہاں موجود ہر خاص و عام جانتا ہے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بندوں کی زیادتی نہیں بلکہ کمی ہے اور اس کے باوجود نئی بھرتیاں نہیں کی جارہیں۔
اس کے علاوہ یونیورسٹی کے پاس طلبہ کی فیسوں کے علاوہ آمدن کے سینکڑوں ذرائع ہیں۔ مختلف ڈیپارٹمنٹس مختلف اداروں سے بے حساب فنڈز لیتے ہیں جن کی تفصیل پچھلے دنوں میڈیا پر سامنے لائی جا چکی ہے۔ یونیورسٹی میں پچاس کے لگ بھگ رکشے بطور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ چلتے ہیں اور ایک رکشے سے ماہانہ دو ہزار روپیہ پرمٹ لیا جاتا ہے۔ بے شمار ہاسٹلز کے میس ٹھیکے پر دیے گئے ہیں جن میں ہر ایک ماہانہ 20 ہزار روپے کرایہ ادا کرتا ہے۔ علاوہ ازیں ایسی رپورٹس بھی زیر گردش ہیں کہ یونیورسٹی سے باہر شہر میں یونیورسٹی کے مختلف کمرشل پراپرٹیاں بھی موجود ہیں۔ صرف اور صرف سیکریسی جو کہ داخلوں، امتحانات، ڈگریوں وغیرہ کے معاملات کو چلاتا ہے، سالانہ 6 کروڑ روپے سے اوپر آمدن دیتا ہے۔ پیوٹا ہال پرائیویٹ فنکشنز اور شادیوں کی تقریبات کیلئے تقریبا 80 ہزار روپے میں کرائے پر دیا جاتا ہے اور اس پر کسٹمرز کے رش کے پیش نظر ایک مہینہ پہلے کسی پروگرام کیلئے بک کروایا جاتا ہے۔ اس طرح یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے لیکن اتنے بڑے معاشی حجم کے باوجود خسارہ کیسے ہوا؟ یہ ہے وہ اہم سوال جو ہر ملازم اور ہر طالبعلم کو سوچنے پر مجبور کرے گا اور لازمی طور پر اس نتیجے پر پہنچائے گا کہ نجکاری کی پالیسی کے پیچھے اصل محرک حکومتی اہلکاروں اور انتظامیہ کو مزید لوٹ مار اور دولت کے انبار جمع کرنے کی کوشش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے جس کو اب یونیورسٹی ملازمین مکمل طور پر جان چکے ہیں اور اس کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔
پشاور یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن میں موجود کلاس فور، کلاس تھری اور سینی ٹیشن سٹاف کے ملازمین نے حکومت کو کچھ دن کا وقت دیا ہے کہ وہ اپنی اس پالیسی سے فی الفور پیچھے ہٹ جائیں اور اس فیصلے کو مکمل طور پر پر واپس لیں، اور اگر جنوری میں واقعی اس پر عملدرآمد کروانے کی کوشش کی گئی تو ان یونینوں میں شامل تمام ملازمین یونیورسٹی میں ایک زبردست ہڑتال کا آغاز کریں گے اور تب تک وہ ہڑتال ختم نہیں کی جائے گی جب تک حکومت اور پشاور یونیورسٹی کی انتظامیہ نجکاری اورنیلامی کی اس پالیسی کو مکمل طور پر ترک نہیں کرتے۔
ریڈ ورکر فرنٹ ملازمین کے ان تمام مطالبات کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتا ہے اور ان کے ساتھ اس جدوجہد میں عملی طور پر شریک رہنے کا عزم کرتا ہے۔