|تحریر: ڈاکٹر یاسر ارشاد|
یوں تو پاکستان کے سرمایہ دار حکمران طبقے نے اپنی تاریخی نااہلی اور بدترین بددیانتی کی وجہ سے اس ملک کے ہر شعبہ زندگی میں بربادی پیدا کی ہے، جس کے باعث محنت کش عوام کے لیے زندگی ایک اذیت بن چکی ہے۔ مگر حالیہ دہائیوں میں شاید ان کی سب سے بڑی قانونی لوٹ مار جس شعبے میں چل رہی ہے وہ بجلی کا شعبہ ہے۔
جس دن بجلی کا بل آتا ہے، بے شمار گھروں میں اس دن کافی شدید لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ ایک سخت اضطراب کا عالم ہوتا ہے۔ گھر کے لوگ ایک دوسرے پر الزام لگا رہے ہوتے ہیں کہ گھر کا فلاں شخص بجلی بہت لاپرواہی سے استعمال کرتا ہے جس کی وجہ سے بل زیادہ آیا ہے۔ بہت سے لوگ کبھی واپڈا کو اور کبھی حکومت وقت کو بددعائیں دیتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔
بجلی کی لوڈ شیڈنگ بڑے پیمانے پر جان لیوا بھی ثابت ہو رہی ہے جیسا کہ کچھ حالیہ رپورٹوں کے مطابق پچھلے دو ہفتوں میں کراچی میں ایک ہزار سے زائد افراد ہیٹ اسٹروک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے بجلی بنیادی ترین ضرورت و سہولت نہیں بلکہ بنیادی ترین اذیت و ذلت ہے جس کا انتہائی محتاط طریقے سے استعمال بھی ایک جرم بن چکا ہے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ عوام کے گھروں میں آنے والے بجلی کے بل، درحقیقت پاکستان کے سرمایہ دار حکمران طبقے کا سب سے بڑا منظم ڈاکہ ہوتے ہیں۔ یہ ڈاکہ وہ عوام کی جیبوں پر بہت ڈھٹائی، بے شرمی اور بے غیرتی کے ساتھ مسلسل مار رہے ہیں۔ ہم کمیونسٹ کوئی بھی بات ہوا میں نہیں کرتے۔ حکمران طبقے پر اس الزام کو ہم انہی کے اداروں کے دیے ہوئے اعداد و شمار کی روشنی میں سچ ثابت کریں گے۔
نیپرا کا ایک اجلاس جمعرات، 22 مئی 2024ء کو ہوا جس کے دوران پیش کیے گئے اعداد و شمار بعد میں ذرائع ابلاغ میں بھی شائع ہوئے۔ اس اجلاس میں کچھ حیران کن حقائق سامنے آئے۔ مثال کے طور پر مالی سال 25-2024ء میں ہم پاکستان کے محنت کش عوام بجلی کی جو قیمت ادا کریں گے، اس کا 70 فیصد حصہ نجی پاور پلانٹس (آئی پی پیز) کو capacity payments (پیداواری صلاحیت کے معاوضے کی ادائیگی) پر مشتمل ہو گی۔
یہ رقم 2800 ارب روپے بنتی ہے۔ جبکہ 1300 ارب روپے واقعتاً پیدا ہونے والی بجلی کی قیمت کی مد میں ادا کیے جائیں گے اور اس رقم کا ایک بہت بڑا حصہ بھی آئی پی پیز کو جائے گا۔ واضح رہے کہ یہ رقم اس 2800 ارب روپے کی رقم سے الگ ہے۔
اس کے تین مطلب ہیں:
1۔2800 ارب روپے آئی پی پیز کو اس بجلی کی مد میں دیے جائیں گے جو کبھی پیدا ہی نہیں کی جائے گی۔
2۔ ہم بجلی کے بلز میں جو بجلی کی قیمت ادا کریں گے اس کا 70 فیصدcapacity payments پر مشتمل ہو گا۔ یعنی اگر صرف اور صرف یہ ادائیگیاں ہی نا کرنی پڑیں تو بجلی کی قیمت 70 فیصد کم کی جا سکتی ہے۔
