|تحریر: راشد خالد|
الیکشن 2018ء تمام تر خدشات، تحفظات اور الزامات کو جلو میں لئے پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا۔ دولت والوں کی اس لڑائی میں عوام نے محض تماشائی کا کردار ہی ادا کیا۔ جہاں ہر علاقے کے ظالم ترین اور عوام دشمن افراد لوٹ مار کی اس لڑائی میں حصہ لے رہے تھے اور ایسے افراد کے لیے عوام کی حمایت سے زیادہ ریاستی اداروں کی سرپرستی کامیابی یا ناکامی کی ضمانت تھی وہاں اب اس عمل کے اگلے مرحلے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس تعفن زدہ پارلیمانی سیاست اور بوکھلائی ریاست میں اب اقتدار کی لڑائی زوروں پر ہے جس میں عوام کے خون اور پسینے سے پیدا کی گئی دولت کو لوٹنے والے ناخن تیز کر رہے ہیں۔
انتخابی ناٹک کے نتائج کے مطابق ’’تبدیلی‘‘ کی علمبردار تحریک انصاف قومی اسمبلی کی سب سے زیادہ نشستیں (116) حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی اور اپنے اتحادیوں اور آزاد امیدواروں کے بل پر حکومت تشکیل دینے کی کوشش میں مصروف ہے۔ سابقہ حکمران جماعت نون لیگ 64 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی اور پیپلز پارٹی 43نشستیں حاصل کر کے تیسرے نمبر پر ہے۔ الیکشن کے نتائج گو کہ کچھ خاص حیران کن نہیں ہیں۔ الیکشن سے قبل ہی تحریک انصاف کی برتری کے لئے حالات ترتیب دئیے جا چکے تھے۔ البتہ کچھ حلقوں کے نتائج نے تجزیہ کاروں کو کسی حد تک حیران ضرور کیا، جن کے متعلق کہا جاتا تھا کہ یہ متعلقہ پارٹی یا امیدوار کے روایتی حلقے ہیں۔ ایسے روایتی حلقوں سے ان روایتی امیدواران کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔
الیکشن کے حتمی نتائج سے قبل ہی تحریک انصاف کے قائد نے اپنی فتح کی تقریر میں اپنے دور حکومت کے متعلق سب واضح کر دیا ہے۔ اگلے پانچ سالوں تک، اگر یہ حکومت مدت پوری کر سکی، تمام تر پالیسیاں وہی ہوں گی جو اس سے قبل حکمران طبقہ ترتیب دیتا رہا ہے۔ مزید قرضوں کے حصول کے لئے عالمی مالیاتی اداروں کے دروازے کھٹکھٹائے جائیں گے اور ان ہی کی طے کردہ پالیسیاں یہاں مسلط کی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ریاست کے بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے پر ہی منتقل کیا جائے گا۔ ہاں البتہ مدینے کی ریاست نصب العین ہو گی اور اس کو تشکیل دینے کے لئے الہ دین کا چراغ چین سے حاصل کیا جائے گا۔ یعنی سعودی اور چینی سامراجیوں کے تلوے چاٹنے کا عمل بھی عین اسی طرح جاری رہے گا۔ عمران خان کی اس تقریر میں کوئی ایسی نئی بات سرے سے موجود ہی نہیں تھی جس سے کسی خاص قسم کی تبدیلی کا شائبہ تک کیا جا سکے۔ ہاں البتہ ریاست کے معاشی بحران کی شدت محنت کش مخالف پالیسیوں کی شدت میں اضافہ ضرور کرے گی۔ عمران خان کا اعتماد قابل دید بھی تھا اور قابل تشویش بھی۔ جلد یا بدیر اس’ جمہوری‘ حکومت کا انہی ریاستی اداروں سے ٹکراؤ ناگزیر ہے جو اسے اقتدار میں لائے ہیں۔ ایسی صورت میں اس طرح کے سیمابی کردار کی حامل شخصیت حکمران طبقے کے تمام تر تضادات کے اظہار کو چار چاند لگا دے گی اور نہ صرف ریاست کے مختلف دھڑوں کے تصادم کی شدت میں اضافہ ہو گا بلکہ تمام پوشیدہ راز بھی عوام کے سامنے تیزی سے بے نقاب ہوں گے۔ نواز شریف کے پاس نسبتاً زیادہ وقت تھا لیکن عمران خان کے پاس اتنا وقت نہیں ہو گا۔