3۔ آئی پی پیز کو بجلی بنا کر فروخت کرنے کے اتنے پیسے نہیں ملتے جتنے ان کو کچھ کیے بغیر capacity payments کی مد میں مل جاتے ہیں۔
کئی نجی پاور پلانٹس سارا سال ایک یونٹ بجلی نہیں بناتے مگر ان کو دسیوں ارب روپے کی ادائیگی کی جاتی ہے۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ رقم پاکستانی عوام کی جیبوں سے نکالی جاتی ہے۔ اس لوٹ کھسوٹ میں سیاستدان اور جرنیل شاہی ان آئی پی پیز کے سرمایہ دار مالکان کی دلالی کا کام کرتی ہے جبکہ کئی آئی پی پیز کے تو یہ خفیہ یا کھلے عام شئیر ہولڈر بھی ہیں۔ یہ لوٹ کھسوٹ میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں اور بیرون ملک جائیدادیں بناتے ہیں۔
آخر یہ capacity payments ہوتی کیا ہیں؟
پاکستان کی سرمایہ دار حکمران اشرافیہ کی طرف سے دیے گئے جواز کے مطابق کسی بھی ملک کی سارا سال بجلی کی ضرورت ایک سی نہیں رہتی، جیسے پاکستان میں بجلی کی طلب گرمیوں میں زیادہ ہوتی ہے مگر سردیوں میں کم ہوتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ کچھ نجی پاور پلانٹس ایسے ضرور ہوں گے جو گرمیوں میں بجلی بنائیں گے مگر سردیوں میں چونکہ ان کی بجلی کی ضرورت نہیں ہو گی تو ان کو بند رکھا جائے گا۔ اس کے علاوہ بھی ملک میں صنعتی سرگرمیوں کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ بجلی کی کھپت میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
ان آئی پی پیز کے سرمایہ دار مالکان کا موقف ہوتا ہے کہ جن دنوں میں پاور پلانٹ کو بند رکھا جاتا ہے اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔ یا تو حکومت ان کی بجلی خریدے اور اگر حکومت کو اس بجلی کی ضرورت نہیں تو پھر وہ ان کو ان کی پیداواری صلاحیت (نجی پاور پلانٹ کی انسٹالڈ کپیسٹی) کے مطابق ادائیگی کرے تاکہ ایک طرف تو ان کے وہ اخراجات جو پاور پلانٹ کو چالو حالت میں رکھنے کے لیے ضروری ہیں حاصل ہو سکیں اور دوسری طرف انہیں اپنی سرمایہ کاری پر منافع بھی ملتا رہے۔
چلیے یہ تو بات ہو گئی کہ پیداواری صلاحیت کے معاوضے کی ادائیگی سے کیا مراد ہے۔ سوال یہ ہے کہ پیداواری صلاحیت کے معاوضے کی ادائیگی (capacity payments) پاکستان کی محنت کش عوام پر اتنا بڑا بوجھ کیوں اور کیسے بن گئی؟
اس سوال کا جواب سمجھنے سے پہلے اس مسئلے کی تاریخ کو سمجھنا پڑے گا۔ 1991ء میں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد پوری دنیا میں پرائیویٹائزیشن یعنی نجکاری کا غلغلہ بلند ہوا۔ مزدور تحریک پسپا ہو رہی تھی تو سرمایہ داروں نے اس موقع کو لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اپنی دولت میں اضافے کا سنہری موقع جانا۔ بے نظیر بھٹو کے دور حکومت 1993ء تا 1996ء میں بجلی کی پیداوار کو نجی شعبے میں دینے کا عمل شروع کیا گیا جسے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی بھرپور پشت پناہی بھی حاصل تھی۔