الیکشن نتائج کے عمل کے دوران ہی ہارنے والی پارٹیوں کی طرف سے دھاندلی دھاندلی کا شور بھی مچایا گیا لیکن اس دھاندلی کی بنیاد پر زیادہ ہلچل نہیں پیدا کی جا سکی۔ نون لیگ کی طرف سے دھاندلی کے بیانات کے پیچھے تو پنجاب میں صوبائی حکومت بنانے کی کوشش ہے۔ کیونکہ پنجاب میں گو کہ نون لیگ کے پاس زیادہ صوبائی نشستیں ہیں لیکن تحریک انصاف محض چارنشستوں سے پیچھے ہے اور آزاد امیدواران اگر تحریک انصاف کی طرف جاتے ہیں تو یہاں پر بھی نون لیگ حکومت نہیں بنا سکے گی جس کی وجہ سے نون لیگ کی تمام تر ڈرامہ بازی اسی حد تک محدود ہے۔ پیپلز پارٹی نے بھی دھاندلی کی باتیں کی ہیں اور اس ضمن میں بلاول کا بیان انتہائی مضحکہ خیز تھا جس میں اس نے الیکشن نتائج ماننے سے انکار بھی کیا لیکن ساتھ ہی پارلیمان میں جانے اور حلف اٹھانے کا اعلان بھی کر دیا۔ سب سے زیادہ شور ملا فضل الرحمان کی طرف سے مچایا گیا، جس کی وجہ بھی ملا کی اپنی روایتی حلقے سے شکست ہے اور اگر ملا الیکشن جیت جاتا تو یقیناًالیکشن انتہائی شفاف قرار پاتا اور ملا اس حکومت کا بھی حصہ ہوتا۔ کچھ حلقوں پر ری کاؤنٹنگ بھی ہو رہی ہے لیکن قوی امکان ہے کہ اس سے نتائج میں کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں ہو گی۔
لیکن اس سب کے باوجود الیکشن کے عمل کو شفاف بھی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گو کہ انٹرنیشنل آبزرورز نے کچھ تحفظات کے ساتھ انتخابی عمل میں کسی بڑی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا اور امریکی وزارتِ خارجہ نے بھی انتخابی عمل میں فوج کی موجودگی کو قابل تشویش تو کہا لیکن ساتھ ہی نئے جمہوری سیٹ اپ کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو طے کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔ یہ سارا عمل غلیظ سفارتی تعلقات کے کھوکھلے پن کو عیاں کرتا ہے جہاں امریکہ کے قابل اعتماد دھڑے کے سیاسی نمائندے نواز شریف کو عدلیہ کے ہاتھوں ذلیل و رسوا کروا کر جیل تک پہنچا دیا گیا لیکن امریکی سامراج اپنی مجبوریوں کے تحت اپنے حواریوں کے لئے سوائے بین الاقوامی میڈیا میں انتخابات کی شفافیت پر سوال اٹھانے کے اور کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ الگ بات ہے کہ اس سارے عمل میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا پاکستانی ریاست کے کسی بھی حاوی دھڑے کی مجبوری ہے کیونکہ عالمی مالیاتی اداروں کی داد رسی اور قرضوں کے بنا اس ریاست کی بقا ممکن نہیں ۔
انتخابات سے قبل پیدا کی جانے والی صورتحال نے انتخابی نتائج پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔ انتخابات سے قبل ہی تحریک انصاف کو کامیاب گردانا جا رہا تھا۔ گو کہ اس میں تحریک انصاف کے اپنے کمال کی بجائے دوسری پارٹیوں کی نااہلی کا زیادہ اہم کردار ہے۔ نواز شریف کے نااہل ہونے کے بعد نون لیگ اخلاقی شکست کھا چکی تھی اور اس کا اظہار ان کی انتخابی کیمپئین میں واضح طور پر ہو رہا تھا۔ سوائے نواز شریف کے نون لیگ کے اندر سے کوئی واضح آواز ابھر کر سامنے نہیں آئی۔ شہباز شریف کی تمام تر باتوں میں بس اپنے بڑے بھائی کی قربانیوں کا ہی ذکر تھا اور ان قربانیوں میں بھی سرفہرست اس کے ’’مظلوم‘‘ بھائی کی بیمار بیگم تھی جو لندن کے ایک مہنگے ترین ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ عوام کے سامنے یہ مظلومیت ایک ناٹک کے سوا کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ نون لیگ کے لئے یہ انتخابات اس لئے بھی ایک چیلنج تھے کہ نون لیگ پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ کے وقتی طور پرحاوی ترین دھڑے کی حمایت کے بغیر اس کا حصہ بن رہی تھی۔ اس امر نے اس کا رہا سہا کس بل بھی نکال دیا تھا اور اسی وجہ سے شہباز شریف آخری وقت تک کسی ڈیل کی کوشش میں مصروف رہا ۔ لیکن بساط بچھانے والے کمزور کھلاڑیوں سے ڈیل کرنے کے لئے رضامند نہیں ہو تے۔ کسی ممکنہ ڈیل کے لئے درکار کوئی بھی مہرہ نون لیگ کے ہاتھ میں نہیں تھا۔ نواز شریف کے تمام تر بیانات فوج مخالف لفاظی پر ہی مشتمل تھے اور عوام بخوبی جانتے ہیں کہ نواز شریف خود بھی فوج ہی کی پشت پناہی میں سیاسی طور پر عمر رسیدگی تک پہنچا ہے اور اب لوٹ مار میں حصے کی لڑائی کی بنا پر تعلقات کشیدہ ہوئے ہیں تو عوام کو اس لڑائی میں گھسیٹنا چاہتا ہے۔ نواز شریف کی کرپشن کو بے نقاب کرنے والاعدالتی فیصلہ عوام کے لئے زیادہ حیران کن نہیں تھا۔یہ کرپشن ثابت کرنے کے لئے عدالت کو بھلے ہی بہت پاپڑ بیلنے پڑے ہوں عوام کے لئے نہ صرف یہ بلکہ حکمران طبقے کے سارے نمائندے چوروں کی ہی حیثیت رکھتے ہیں۔ پہلے بھی میاں صاحب عوام کی نہیں بلکہ اسی خلائی مخلوق کے نظرِ کرم سے اقتدار تک پہنچتے تھے۔
حالیہ انتخابات میں جہاں قوم پرستوں اور بنیاد پرستوں کی متروکیت نے کھل کر اپنا اظہار کیا وہیں پر سندھ اور پنجاب کارڈ کھیلنے والوں کی محدودیت بھی عیاں ہو کر سامنے آئی۔ اس وجہ سے تحریک انصاف کو ملک بھر میں جیتنے کے آسان مواقع ملے اور سوات سے کراچی تک ہر جگہ سے اس کے امیدوار اسمبلی میں پہنچنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس سے قبل ہونے والے انتخابات اور سیاسی عمل کا تجزیہ کیا جائے تو اقتدار میں رہنے والی تمام تر پارٹیوں نے خود کو صوبائی، علاقائی یا کسی دیگر عصبیت کے دائرے تک محدود کر دیا تھا۔ پیپلز پارٹی مدت سے اپنے ملک گیر پارٹی کے تشخص کو کھو بیٹھی ہے اور اب محض اندرون سندھ کی پارٹی بن چکی ہے۔ اس کے علاوہ ان پارٹیوں کی انتخابی مہموں میں عوام کے لئے کوئی نئی بات سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ وہی گھسی پٹی باتیں جن پر طویل مدت سے یہ پارٹیاں اقتدار حاصل کرتی رہی ہیں۔ جب کہ اسٹیبلشمنٹ کے حاوی دھڑے کی کھلی حمایت، سیاسی نابلدی ،بے شمار یو ٹرنزاور دیگر پارٹیوں سے لوٹوں کی اکثریت کو اکٹھا کرنے کے باوجود تحریک انصاف وہ واحد پارٹی تھی جوکرپشن سے پاک اورصاف ہونے کا ناٹک کر رہی تھی ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نہ صرف سابقہ حکمرانوں کی کرپشن کیخلاف کھلے عام مؤقفلے رہی تھی بلکہ عوام کو ترقی کے خواب بھی دکھا رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ اسے ملنے والے ووٹ میں جہاں مقامی غنڈوں، جنہیں اب پیار سے الیکٹ ایبل کہا جاتا ہے، کا اپنا روایتی اثر و رسوخ اہم تھا وہیں پر درمیانے طبقے کے ایک حصے نے بھی تحریک انصاف کو ووٹ ڈالا۔ اس کے علاوہ طویل وقت سے حکمرانی پر براجمان رہنے والوں کی کسی بھی مسئلے کے حل میں نااہلی کی وجہ سے جنم لینے والی نفرت نے بھی حمایت کا رخ تحریک انصاف کی طرف موڑ دیا۔