پاکستان کی حکومت کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس سرکاری سیکٹر میں نئے پاور پلانٹ یا ڈیم وغیرہ بنانے کے فنڈز نہیں ہیں۔ یہ پاور پلانٹ نجی شعبہ لگائے گا اور اس طرح سے اس شعبے میں ’شفافیت‘ کو یقینی بنایا جا سکے گا۔ جی بالکل درست پڑھا آپ نے۔
اس زمانے میں یہ بے تحاشہ پراپیگنڈہ کیا گیا کہ سرکاری شعبے کا مطلب کرپشن ہوتا ہے جبکہ نجی شعبے کا مطلب شفافیت ہوتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آنے والا وقت یہ بتانے والا تھا کہ نجی ملکیت اور سرمایہ داری کا مطلب بدترین لوٹ کھسوٹ اور استحصال ہوتا ہے۔
1994ء میں پیش کی گئی انرجی پالیسی کی عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے خوب تعریف کی گئی۔ یہاں تک کہ کچھ نے تو اسے دنیا کی سب سے بہترین معاشی پالیسی بھی قرار دیا۔ اس وقت اس شعبے میں قریب 4 ارب ڈالر کی نجی سرمایہ کاری ہوئی (جس میں سب سے بڑا حصہ امریکی کمپنیوں کا تھا) جو اُس وقت بہت بڑی سرمایہ کاری تھی۔
اتنے بھاری پیمانے پر نجی سرمایہ کاری کیوں کی گئی؟
جواب ہے کہ سرمایہ کاروں کو یقینی منافع کی حکومتی گارنٹی دی گئی تھی۔ 15 سے 18 فیصد منافع کی گارنٹی کے ساتھ ساتھ قیمت بجلی کو ڈالر کے ریٹ کے ساتھ نتھی کر دیا گیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ روپے کی قیمت گرے گی یعنی ڈالر چڑھے گا تو بجلی کی قیمت اوپر جائے گی۔ حد تو یہ ہے کہ ان نجی پاور پلانٹس کو بنانے پر ہونے والے اخراجات کا ایک قابل ذکر حصہ ان کمپنیوں نے حکومت پاکستان سے ہی سستے قرضوں کی صورت میں حاصل کیا۔
ان پرکشش شرائط پر معاہدوں کے لیے بیرونی سرمایہ دار بھاگے چلے آئے اور چند ہی سال میں عوام کے لیے بجلی کی قیمتیں کئی گنا بڑھ گئیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ پاکستانی حکمران طبقے نے محسوس کیا کہ منافع کمانے کا سب سے آسان اور محفوظ طریقہ تو نجی پاور پلانٹ لگانا ہے۔ پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ اپنی تاریخی پسماندگی اور خصی پن کے کارن ویسے بھی صنعت کاری میں تھوڑی بہت دلچسپی بھی مکمل طور پر کھو چکا تھا اور منافع خوری کے متبادل مگر آسان اور محفوظ راستے ڈھونڈ رہا تھا۔ چنانچہ پاکستان کا سرمایہ دار حکمران طبقہ بھی نجی پاور پلانٹ بنانے کے دھندے میں کود پڑا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ زیادہ تر آئی پی پیز پاکستان کے بڑے بڑے سرمایہ دار گروپس کی ہیں۔ اس کھیل کا دوسرا اہم کھلاڑی چین ہے۔ اس کی بھی بہت سی آئی پی پیز موجود ہیں۔ امریکی سرمایہ داروں کے جانے کے بعد اب یہ بھی منافع خوری کے نئے ریکارڈ بنا رہے ہیں۔
اس شعبے میں لوٹ کھسوٹ کا یہ عالم ہے کہ پاکستان کی installed capacity یعنی بجلی پیدا کرنے کی کل صلاحیت 46000 میگاواٹ ہے۔ سخت ترین گرمی میں بجلی کی جو سب سے زیادہ ڈیمانڈ ہوتی ہے وہ 31000 میگاواٹ ہے۔ مگر بجلی کی سپلائی کا سسٹم صرف 22000 میگاواٹ بجلی کا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ اس سے زیادہ بجلی کا بوجھ یہ اٹھا ہی نہیں سکتا۔
اب 22 ہزار میگاواٹ اور 46 ہزار میگاواٹ میں لمبا فرق ہے۔ سوال ہے۔ جب آپ اتنی بجلی سپلائی ہی نہیں کر سکتے تو یہ اضافی بجلی گھر کیوں بنائے گئے ہیں؟ حتیٰ کہ تین بجلی گھر حال ہی میں مکمل ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے۔ یہ عمل کیوں رکنے میں ہی نہیں آ رہا؟
کیوں ان آئی پی پیز کو اتنے زیادہ بجلی گھر لگانے دیے گئے، جبکہ یہ اچھی طرح معلوم تھا کہ نہ صرف ملک کی کل انسٹالڈ کپیسٹی، پیک ڈیمانڈ سے بہت زیادہ ہو چکی ہے بلکہ یہ بھی پتا تھا کہ بجلی کی ترسیل کا فرسودہ نظام پیک ڈیمانڈ سے بھی کہیں کم لوڈ اٹھا سکتا ہے؟
اس سوال کا جواب دینے سے سرمایہ پرست دانشگرد خواتین و حضرات یوں بھاگتے ہیں جیسے پاگل کتے کے کاٹے کا شکار پانی سے بھاگتا ہے۔
چلیے اس کا جواب ہم دیتے ہیں۔ آئی پی پیز یعنی بجلی بنانے کے نجی کارخانوں کے مالکان کو حکومت کی طرف سے یقینی بھاری منافع کی گارنٹی دی جاتی ہے۔ ان سے معاہدے کی شرائط ہی ایسی رکھی جاتی ہیں کہ نقصان کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ آئی پی پیز کے مالکان صرف capacity payments یعنی پیداواری صلاحیت کا معاوضہ ہی اگر لیتے رہیں تو بھی ان کا منافع بے تحاشہ ہوتا ہے۔
اس کی مثال لے لیجیے۔ ایک میگاواٹ کی صلاحیت کا بجلی گھر ایک دن میں چوبیس ہزار یونٹ بناتا ہے۔ اس طرح کے پلانٹ کو فی یونٹ سترہ روپے ادا کیے جاتے ہیں۔ چنانچہ اس کو یومیہ چار لاکھ آٹھ ہزار ادا کیے جاتے ہیں۔ اب اگر پاور پلانٹ چھوٹا ہے یعنی سو میگاواٹ کا ہے تو یومیہ ادائیگی 4 کروڑ سے تجاوز کر جاتی ہے۔ ایک ہزار میگاواٹ پلانٹ پر 40 کروڑ روپے یومیہ سے زیادہ Capacity Payment کی ادائیگی ہوتی ہے اور ابھی لوٹ مار کی داستان یہیں ختم نہیں ہوتی۔
آئی پی پیز کے پاس ڈکیتی کے اور بھی کئی طریقے ہیں۔ مثلاً حکومت تیل سے چلنے والے آئی پی پیز کو سبسڈائیزڈ ریٹ پر تیل فراہم کرنے کی پابند ہے۔ اب جب بجلی بنائے بغیر ہی بہترین محفوظ منافع مل رہا ہے تو پھر اس تیل کو بجلی بنانے میں کیوں پھونکا جائے۔
لہٰذ ابہت سی ایسی آئی پی پیز اس سبسڈائیزڈ تیل کو مارکیٹ ریٹ پر آگے فروخت کر دیتی ہیں اور یہاں سے بھی منافع کماتی ہیں۔
ان بھاری ادائیگیوں کے باوجود پاکستان پر اس وقت بجلی کے شعبے میں 2600 ارب روپے سے زائد سرکلر ڈیبٹ یعنی گردشی قرضہ ہے۔ یہ گردشی قرضہ کیا ہوتا ہے؟