کراچی کے نتائج یقیناًایسے تھے کہ جن پر تمام تر تجزیہ نگاروں کو حیرت کے جھٹکے لگے۔ کراچی کو ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حصے داریوں میں بٹا ہوا ہی خیال کیا جاتا رہا ہے۔ اب کی بار اس میں پی ایس پی کو ایک نئے کھلاڑی کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ لیکن نتائج یکسر مختلف رہے اور کراچی میں بھی تحریک انصاف اہم کھلاڑی کے طور پر ابھر کے سامنے آئی۔ ان نتائج میں تحریک انصاف کو حاصل ریاستی اداروں کی حمایت کے ساتھ ساتھ ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ ایم کیو ایم پاکستان کی قیادت کی غلاظت، جو پچھلے کافی عرصے سے میڈیا کی زینت ہے، کے باعث الطاف حسین کو اس کے تمام تر عوام دشمن اور ظالمانہ کردار کے باوجود اس کی حمایت میں کسی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ کسی متبادل کی عدم موجودگی، انتخابی عمل سے بیگانگی اورالطاف حسین کے الیکشن بائیکاٹ کی وجہ سے کراچی کا ٹرن آؤٹ بھی باقی شہروں کی نسبت انتہائی کم رہا۔ اس خلا کا فائدہ تحریک انصاف کو ہوا۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کی نااہلی اور کراچی کی گینگ وار میں اہم حصے داری کے باعث عوام میں پیپلز پارٹی کے خلاف بھی شدید نفرت نے جنم لیا۔ اس کا اظہار لیاری کے نتائج میں ہوتا ہے جسے پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا وہیں سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور وہ تیسرے نمبر پر آیا۔
قوم پرست پارٹیاں بالخصوص پختونخوا اور بلوچستان میں کوئی قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں کر پائیں۔ تمام بڑی پارٹیوں کو شدید ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ANPکی شکست قابل ذکر ہے۔ الیکشن سے کچھ ہی عرصہ قبل ANPکے سینئر رہنما ہارون بلور الیکشن کیمپئین کے دوران ایک جلسے میں خود کش حملے میں جاں بحق ہوئے اور اسی طرح گزشتہ انتخابات سے قبل ان کے والد بھی ایسے ہی ایک جلسے کے دوران خودکش دھماکے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ اس کے باوجود کہ تحریک طالبان پاکستان نے اس خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کی لیکن غلام احمد بلور نے اپنے بیان میں واضح طور پر یہ کہا کہ اس قتل میں ان کے اپنے لوگ ملوث ہیں،اگرچہ بعد میں وہ اس بیان سے پیچھے ہٹ گئے۔ پختون عوام جو طویل وقت سے دہشت گردی اور دہشت گردی کیخلاف آپریشنز کا نشانہ بن رہے ہیں، وہاں کوئی واضح حکمت عملی اور موقف دینے کی بجائے ANPایک طویل وقت سے افہام و تفہیم اور حکمران جماعتوں سے مفاہمت اور اسٹیبلشمنٹ سے مصالحت کی پالیسی اپنائے ہوئے ہے ۔ قیادت امریکی سامراج کی کاسہ لیسی کو بھی سر عام تسلیم کرتی ہے اور اسے باعث شرم کی بجائے قابل فخر گردانتی ہے۔اقتدار میں رہنے کے باوجود پختون عوام کے سلگتے مسائل سے چشم پوشی نے ان قوم پرست قیادتوں کیخلاف شدید نفرت کو جنم دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس سال ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں اور ریاستی اداروں کی ننگی بربریت کیخلاف فاٹا سے ابھرنے والی تحریک نے بھی ایک بالکل نئی اور نوجوان قیادت پر اعتماد کیا۔ اور پہلے سے موجود بڑے بڑے قوم پرستی اور وطن پرستی کے دعویدار لیڈران کو مسترد کر دیا۔ اس استرداد نے ان انتخابات میں کھل کر اپنا اظہار کیا۔ ایسی ہی صورتحال کا سامنا پی میپ کو بھی کرنا پڑا۔اب انتخابات میں شکست کے بعد اے این پی کی قیادت یوٹرن لیتے ہوئے پی ٹی ایم والے نعرے ہی لگا کر مزاحمت کا ناٹک کر کے اپنی خجالت مٹانے کی کوشش کر رہی ہے مگر اب تو پانی سر سے گزر چکا ہے۔ پی ٹی ایم کی قیادت کے طور پر منظر عام پر آنے والے علی وزیر اور محسن داوڑ، جنہوں نے بطور آزاد امیدوار ان انتخابات میں حصہ لیا، ایک واضح اکثریت لے کر کامیاب ہوئے۔ اس کی بنیادی وجہ وہاں پر تحریک کی موجودگی ہے اور ایک طویل وقت سے وہاں کے عوام کے مسائل سے چشم پوشی کرنے والوں کو عوام نے مسترد کر دیا۔ پی ٹی ایم کی قیادت میں سے کچھ لوگوں کے الیکشن میں حصہ لینے سے متعلق اور اس کے پی ٹی ایم پر اثرات پر ہم کسی اور جگہ تفصیل سے بات کر چکے ہیں۔ گو کہ علی وزیر اور محسن داوڑ کے اسمبلی میں جانے اور وہاں پر ان کے کردار کے حوالے سے بہت سے سوالات جنم لے رہے ہیں، بالخصوص ایسی کیفیت میں جب علی وزیر جس حلقے سے منتخب ہوئے ان کیخلاف PTIنے اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا تھا۔ اور عمران خان نے اپنے ایک انٹرویو میں پہلے ہی یہ اعلان کر دیا تھا کہ وہ علی وزیر کی حمایت کریں گے۔ ایسے میں طاقت کے ایوانوں کی چکا چوند کا شکار ہوئے بغیراپنے عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کئے رکھنا یقیناًعلی وزیر کی سچائی اور نظریاتی پختگی کا امتحان ثابت ہو گا۔
بلوچستان میں بھی اسی طرح پختون اکثریتی خطے میں پی میپ ایک قابل قدر قوت سمجھی جاتی ہے اور ہمیشہ ہی انتخابات میں قابل ذکر نمائندگی حاصل بھی کرتی رہی ہے۔ لیکن حالیہ انتخابات میں پی میپ کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا حتیٰ کہ محموداچکزئی بھی اپنی نشست سے ہاتھ دھو بیٹھے اور صوبائی اسمبلی میں بھی صرف ایک نشست جیتنے میں کامیاب ہو سکے۔پی میپ کی شکست میں جہاں ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتاوہیں اس سے زیادہ یہ پارٹی کی اپنی نااہلی کی غمازی کرتی ہے۔کئی مرتبہ اقتدار میں آنے کے باوجود پارٹی خطے کے عوام کا کوئی ایک بھی بنیادی مسئلہ حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور کسی ٹھوس پروگرام کی بجائے ووٹ لینے کے لئے ہمیشہ قوم پرستی کا چورن بیچنے پر تکیہ کرتی آئی ہے اور یہی حالیہ انتخابات میں اس کی فاش شکست کی اہم ترین وجہ ہے۔ اسی طرح نیشنل پارٹی، جو نون لیگ اور پی میپ کے ساتھ اتحاد میں اقتدار میں تھی، کو بھی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ ان کی جگہ بلوچستان عوامی پارٹی (BAP) اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔یہ اور بات ہے کہ ان پارٹیوں بالخصوص BAP کو حاصل ریاستی حمایت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ۔ گو کہ بلوچستان میں ہمیشہ کی طرح ٹرن آؤٹ انتہائی کم رہا ہے اور جو ووٹ ڈالا گیا اس کی بھاری تعداد میں ووٹرز کی آزادانہ مرضی شامل نہیں تھی ۔ بلوچستان کی عمومی صورتحال بالخصوص بلوچ خطہ جہاں طویل وقت سے جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے عوام کی زندگیاں جہنم سے بھی بدتر ہو چکی ہیں اور سماجی اور معاشی زبوں حالی اپنے عروج پر ہے وہاں پر ہونے والے انتخابات پر ہمیشہ ہی سوالیہ نشان رہتا ہے۔ گو کہ پاکستان کے باقی دیہی علاقوں میں بھی ووٹ کسی نظریاتی وابستگی، پارٹی پروگرام یا منشور کی بنیاد پر نہیں ڈالا جاتا لیکن بلوچستان کے دیہی علاقوں میں یہ عمل بدترین شکل اختیار کر جاتا ہے، جہاں ریاستی پشت پناہی میں سردار آج بھی عوام کی زندگی اور موت پر اختیار رکھتے ہیں ۔