جب حکومت ان آئی پی پیز مالکان کو ان کے واجبات کی فوری طور پر مکمل ادائیگی نہیں کر پاتی تو وہ نہ ادا کی گئی رقم ریاست پر ایک قرض بن جاتی ہے۔ اس پر سود بھی لگتا ہے۔ یہ گردشی قرضہ سود سمیت پاکستان کے محنت کش عوام ادا کرتے ہیں۔ ایک اور المناک حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان کو 6247 میگاواٹ بجلی کی کمی یعنی شارٹ فال کا سامنا ہے۔
جی ہاں پاور پلانٹس ضرورت سے زائد ہونے کے باوجود، دنیا کی مہنگی ترین بجلی ہونے کے باوجود، عوام لوڈ شیڈنگ کی اذیت الگ سے بھگت رہے ہیں۔ یہ ہے سرمایہ داری کی حقیقت، یہ ہے اس بے تحاشہ لوٹ مار کے نظام کا اصلی چہرہ۔ یہ ہے وہ شفافیت جس کو یقینی بنانے کا دعویٰ اور وعدہ نجی سرمایہ کاری کو بجلی کی پیداوار کا شعبہ سونپتے ہوئے کیا گیا تھا۔
کچھ سادہ دوست سوال کریں گے کہ جب اس شعبے میں اس وسیع پیمانے پر لوٹ مار ہو رہی ہے تو حکومت کوئی ایکشن کیوں نہیں لیتی؟
جواب یہ ہے کہ پاکستان ایک سرمایہ دارانہ ریاست ہے۔ ایک سرمایہ دارانہ ریاست کا حقیقی مقصد سرمایہ دار طبقے کے مالیاتی مفادات کی نگہبانی ہوتا ہے، نہ کہ محنت کش عوام کے حقوق کا خیال رکھنا۔ ان آئی پی پیز میں ہر بڑی سرمایہ دار جماعت کے سیاستدانوں کا حصہ ہے، جرنیل، ججز اور اعلیٰ بیوروکریٹ اس بہتی گنگا میں الگ سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ یہ لوگ کیسے ان آئی پی پیز کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں جو خود ان کی تجوریاں بھرنے کا بھی باعث ہیں۔ پھر ان آئی پی پیز کو عالمی سرمایہ داری کے قوانین اور عالمی مالیاتی اداروں کا تحفظ بھی حاصل ہے۔
ایک اور سوال بھی اہم ہے۔ اوپر کی بحث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بجلی بحران اور مہنگی بجلی کا اصلی ذمہ دار سرمایہ دار حکمران طبقہ اور آئی پی پیز مالکان ہیں تو میڈیا پر ہمیں کیوں یہ بتایا جاتا ہے کہ واپڈا ملازمین کی وجہ سے بجلی مہنگی ہے۔ پنجاب میں بتایا جاتا ہے کہ دیگر صوبے بجلی چوری کرتے ہیں۔ بجلی کے بل صرف پنجاب ادا کرتا ہے۔ اس وجہ سے بجلی مہنگی ہے۔ ابھی ’آزاد‘ کشمیر میں مہنگی بجلی کے خلاف تحریک کے دوران بھی یہی پراپیگنڈہ کیا گیا کہ کشمیریوں کے بل بھی پنجاب بھرے گا۔ کیا ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں؟
جی بالکل، ان باتوں کی کوئی حقیقت نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکمران طبقے نے اپنی لوٹ مار پر پردہ ڈالتے ہوئے مہنگی بجلی اور لوڈشیڈنگ کے کوئی جواز بھی تو عوام کو دینے ہیں۔ اب حکمران طبقہ عوام کو کیا بتائے کہ بجلی بحران کے ذمہ دار وہ ہیں؟
وہ کیسے یہ مان لیں کہ ان کی لوٹ کھسوٹ اور عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے بجلی مہنگی ہے۔ ہم محنت کش عوام کی جیبیں خالی ہوتی ہیں تو ہی ان کی تجوریاں بھرتی ہیں۔ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ حکمران یہ حقائق تسلیم کریں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے۔ حکمران طبقہ کبھی اپنا جرم تسلیم نہیں کرے گا۔
وہ کبھی ایک صوبے کے عوام کو دوسرے صوبے کے عوام سے لڑوائے گا اور کبھی عوام کا غصہ واپڈا کے عام ملازمین پر اتروانے کی کوشش کرے گا۔ جہاں تک بجلی چوری کا سوال ہے تو پنجاب ہو یا کوئی اور صوبہ، بجلی چوری ہر جگہ ہوتی ہے۔ یہ بجلی چوری بھی بڑے سرمایہ دار، جاگیردار اور بااثر سرکاری عہدیدار ہی کرتے ہیں۔ محنت کش عوام ہر جگہ ہی آئی پی پیز کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ اس بجلی چوری کی قیمت بھی ادا کرتے ہیں۔
یہاں یاد رہے کہ ابھی تک ہم نے ساری بحث بجلی بل میں موجود بجلی کی قیمت کے متعلق کی ہے جبکہ آج کل ایک اوسط بجلی بل کا ایک چوتھائی جی ایس ٹی، انکم ٹیکس سے لے کر رنگ برنگے دیگر ٹیکسوں، ڈیوٹیوں اور سرچارجز پر مشتمل ہوتا ہے جو عوام کی ہڈیوں سے نچوڑے جاتے ہیں اور ملکی نجی بینکوں اور عالمی مالیاتی اداروں کو ان سابقہ قرضوں، سود کی واپسی کی مد میں ادا کر دیے جاتے ہیں، جو نہ کبھی عوام نے لیے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے۔
حل کیا ہے؟
ہم کمیونسٹ سمجھتے ہیں کہ تمام نجی پاور پلانٹس یعنی آئی پی پیز کو فوری طور پر بلامعاوضہ بحق عوام ضبط کر کے محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیا جانا مسئلے کے حل کی طرف پہلا قدم ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تمام گردشی قرضے کو بھی فوری طور پر ضبط کیا جانا چاہئے۔ عالمی مالیاتی اداروں کے سامراجی قرضے ضبط کرتے ہوئے اور نجی بینکوں کو ریاستی ملکیت میں لیتے ہوئے بجلی کے بلوں پر لگے تمام ظالمانہ ٹیکسوں کا بھی فوری طور پر خاتمہ ہونا چاہئے۔
ایک منصوبہ بند انداز میں بجلی کی پیداوار تیل، گیس اور کوئلے سے ہٹا کر مکمل طور پر شمسی توانائی، ونڈ پاور اور ہائیڈل پاور پر شفٹ کی جائے اور بجلی ترسیل کے نظام کو اپ ٹو ڈیٹ کیا جائے۔ مگر یہ سب کام ایک سرمایہ دارانہ ریاست نہیں کر سکتی۔
صرف ایک سوشلسٹ مزدور انقلاب کے نتیجے میں قائم ایک کمیونسٹ حکومت اور مزدور ریاست ہی یہ اقدامات اٹھا سکتی ہے۔ اس کے سوا دیگر تمام حل جعلی، غیر حقیقی اور دھوکہ ہیں۔ اس حوالے سے پہلا قدم ’آزاد‘ کشمیر کے محنت کش عوام نے اٹھا لیا ہے اور ایک سال کی مسلسل عوامی جدوجہد کے نتیجے میں حکومت نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے بجلی کی فی یونٹ قیمت 3 روپے کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے۔
پورے پاکستان کے محنت کش عوام کو ’آزاد‘ کشمیر کی عوامی تحریک کے نقش قدم پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہیں سے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام کے مکمل خاتمے کا راستہ نکلے گا۔