انتخابات سے قبل مذہبی جماعتوں کے منظر عام پر آنے اور کالعدم تنظیموں کے انتخابی عمل میں شرکت پر شدید تحفظات موجود تھے اور انتخابات کے بعد ان کے حاصل کردہ ووٹوں پر بھی بحث و مباحثہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ لیکن پورے پاکستان میں اگر ان جماعتوں کے امیدواران کی فہرست اٹھا کر دیکھی جائے تو ان کی اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کو باقی کسی پارٹی کے انتخابی ٹکٹ نہیں مل سکے اور ٹکٹوں کی عدم دستیابی کی وجہ سے وہ ان کالعدم جماعتوں کے پلیٹ فارم سے اس عمل کا حصہ بنے ۔ خاص کر ایسی صورتحال میں جس میں انہیں جیب سے انتخابی مہم پر سرمایہ کاری نہ کرنی پڑے یا جماعت کی طرف سے انتخابی اخراجات میں سبسڈی دستیاب ہو تو ایسے انتخابی جغادری کسی کالے چور کی پارٹی کے ٹکٹ سے بھی انتخاب لڑ سکتے ہیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ان امیدواران کی انتخابی مہم بھی اسی روایتی طریقہ کار سے ہوئی ہے جیسے عمومی طور پر انتخابی مہم ہوتی ہے، یعنی نوکریوں کے جھانسے، سڑکوں اور گلیوں کو پختہ کروانا وغیرہ۔ اس لئے ان امیدواروں کو پڑنے والے ووٹ کو ان جماعتوں کا نظریاتی ووٹ سمجھنا ایک غلطی ہے۔ مذہبی ٹھیکیداروں سے تو عوام کو اس قدر نفرت ہے کہ انہوں نے گنڈا پور کو ووٹ ڈال دیا لیکن مولانا فضل الرحمان کو نہیں۔ یہ عوامی شعور کا واضح اظہار ہے۔ متحدہ مجلس عمل کے تمام سرکردہ قائدین جو کسی نہ کسی صورت میں اقتدار میں موجود ہوتے ہیں اس بار اپنی سیٹیں بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
اس تمام تر انتخابی عمل میں گو کہہر طرح کا ڈرامہ موجود تھا لیکن اگر کسی چیز کا فقدان تھا تو وہ سلگتے ہوئے عوامی مسائل اور ان کا حل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکشن کے گرد عوام کی وسیع تر پرتوں میں کوئی ہلچل نہیں پیدا کی جا سکی۔ گو کہ ان انتخابات میں ابھی بھی ایک بڑا ٹرن آؤٹ دکھایا جا رہا ہے جس پر سوالیہ نشان موجود ہے لیکن خود الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق بھی ان انتخابات کا ٹرن آؤٹ گزشتہ انتخابات سے کم ہی رہا ہے۔ اس کیفیت میں سب سے مضحکہ خیز کیفیت نام نہاد بائیں بازو کی رہی جو حکمران طبقے کی باہمی لڑائی میں انتہائی رسمی انداز میں محنت کشوں کو بھٹیوں میں جلانے والے اور اپنے دور حکومت میں مزدور دشمن پالیسیوں کو دوام بخشنے والے نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ مخالف استعارہ بنا کر پیش کرتے رہے ہیں۔ حکمران طبقے کے باہمی تضادات کے پیش نظر جو دھڑا بھی حاوی ہو اس سے محنت کشوں کے لئے کسی خیر کی توقع تک نہیں کی جا سکتی۔ جو بھی اقتدار میں پہنچے گا وہ محنت کشوں پر نئے سے نئے عذاب ہی مسلط کرے گا۔ تحریک انصاف کی ’’تبدیلی‘‘ کا سکول محنت کشوں کے اسباق میں نئے ابواب کا اضافہ کرے گا۔ درمیانے طبقے میں بھی عمران خان سے وابستہ بہتری کی موہوم سی امید بھی جلد دم توڑ جائے گی۔ محنت کش پہلے ہی اس جمہوریت اور آمریت کے ناٹک سے تنگ آ چکے ہیں۔ ان کی زندگیاں نہ تو جمہوریت میں سدھری ہیں اور نہ ہی آمریت میں۔ ایسے میں کوئی بھی ایک واقعہ محنت کش طبقے میں جمع ہونے والے بارود کو چنگاری دکھاتے ہوئے انہیں اس نظام کو چیلنج کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔ ایسے میں صرف ایک انقلابی پارٹی ہی ان کو سوشلسٹ مزدور ریاست کی تخلیق تک پہنچا سکتی ہے۔